جلسہ سالانہ ربوہ کی پُر سرور یادیں
جوں جوں دسمبر کا مہینہ آتا ہے جلسہ سالانہ ربوہ کی شدت سے یادیں آتی ہیں۔ وہ خوبصورت ایام جب ربوہ کے تمام باسی جلسہ سالانہ کی کامیابی کےلیے دعائوں میں مصروف ہو جاتے۔ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنے گھر کو سجانا شروع کر دیتا۔ سارا شہر ایک ’’غریب دلہن ‘‘کی طرح سج جاتا۔ ہر محلے میں نماز فجر کے بعد صفائی کےلیے وقار عمل شروع ہو جاتے۔ آہستہ آہستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ ربوہ میں رونقیں شروع ہو جاتیں اورہر شخص خوش نظر آتا۔
ہم ربوہ میں گیارہ سال تک رہائش پذیر رہے اس لیے ہمیں گیارہ سال تک جلسہ سالانہ ربوہ میں شمولیت اور مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی خدمت کا اعزاز حاصل رہا۔ ہم زیادہ وقت محلہ دارالرحمت غربی میں قیام پذیر رہے اس لیے اس مضمون میں اس محلہ کا ذکر ہو گا۔
ہمارے محلہ میں لنگر خانہ نمبر2قائم تھا۔ یہاں جلسہ کی تیاریاں ستمبر کے آخر سے ہی شروع ہوجاتی تھیں۔ مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب مرحوم، حضور انور کے بھائی مکرم صاحبزادہ مرزا ادریس احمد صاحب مرحوم اور بعض اور بزرگان روزانہ شام کو تشریف لاتے اور لنگر کے چولہوں اور تنوروں کو چلاکر دیکھتے اور دوسرے مرمتی کام کرواتے۔ ہمارے لیے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کی ہمارے محلہ میں تشریف لانے کی خوشی بھی ہوتی اور یوں جلسے کی تیاریوں کا آغاز ہو جاتا ۔
ہم سب جلسہ پر ڈیوٹیوں کےلیے اپنے نام بڑے شوق سے دیتے۔ جوں جوں جلسہ کے ایام قریب آتے ایک تجسس رہتا کہ ہماری اس سال ڈیوٹی کہاں لگے گی۔ ہم میں سے کئی دوست تو کاتب حضرات کے گھروں کے چکر لگاتے تاکہ ان کو پہلے ہی ڈیوٹی کا پتہ لگ جائے لیکن کاتب حضرات بھی بڑے محتاط تھے، ہر بات کو راز رکھتے۔ ایک اور طریقہ یہ تھاکہ ہم فیکٹری ایریا میں جماعت کے پریس میں چلے جاتے وہاں انہوں نے پلیٹیں سکھانے کےلیے باہر رکھی ہوتی تھیں۔ ان پرالفاظ الٹے لکھے نظر آتے تھے۔ ہم آتشی شیشہ ساتھ لے کر جاتے اور اپنا نام ڈھونڈنے کی کوشش کرتے۔ یہ بھی بڑے دلچسپ ایام ہوتے تھے۔
دسمبر کے آغاز میں ہمارے محلےکے چند خدام اور اطفال جو خوشخط تھے بالٹیوں میں چونا اور کالا روغن لے کر نکلتے اور پوری ریلوے روڈ پر اور اقصیٰ روڈ پر مسجد اقصیٰ تک گھروں کی دیواروں پر استقبالیہ الفاظ، نعرے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے عظام کے اقوال تحریر کرتے، معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہتے۔ ان تحریروں سے ساری دیواریں سج جاتیں اور بہت خوبصورت لگتیں۔
دسمبر کے آغاز سے ہی ربوہ میں بہت سے غیراحمدی اشیاء بیچنے کےلیے ربوہ آجاتے تھے۔ ان میں بہت سے پٹھان خوبصورت گرم دستانے، ٹوپیاں، بچوں کے کھلونےاور مفلر وغیرہ فروخت کرتے۔ رحمت بازار اور گول بازار میں بہت سے نئے سٹال لگ جاتے جہاں رنگ برنگی اشیاء فروخت کی جاتیں۔ ہمارے احمدی دکاندار بھی اپنی دکانوں کو سجاتے اوربہت سی اشیاء فروخت کرتے۔ حلوائی خوبصورت مٹھائیاں بنا کر بیچتے۔ پھل فروش مالٹے اور دوسرے پھلوں کے ٹرک منگواتے جو ان ایام میں بڑے آرام سے فروخت ہو جاتے۔ ریسٹورنٹ والے مہمانوں کےلیے خصوصی اہتمام کرتے۔ گول بازار میں منان کی چھوٹی سی دکان پر کباب خریدنے والوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی تھیں۔
بعض بڑی عمر کے دیہاتی احمدی پنجابی میں نظمیں چھپوا کر لاتے اور گلیوں میں بڑی خوبصورت آواز میں اپنا منظوم کلام سناتے۔
دسمبر کے آغاز میں ہی ٹرالیوں پر پرالی آنی شروع ہو جاتی۔ ہمارے محلہ کے صدر صاحب کے گھر کے ساتھ ایک خالی پلاٹ میں پرالی رکھی جاتی۔ جس روز پرالی تقسیم ہونی ہوتی اس دن مسجد ناصر میں نمازوں کے بعد اعلان ہو جاتا اور بعد از نماز عصر سب وہاں اکٹھے ہوجاتے۔ خدام پرالی اٹھا کر گھروں میں پہنچاتے۔ پرالی کا گھرمیں آنا بھی ایک خوشی کا موقع ہوتا تھا۔ گھروں میں کمروں سے سب چارپائیاں نکال دی جاتیں اور ہر کمرے میں پرالی بچھا دی جاتی۔ قریباََ دو سے تین ہفتوں تک گھر کے تمام افراداور تمام مہمانان پرالی پر ہی بستر بچھا کر سوتے۔ اس بستر کو ہم محمدی بسترا کہتے تھے۔ پرالی پر سونے کا بھی اپنا ہی مزہ تھا۔
مہمان اور ان کو ملنے والے رات نماز عشاء کے بعدپرالی پر ہی بیٹھ کر ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے اور جلسہ کی برکات کے متعلق گفتگوکرتے۔ یہ انتہائی سادگی کے ایام تھے۔ گھر آنے والے سب مہمانوں کو ہماری والدہ صاحبہ مرحومہ لذیذ چائے بنا کر پیش کرتیں اور ساتھ گڑاور گچک، مونگ پھلی اور ڈرائی فروٹ پیش کیاجاتا۔
جلسہ کے ایام میں اسی پرالی پر بیٹھ کر ہی صبح کالنگر کا ناشتہ اور رات کا لنگر کا کھانا کھایا جاتا۔
جلسہ کی ڈیوٹیوں کا باقاعدہ آغاز حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تمام ڈیوٹیوں کا معائنہ، ضروری نصائح اور دعا کر کے فرماتے۔ حضورؒ لنگر خانہ نمبر2 میں بھی معائنہ کےلیے تشریف لاتے۔ آپ کے ہم راہ محترم سید میر دائود صاحب مرحوم افسر جلسہ سالانہ ہوتے۔ بعد میں محترم چودھری حمیداللہ صاحب افسر جلسہ سالانہ حضورؒ کے ساتھ تشریف لاتے۔
یہ دن ہمارے محلہ والوں کےلیے عید کا دن ہوتا تھا۔ سب لنگر کے باہر حضورؒ کا دیدار کرنے اور استقبال کےلیے صبح سے ہی تنظیم سے کھڑے ہوتے۔ ہماری یہ خوش قسمتی تھی کہ وہاں ڈیوٹی ہونے کی وجہ سے حضورؒ سے مصافحہ کا شرف حاصل ہوجاتاتھا۔ یقیناً یہ ہمارے لیے بہت بڑا اعزاز ہوتا تھا۔
ڈیوٹیوں کے افتتاح والے دن ہی ہمیں ڈیوٹیوں کے بلے(بیجز) دیے جاتے۔ ہمارے لیے ڈیوٹی کے بلے ایسے ہی تھے جیسے کوئی میڈل مل گیا ہو۔ اس کو بڑے اہتمام سےجلسہ کے ایام میں پہن کر رکھتے۔
ہماری ڈیوٹی ہر سال لنگر خانہ نمبر 2 میں روٹی تقسیم پر ہوتی اور ہرسال ہم کمرہ نمبر 2 میں ہی ہوتے۔ لنگر چلتے ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا لنگر میں ہوتا۔ ہم بمشکل چند گھنٹے آرا م کرتے ورنہ ہم دن رات کا بیشتر حصہ ڈیوٹی پر ہی ہوتے۔
سب احباب بالٹیاں اور کپڑا لے کرپہلے پرچی بنواتے اور پھر قطاروں میں کھڑے ہوجاتے۔ پہلے روٹی لیتے اور پھر سالن لیتے۔ روٹیاں اور سالن فی کس کے حساب سے دیا جاتا۔ جب روٹیاں تقسیم ہو جاتیں تو ہم کمرے کی سیمنٹ کی شیلفوں پرہی کچھ دیر سستا لیتے۔ ہمارے گھروں میں تو سونے کی جگہ نہیں ہوتی تھی کیونکہ گھر مہمانوں سے بھرے ہوتے تھے۔ یہ مہمان کوئی رشتہ دار یا عزیز نہیں ہوتے تھے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معززمہمان ہوتے تھے۔
لنگر میں باقاعدگی سے وقت پر نماز باجماعت کا انتظام ہوتا اور تمام ڈیوٹی والے نماز میں شامل ہوتے۔
جلسہ سے پہلے چند دن تو ہم اپنی روٹی تقسیم کی ڈیوٹی کر کے ریلوے سٹیشن چلے جاتے تھے اور اسپیشل ٹرین کی آمد پر ہم بھی استقبال کی ٹیم کے ساتھ مل کر مہمانوں کا سامان ریل کے ڈبوں سے نکالتے اور بعض مہمانوں کو ان کے گھر چھوڑ کر آتے۔ اسپیشل ٹرین کی آمد پر پُر جوش نعروں کا بھی اپنا ہی سماں ہوتا اور ہم بھی ان نعروں میں شامل ہو جاتے۔
ہمیں یہ بھی شوق ہوتا تھا کہ ہم دوسرے لنگر خانوں میں جا کر وہاں کے معاونین کو ملیں۔ لنگر خانہ نمبر 1 میں ہمارے محبوب آقاحضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ڈیوٹی کر رہے ہوتے۔ اسی طرح ہم گول بازار کے پیچھے تحریک جدید کے کوارٹروں کے عقب میں جلسہ سالانہ کے دفاتر جا کر بھی افسران اورمعاونین سے مل کر آتے۔
جلسہ سالانہ پر ربوہ کے نواحی دیہات سے اور دوسرے شہروں سے نانبائیوں اور پیڑے کرنے والیوں کی ایک بڑی تعداد ربوہ آتی جو لنگر خانوں میں پیڑے بناتیں اور نانبائی تنوروں میں روٹیاں لگاتے۔
مجھے ایک واقعہ کبھی نہیں بھولے گا۔ ایک سال نانبائیوں نے اچانک ہڑتال کر دی۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کواس بات کی اطلاع دی گئی تو حضورؒ نے ارشادفرمایا دیا کہ ربوہ کے رہائشی گھروں سے روٹیاں بنا کر لنگر وں میں پہنچائیں۔ ان دنوں کوئی موبائل فون یا دوسری جدید سہولتیں نہیں تھیں لیکن حضورؒ کا ارشاد اس تیزی سے ربوہ کے گھروں میں پہنچا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس صبح ہمیں لنگر خانہ میں عجیب منظر نظر آ رہاتھا۔ نماز فجر کے معاََ بعد سے ربوہ والے بجائے لنگر سے روٹیاں لینے کے تھیلے بھر بھر کر روٹیاں دینے کےلیے آ رہے تھے۔ ہمارے کمرے گھروں کی روٹیوں سے بھر گئے۔ جب نانبائیوں کو صورت حال کا علم ہوا تو فوراََ ہڑتال ختم کر دی۔
جب جلسہ کے آغاز کا دن آتا تو ہم بھی اپنی ڈیوٹی کر کے نئے کپڑے پہن کر جلسہ گاہ جاتے اور جلسہ کی کچھ کارروائی سن کر واپس اپنی ڈیوٹیوں پر پہنچ جاتے۔ جلسہ کا آغاز ہوتے ہی ایک اداسی یہ ہوتی کہ اب تو جلسہ بہت جلدی سے ختم بھی ہوجائے گا۔ وہی ہوتا تین دن میں جلسہ ختم ہوجاتا۔ جلسہ کے آخری دن اور بعد کے چند دنوں میں مہمان ہم سے لنگر کی روٹی اپنے گھروں میں بطور تبرک لے جانے کےلیے مانگتے۔ ہم سب کو تبرک کے طور پرروٹیاں دیتے۔
جلسہ کے اختتام کے ساتھ ہی انتہائی اداسی کا عالم ہوجاتا۔ ہم ریلوے اسٹیشن اور بسوں کے اڈے پر معزز مہمانوں کو الوداع کہنے جاتے۔ دعائوں اور نعروں کے ساتھ ان کو رخصت کرتے اور بعض دفعہ ٹرین پر ہم سانگلہ ہل تک چلے جاتے۔ چنیوٹ تک تو اکثر ہم جاتے۔
جلسہ کے اختتام کے ساتھ ہی ربوہ کی فضا میں بہت اداسی چھا جاتی۔ جیسے جیسے مہمانان کرام اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوتے ربوہ خالی ہونا شروع ہوجاتا۔ ساری رونقیں غائب ہو جاتیں اور ہم لنگر کو اور بازاروں کو اداسی سے دیکھتے کہ اب ان خوبصورت دنوں کے لیے ایک سال انتظار کرنا پڑے گا۔
جلسہ کے بعد جلسہ کے تمام کارکنان کی دعوت ہوتی۔ جس میں ہم سب بڑے شوق سے شامل ہوتے۔
محترم عبدالجلیل عباد صاحب کے جلسہ سالانہ ربوہ کے متعلق چند اشعار کے ساتھ اس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔
اک جلسہ سالانہ ہوتا تھا جو عشق کا میلہ لگتا تھا
واں بچھڑے محبت کے مارے آنکھوں کی ٹھنڈک پاتے تھے
دن رات پیاروں کی خاطر وہاں لنگر خانے چلتے تھے
لاکھوں مہمان مسیحا کے لنگر کا تبرک کھاتے تھے
یہ نوروں والی بستی تھی جہاں چاند کے گرد ستارے تھے
یہ ایسی مقدس بستی تھی جس میں کہ ملائک آتے تھے
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حسین دن پھر لائے جب مسیح محمدی کے دیوانے پھر ربوہ جا کر جلسہ سالانہ میں شامل ہو سکیں اور ربوہ میں وہی رونقیں پھر لوٹ آئیں۔
ہم پھر لنگر خانوں کو چلتا دیکھ سکیں اور اسی طرح ڈیوٹیاں کر سکیں۔ آمین ثم آمین۔