خلفائے راشدین کے زمانے میں قیامِ امن کی کاوشیں
ذوالقعدہ چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع پر کفارِمکہ اور مسلمانوں کے مابین عہد نامہ لکھا جارہا تھا۔اس سے قبل تقریباً 18 سال تک مسلمانوں پر برابرظلم اور قریش کی طرف سے بد امنی کا سلسلہ جاری رہا تھا لیکن اب اس صلح نامہ کے ذریعہ قیام ِامن کی ایک نئی امید پیدا ہوگئی تھی۔گو بظاہر یہ معاہدہ مسلمانوں کے خلاف اور قریش کے حق میں دکھائی دےرہا تھا اور وہ غیر منصفانہ شرائط پر جو قریش کی طرف سے صلح کے لیے عائد کی گئی تھیں مسلمانوں میں اضطراب کی حالت بھی پیدا کررہی تھیں۔لیکن خدائی وعدوں کے مطابق رسول کریمﷺ جانتے تھے کہ یہ صلح ایک فتح عظیم کی بنیاد بننے والی ہے اورامن و امان کا یہ اقرارنامہ ہی بالآخر مسلمانوں کی ترقی کا باعث بنے گا۔چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس معاہدہ کے 2 سال بعد ہی مسلمانوں نے مکہ فتح کرلیا۔اس معاہدہ کی دو نقلیں تیار کی گئیں۔قریش کی طرف سے اس عہد کے لیے سہیل بن عمرو حاضر تھے۔متعدد گواہان کے دستخط بھی اس میں شامل کیے گئےجن میں حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور چند دیگر اصحابؓ شامل تھے۔ اور حضرت علیؓ نے آپﷺ کے حکم کے مطابق یہ معاہدہ تحریر کیا تھا۔گویا امن و صلح کے قیام کے لیے خلفائے راشدین کی کوششیں اس اول دَور سے ہی شروع ہوجاتی ہیں کیونکہ صلح کے اس معاہدے میں چاروں خلفائے راشدین کے نام نمایاں نظر آتے ہیں۔ان پاک وجودوں نے قرآن کریم کی تعلیم اور نبی کریمﷺ کی سنت کو ہمیشہ اپنی زندگیوں کا حصہ بنائے رکھااور اپنے اپنے زمانوں میں قیامِ امن کی کاوشوں کو جاری رکھا۔انہوں نے اپنے ادوارِ خلافت میں قرآن کریم کی اس آیت کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھا۔وَاِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔(النساء:59)اور اس قرآنی آیت کےساتھ ساتھ آنحضرتﷺ کے اس حکم کو بھی اپنے سامنے رکھا۔أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ (صحیح بخاری کتاب الاحکام باب قول اللّٰہ تعالیٰ اطیعوااللّٰہ و اطیعواالرسول، حدیث نمبر 7138) آگاہ ہو جاؤ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس امام لوگوں پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔
قیامِ امن کی خاطر جنگیں
اس عنوان کو پڑھتے ہوئےعموماً پہلا سوال جو دل میں پیدا ہوتاہے وہ یہ ہے کہ امن کی کاوش تو درست ہے لیکن خلفائے راشدین کے اس تیس سالہ دور کے دوران تو دیگر اقوام کے ساتھ کئی جنگیں بھی کی گئیں اور مختلف علاقوں پر مسلمانوں نے قبضہ بھی حاصل کیا تو کیا یہ امر خلافت راشدہ کی طرف سے کی جانے والی امن کی کاوشوں کے دعوے کو متاثر نہیں کرتا؟ اس حوالے سے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جنگیں اس زمانہ سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ یہ دفاعی جنگیں آنحضرتﷺ کے دور سے ہی شروع ہوچکی تھیں جو اس وقت معاشرے کےفساد اور فتنوں کو مٹانے کے لیےاور امن اور مذہبی آزادی کے قیام کی خاطر لڑی گئی تھیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ اسلام میں جبر کو دخل نہیں۔ اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں (۱) دفاعی طور پر یعنی بطریق حفاظت خود اختیاری۔ (۲) بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون۔ (۳) بطور آزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے‘‘۔(مسیح ہندستان میں، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 12)
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ جنگیں محض دفاعی تھیں تو مسلمان اپنی سرحدو ں سے نکل کر دوسرے ملکوں پر کیوں قابض ہوئے؟اس حوالہ سے بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جنگوں کے دوران اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے کسی قدر پھیلاؤ بھی دفاع کا ہی ایک حصہ ہوا کرتا ہے تاکہ دشمن دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ کرے۔آج کل کی جنگوں میں بھی یہی طریق اپنایا جاتا ہےلیکن موجودہ دنیاوی جنگوں میں یہی پھیلاؤ بسا اوقات ناجائزمفادات کی خاطر بھی کیا جاتا ہےجس میں عام عوام کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے،اور کئی معصوم بچوں اور عورتوں کو بے دریغ قتل کردیا جاتا ہے۔اسلامی تعلیم اس کے برعکس جنگ کی حالت میں بھی مسلمانوں کے لیے کئی شرائط و آداب مقرر کرتی ہےجن کی وضاحت رسول کریمﷺ اپنے اصحابؓ کو وقتاًفوقتاً فرماتے رہتے تھے۔چنانچہ اس کی یاددہانی خلفائے راشدین کے زمانہ کی جنگوں میں بھی کی جاتی رہی۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنے دور ِخلافت میں یزید بن ابو سفیان کی سرکردگی میں شام کی جانب لشکر بھیجا تو انہیں نصیحت فرمائی کہ کسی عورت، بچے یا بوڑھے کو قتل نہ کرنا۔ کوئی پھلدار درخت نہ کاٹنا۔ کوئی آباد جگہ ویران نہ کرنا۔ کوئی بکری یا اونٹ سوائے کھانے کی ضرورت کےذبح نہ کرنا۔ کوئی کھجور کا درخت نہ غرقاب کرنا اور نہ ہی اسے جلا کر برباد کرنا۔مالِ غنیمت میں خیانت نہ کرنااور بزدلی اختیار نہ کرنا۔ (تاريخ الخلفاء صفحہ 81مکتبہ نزار مصطفیٰ طبعہ اولیٰ) پس ان شرائط کے ہوتے ہوئے یہ خیال بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ان جنگوں کا مقصد محض مملکت کا پھیلاؤ یا کسی دوسری قوم کے اموال پر قبضہ کرنا تھا۔ کیا آج کل کا کوئی لیڈر جنگ کی صورت میں اپنے کمانڈر یا فوج کو اس قسم کی ہدایات دیتا ہے۔پس اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اسلامی جنگیں بھی جو اس زمانہ میں کرنی پڑیں قیام ِ امن کی ہی کاوشوں کا ایک سلسلہ تھیں اور درحقیقت ان بظاہر جنگ نظر آنے والے معرکوں کے بعد معاشرے میں ایسا امن و امان پیدا ہوگیا جس کی مثال نہیں ملتی۔حضرت عمرؓ کے دور میں جب بالآخر مسلمان ملکِ شام تک آپہنچے تو اس خطہ میں امن کے خیال سے سنت محمدیؐ کے تحت عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ صلح نامے لکھے گئے۔بیت المقدس کے عیسائیوں کے ساتھ بھی مسلمانوں کے امن و امان کے معاہدات ہوئے۔ان معاہدوں میں جان، مال اورعبادت گاہوں کی امان وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔ (تاریخ طبری جزء 3 صفحہ 609دار المعارف مصر طبعہ ثانیہ 1967ء)
یہ معاہدات ہی تھے جو صلح حدیبیہ کی طرح مسلمانوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئےاور مسلمان ترقیات کی منازل طے کرتے چلے گئے اور لوگوں کے دلوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کے ذریعہ اپنی طرف کھینچتے چلے گئے۔ اور جب اسی امن ومحبت کی تعلیم کو مسلمانوں نے بھلا دیا توبالآخر ان کے زوال کا دور شروع ہوگیا۔
وصول ِخراج امن کی ضمانت
مختلف ملکوں میں بالآخر جب مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو وہاں پر بھی امن وامان کا خاص خیال رکھا گیا۔ مقامی لوگوں کو ان کے حقوق دلوائے گئے جوپہلے ان سے جبراً چھینے جاچکے تھے۔جان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ خلفائے راشدین نے اس بات کا بھی خاص خیال رکھا کہ لوگوں کے اموال محفوظ رہیں۔ اسلام سے پہلےمختلف حکمران ٹیکس یا خراج زبردستی رعایا سے وصول کرتے تھے لیکن خلفائے راشدین نے اسلامی تعلیم کے ماتحت اس بارے میں بھی نرم قواعد بنا دیے۔حضرت عمرؓ کےحوالہ سے تو یہاں تک ذکر ملتا ہے کہ آپؓ رعایا کا خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم بہت خیال رکھتے تھے۔ خراج کی وصولی کے وقت باقاعدہ دریافت فرماتے تھے کہ کسی سے کوئی زیادتی تو نہیں ہوئی؟ اسی طرح پارسی یا عیسائی رعایا سے بھی اس بارے میں رائے طلب فرمایا کرتے تھے۔ (ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ198، 202، 207-208 دار الاشاعت کراچی 1991ء)
وصول ِجزیہ کا اصل مقصد حضرت عمر فاروق ؓہی کے عہد خلافت کے ایک مشہور واقعہ سےبالکل واضح ہوجاتا ہے کہ کیسے خلفائے راشدین اور آپ کے مقرر کردہ عمال نے مقبوضہ علاقوں میں خوشحالی اور امن کی فضا قائم فرمادی تھی۔ جب بلادِ شام کے ایک وسیع حصہ پر مسلمان قابض ہوگئے تو وہاں کے بعض لوگوں نے ہرقل کو حمص پر حملہ کرنےپر آمادہ کیا جہاں حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے۔ حضرت ابوعبیدہ ؓکو جب اس لشکر کے آنےکی خبر ملی تو انہوں نے باہم مشورہ کے بعدیہ فیصلہ کیا کہ حمص کو خالی کرکے دمشق کو میدان ِجنگ بنایاجائے۔ شہر چھوڑنے سے پہلے حضرت ابوعبیدہ ؓنے خلیفہ وقت کی اجازت کے ساتھ یہ حکم جاری کیا کہ اب چونکہ ہم یہ علاقہ چھوڑ رہے ہیں اور یہاں کے باشندوں کو دشمنوں سے بچانے کی طاقت نہیں رکھتے اس لیے ان سے جزیہ یا ٹیکس کےنام پرجو کچھ لیا گیا تھا وہ انہیں واپس کردیا جائے۔ چنانچہ ان لوگوں کو ان کی پوری رقوم واپس لوٹادی گئیں جو کئی لاکھ روپیہ پر مشتمل تھیں۔ اس رقم کی واپسی پر اہل شہر بہت متاثرہوئے اور کہا کہ ہم بھی مسلمانوں کی فوج کے ہمراہ دشمن کے خلاف آخری دم تک لڑیں گے۔یہودیوں نے بھی کہا کہ تورات کی قسم ہم جب تک زندہ ہیں ہرقل کی فوج کو شہر میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔اس کے ساتھ اہل حمص نے مسلمانوں کو دعائیں بھی دیں کہ خدا تمہیں دوبارہ فتح عطا کرے اور تمہیں واپس یہاں لائے۔ اور پھر بالآخر جب مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی تو شہر والوں نے خوب جشن منایا اور خوشی کا یہ حال تھا کہ وہ خود اپنے خراج اور جزیہ لے کر حاضر ہوئے کہ اسے ہماری طرف سے قبول فرمالیا جائے۔(ماخوذ از فتوح البلدان جلد:1صفحہ144، الفاروق جلد1صفحہ12۸،12۷)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:’’بادشاہ جب کسی علاقے سے ہٹتے ہیں تو بجائے وصول کردہ ٹیکس وغیرہ واپس کرنے کے ان علاقوں کو اَور بھی لوٹتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب تویہ علاقے دوسرے کے ہاتھ میں جانے والے ہیں ہم یہاں سے جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اٹھا لیں۔ پھر چونکہ انہوں نے وہاں رہنا نہیں ہوتا اس لیے بدنامی کا بھی کوئی خوف ان کو نہیں ہوتا اور اگر کوئی اعلیٰ درجہ کی منظم حکومت ہو تو وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرتی ہے کہ خاموشی سے فوجوں کو پیچھے ہٹا دیتی ہے اور زیادہ لُوٹ مار نہیں کرنے دیتی لیکن اسلامی لشکر نے جو نمونہ دکھایا جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے صرف حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ہی نظر آتا ہے۔ بلکہ افسوس ہے کہ بعد کے زمانہ کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو اس کی کوئی اَور مثال دنیا میں نہیں ملتی کہ کسی فاتح نے کوئی علاقہ چھوڑا ہو تو اس علاقہ کے لوگوں سے وصول کردہ ٹیکس اور جزیے اور مالیے واپس کر دیے ہوں۔ اس کا عیسائیوں پر اتنا اثر ہوا کہ باوجودیکہ ان کی ہم مذہب فوجیں آگے بڑھ رہی تھیں، حملہ آور ان کی اپنی قوم کے جرنیلوں، کرنیلوں اور افسروں پر مشتمل تھے اور سپاہی ان کے بھائی بند تھے اور باوجود اس کے کہ اس جنگ کو عیسائیوں کے لیے مذہبی جنگ بنا دیا گیا تھا اور باوجود اس کے کہ عیسائیوں کا مذہبی مرکز جو ان کے قبضہ سے نکل کر مسلمانوں کے ہاتھ میں جا چکا تھا اب اس کی آزادی کے خواب دیکھے جا رہے تھے۔ عیسائی مرد اور عورتیں گھروں سے باہر نکل نکل کر روتے اور دعائیں کرتے تھے کہ مسلمان پھر واپس آئیں۔‘‘ (خطبات محمود جلد24 صفحہ۱۶۔1۷)
بیت المال کے ذریعے امن کا قیام
معاشرے میں امن و امان کے قیام کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِخلافت میں بیت المال کا اجرا ہوچکا تھاجسے عوام کے ہی فائدہ کے لیے،ان کے امن اور حفاظت کے لیے،ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے، اسی طرح کمزور اور حاجت مندوں کے لیے استعمال میں لایا جاتا تھا۔ تمام خلفاء ہی لوگوں کےاموال کی حفاظت کی فکر رکھتے تھے۔ اس خاص خیال اور حفاظت کے حوالہ سے ایک واقعہ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔حضرت عثمان بن عفانؓ کے ایک خادم بیان کرتے ہیں کہ ایک روز شدید گرمی تھی۔ حضرت عثمانؓ نےعالیہ مقام میں ایک آدمی کو دیکھا جو سخت گرمی میں دو نوجوان اونٹ ہانک کر لے جا رہا تھا۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے فرمایا اس شخص کو کیا ہوا ہے! اگر یہ کچھ موسم ٹھنڈا ہونے کے بعدنکلتا تو اس کے لیے بہتر ہوتا۔ جب وہ شخص قریب آیا تو حضرت عثمانؓ نے مجھ سے فرمایا کہ دیکھو یہ کون ہے؟ میں نے کہا چادر میں لپٹا ہوا کوئی شخص ہے۔ پھر وہ اَور قریب ہوا تو حضرت عثمانؓ نے پھر فرمایا کہ دیکھو تو کون ہے؟ میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر بن خطابؓ تھے۔ میں نے عرض کی کہ یہ تو امیر المومنین ہیں۔ حضرت عثمانؓ کھڑے ہوئے اور دروازے سے سر باہر نکالا لیکن گرمی کی سختی کے باعث آپؓ نے سر اندر کر لیا اورفوراً حضرت عمرؓ کی طرف منہ کر کے عرض کیا۔ آپؓ کس مجبوری کے تحت اس وقت اپنے گھر سے نکلے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا صدقے کے اونٹوں میں سے یہ دو اونٹ پیچھے رہ گئے تھے،میں نے سوچا ان کو واپس لے آؤ ں اورمجھے ڈر تھا کہ یہ دونوں کہیں کھو نہ جائیں۔حضرت عثمانؓ نے کہا اے امیر المومنین! آپؓ سائے میں آجائیں اور پانی پئیں، یہ کام ہمیں کرنے دیں۔ حضرت عمرؓ نے انہیں فرمایا:وہیں اپنے سائے میں بیٹھے رہو۔ حضرت عثمانؓ نے کہا جو کوئی اَلْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ یعنی قوی اور امانت دار کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔(اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد3صفحہ667 عمربن الخطاب مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان2003ء)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:’’جب اسلام مختلف گوشوں میں پہنچا اور مختلف قومیں اسلام میں داخل ہونی شروع ہوئیں توان کے لیے روٹی کا انتظام بڑا مشکل ہو گیا۔ آخر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام لوگوں کی مرد م شماری کرائی اور راشننگ سسٹم (rationing system)قائم کر دیا جو بنو امیہ کے عہد تک جاری رہا۔ یورپین مؤرخ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سب سے پہلی مردم شماری حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کروائی تھی اور وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے یہ سب سے پہلی مردم شماری رعایا سے دولت چھیننے کے لیے نہیں بلکہ ان کی غذا کا انتظام کرنے کے لیے جاری کی تھی۔ اَورحکومتیں تواس لیے مردم شماری کراتی ہیں کہ لوگ قربانی کے بکرے بنیں اور فوجی خدمات بجا لائیں۔ مگر حضرت عمرؓ نے اس لیے مردم شماری نہیں کرائی کہ لوگ قربانی کے بکرے بنیں بلکہ اس لیے کرائی کہ ان کے پیٹ میں روٹی ڈالی جائے، یہ دیکھا جائے کہ کتنے لوگ ہیں اور خوراک کا کتنا انتظام کرنا ہے؟ چنانچہ مردم شماری کے بعد تمام لوگوں کو ایک مقررہ نظام کے ماتحت غذاملتی اور جو باقی ضروریات رہ جاتیں ان کے لیے انہیں ماہوار کچھ رقم دے دی جاتی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 335)
مذہبی رواداری کے ذریعے امن کا قیام
خلفائے راشدین نے اپنے ادوار میں عدل و مساوات کی روح معاشرہ میں پیدا فرمادی تھی۔ان وجودوں نے نہ صرف انسانوں کی برابری قائم کرنے کا حکم دیا بلکہ اپنے نمونے سےاسلام کی خوبصورت تعلیم بھی پیش فرمائی۔غیراقوام ان قابل تقلید نمونوں کو دیکھ کر بے حد متأثر بھی ہوتے تھے۔چنانچہ جب بیت المقدس تک مسلمانوں نے فتح حاصل کرلی تو وہاں کے عیسائی پادریوں نے اسی محبت کی وجہ سے خلیفہ وقت حضرت عمرؓ کی خدمت میں شہر کی چابیاں پیش کیں یہاں تک کہ جب نماز کا وقت ہوا تو انہوں نے یہ بھی اجازت دے دی کہ آپؓ بیشک ہمارے گرجے میں ہی نماز پڑھ لیں لیکن اس پر حضرت عمرؓ نے ان سے شکر گزاری کا اظہار کرتے ہوئے نماز ان کی عبادت گاہ کی بجائے صرف اس بنا پر باہر ادا کی کہ کہیں بعد میں آنے والے مسلمان اس بات کو حجت بنا کرمسیحی معبدوں میں مداخلت نہ کرنا شروع کردیں۔
حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فلسطین فتح ہوا اور جس وقت آپ یروشلم گئے تو یروشلم کے پادریوں نے باہر نکل کر شہر کی کنجیاں آپ کے حوالے کیں اور کہا کہ آپ اب ہمارے بادشاہ ہیں۔ آپ مسجد میں آ کر دو نفل پڑھ لیں تاکہ آپ کو تسلی ہو جائے کہ آپ نے ہماری مقدس جگہ میں جو آپ کی بھی مقدس جگہ ہے نماز پڑھ لی ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہامیں تمہاری مسجد میں اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ میں ان کاخلیفہ ہوں، کل کو یہ مسلمان اِس مسجد کوچھین لیں گے اور کہیں گے کہ یہ ہماری مقدس جگہ ہے اس لئے میں باہر ہی نماز پڑھوں گا تاکہ تمہاری مسجدنہ چھینی جائے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد5 صفحہ573)
آج کے اس دور میں مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف بغض و عداوت کی آگ کئی ممالک میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہے اور افسوس کےساتھ یہ تنگ نظری بہت سے مسلمان ممالک میں بھی دیکھنے کو ملتی ہےجس نے ان علاقوں کے امن و امان کو برباد کر رکھا ہے۔مذہب کی آڑ میں اقلیتوں کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے بنیادی شہری حقوق غصب کیے جاتے ہیں۔ان کو بڑے عہدوں سے ہٹایا جاتا ہے۔غرض ان کو تکالیف میں ڈالنے کی ہر کوشش روا رکھی جاتی ہےلیکن یہ رویے نہ تو نبی کریمﷺ کی سنت سے ثابت ہیں نہ ہی خلفائے راشدین کے دور میں ہمیں ایسی کوئی مثال ملتی ہےبلکہ الٹا اس زمانہ میں تو مملکت کے ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل تھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’اسلامی حکومت کے ماتحت غیر اقوام کے لوگ بڑے بڑے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ یہ نہیں کہ صرف مسلمانوں کو اعلیٰ عہدے دیے جاتے تھے بلکہ غیر مسلموں کو بھی اور غیر قوموں کے لوگوں کو بھی اعلیٰ عہدے دیے جاتے تھے۔حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے زمانے میں بھی حالانکہ ابھی ملک میں پُرامن طور پر ساری قومیں نہیں بسی تھیں ان حقوق کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ چنانچہ علامہ شبلی اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے صیغۂ جنگ کو جو وسعت دی تھی اس کے لیے کسی قوم اور کسی ملک کی تخصیص نہ تھی یہاں تک کہ مذہب و ملت کی بھی کچھ قیدنہ تھی۔ والنٹیئر فوج میں تو ہزاروں مجوسی شامل تھے یعنی ایسے لوگ جو خدا کو نہیں مانتے، آتش پرست تھے، سورج پرست تھے وہ بھی شامل تھے جن کو مسلمانوں کے برابر مشاہرے ملتے تھے۔ فوجی نظام میں بھی مجوسیوں کا پتہ ملتا ہے۔ اسی طرح لکھتے ہیں کہ یونانی اور رومی بہادر بھی فوج میں شامل تھے۔ چنانچہ فتح مصر میں ان میں سے پانچ سو آدمی شریکِ جنگ تھے۔‘‘(خطبہ جمعہ 9؍جولائی 2021ء)
حضرت علیؓ کا بھی برابری اور مساوات کے حوالہ سے یہ واضح حکم تھاکہ مَنْ کَانَ لَه ذِمَّتُنَا، فَدَمُه کَدَمِنَا، وَدِيَتُه کَدِيَتِنَا۔’’جو بھی ہماری رعایا میں سے ہےاس کا خون اور ہمارا خون برابر ہیں اور اس کی دیت بھی ہماری دیت کی طرح ہے۔‘‘(معرفۃ السنن والآثار الجزء 12 طبعہ اول1991ء صفحہ 27)
قیام امن کے لیے گورنروں کی نگرانی
خلافت راشدہ کے تیسرے دور میں بھی اقوام کے ساتھ مساوات اور امن و سلامتی کی روح کوقائم رکھا گیا۔ اسلام اب مختلف علاقوں میں مستحکم ہوچکا تھا۔حضرت عثمانؓ نے ان ملکوں میں اپنے عمال اور گورنروں کو رعایا کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کا حکم جاری کر رکھا تھا۔آپؓ کا ایک حکم اس حوالہ سے یہ ملتا ہےکہإنّی أُوصيک بهم خيرًا فإنهم قومٌ لَهُمُ الذِمَّة۔’’میں تمہیں ان غیر مسلم شہریوں کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کرتا ہوں۔ یہ وہ قوم ہے جنہیں جان و مال، عزت و آبرو اور مذہبی تحفظ کی مکمل امان دی جاچکی ہے۔‘‘(فتوح البلدان صفحہ 73 بیروت 1988ء)
اسی طرح مختلف ممالک کی صورت حال سے واقف رہنے کے لیے آپؓ اپنے نمائندے بھی بھیجا کرتے تھے۔ آپؓ کا یہ معمول تھا کہ مختلف ممالک کی خبریں پوچھتے اور یہ اعلان کرتے کہ اگر کسی کو کسی افسر یا گورنر سے شکایت ہو تو وہ مجھے آکر بیان کرے۔ جب حضرت عثمانؓ کے آخری دور میں مفسدوں نے زور پکڑنا شروع کردیا اور آئے دن یہ شریر لوگوں کو حضرت عثمانؓ اور ان کے عمال کے خلاف شکایات پیش کرکے امن و سکون کی فضاکو کشیدہ کرنے میں مصروف رہتے تھے۔اس وقت بھی حضر ت عثمانؓ ان کے اعتراضات کےمضبوط جوابات بھی دیتے تھے اور انہیں ہلاکت سے بچانے کےلیے اور امن کے قیام کی غرض سے ان کے جائزمطالبات بھی پورے کرتے رہے۔لیکن یہ مفادپسند جن میں افسوس کے ساتھ بعض ناواقف مسلمان بھی شامل تھے اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور اس عظیم روحانی نعمت یعنی خلافت راشدہ کی حقیقی قدردانی نہ کی جس کی پاداش میں بالآخر وہ اس الٰہی نعمت سے حضرت عثمانؓ اور پھر حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد محروم کردیے گئے۔حضرت مصلح موعودؓاس حوالہ سے بیان فرماتے ہیں کہ’’حضرت عثمانؓ کی شروع خلافت میں چھ سال تک ہمیں کوئی فسادنظر نہیں آتا بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ عام طور پر آپؓ سے خوش تھے۔ بلکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عرصہ میں وہ حضرت عمرؓ سے بھی زیادہ لوگوں کو محبوب تھے۔صرف محبوب ہی نہ تھے بلکہ لوگوں کے دلوں میں آپؓ کا رعب بھی تھا جیسا کہ اس وقت کا شاعر اس امر کی شعروں میں شہادت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اے فاسقو! عثمانؓ کی حکومت میں لوگوں کا مال لوٹ کر نہ کھاؤ کیونکہ ابنِ عَفَّانْ وہ ہے جس کا تجربہ تم لوگ کر چکے ہو۔ وہ لٹیروں کو قرآن کے احکام کے ماتحت قتل کرتا ہے اور ہمیشہ سے اس قرآن کریم کے احکام کی حفاظت کرنے والا اور لوگوں کے اعضاء و جوارح پر اس کے احکام جاری کرنے والا ہے۔(اسلام میں اختلافات کا آغاز انوارالعلوم جلد4صفحہ293)
پس معاشرے میں امن و امان کے قیام کے لیے ان پاک وجودوں نے جو نمونے دنیا کو دکھائے کسی قوم کے بڑے لیڈروں اور سرداروں میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ وہ ربانی وجود تھے جنہوں نے اپنی راحت قربان کرکے اسی کوشش میں نہ صرف اپنی زندگیاں گزاریں بلکہ دنیا کے امن و سکون کے لیے اپنی جانیں پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔اور اس عظیم مقصد کے لیے جسے قرآن کریم بھی بیان کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے خوف کی حالت کو امن میں تبدیل کرتے ہیں انہوں نے اپنا مال اور وقت کیا،اپنی جان بھی خدا کی راہ میں پیش کردیں۔پس آج بھی دنیا کا امن انہی پاک وجودوں کی پیروی سے ہی مشروط ہے۔اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اس انعام کی شکرگزاری کے طور پر اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے والے ہوں اور دنیا کی خوف کی حالت خلافت کے سائے میں امن میں تبدیل ہوتی چلی جائے۔ آمین
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے۔ یہ دوسری قدرت خدا تعالیٰ کی قائم کردہ ہے اور اس کی تائید کے اظہار ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ پس جو اپنے ایمان میں مضبوط رہیں گے وہ نشانات اور تائیدات دیکھتے رہیں گے۔ پس اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے رہیں۔ خلافت احمدیہ سے اپنے تعلق کو جوڑیں اور اس حق کی ادائیگی کی طرف توجہ بھی دیں جس کا خدا تعالیٰ نے خلافت کا انعام حاصل کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے۔ خلافت کی نعمت اسلام کے اوّل دور میں اُس وقت چِھن گئی تھی جب دنیاداری زیادہ آ گئی تھی۔ اب انشاء اللہ تعالیٰ یہ فیض تو خدا تعالیٰ جاری رکھے گا لیکن اس فیض سے وہ لوگ محروم ہو جائیں گے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا نہیں کریں گے۔ اگر ان شرائط پر عمل نہیں کریں گے جو خلافت کے انعام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں تو وہ محروم ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے ذریعہ خوف کو امن میں بدلنے کا وعدہ فرمایا ہے لیکن ان لوگوں سے جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے ہوں اور پہلا حق یہ ہے کہ یَعْبُدُوْنَنِیْ۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ پس اگر اس نعمت سے فائدہ اٹھانا ہے تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کریں۔ پانچ وقت اپنی نمازوں کی حفاظت کریں اور احسن رنگ میں ادائیگی کی طرف توجہ دیں۔‘‘(خطبہ جمعہ 29؍مئی 2015ء)