امیر المومنین سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2023ء کے اختتامی اجلاس سے بصیرت افروز خطاب
’’خدا تعالیٰ نے یہ نئی قوم بنائی ہے جس میں امیر، غریب، بچے، جوان، بوڑھے ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ پس غریبوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے معزز بھائیوں کی قدر کریں اور عزت کریں اور امیروں کا فرض ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کریں۔ ان کو فقیر اور ذلیل نہ سمجھیں کیونکہ وہ بھی بھائی ہیں گو باپ جدا جدا ہوں مگر آخر تم سب کا روحانی باپ ایک ہی ہے اور وہ ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)
اسلام کی تعلیم ایسی خوبصورت تعلیم ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو دنیا کے تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے
اسلام کے بتائے ہوئے اصول اور قاعدے دائمی حیثیت رکھتے ہیں
آج ضرورت ہے کہ ہم دنیا کو حقوق کی صحیح نشاندہی کریں اور راہنمائی کریں کہ کس طرح معاشرے کے مختلف طبقوں کے حقوق قائم کر کے محبت، پیار اور صلح کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے
انسان کے اعلیٰ اخلاق کے معیار اس وقت قائم ہو سکتے ہیں جب خالقِ کُل کی ذات پر بھی کامل یقین ہو اور یقین ہو کہ اگر ہم نے اس کے بتائے ہوئے اصولوں اور تعلیم پر عمل نہ کیا تو ہم پکڑ میں آسکتے ہیں
اب تک میں معاشرے کے اکیس مختلف طبقات کے حقوق بیان کر چکا ہوں
بیوہ اور مسکین کی خدمت کے لیے جدوجہد کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے
مانگنے والا مسکین نہیں کہلاتا بلکہ مسکین وہ ہے جو لوگوں سے سوال نہ کرتا ہو اور نہ ہی لوگ اسے سمجھ پاتے ہوں کہ وہ مدد کا مستحق ہے کہ نہیں یا اسے دیں یا نہ دیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدترین کھانا اس ولیمےکا کھانا ہے جس میں امیر لوگ بلائے جائیں اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے
جن ملکوں میں امیر اور غریب کا فرق بہت ہے وہاں کے احمدیوں کو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اپنی دعوتوں میں، ولیموں میں، شادیوں میں غریبوں کو بھی بلایا کریں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی موقع نہیں جانے دیتے تھے جس میں غریبوں کی اہمیت کی طرف توجہ نہ دلاتے ہوں
مسکین کو صدقہ کرنا صرف صدقہ ہے اور رشتہ دار مسکین کو صدقہ کرنا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ہے
جہاں آپؐ غربا کی عزت اور ان کے احترام کو قائم کرتے اور ان کی ضرورتیں پوری فرماتے تھے وہاں آپ ان کو عزتِ نفس کا بھی سبق دیتے تھے اور سوال کرنے سے منع فرماتے تھے
پس اسلام جہاں ضرورتمند طبقے کے حقوق کی طرف توجہ دلاتا ہے وہاں اس طبقے کو اپنے فرائض کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب نظام مکمل ہوا تو اس وقت اسلامی تعلیم کے ماتحت ہر فرد بشر کے لیے روٹی اور کپڑا مہیا کرنا حکومت کے ذمہ تھا اور وہ اپنے اِس فرض کو پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا کرتی تھی
اسلام یہ ہے جس نے ملکی حقوق بھی قائم کیے ہیں۔ اسلام کے نزدیک ہر فرد کی خوراک رہائش اور لباس کی ذمہ دار حکومت ہے اور اسلام نے ہی سب سے پہلے اس اصول کو جاری کیا ہے۔ بدقسمتی سے آج مسلمان ملک ہی ہیں جو اس حق کو ادا نہیں کر رہے سوائے دو چار ملکوں کے۔ اگر یہ ادا کرنے لگ جائیں تو مسلمان ملکوں کی کایا پلٹ جائے
’’بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے۔ اس کی دلجوئی کرے۔ اس کی بات کی عزت کرے۔ کوئی چِڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے۔ ‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)
غریبوں، محتاجوں اور مسکینوں کے حقوق کا پُرمعارف بیان
اسیرانِ راہِ مولیٰ، شہدائے احمدیت کے خاندانوں، مخالفین کے ظلم و ستم کے شکار احمدیوں، عامّۃالمسلمین نیز دنیا کے تباہی سے بچنے کے لیے دعا کی تحریک
امیر المومنین سیدنا حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2023ء کے اختتامی اجلاس سے بصیرت افروز خطاب
(فرمودہ 30؍ جولائی 2023ء بروز اتوار بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن ہمپشئر۔ یوکے)
(اس خطاب کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
اَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو بڑی تفصیل سے معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق بھی بیان فرماتا ہے
اور اس کی وضاحت ہمیں قرآن کریم اور احادیث میں ملتی ہے۔ اور پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی مزید وضاحت فرمائی ،تفصیل بیان فرمائی۔ گذشتہ تین جلسوں میں ان حقوق کے متعلق میں بیان کر رہا ہوں۔ بیچ میں ایک جلسہ میں بیان نہیں ہوا۔ تین سال سے تقریباً بیان ہو رہے ہیں اور ان حقوق کی تفصیل اتنی زیادہ ہے کہ مختصر بیان کرنے کے باوجود میں تمام حقوق بھی بیان نہیں کر سکا۔ سو اس وقت میں اس کے متعلق ہی کچھ بیان کروں گا۔ جیسا کہ میں نے کہا ان حقوق کے بارے میں قرآن کریم کی تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات یا آپؐ کا عمل اور آپؐ کے غلامِ صادق کے ارشادات اور عمل کے واقعات اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ سو اس وقت میں حوالے پیش کروں گا۔
اسلام کی تعلیم ایسی خوبصورت تعلیم ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو دنیا کے تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔
گذشتہ سال میں نے عورتوں کے حقوق کے بارے میں کچھ تفصیل سے بیان کیا تھا۔ کئی خطوط مجھے آئے اور مختلف مجالس میں بھی مجھےیہ کہاگیا اور دوسرے احمدیوں کے سامنے بھی غیروں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ اسلام اس گہرائی سے عورتوں کے حقوق بھی قائم کرتا ہے۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ اسلام عورتوں کے حقوق قائم کرنا تو ایک طرف ان کے حقوق غصب کرنے والا مذہب ہے۔ پس اسلام کی خوبصورت تعلیم جب غیروں کے سامنے پیش کی جاتی ہے تو وہ مجبور ہوتے ہیں کہ اس بات کو تسلیم کریں کہ اسلام کی تعلیم ہی عمدہ اور اعلیٰ تعلیم ہے جس نے ہر شعبہ اور ہر طبقے کی زندگی کے ہر پہلو پر تفصیل سے بیان کیا ہوا ہے۔ پس ہمیں بھی غیروں کے سامنے اسلام کی تعلیم پیش کرنے میں کسی بھی قسم کے احساس کمتری کی ضرورت نہیں ہے نہ شرمانے کی ضرورت ہے۔
اسلام کے بتائے ہوئے اصول اور قاعدے دائمی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ نہیں کہ آج کچھ اور کل کچھ۔ جبکہ دنیا دار تو حقوق کے نام پر اپنی طرف سے بڑی سوچ بچار کے بعد قوانین بناتے ہیں اور پھر کچھ عرصےبعد پتہ چلتا ہے کہ اس میں یہ کمی ہے یہ سقم ہے خود ہی اس کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دیتے ہیں کہ اس میں اتنا زیادہ افراط و تفریط ہے کہ بسا اوقات اس کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہوتے ہیں اور قانون بذات خود ایک مذاق بن جاتا ہے۔ پس
آج ضرورت ہے کہ ہم دنیا کو حقوق کی صحیح نشاندہی کریں اور راہنمائی کریں کہ کس طرح معاشرے کے مختلف طبقوں کے حقوق قائم کر کے محبت پیار اور صلح کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے۔
لیکن اس بنیادی بات کو بھی ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ حقوق اسی وقت حقیقی رنگ میں قائم ہو سکتے ہیں جب انسان اس یقین پر قائم ہو کہ ایک بالا ہستی ہے جو ہمارے ہر عمل کا حساب رکھ رہی ہے، ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہی ہے۔ اور اگر ہم نے اس کے بتائے ہوئے اصول اور اس کی تعلیم پر عمل نہ کیا تو ہم اسے جواب دہ ہیں۔
انسان کے اعلیٰ اخلاق کے معیار اس وقت قائم ہو سکتے ہیں جب خالقِ کُل کی ذات پر بھی کامل یقین ہو اور یقین ہو کہ اگر ہم نے اس کے بتائے ہوئے اصولوں اور تعلیم پر عمل نہ کیا تو ہم پکڑ میں آ سکتے ہیں۔
پس ہم جو پیغام پہنچانے والے ہیں ہمیں بہت زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم حقوق ادا کرنے والے ہوں اور ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم نے صرف خدا تعالیٰ کی ذات کے حقوق ہی ادا نہیں کرنے جو زمین و آسمان کا خالق اور واحد و یگانہ خدا ہے بلکہ اس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق بھی بہت پیاری ہے۔ بہرحال جب یہ سوچ ہوتی ہے تو تبھی خدا تعالیٰ پر ایمان قائم ہوتا ہے اور مذہب کی ضرورت کو بھی انسان سمجھ سکتا ہے۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ اسلام پر ایمان لاتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین رکھتے ہوئے اس کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کا سامان کرتے ہیں۔ پس ایک مومن کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ہر طبقے اور ہر شعبےکے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اب تک میں معاشرے کے اکیس مختلف طبقات کے حقوق بیان کر چکا ہوں۔
آج بھی کچھ بیان کروں گا۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں تبھی ہم وہ حسین معاشرہ قائم کر سکتے ہیں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اور جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعےسے ہمیں دی ہے۔
اس وقت میں
غریبوں، محتاجوں اور مسکینوں کے حقوق
بیان کروں گا۔
اس طبقے کے جو حقوق ہیں وہ جہاں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں وہاں معاشرے کے امن و سکون کی بھی ضمانت ہیں۔
قرآن کریم اس بارے میں متعدد جگہ ذکر فرماتا ہے۔ ایک دو آیات میں پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ؕ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ(التوبۃ: 60) صدقات تو محض محتاجوں اور مسکینوں اور ان صدقات کا انتظام کرنے والوں اور جن کی تالیفِ قلب کی جا رہی ہو اور گردنوں کو آزاد کرنےاور چٹی میں مبتلا لوگوں اور اللہ کی راہ میں عمومی خرچ کرنے اور مسافروں کے لیے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فرض ہے اور اللہ دائمی علم رکھنے والا اور بہت حکمت والا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں معاشرے کے اس تمام ضرورت مند طبقے کے حق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلا دی جو کسی بھی طرح ضرورت مند ہیں، کسی بھی طرح ان کی حاجات کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ مسکین کے حق کی طرف توجہ دلا دی۔ وہ لوگ جو سفید پوش ہیں ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کی طرف توجہ دلائی کہ یہ حکومت کا کام ہے۔ یہ نہیں کہ مانگیں تو انہیں دو بلکہ ان کی ضرورت کا خیال رکھنا حکومت کا کام ہے۔ ایسا نظام ہو جو ان ضرورت مندوں کی ضرورت کا جائزہ لیتا رہے۔ قیدیوں کو آزاد کروانے کے لیے بھی خرچ کرو۔ محبت، پیار اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے اپنے بھائیوں کا خیال رکھو۔ ان پہ خرچ کرو۔ بعض قیدی معمولی جرمانوں کی وجہ سے لمبی قید میں ہوتے ہیں ان پہ خرچ کیا کرو۔ اس کے لیے تو اب بہت سے ملکوں میں جماعت بھی کام کرتی ہے اور قیدیوں پر اس کا نیک اثر بھی ہو رہاہے اور وہ مذہب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ بہرحال یہاں پر ہر ضرورتمند طبقے کی نشاندہی کرکے ان کی ضروریات پوری کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ اُولٰئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ۔ (الحشر: 9) ان درویش مہاجرین کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور اپنے اموال سے الگ کیے گئے۔ وہ اللہ ہی سے فضل اور اس کی رضا چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں۔ یہی ہیں وہ جو سچے ہیں۔
جو مذہبی طورپر یا کسی بھی طرح زیادتی کا نشانہ بنائے گئے ہیں اور اپنے گھروں سے اور ملکوں سے نکالے گئے ہیں ان کی مدد کرنے کے لیے بھی توجہ دلائی تا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر معاشرے کا فعال حصہ بن سکیں۔ پس قرآن کریم کی اَور بھی بہت ساری تعلیمات ہیں۔ اب
بعض احادیث پیش کرتا ہوں جن میں محتاجوں اور غریبوں کے حقوق قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکو خیال ہوا کہ ان کو دوسرے صحابہ پر فضیلت ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم میں سے جو کمزور ہیں انہی کے ذریعے تو تمہیں نصرت ملتی ہے اور رزق حاصل ہوتا ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب من استعان بالضعفاء والصالحین فی الحرب حدیث 2896)
یعنی یہ غریب طبقہ تمہارے کام کرتا ہے جس سے امراء بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پس ان کا خیال رکھو اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان کو ان کے کام کے مطابق معاوضہ اور اجرت دو تا کہ ان میں کسی بھی قسم کی بے چینی پیدا نہ ہو۔
آجکل دنیا میں آئے دن کی ہڑتالیں ہوتی ہیں اور فساد ہیں۔ اس لیے ہوتے ہیں کہ لوگ شور مچاتے ہیں کہ ہمیں صحیح معاوضہ نہیں مل رہا۔ یہاں ان امیر ملکوں میں بھی یہ شور مچتا رہتا ہے۔ پڑھے لکھے لوگ مچاتے ہیں۔ کبھی ڈاکٹرز سٹرائک (Strike) پہ چلے جاتے ہیں۔ کبھی دوسرا عملہ سٹرائک (Strike) پہ چلا جاتا ہے تو ہر جگہ دنیا میں جو فساد ہیں۔ پھر بعض ملکوں میں جو انقلاب آ رہے ہیں، کبھی کوئی حکومت انقلاب لے آتی ہے، کبھی فوجیں حکومتوں کے تختے الٹا رہی ہیں۔ یہ سب اس لیے ہے کہ غریبوں کے حقوق ادا نہیں کیے جا رہے۔ جو ان کا حق بنتا ہے وہ ان کو دیا نہیں جا رہا اور امیر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح محتاجوں اور ضرورتمندوں کے لیے تحریک فرمایا کرتے تھے
اس بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کو خیبر میں ایک جائیداد ملی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو بتایا۔ آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو اس کو صدقے میں دے دو۔ چنانچہ انہوں نے اس کو محتاجوں، مسکینوں، رشتہ داروں اور مہمانوں کے لیے صدقہ کر دیا یعنی وقف کردیا۔
(صحیح البخاری کتاب الوصایا باب الوقف للغنی والفقیر والضیف حدیث 2773)
پھر ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
بیوہ اور مسکین کی خدمت کے لیے جدوجہد کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے
بیوہ اور مسکین کی خدمت کرنے والا، اس کے لیے کوشش کر کے اس کی خدمت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ راوی کہتے ہیں اور میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ عبادت کرنے والے کی طرح ہے جو تھکتا نہیں اور روزے رکھنے والے کی طرح جو روزہ چھوڑتانہیں۔
( صحیح مسلم کتاب الزھد والرقائق باب فضل الاحسان الی الارملۃ والمسکین والیتیم حدیث7468)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جو ایک کھجور یا دو کھجور یا ایک دو لقمہ دربدر پھرائے، جسے کھجور کا یہ ایک دو لقمہ دربدر پھرائے یعنی مانگتا پھرے بلکہ مسکین وہ ہے،
مانگنے والا مسکین نہیں کہلاتا بلکہ مسکین وہ ہے جو لوگوں سے سوال نہ کرتا ہو اور نہ ہی لوگ اسے سمجھ پاتے ہوں کہ وہ مدد کا مستحق ہے کہ نہیں یا اسے دیں یا نہ دیں۔
(سنن ابی داؤد کتاب الزکاۃ باب من يعطي من الصدقة، وحد الغنى حدیث 1631)
جیساکہ پہلی آیت کی روشنی میں بیان ہوا کہ ضرورتمندوں کی ضرورت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ صرف یہ نہیں کہ مانگنے والے کو دیا جائے۔ حکومت کو بھی اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس حدیث میں اس کی وضاحت ہے کہ مدد کے مستحق کو تلاش کر کے اس کی مدد کرو۔ یہ اصل نیکی ہے اور یہ مسکین کا حق ہے جس کا ادا کرنا ضروری ہے۔
پھر غریبوں کا حق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح قائم فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدترین کھانا اس ولیمےکا کھانا ہے جس میں امیر لوگ بلائے جائیں اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب اجابۃ الداعی حدیث 1913)
پس
جن ملکوں میں امیر اور غریب کا فرق بہت ہے وہاں کے احمدیوں کو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اپنی دعوتوں میں، ولیموں میں، شادیوں میں غریبوں کو بھی بلایا کریں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بار بار کی نصائح کا اثر تھا کہ صحابہؓ مساکین کی دلجوئی کے لیے کوشش کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ ایک روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جعفر بن ابوطالبؓ مساکین سے محبت کرتے تھے اور ان کے پاس بیٹھتے تھے اور وہ ان سے باتیں کرتے تھے اور وہ ان سے باتیں کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کنیت أَبُو الْمَسَاکِیْن رکھی تھی۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب مجالسۃ الفقراء حدیث 4125) ان کے اس فعل کو پسند فرمایا۔ پھر
کمزوروں کا اللہ تعالیٰ کی نظر میں کیا مقام ہے۔
جس کو زمانے نے دھتکارا ہو، اس کا حق مارا ہو اسے اللہ تعالیٰ کس طرح دیکھتا ہے اس بارے میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیامیں تمہیں جنت کے بادشاہوں کے بارے میں نہ بتاؤں۔ حضرت معاذؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ ضرور بتائیں جنت کے بادشاہ کون ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کمزور آدمی جسے کمزور سمجھا گیا۔ وہ بوسیدہ کپڑوں والے جس کی کوئی پروا نہیں کی جاتی لیکن اگر وہ اللہ کے نام سے قسم کھائیں تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور پوری کر دیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھدباب من لا یؤبہ لہ حدیث 4115)یہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں بڑے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی موقع نہیں جانے دیتے تھے جس میں غریبوں کی اہمیت کی طرف توجہ نہ دلاتے ہوں۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک شخص گزرا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا امیر آدمی تھا جو گزرا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جواب دیا اور کہا کہ آپ کی رائے اس کے بارے میں مقدم ہے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ معزز ترین لوگوں میں سے ہے۔ یہ اس قابل ہے کہ اگر یہ نکاح کا پیغام دے تو منظور کر لیا جائے۔ اگر سفارش کرے تو قبول کی جائے۔ اتنا معزز آدمی ہے کہ اس کے رشتے کو ٹھکرایا نہیں جا سکتا ، اس کی سفارش کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اگر بات کرے تو اس کی بات سنی جائے۔ اس کی بات بڑے غور سے سننی چاہیے۔ بہت معزز آدمی ہے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ آپؐ کچھ نہیں بولے۔ ایک اَور شخص گزرا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے بارے میں تم کیا کہتے ہو۔ انہوں نے کہا بخدا یا رسول اللہؐ! ہم کہتے ہیں کہ یہ تو نادار مسلمانوں میں سے ہے۔ یہ اس قابل ہے کہ اگر نکاح کا پیغام یہ کسی کو دے تو اس کا نکاح نہ ہو۔ بیشک رشتہ ردّ ہو جائے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر وہ سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے اور اگر کوئی بات کرے تو اس کی بات نہ سنی جائے۔ اس کو بالکل کوئی اہمیت نہیں دینی۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یقیناً یہ شخص اُس جیسے زمین بھر لوگوں سے بہتر ہے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَاب فضل الفقراء حدیث 4120)
آپؐ نے اس پہ اپنی رائے کا اظہار فرمایا، پہلے کچھ نہیں بولے۔ پھر آپؐ نے فرمایا تم امیر کو اہمیت دیتے ہو لیکن یہ شخص جسے تم غریب سمجھ کر کسی قابل نہیں سمجھتے یہ اس امیر جیسے ہزاروں لوگوں سے بہتر ہے۔
پھر غریب رشتہ داروں کی مدد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا۔ حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا
مسکین کو صدقہ کرنا صرف صدقہ ہے اور رشتہ دار مسکین کو صدقہ کرنا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ہے۔
(سنن النسائی کتاب الزکاة باب الصدقۃ علی الأقارب حدیث 2583)
یعنی تمہارا جو رشتہ دار ضرورتمند ہے اس کی خاموشی سے مدد کرو۔
آپؐ خود غریبوں اور مسکینوں کے متعلق اپنے جذبات کا کس طرح اظہار فرمایا کرتے تھے اس بارے میں ایک روایت ہے۔ ابو امامہ بن سہل بن حُنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مسکین عورت بیمار ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بیماری کی خبر دی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکینوں اور غریبوں کی بیمارپرسی کرتے اور ان کی بیماری کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب یہ مر جائے، حالت ایسی ہو گئی ہے کہ لگتا ہے بچے گی نہیں۔ اگر یہ مر جائے تو مجھے خبر کرنا لیکن وہ رات کو فوت ہوئی۔ اس کا جنازہ لے جایا گیا لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا۔ دیر رات کو فوت ہوئی تھی، انہوں نے کہا اسی وقت دفنا دو۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جگانا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی تو رات میں جو کچھ ہوا تھا آپ کو اس کی خبر دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ مجھے اس کی خبر کرنا تو انہوں نے کہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپؐ کو رات میں جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ بات سن کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کے ساتھ نکلے آپ قبرستان میں گئے اور یہاں تک کہ اس کی قبر پر پہنچے۔ لوگوں کی صف بندی کی اور چار تکبیریں کہیں اور جنازہ پڑھایا۔
(سنن النسائی کتاب الجنائز باب الاذن بالجنازۃ حدیث 1908)
مسکین کو کھانا کھلانے کی نیکی کرنے والے کا اللہ تعالیٰ کی نظر میں کیا مقام ہے
اس بارے میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے آج کس نے روزہ رکھا ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا میں نے۔ آپؐ نے فرمایا آج تم میں سے کون جنازے کے ساتھ گیا ہے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میں گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میں نے۔ آپؐ نے فرمایا آج تم میں سے کس نے مریض کی عیادت کی ہے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے۔ اس پر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص میں یہ باتیں جمع نہیں ہوتیں مگر وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الزکاۃ باب فضل من ضم الی الصدقۃ … حدیث 2374)
یعنی نیکی کی جو ساری باتیں ان میں شامل ہیں۔مسکین کو کھانا کھلانا، مریض کی عیادت کرنا پوچھنا وغیرہ۔
احادیث کی روشنی میں حضرت مصلح موعودؓ نے دیباچہ تفسیر القرآن میں تفصیل بیان کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں غریبوں کا کیامقام تھا ’’ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ غریب صحابہؓ جو کسی وقت غلام ہوتے تھے بیٹھے ہوئے تھے۔‘‘ کسی وقت غلام تھے اب آزاد تھے۔ ’’ابوسفیان ان کے سامنے سے گزرے تو انہوں نے اس کے سامنے اسلام کی جیت کا کچھ ذکر کیا۔‘‘ اسلام کا غلبہ ہو چکا تھا۔ ابوسفیان کے سامنے اس کا ذکر کیا۔ ’’حضرت ابوبکرؓ سن رہے تھے انہیں یہ بات بہت بری معلوم ہوئی کہ قریش کے سردار کی ہتک کی گئی ہے۔‘‘ یہ لوگ پہلے ایک غلام تھے اور ابوسفیان کو پتہ ہے کہ یہ غلام تھے۔ ان کے سامنے اس طرح ذکر کرنا اور اسلام کی بڑائی کا، فتح کا ذکر کرنا حضرت ابوبکرؓ کو ناگوار گزرا۔ انہوں نے کہا تم نے سردار کی ہتک کی ہے۔ ’’اور انہوں نے ان لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کیا تم قریش کے سردار اور ان کے افسر کی ہتک کرتے ہو!!‘‘ ان لوگوں سے حضرت ابوبکرؓ نے یہ فرمایا۔ ’’پھر حضرت ابوبکرؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر یہی بات شکایتاً بیان کی‘‘ کہ اس طرح انہوں نے ابوسفیان کو کہا ہے۔ گزر رہا تھا تو اس طرح اونچی آواز میں یہ باتیں کیں۔ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکرؓ!شاید تم نے اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کو ناراض کر دیا ہے۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ کا کتنا مقام تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں لیکن آپؐ نے فرمایا ان غریب لوگوں کو جو بیٹھے تھے اور کسی وقت میں یہ غلام ہوا کرتے تھے تم نے یہ بات کہہ کے ناراض کر دیا ہے۔ ’’اگر ایسا ہو ا تو یاد رکھو کہ تمہارا رب بھی تم سے ناراض ہو جائے گا۔ حضرت ابوبکرؓ اسی وقت اٹھے اور اٹھ کر ان لوگوں کے پاس واپس آئے اور کہا اے میرے بھائیو! کیا میری بات سے تم ناراض ہو گئے ہو؟ اِس پر ان غلاموں نے جواب دیا اے ہمارے بھائی! ہم ناراض نہیں ہوئے۔ خد اآپ کا قصور معاف کرے۔ مگر
جہاں آپؐ غرباء کی عزت اور ان کے احترام کو قائم کرتے اور ان کی ضرورتیں پوری فرماتے تھے وہاں آپ ان کو عزتِ نفس کا بھی سبق دیتے تھے اور سوال کرنے سے منع فرماتے تھے۔
چنانچہ آپ ہمیشہ فرماتے تھے کہ مسکین وہ نہیں جس کو ایک کھجور یا دو کھجوریں یا ایک لقمہ یاد و لقمے تسلی دے دیں۔ مسکین وہ ہے کہ خواہ کتنی ہی تکلیفوں سے گزرے سوال نہ کرے۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن ،انوار العلوم جلد 20صفحہ 399)
پس اسلام جہاں ضرورتمند طبقے کے حقوق کی طرف توجہ دلاتا ہے وہاں اس طبقے کو اپنے فرائض کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔
اس لیے ایک دفعہ آپ نے ایک شخص کو جو ضرورت کے لیے آیا تھا فرمایا تمہارے گھرمیں کیا ہے؟ وہ دو چھوٹی سی چیزیں لے کے آ گیا۔ ایک پیالہ یا کوئی اور چیز تھی۔ آپؐ نے وہ بیچ کے اسے کہا جاؤ، دو درہم میں بیچیں۔ ایک درہم سے اپنے گھر والوں کے لیے کھانا لے لو ایک درہم کی کلہاڑی لے کے آؤ اور جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور اس طرح آہستہ آہستہ اس کو کاروبار میں ڈال دیا اور اس کو منافع ہونا شروع ہو گیا۔ تو آپ اس طرح مانگنے سے بھی منع فرماتے تھے تا کہ مانگنے کی عادت نہ پڑ جائے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب بیع المزابدۃ حدیث 2198)
’’ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ ایک دفعہ ایک غریب عورت میرے پاس آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں۔ اس وقت ہمارے گھر میں سوائے ایک کھجور کے کچھ نہ تھا۔ میں نے وہی کھجور اس کو دے دی۔ اس نے وہ کھجور آدھی آدھی کر کے دونوں لڑکیوں کو کھلا دی اور پھر اٹھ کر چلی گئی۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے تو میں نے آپؐ کو یہ واقعہ سنایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
جس غریب کے گھر میں بیٹیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ خدا تعالیٰ اسے قیامت کے دن عذابِ دوزخ سے بچائے گا۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ اس عورت کو اس فعل کی وجہ سے جنت کا مستحق بنائے گا۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن ،انوار العلوم جلد 20صفحہ 399-400)
پس اس طرح اللہ تعالیٰ غریبوں کی نیکیوں کو بھی سراہتا ہے۔ ’’اسی طرح ایک دفعہ آپؐ کو معلوم ہوا کہ آپؐ کے ایک صحابی سعدؓ جو مالدار تھے وہ بعض دوسرے لوگوں پر اپنی فضیلت ظاہر کر رہے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو فرمایا‘‘ یہ حدیث پہلے بھی بیان ہوئی ہے ’’…کہ تمہاری یہ قوت اور طاقت اور تمہارا یہ مال تمہیں اپنے زور بازو سے ملے ہیں؟‘‘ تمہاری اپنی طاقت سے تو یہ نہیں ملے۔ ’’ایسا ہرگز نہیں۔ تمہاری قومی طاقت اور تمہارے مال سب غرباء ہی کے ذریعہ سے آتے ہیں۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن ،انوار العلوم جلد 20صفحہ 400)
صحابہؓ کے عمل محتاجوں اور مسکینوں کی خدمت کرنے کے کیا تھے، کس طرح وہ خدمت کیا کرتے تھے۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ کے کنارے رہنے والی ایک بوڑھی اور نابینا عورت کا رات کے وقت خیال رکھا کرتے تھے۔ آپؓ اس کے لیے پانی لاتے اور اس کے کام کاج کرتے۔ ایک مرتبہ آپ جب اس کے گھر گئے تو یہ معلوم ہوا کہ کوئی شخص آپؓ سے پہلے آیا ہے جس نے اس بڑھیا کے کام کر دیے ہیں۔ اگلی دفعہ آپ اس بڑھیا کے گھر جلدی گئے تا کہ دوسرا شخص پہلے نہ آجائے۔ حضرت عمرؓ چھپ کر بیٹھ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جو اس بڑھیا کے گھر آتے اور اس وقت آپؓ خلیفہ تھے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا اللہ کی قسم! یہ آپؓ ہی ہو سکتے تھے۔
(تاریخ الخلفاء از سیوطی حالات ابو بکر الصدیق ؓ فصل فی نبذ من حلمہ و تواضعہ صفحہ 64 مطبوعہ بیروت ایڈیشن 1999ء)
ایک روایت ہے جس میں
حضرت عمرؓ کے صدقات، وقف اور آزادی کا بیان
ہے۔ نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی ایک جائیداد صدقے میں دے دی جسے ثمغ کہتے تھے اور وہ کھجور کا باغ تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! میں نے ایک مال حاصل کیا ہے۔ وہ میرے نزدیک بہت عمدہ ہے۔ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اس کو صدقے میں دے دوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اصل مال کو اس شرط پر صدقے میں دے دوکہ وہ نہ بیچا جائے اور نہ ہبہ کیا جائے، نہ ورثے میں دیا جائے بلکہ اس کے پھل کو خرچ کیا جائے۔ یعنی حکومت کے پاس یہ ہمیشہ رہے گا تا کہ لوگوں کے کام آتا رہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اسے صدقے میں دے دیا اور ان کا صدقہ اللہ کی راہ میں غلاموں کے آزاد کرنے میں اور مسکینوں اور مہمانوں، مسافروں اور رشتہ داروں کے لیے وقف تھا اور جو اس کا نگران ہو اس کے لیے جائز ہے، آپؓ نے فرمایا کہ جو اس کا نگران ہو وہ اس میں سے مناسب طور پر دستور کے مطابق خود کھائے۔ یعنی جو نگران نگرانی کر رہا ہے اس باغ کی، اس جائیداد کی اس کے لیے تنخواہ اس میں سے مقرر کی جا سکتی ہے۔ ضرورت کے مطابق اس کی تنخواہ مقرر کر دو کہ وہ اس میں سے لے یا اپنے دوست، مہمان جو اس کے آتے ہیں، ان کو بھی اس میں سے کھلا سکتا ہے مگر یہ نہ ہو کہ اپنے لیے اس میں سے مال جمع کرے۔ جمع نہیں کرنا۔
(صحیح البخاری کتاب الوصایا باب ما للوصی ان یعمل فی مال الیتیم… حدیث 2764)
حضرت عمرؓ کے زمانے کا ایک واقعہ ہے جس میں ایک قوم کے سردار نے تکبر کی وجہ سے ایک غریب کو تھپڑ مار دیا لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ لگا تو آپ نے فرمایا: میں اس کا حق دلواؤں گا۔ تاریخ سے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ
حضرت عمرؓ کا ایک مشہور واقعہ ہے جس کے نتیجے میں گو آپؓ کو تکلیف بھی اٹھانی پڑی مگر آپؓ نے اس تکلیف کی کوئی پرواہ نہیں کی اور وہ مساوات قائم کی جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔
وہ واقعہ یہ ہے کہ جبلہ ابن ایہم ایک بہت بڑے عیسائی قبیلے کا سردار تھا۔ جب شام کی طرف مسلمانوں نے حملے شروع کیے تو یہ اپنے قبیلےسمیت مسلمان ہو گیا اور حج کے لیے چل پڑا۔ حج میں ایک جگہ بہت بڑا ہجوم تھا۔ اتفاقاً کسی مسلمان کا پاؤں اس کے پاؤں پر پڑ گیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اس کا پاؤں اس کے جبے کے دامن پر پڑ گیا۔ صرف کپڑے پر پڑا، پاؤں پر بھی نہیں پڑا۔ چونکہ وہ اپنے آپ کو ایک بادشاہ سمجھتا تھا، ایک قوم کا سردار تھا۔ خیال کرتا تھا کہ میری قوم کے ساٹھ ہزار آدمی میرے تابع فرمان ہیں بلکہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ ساٹھ ہزار محض اس کے سپاہیوں کی تعداد تھی۔ بہت بڑا تھا۔بہرحال جب ایک ننگ دھڑنگ مسلمان کا پیر اس کے پیر پر آپڑا تو اس نے غصے میں آکر زور سے اسے تھپڑ مار دیا اور کہا تُو میری ہتک کرتا ہے! تُو جانتا نہیں کہ میں کون ہوں! تجھے ادب سے پیچھے ہٹنا چاہیے تھا۔ تُو نے گستاخانہ طور پر میرے پاؤں پر اپنا پاؤں رکھ دیا۔
وہ مسلمان تو تھپڑ کھا کے خاموش ہو رہا مگر ایک اَورمسلمان بول پڑا کہ تجھے پتہ ہے کہ جس مذہب میں تو داخل ہوا ہے وہ اسلام ہے اور اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں۔ بِالخصوص اِس گھر میں، یہاں خانہ کعبہ میں امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا۔ اس نے کہا میں اِس کی پرواہ نہیں کرتا۔ اس مسلمان نے کہا کہ عمر کے پاس تمہاری شکایت ہو گئی تو وہ اس مسلمان کا بدلہ تم سے لے لیں گے۔ تم پرواہ کرو یا نہ کرو۔جبلہ ابن ایہم نے جب سنا تو آگ بگولا ہو کر کہنے لگا کیا کوئی شخص ہے جو جبلہ ابن ایہم کے منہ پر تھپڑ مارے۔ اس نے کہا کسی اَور کا تو مجھے پتہ نہیں مگر عمر تو ایسے ہی ہیں۔ وہ تو یہ سن کر سزادیں گے۔ بہرحال یہ سن کراس نے جلدی سے طواف کیا اور سیدھا وہ شخص حضرت عمرؓ کی مجلس میں پہنچا اور پوچھا کہ اگر کوئی بڑا آدمی کسی چھوٹے آدمی کو تھپڑ مار دے تو کیا کِیا کرتے ہیں ؟ اسلام کیا کہتا ہے اس بارے میں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہی کرتے ہیں کہ اس کے منہ پر اس چھوٹے شخص سے تھپڑ مرواتے ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ آپ میرا مطلب سمجھے نہیں۔ میرامطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بڑا آدمی تھپڑ مار دے تو پھر آپ کیا کِیا کرتے ہیں ؟ آپؓ نے فرمایا: اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں۔ پھر آپؓ نے کہا جبلہ کہیں تم ہی تو یہ غلطی نہیں کر بیٹھے؟ اِس پر اس نے جھوٹ بول دیا اور کہا کہ میں نے تو کسی کو تھپڑ نہیں مارا۔ میں نے تو صرف ایک بات پوچھی ہے مگر وہ اسی وقت مجلس سے اٹھا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر اپنے ملک کی طرف بھاگ گیا اور اپنی قوم سمیت مرتد ہو گیا اور مسلمانوں کے خلاف رومی جنگ میں شامل ہوا لیکن حضرت عمرؓ نے اس کی پرواہ نہیں کی۔
یہ ہے وہ مساوات جس کی مثال کسی اَور قوم میں نہیں ملتی اور یہ ویسی ہی مساوات ہے جیسے مسجد مساوات قائم کیا کرتی ہے۔ جس طرح وہاں امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں ہوتا اِسی طرح اسلام میں چھوٹے بڑے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
(ماخوذ از سیرروحانی (2)۔ انوار العلوم جلد 16 صفحہ 42تا 44)
پھر حضرت عمرؓ کے زمانے کا ہی ایک واقعہ تاریخ میں آتا ہے۔ حضرت عمرؓ کا گزر ایک ایسے دروازے کے سامنے سے ہوا جہاں ایک بوڑھا سوالی جس کی نظر زائل ہو چکی تھی۔ بھیک مانگ رہا تھا۔ آپ نے پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ تم کون سے اہلِ کتاب ہو۔ تو اس نے عرض کیا یہودی ہوں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیا ہے یعنی بھیک مانگ رہے ہو تم۔ اس نے عرض کیا میں جزیہ، حاجت مندی اور بڑھاپے کی وجہ سے بھیک مانگ رہاہوں۔ جزیہ دینا پڑتا ہے۔ ضرورت ہے مجھے اور بڑھاپا آ گیاہے۔ کام بھی کوئی نہیں کر سکتا۔ اس لیے اَور کوئی میرا ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ میں بھیک مانگوں۔ حضرت عمرؓ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر لے گئے اور گھر سے کچھ چیزیں بطور عطیہ اسے عطا کیں۔ پھر آپؓ نے بیت المال کے خزانچی کو بلوایا اور اس سے کہا کہ اس کا اور اس جیسے دوسرے افراد کا خیال رکھو کیونکہ یہ بات غیر منصفانہ ہے کہ جوانی میں ہم ان سے جزیہ لے کر کھائیں۔ پھر بڑھاپے میں ان کو بے سہارا چھوڑ دیں۔ جوان تھے، یہ کام کرتے تھے تو جزیہ لیا جاتا تھا، بالکل جائز تھا لیکن اب یہ بوڑھا ہو گیا ہے کسی کام کے قابل نہیں، لاغر ہے، بیمار بھی رہتا ہو شاید تو اب اس کا حق ہے کہ اس کو دیا جائے۔ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰكِيْنِ (التوبۃ:60) میں فقرا ء سے مراد مسلمان ہیں اور مساکین سے مراد، آپؓ نے فرمایا مساکین سے مراد یہ اہل کتاب ہیں۔ آپؓ نے اس سے اور اس جیسے دوسرے افراد سے بھی جزیہ معاف فرما دیا۔
(کتاب الخراج از قاضی ابو یوسف صفحہ136)
پھر
اسلام کے اقتصادی نظام میں کیا ہے؟
حضرت مصلح موعودؓ نے اقتصادی نظام پہ بڑی تفصیل سے کتاب میں لکھا ہے اور اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ
ضرورت مند شہریوں کے کیا حقوق ہیں اور اسلام ان کو کس طرح ادا کرتا ہے۔
لکھتے ہیں کہ ’’اسلامی حکومت … جب وہ اموال کی مالک ہوئی۔‘‘ جب پھیل گئی، اموال آنے شروع ہوئے۔ مال آنا شروع ہوا ’’تواس نے ہر ایک شخص کی روٹی کپڑے کا انتظام کیا۔‘‘ حکومت کے پاس پیسہ آ گیا۔ ہر شخص کی روٹی کپڑے کا انتظام ہوا ’’چنانچہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب نظام مکمل ہوا تو اس وقت اسلامی تعلیم کے ماتحت ہر فرد بشر کے لیے روٹی اور کپڑا مہیا کرنا حکومت کے ذمہ تھا اور وہ اپنے اِس فرض کو پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا کرتی تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِس غرض کے لیے مردم شماری کا طریق جاری کیا اور رجسٹرات کھولے جن میں تمام لوگوں کے ناموں کا اندراج ہوا کرتا تھا۔
یورپین مصنفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پہلی مردم شماری حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کی اور انہوں نے ہی رجسٹرات کا طریق جاری کیا۔‘‘
آج ہمیں کیا مثال دیتے ہیں۔ ہمیں ان کو یہ مثال دینی چاہیے۔ یہ کام تو اسلام نے سب سے پہلے شروع کیا تھا۔ ’’اِس مردم شماری کی وجہ یہی تھی کہ ہر شخص کو روٹی کپڑا دیا جاتا تھا اور حکومت کے لیے ضروری تھا کہ وہ اِس بات کا علم رکھے کہ کتنے لوگ اِس ملک میں پائے جاتے ہیں۔‘‘
آج کل تو بعض ملکوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں سوشل ہیلپ ملتی ہے اور ضرورت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ لیکن سب سے پہلے اِس قسم کا اقتصادی نظام اسلام نے جاری کیا تھا جس میں لوگوں کے روٹی کپڑے کا خیال رکھا جاتا تھا۔ بچوں کا خیال رکھا جاتا تھا اور عملی رنگ میں
’’…حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہر گاؤں ، ہر قصبہ اور ہر شہر کے لوگوں کے نام رجسٹر میں درج کیے جاتے تھے۔ ہر شخص کی بیوی، اس کے بچوں کے نام اور ان کی تعداد درج کی جاتی تھی اور پھر ہر شخص کے لیے غذا کی بھی ایک حد مقرر کر دی گئی تھی تا کہ تھوڑا کھانے والے بھی گزارہ کر سکیں اور زیادہ کھانے والے بھی اپنی خواہش کے مطابق کھا سکیں۔
تاریخوں میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابتداء میں جو فیصلے فرمائے ان میں دودھ پیتے بچوں کا خیال نہیں رکھا گیا اور ان کو اس وقت غلّہ وغیرہ کی صورت میں مدد ملنی شروع ہوتی تھی جب مائیں اپنے بچوں کا دودھ چھڑا دیتی تھیں۔ ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لیے گشت لگا رہے تھے کہ ایک خیمہ میں سے کسی بچہ کے رونے کی آواز آئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں ٹھہر گئے مگر بچہ تھا کہ روتا چلا جاتا تھا اور ماں اسے تھپکیاں دے رہی تھی تا کہ وہ سو جائے۔ جب بہت دیر ہوگئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس خیمہ کے اندر گئے اور عورت سے کہا کہ تم بچے کو دودھ کیوں نہیں پلاتی؟ یہ کتنی دیر سے رو رہا ہے۔ اس عورت نے آپؓ کو پہچانا نہیں۔ اس نے سمجھا کہ کوئی عام شخص ہے۔ چنانچہ اس نے جواب میں کہا کہ تمہیں معلوم نہیں عمر نے فیصلہ کر دیا ہے کہ دودھ پینے والے بچہ کو غذا نہ ملے۔ ہم غریب ہیں۔ ہمارا گزارہ تنگی سے ہوتا ہے۔ میں نے اِس بچے کا دودھ چھڑا دیا ہے تا کہ بیت المال سے اِس کا غلہ بھی مل سکے۔ اب اگر یہ روتا ہے تو روئے‘‘ پھر میں کیا کروں۔’’عمرؓ کی جان کو۔ جس نے ایسا قانون بنایا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی وقت واپس آئے اور راستہ میں نہایت غم سے کہتے جاتے تھے کہ عمر! عمر!! معلوم نہیں تُو نے اِس قانون سے کتنے عرب بچوں کا دودھ چھڑوا کر آئندہ نسل کو کمزور کر دیا ہے۔ اِن سب کا گناہ اب تیرے ذمہ ہے۔ یہ کہتے ہوئے آپ سٹور میں آئے‘‘ سرکاری سٹور میں ’’دروازہ کھولا اور ایک بوری آٹے کی اپنی پیٹھ پر اٹھا لی۔ کسی شخص نے کہا لائیے میں اِس بوری کو اٹھا لیتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ نہیں! غلطی میری ہے اور اب ضروری ہے کہ اس کا خمیازہ بھی مَیں ہی بھگتوں۔ چنانچہ وہ بوری آٹے کی انہوں نے اِس عورت کو پہنچائی اور دوسرے ہی دن حکم دیا کہ
جس دن بچہ پیدا ہو اسی دن سے اس کے لیے غلّہ مقرر کیا جائے کیونکہ اس کی ماں جو اس کو دودھ پلاتی ہے زیادہ غذا کی محتاج ہے۔‘‘
(اسلام کا اقتصادی نظام، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 61-62)
وہ اچھی طرح غذا کھا سکے اور اچھا دودھ پلا سکے۔ بہرحال
اسلام یہ ہے جس نے ملکی حقوق بھی قائم کیے ہیں۔ اسلام کے نزدیک ہر فرد کی خوراک رہائش اور لباس کی ذمہ دار حکومت ہے اور اسلام نے ہی سب سے پہلے اس اصول کو جاری کیا ہے۔
اب دوسری حکومتیں بھی اس کی نقل کر رہی ہیں مگر پورے طور پر نہیں لیکن
بدقسمتی سے آج مسلمان ملک ہی ہیں جو اس حق کو ادا نہیں کر رہے سوائے دو چار ملکوں کے۔ اگر یہ ادا کرنے لگ جائیں تو مسلمان ملکوں کی کایا پلٹ جائے۔
لوگوں میں محنت کرنے کی بھی عادت پیدا ہو جائے اور جو فرسٹریشن (frustration) ہے لوگوں میں، بےچینیاں ہیں، ہڑتالیں ہیں، شکوے ہیں، حکومتوں کے خلاف نعرے بازیاں ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں۔ بہرحال اب تو حکومتیں نقل کررہی ہیں۔ بیمے کیے جاتے ہیں۔ فیملی پنشن وغیرہ کے لیے بیمے کر لو۔ جوانی اور بڑھاپے دونوں میں خوراک اور لباس کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے۔ آجکل جو یہ سوشل ہیلپ مل رہی ہے۔ یہ اصول اسلام سے پہلے کسی مذہب نے پیش نہیں کیا۔
دنیاوی حکومتوں کی مردم شماریاں اس لیے ہوتی ہیں تا ٹیکس لیے جائیں یا فوجی بھرتی کے متعلق یہ معلوم کیا جائے کہ ضرورت کے وقت کتنے نوجوان مل سکتے ہیں۔ مردم شماری سے ایک یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ کتنی آبادی ہوگئی، ساتھ یہ کہ کتنے لوگ کس قسم کے کام کر رہے ہیں، اتنا ٹیکس بھی آ رہا ہے کہ نہیں۔ کتنی آمد ہو رہی ہے۔ پھر یہ کہ فوجی ضرورت کے لیے یا حکومت کی ضرورت کے لیے کتنے لوگوں کو لیا جا سکتا ہے مگر حضرت عمر نے کیا کیا تھا۔ اسلامی حکومت نے سب سے پہلی مردم شماری جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں کروائی گئی تھی وہ اس لیے کروائی گئی تھی تا کہ تمام لوگوں کو کھانا اور کپڑا مہیا کیا جائے یہ نہیں کہ ان سے کچھ لینا ہے۔ اس لیے تھا کہ ان کو کچھ دینا ہے۔ اس لیے نہیں کہ ٹیکس لگایا جائے یا یہ معلوم کیا جائے کہ ضرورت کے وقت فوج کے لیے کتنے نوجوان مل سکتے ہیں بلکہ وہ مردم شماری محض اس لیے تھی کہ تا ہر فرد کو کھانا اور کپڑا مہیا کیا جائے۔
جو مردم شماری اسلامی حکومت کے زمانے میں سب سے پہلے ہوئی وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوئی اور اس مقصد کے لیے اور اس لیے ہو ئی تا کہ ہر فرد کو کھانا اور کپڑا مہیا کیا جائے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میںبھی مردم شماری ہوئی تھی لیکن وہ اس لیے تا کہ پتہ لگے مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے اور اس کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔ لیکن اس حوالے سے کہ کھانا اور کپڑا مہیا کیا جائے یہ مردم شماری حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوئی۔ یہ کتنی بڑی اہم چیز ہے جس سے تمام دنیا میں امن قائم ہو جاتا ہے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ درخواست دے دو اس پر غور کیا جائے گا اسے ہر انسان کی غیرت برداشت نہیں کر سکتی۔ اس لیے اسلام نے یہ اصول مقرر کیا ہے کہ کھانا اور کپڑا حکومت کے ذمے ہے اور یہ ہر امیر اور غریب کو دیاجائے گا۔ بلکہ حضرت مصلح موعودؓ تو لکھتے ہیں خواہ وہ کروڑ پتی ہی کیوں نہ ہو اسے بھی دیا جائے گا۔ خواہ وہ آگے کسی اَور ہی کو نہ دے دے تا کہ کسی کو یہ محسوس نہ ہو کہ اسے ادنی خیال کیا جاتا ہے۔
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ 308)
یہاں بھی غریبوں کے جذبات کا احساس کیا گیا ہے، خیال رکھا گیا ہے۔ امیروں کو تو اصولاً دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان سے تو ان کی آمد پر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے تا کہ حکومت کے مصارف پر خرچ ہو اور غریبوں پر خرچ ہو لیکن کیونکہ یہاں غریبوں کے جذبات کا تعلق ہے اس لیے امیروں کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیا گیا کہ ان کو بھی دیا جائے۔ پس
محتاجوں، ضرورتمندوں اور مسکینوں کی ضروریات پوری کرنا اور ان کے حق ادا کرنے کا حکم اسلام نے بھی تفصیل سے بیان کیا ہے اور اسلام نے ہی اس تفصیل سے بیان کیا ہے اور بےغرض ہو کر یہ حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور جس سوچ کو دماغ میں پیدا کر کے اس فرض کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہی سوچ ہے جو دنیا کے امن اور سلامتی کی بھی ضمانت ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’نیکی ایک زینہ ہے اسلام اور خدا کی طرف چڑھنے کا لیکن یاد رکھو کہ نیکی کیا چیز ہے۔ شیطان ہر ایک راہ میں لوگوں کی راہ زنی کرتا اور ان کو راہ حق سے بہکاتا ہے۔ مثلاً رات کو روٹی زیادہ پک گئی اور صبح کو باسی بچ رہی۔ عین کھانے کے وقت کہ اس کے سامنے اچھے اچھے کھانے رکھے ہیں۔ ابھی ایک لقمہ نہیں لیا کہ دروازہ پر آ کر فقیر نے صدا کی اور روٹی مانگی۔کہا کہ باسی روٹی سائل کو دے دو۔‘‘ اپنے سامنے اچھا تازہ کھانا پکا پڑاہے لیکن یہ پتہ ہے کہ رات کی باسی بچی ہوئی روٹی ہے تو بڑا حوصلہ دکھایا گھر والے نے، اس نے کہا یہ باسی روٹی جو کل کی پڑی ہوئی تھی۔ وہ جو مانگنے والا ہے اس کو دے دو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’کیا یہ نیکی ہو گی؟ باسی روٹی تو پڑی ہی رہنی تھی۔ تنعم پسند اسے کیوں کھانے لگے؟‘‘ جس کو اچھی اچھی نعمتیں مل رہی ہیں۔کھانا کھانے کو مل رہا ہے۔ اس کو کیا ضرور ت ہے باسی روٹی کھانے کی۔ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(الدھر:9)۔ یہ بھی معلوم رہے کہ طعام کہتے ہی پسندیدہ طعام کو ہیں۔‘‘ طعام عربی میں اسی کو کہتے ہیں جو کھانا اچھا، عمدہ، اعلیٰ ہو، پسندیدہ ہو۔ ’’سڑا ہوا باسی طعام نہیں کہلاتا۔‘‘ سڑا ہوا کھانا جو باسی ہو گیا اس کو طعام نہیں کہتے۔ ’’الغرض اس رکابی میں سے جس میں ابھی تازہ کھانا اور لذیذ اور پسندیدہ رکھا ہوا ہے۔ کھانا شروع نہیں کیا فقیر کی صدا پر نکال دے۔‘‘ اگر اپنا تازہ کھانا دے دیا ’’تو یہ تو نیکی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 1صفحہ 75 ایڈیشن 1984ء) باسی کھانا دینا نیکی نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود غریبوں اور ضرورتمندوں کے ساتھ کس طرح سلوک فرمایا کرتے تھے
اس بارے میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ بعض اوقات دوا درمل پوچھنے والی، دوائیاں وغیرہ پوچھنے والی گنوار عورتیں زور سے دستک دیتیں اور پنجابی میں اپنی سادہ اور گنواری زبان میں کہتی تھیںکہ مرزا جی ذرا بوا کھولو۔ مرزا صاحب دروازہ کھولیں۔ حضرت صاحب اس طرح اٹھتے جیسے مطاع ذی شان کا حکم آیا ہے۔ اس طرح فوراً اٹھ کر دروازہ اس طرح کھولتے تھے جیسے کسی حکمران نے کہا ہے کہ دروازہ کھولو اور کشادہ پیشانی سے باتیں کرتے اور دوا بتاتے ہیں۔ اس کی بات سنتے۔ اس کو دوائی بتاتے۔ مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں وقت کی قدر پڑھی ہوئی جماعت کو بھی نہیں ہے تو پھر گنوار تو اور بھی زیادہ وقت ضائع کرنے والے ہوئےہیں۔ پڑھے لوگ وقت کا احساس نہیں کرتے تو گنواروں نے کیا کرنا ہے۔
ایک عورت بے معنی بات چیت کرنے لگ گئی اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نند کا گلہ کرنا شروع کر دیا اور گھنٹہ بھر اسی میں ضائع کر دیا لیکن آپؑ وقار اور تحمل سے بیٹھے سن رہے ہیں۔ زبان سے یا اشارے سے بھی اس کو نہیں کہتے کہ بس اب جاؤ۔ اب پوچھ لیا ہے اب کیا کام ہے ہمارا وقت ضائع نہ کرو لیکن وہ خود ہی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی ہے جب دیر ہو گئی اور مکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی ہے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ بہت سی گنواری عورتیں بچوں کو لے کر دکھانے آئیں۔ علاج کی غرض سے۔ اتنے میں اندر سے بھی چند خدمت گار عورتیں شربت شیرہ کے برتن ہاتھوں میں لیے آگئیں۔ اندر گھر میں بھی آئی ہوں گی۔انہوں نے بھی بھیجا کہ جا کے ہمارے لیے دوائیاں لے آؤ۔ وہ بھی اٹھا کے لے آئیں اپنی شیشیاں۔ اس وقت آپ کو دینی ضرورت کے لیے ایک بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھنا تھا۔ مولوی صاحب کہتے ہیں میں بھی اتفاقاً جا نکلا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت کمر بستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے کوئی یورپین اپنی دنیاوی ڈیوٹی پر چست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں اور کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا اور ہسپتال جاری رہا۔ فراغت کے بعد میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ اللہ اللہ کس شان اور طمانیت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے جواب دیا کہ یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے۔ یہ مسکین لوگ ہیں۔ یہاں کوئی ہسپتال نہیں۔ میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا کر رکھتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں۔ اور فرمایا یہ بڑا ثواب کا کام ہے۔ مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پرواہ نہیں ہونا چاہیے۔
(ماخوذ از سیرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ صفحہ 35-36)
آپ کی سیرت میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ’’شام کا وقت تھا بعد نماز مغرب مختلف بلاد سے‘‘ مختلف شہروں سے ’’جو لوگ زیارت اور بیعت سے شرف یاب ہونے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ مثل پروانہ حضرت پر گر رہے تھے۔‘‘ ایک دوسرے پر گر رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب قریب ہوں۔ ’’اکثر حصہ ان میں سے دیہات والوں کا تھا۔ جگہ کی تنگی اور مرد مان کی کثرت دیکھ کر بعض نے کہا کہ لوگو پیچھے ہٹ جاؤ۔‘‘ جگہ تھوڑی تھی لیکن بےشمار لوگ تھے تو کسی نے اعلان کیا کہ مرد پیچھے ہٹ جائیں ’’حضرت جی کو تکلیف ہوتی ہے‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تکلیف ہوتی ہے ذرا پیچھے ہٹ جاؤ۔ ’’اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ کس کو کہا جاوے کہ تم پیچھے ہٹو۔ جو آتا ہے اخلاص اور محبت لے کر آتا ہے۔ سینکڑوں کوس کے سفر کر کے یہ لوگ آتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ کوئی دم صحبت حاصل ہو اور‘‘ کچھ وقت صحبت حاصل ہو ان کو ملاقات میسر ہو۔ ’’انہیں کی خاطر خدا تعالیٰ نے سفارش کی ہے اور فرمایا ہے۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے انہی لوگوں کی وجہ سے تو کہا تھا الہاماً کہ ’’وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ۔ یہ صرف غریبوں کے حق میں ہے‘‘ آپؑ نے فرمایا کہ یہ غریبوں کے حق میں ہے ’’کہ جن کے کپڑے میلے ہوتے ہیں‘‘ کہ ان سے تھکنا نہیں اور کپڑے میلے ہوتے ہیں ’’اور ان کو چنداں علم بھی نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ کا فضل ہی ان کی دستگیری کرتا ہے کیونکہ امیر لوگ تو عام مجلسوں میں خود ہی پوچھے جاتے ہیں اور ہر ایک ان سے بااخلاق پیش آتا ہے۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے غریبوں کی سفارش کی ہے جو بیچارے گمنام زندگی بسر کرتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 7صفحہ 91۔ایڈیشن 1984ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں۔ خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے یہ ایک قسم کی تحقیر ہے جس کے اندر حقارت ہے۔ ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاوے۔
بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے۔ اس کی دلجوئی کرے۔ اس کی بات کی عزت کرے۔ کوئی چِڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 1صفحہ 36۔ایڈیشن 1984ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور ان کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ ایسا ہر گز نہیں چاہئے بلکہ اجماع میں چاہئے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 3صفحہ 347۔ایڈیشن 1984ء)
پھر آپؑ نے فرمایا:’’اب تم میں ایک نئی برادری اور نئی اخوت قائم ہوئی ہے۔ پچھلے سلسلے منقطع ہوگئےہیں۔
خدا تعالیٰ نے یہ نئی قوم بنائی ہے جس میں امیر غریب بچے جوان بوڑھے ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ پس غریبوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے معزز بھائیوں کی قدر کریں اور عزت کریں اور امیروں کا فرض ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کریں۔ ان کو فقیر اور ذلیل نہ سمجھیں کیونکہ وہ بھی بھائی ہیں گو باپ جدا جدا ہوں مگر آخر تم سب کا روحانی باپ ایک ہی ہے اور وہ ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 3صفحہ 349۔ایڈیشن 1984ء)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:
’’غرباء نے دین کا بہت بڑا حصہ لیا ہے۔ بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے امراء محروم رہ جاتے ہیں۔
وہ پہلے تو فسق وفجور اور ظلم میں مبتلا ہوتے ہیں اور اسکے مقابلہ میں صلاحیت تقوی اور نیاز مندی غرباء کے حصہ میں ہوتی ہے۔ پس غرباء کے گروہ کو بدقسمت خیال نہیں کرنا چاہئے بلکہ سعادت اور خدا تعالیٰ کے فضل کا بہت بڑا حصہ اس کو ملتا ہے۔ یادر کھو حقوق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک حقُّ اللّٰہ دوسرے حقُّ العباد۔حق اللہ میں بھی امراء کو دقت پیش آتی ہے۔ اور تکبر اور خود پسندی ان کو محروم کر دیتی ہے۔ مثلاً نماز کے وقت ایک غریب کے پاس کھڑا ہونا برا معلوم ہوتا ہے۔ ان کو اپنے پاس بٹھا نہیں سکتے اور اس طرح پر وہ حق اللہ سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ مساجد تو دراصل بیت المساکین ہوتی ہیں اور وہ ان میں جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔‘‘ اب سنا ہے بعض جگہوں میں بادشاہوں میں، عربوں میں یہ بھی رواج ہے کہ ان کے ایک مسجد میں ہونے کے باوجود ان کے لیے علیحدہ جگہ ہوتی ہے۔ تو یہ فرق نہیں ہونا چاہیے۔ فرمایا ’’اور اسی طرح وہ حق العباد میں خاص خاص خدمتوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔ غریب آدمی تو ہر ایک قسم کی خدمت کے لیے تیار رہتا ہے۔ وہ پاؤں دبا سکتا ہے۔ پانی لا سکتا ہے۔ کپڑے دھو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس کو نجاست پھینکنے کا مو قعہ ملے تو اس میں بھی اسے دریغ نہیں ہوتا لیکن امراء ایسے کا موں میں ننگ وعار سمجھتے ہیں اور اس طرح پر اس سے بھی محروم رہتے ہیں۔ غرض
امارت بھی بہت سی نیکیوں کے حاصل کرنے سے روک دیتی ہے یہی وجہ ہے جو حدیث میں آیا ہے کہ مساکین پانچ سو برس اوّل جنت میں جائینگے۔‘‘
(ملفوظات جلد 6صفحہ 52-53۔ایڈیشن 1984ء)
جو نیکیاں کرنے والے مساکین ہیں وہ پانچ سو برس پہلے جنت میں جائیں گے یعنی بعض دفعہ بعض نیکیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو بے حساب جانے دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہر قسم کے تکبر سے پاک ہو کر غریبوں اور مسکینوں اور محتاجوں کے حق ادا کرنے والے ہوں اور ہر جگہ جماعت میں ایک ایسا معاشرہ نظر آئے، ہر ملک میں ایک ایسا معاشرہ نظر آئے جس میں حقیقی اسلامی تعلیم کا نمونہ نظر آتا ہو۔
دعاؤں میں محتاجوں اور غریبوں کو یاد رکھیں۔
اسیران کو یاد رکھیں۔ شہداء کے خاندانوں کو یاد رکھیں۔
اب ہم دعا کریں گے۔ اس میں اپنے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان و ایقان میں بڑھاتا چلا جائے اور جن جگہوں پر جن ملکوں میں احمدیوں پر ظلم ہو رہے ہیں، ظلموں کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں ان کو ظلموں سے اللہ تعالیٰ نجات دے۔ جن کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرمائے کہ وہ اپنے حق حاصل کرنے والے ہوں۔
عامة المسلمین کے لیے بھی دعا کریں۔ دنیا کی تباہی سے بچنے کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ سب دنیا پر اپنا رحم اور فضل فرمائے اور یہ خدائے واحد کو پہچاننے والے بن جائیں۔
اب دعا کر لیتے ہیں۔ دعا کر لیں۔
٭٭دعا٭٭
(دعا کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ نے فرمایا) اللہ تعالیٰ آپ سب کو خیریت سے اپنے اپنے گھروں میں لے کر جائے۔ یہ حاضری کی رپورٹ بھی سن لیں۔ ٹوٹل حاضری جو ان کی تعداد کے مطابق ہے 41 ہزار 654ہے۔ 118 ملکوں کی نمائندگی ہے اور پچھلے سال تو کم تھی۔ 2019ء میں سب سے زیادہ انتالیس ہزار آٹھ سو انتیس حاضری تھی اس سے تقریباً دو ہزار زیادہ ہے۔
اس دفعہ لائیو سٹریمنگ (live streaming) بھی ہو رہی تھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کل 65ممالک میں لائیو سٹریمنگ ہو رہی تھی اور 95 مقامات میں یہ جلسہ اس طرح دیکھا سنا جا رہا تھا کہ دونوں طرف سے ہمارا رابطہ تھا۔ وہ ہمیں دیکھ رہے تھے ہم انہیں دیکھ رہے تھے۔
٭…٭…٭
الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍ تا ۲۷؍ جولائی ۲۰۲۴ء (سالانہ نمبر)