جلسہ گاہ
آپ سب کو جلسہ سالانہ مبارک ہو۔ احمدنے دادی جان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
دادی جان:آپ سب کو بھی جلسہ سالانہ مبارک ہو۔
محمود: بھائی!آج امی جان نے آلو گوشت بنایا ہے۔ جو ابو جان اور آپ کو بہت پسند ہے۔
احمد: واہ آج تو جلسے کا مزا گھر پر ہی آ جائے گا۔
گڑیا: دادی جان مجھے تو لگتا ہے کہ جلسہ سالانہ میں ہر سال زیادہ سے زیادہ لوگ شامل ہوتے ہیں۔
دادی جان: ایسا ہی ہے بچو۔ ابھی آپ نے حاضری بھی تو سنی ہے۔ دیکھیں کتنے زیادہ لوگ شامل ہوئے ہیں۔
محمود: دادی جان پہلے جلسے میں کتنے لوگ شامل ہوئے تھے؟
دادی جان: اس سوال کا جواب تو احمد میاں دیں گے۔
احمد: جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ 1891ء میں قادیان میں ہوا تھا۔ جس میں پَچہَتّر(75)لوگ شامل ہوئے تھے۔
دادی جان: شاباش۔ احمد میاں آپ تو لگتا ہے اس بار دینی معلومات میں پہلی پوزیشن لو گے۔ خوب تیاری ہو رہی ہے آپ کی تو۔
احمد: ان شاء اللہ دادی جان۔
محمود کا ذہن ابھی تک جلسے میں اٹکا ہوا تھا۔ اس نے سوال کیا کہ دادی جان جلسہ گاہ تو بھرا ہوا تھا۔ اگر اور زیادہ لوگ آجاتے تو کیا ہوتا؟
دادی جان: جلسہ سالانہ کی انتظامیہ ہر سال پہلے سے بڑھ کر جلسے پر انتظام کرتی ہے اور زیادہ لوگوں کی گنجائش رکھی بھی جاتی ہے۔
دادی جان کیا کبھی ایسا ہوا کہ جلسہ سالانہ پر امید سے زیادہ لوگ آگئے ہوں اور جلسہ گاہ چھوٹی پڑ گئی ہو۔ احمدنے محمود کے سوال کو آگے بڑھایا
دادی جان: جی ہاں ایک بار ایسا ہوا تھا۔ غالباً 1927ء کے جلسہ سالانہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت کے سامنے کے میدان میں سٹیج کے اردگرد ایک چھوٹی سی جگہ میں جلسہ گاہ تیار کی گئی تھی۔ پہلے دن ہی حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ جلسہ گاہ تنگ ہے۔ شاید ناراضگی کے رنگ میں فرمایا تھا۔ اسی سال مدرسہ احمدیہ قادیان میں بوائے سکاؤٹس کی انجمن کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس کلب یا انجمن کے نگران اعلیٰ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ تھے۔ ان احمدی بوائے سکاؤٹس کو رفاہ عامہ اور خدمت خلق کے سلسلہ میں قادیان میں بہت سی خدمات بجالانے کی توفیق ملی۔ سب سے اہم ترین کارنامہ جلسہ گاہ کو ایک رات کے اندر تین اطراف سے وسیع کرنا تھا۔
آپ کو معلوم ہے کہ جلسہ گاہ کی تیاری کئی دن پہلے شروع ہو جاتی ہے۔ مارکی لگائی جاتی ہے۔ پانی بجلی کا انتظام، اس کی سجاوٹ، سٹیج کی تیاری، بیٹھنے کا انتظام، کرسیاں لگانا۔ کئی کام ہوتے ہیں۔
احمد: جی ہاں۔ میں نے ایک مہینہ پہلے جلسہ کے کام کے آغازکی ویڈیو دیکھی تھی۔
دادی جان: جی ہاں۔ اب تو مشینیں وغیرہ ہیں۔ لیکن اس زمانہ میں سب کام ہاتھ سے ہوتے تھے۔ آپ کو معلوم ہے ناں قادیان میں جلسہ بھی دسمبرمیں ہوتا ہے جب وہاں شدید سردی اور دھند ہوتی ہے۔ جلسہ گاہ کو وسیع کرنا ایک مشکل کام لگ رہا تھا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ رات بھر شدید سردی اور اندھیرے میں کم و بیش پون میل کے فاصلہ سے شہتیریاں اپنے کندھوں پر اٹھا کر لاتے رہے پھر خود سیڑھیاں بنائیں اور اس پر شہتیریاں رکھ کر راتوں رات جلسہ گاہ میں تین اطراف سے توسیع کر دی۔
گڑیا: دادی جان ایک رات میں ؟
دادی جان: جی ہاں یہ کام کم از کم ایک ہفتے کا تھا۔ سکاؤٹس کے جوش و جذبہ اور جانفشانی اور اخلاص کو محسوس کرکے جلسہ کے دوسرے روز کی تقریر میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور تمام کارکنان کے لیے خاص دعا کی اور افسر جلسہ سالانہ حضرت سید میر محمد اسحاق صاحبؓ کو ارشاد فرمایا کہ اُن کی طرف سے یاد گار کے طور پر ہر ایک سکاؤٹ کو نقرئی تمغہ سے نوازا جائے۔ (ماخوذاز روزنامہ الفضل ربوہ 22 و 29 جولائی 2009ء)
محمود: نقرئی کیا ہوتا ہے؟
دادی جان: نقرئی یعنی چاندی کا جسے سلور میڈل بھی کہتے ہیں۔
محمود: مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا۔ لیکن میرا ابھی ایک اور بھی سوال ہے۔ ابھی تو مجھے معلوم ہے لوگ رات کو کہاں رہتے ہیں لیکن ربوہ اور قادیان میں لوگ کہاں اور کیسے رہتے تھے؟
دادی جان: ربوہ اور قادیان میں اکثر لوگ تو لنگر خانے، مہمان خانوں یعنی گیسٹ ہاؤسز میں رہا کرتے تھے۔ اور بہت سے لوگوں کے عزیز بھی ربوہ میں رہتے ہیں۔ تو وہ اپنے رشتہ داروں کے گھر رہتے تھے۔ ایک بار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس بارہ میں فرمایا تھا کہ ’’ربوہ میں جب جلسہ سالانہ ہوتا تھا تو ربوہ کے مکین اپنے گھروں کے آرام کو مہمانوں کے آرام کی خاطر قربان کر دیا کرتے تھے۔ جماعت کو اپنے گھر پیش کر دیتے تھے کہ ان کے مہمان اس میں ٹھہرائے جائیں۔ باوجودیکہ لنگر ہمیشہ جاری رہتا تھا، یہ خاص طور پرجلسے کے آٹھ دس دنوں میں بعض بوجھ اٹھا کر بھی کھانے پینے کی مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔‘‘(خطبہ جمعہ 22؍ اگست 2014ء)
احمد: دادی جان جو لوگ گھروں میں رہتے تھے ان کےکھانے کا انتظام ہوتا تھا؟
دادی جان: قادیان اور ربوہ کے لوگوں کو بھی سارا سال جلسے کا انتظار رہتا تھا۔ وہ جلسے سے پہلے اپنے گھر کی صفائی کرتے، رنگ و روغن کرتے، مرمتیں کرواتے۔ اپنے گھر کا سامان ایک جگہ اکٹھا کر دیتے اور مہمانوں کے لیے کمروں میں چارپائیاں لگا دی جاتیں۔ بزرگ تو چارپائیوں پر سو لیتے اور جوان اور بچوں کو زمین پر گدے یعنی میٹریس بچھا دیے جاتے تھے۔ ان کے کھانے کا انتظام لنگر خانے کے سپرد ہوتا تھا۔ لیکن جن گھروں میں زائد مہمان آجاتے تو وہ بجائے جماعت پر بوجھ ڈالنے کے ان کے کھانے کا انتظام کرتے۔ اور کئی ممالک میں یہ طریقہ اب تک رائج ہے۔ یوں جلسہ گاہ کے مقامی احمدی حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی مہمان نوازی کا حق ادا کرتے ہیں۔
گڑیا: دادی جان آپ نے بتایا کہ دسمبرمیں جلسہ ہوتا تھا۔ لیکن قادیان کے جلسہ میں مَیں نے دیکھا تھا کہ وہاں تو مارکی نہیں ہوتی۔ تووہ سردی میں بیٹھتےہیں؟
دادی جان: جی ہاں۔ یہاں تو مارکی کا انتظام ہوتا ہے۔ یا بڑے بڑے ہالز میں جلسے ہوتے ہیں۔ جہاں سردی گرمی کا پتہ نہیں چلتا۔ ایک بار کسی نے مارکیز میں گرمی کی شکایت کی تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ ’’ربوہ میں جو جلسے ہوتے تھے یا قادیان میں ابھی بھی ہوتے ہیں تو سردیوں میں کھلے میں بیٹھ کر اور بعض دفعہ بارش میں بھی لوگ جلسہ سنتے ہیں اور سردی بھی برداشت کرتے ہیں۔ پس اگر شامل ہونے والوں کو ایسی چھوٹی موٹی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں، گرمی برداشت کرنی پڑے تو برداشت کرنی چاہئے‘‘۔(خطبہ جمعہ 12؍ اگست 2016ء)
دادی جان محمود کی جانب مڑتے ہوئے بولیں:تو محمود میاں کو کیا سمجھ لگی آج؟
محمود: یہی کہ مہمان نوازی کرنی ہے اور ہر سال جلسہ گاہ وسیع ہوتی چلی جائے گی۔
دادی جان اور سب بچے مل کر بولے: ان شاء اللہ
٭… ٭… ٭… ٭… ٭