مہمان نوازی ایک مومن کا طرّہ امتیاز ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ مہمان نوازی ایک تو ویسے بھی ایک مومن کا طرّہ امتیاز ہے۔ اور جو مہمان خالص دینی غرض سے آ رہے ہوں اور جن کو زمانہ کے امام نے اپنا مہمان کہا ہو، ان کی مہمان نوازی تو خاص طورپربہت برکتیں لئے ہوئے ہے اور اس وجہ سے خاص توجہ چاہتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان جیسا کہ مَیں نے کہا دینی غرض کے لئے آتے ہیں۔ اور دینی غرض کیا ہے؟ کہ آنحضرتﷺ پر نازل ہوئے ہوئے دین کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کر کے اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کریں اور خدا تعالیٰ کا مقرّب بننے کی کوشش کریں۔ آنحضرتﷺ اس غرض کے لئے آئے ہوئے مہمانوں کی مہمان نوازی کس طرح فرمایا کرتے تھے؟ اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ مہمان آگیا تو آنحضرتﷺ اپنے گھر میں پیغام بھیجتے ہیں، اپنی ہر بیوی کے گھر پیغامبر کو بھجواتے ہیں کہ آج میرا مہمان آ گیا ہے، اس کے کھانے کا بندوبست کرو۔ لیکن ہر بیوی کے گھر سے جواب ملتا ہے کہ آج تو ہمارا صرف پانی پر گزارا ہے، کھانے کی کوئی چیز نہیں۔ اب دیکھیں یہاں، آپؐ کی بیویوں کے بھی صبر اور شکر کے انتہائی مقام کا پتہ چلتا ہے۔ آپﷺ کی قوتِ قدسی کی وجہ سے کوئی واویلا نہیں۔ کوئی ہلکا سا احساس بھی نہیں دلایا جا رہا کہ آپ کے گھر والے بھوکے ہیں۔ گویا اس حالت کا بھی پتہ چلتا ہے تو مہمان کے آنے کی وجہ سے پتہ چل رہا ہے۔ تو بہر حال اس مہمان کو پھر ایک صحابی رسولﷺ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، اور وہ بھی کوئی امیر آدمی نہیں ہیں۔ ان کے گھر میں بھی صرف بچوں کے لئے خوراک ہے۔ وہ بچوں کو تو کسی طرح سلا دیتے ہیں، اور کھانا مہمان کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اور خود چراغ بجھا کر اندھیرے میں اس طرح ظاہر کرتے ہیں، منہ چلا رہے ہیں، تاکہ مہمان کو بھی پتہ نہ چلے کہ وہ گھر والے بھی ساتھ کھانا کھا رہے ہیں کہ نہیں؟ اس کو احساس نہ ہو کہ گھر والے میرے ساتھ کیوں شامل نہیں ہو رہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی دیکھیں اپنے بندوں کے اس فعل پر کس طرح پڑتی ہے؟ کہ اس کی خبر اللہ تعالیٰ اپنے پیارے رسولﷺ کو دیتا ہے کہ اس مومن مرد اور مومن عورت کے عمل نے رات مجھے ہنسا دیا اور جس مومن کے فعل سے اللہ تعالیٰ خوش ہو جائے اس کو تو دونوں جہان کی نعمتیں مل گئیں۔ اس کے لئے ایک وقت کے کھانے کی قربانی کی کیا حیثیت ہے۔
کبھی ہم آنحضرتﷺ کی مہمان نوازی کا یہ انداز بھی دیکھتے ہیں کہ ایک یہودی جو بستر گندا کر کے چلا جاتا ہے، تو آپؐ خود اس کی صفائی کر رہے ہیں اور صحابہؓ کے کہنے پر کہ اے ہمارے پیارے! ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ہمیں یہ کام کرنے دیں، تو آپؐ کہتے ہیں: نہیں، وہ مہمان میرا تھا اس لئے مَیں یہ کام خود کر رہا ہوں۔ پس مجھے یہ کام کرنے دو۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ 370، 371)‘‘ (خطبہ جمعہ 23؍ جولائی 2010ء)