خلافتِ احمدیہ اور امنِ عالم …ایک تاریخی جائزہ
قرآن کریم کی آیت استخلاف میں مومنوں کے ساتھ خلافت کے وعدہ میں مذکور چند نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا (سورۃالنور:56)ترجمہ: اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔
ہماری ظاہری اور مادی دنیا میں یہ ایک اصولی اور مشہودی امر ہے کہ سورج جب اہل زمین پر اپنی زندگی بخش کرنوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے تو وہ اسود و احمر اور کافرو دیندار کا فرق کیے بغیر ضوفشانی کرتا چلا جاتا ہے اور بالکل اسی طرح مقربین الٰہی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے اہل دنیا کے لیے نجات بخشنے والی آسمانی روشنی کا منبع ہوا کرتے ہیں جیسا کہ امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مقربین الٰہی کی علامات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ان میں کوئی یبوست نہیں پائے گا اورنہ تو انہیں بخیل کی مانند پائے گا۔ تو انہیں پائے گا کہ وہ اللہ کی خاطر اور اس سے پُرخلوص محبت کے لئے اپنی جانوں کو بیچتے ہیں اور اس کی رضا کی خاطر اس کی مخلوق سے ہمدردی کرتے ہیں…وہ آسمان کا نور، زمین کی امان اور صادقوں کے امام ہوتے ہیں۔‘‘ (علامات المقربین، ( مترجم اردو )صفحہ نمبر51)
یوں منظر یہ ابھرا کہ خلافت کے آسمانی نظام میں خداتعالیٰ کی طرف سے امن کے وعدے صرف مومنوں تک محدود نہیں ہوتے ہیں بلکہ اغیار بھی حسب قسمت فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور اٹھاتےہیں۔ کیونکہ انبیاء اور ان کے مقدس ومعزز جانشین بلاشبہ زندگی بخش روشنی کے حامل سورج کی مانند ہوا کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے امن عالم کے وہ اصول پیش فرمائے جن پہ دنیا کے حقیقی امن کی بِنا ہے۔ آپؑ نے ایک زرّیں اصول یہ بیان فرمایا:’’پس یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔ خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھادی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کردی۔ اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے۔‘‘(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد12صفحہ259)
اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت میں اس پہلو سے جائزہ بتاتاہے کہ آپ علیہ السلام نے حقیقی امن کے قیام کے لیے مشرق و مغرب میں آباد ہر مذہب و ملت کے لوگوں کو اپنے خالق و مالک سے صلح کرکے جلد از جلد اس بُعد کوُدور کرنے کی دلگداز انداز میں نصیحت فرمائی۔ آپؑ کی عملی کوششوں کی ایک مثال درج کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ کس طرح پیغام صلح کے اس منادی مسیح پاک علیہ السلام و الرحمہ نے اپنوں اور غیروں کو ہر چھوٹے سے چھوٹے پیمانے پر بھی ہر شورش اور فساد سے دُور رہنے کی تاکید فرمائی۔
تاریخ احمدیت جلد دوم میں ’’ملکی شورش میں حضرت مسیح موعودؑکی جماعت کو نصیحت‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ ’’تقسیم بنگال‘‘کے نتیجہ میں جو شورش اٹھ کھڑی ہوئی تھی اس نے ۱۹۰۷ء کے آغاز میں زیادہ خطرناک صورت اختیار کرلی۔لہٰذا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ۷؍مئی ۱۹۰۷ء کو ایک اشتہار میں اپنی جماعت کو پُرزور نصیحت و ہدایت فرمائی کہ وہ ملکی شورش سے بالکل الگ رہے۔ اس سلسلہ میں ۱۲؍مئی ۱۹۰۷ء کو ۵ بجے شام ایک جلسہ بھی منعقد کیا گیا جس میں اس اہم جلسہ کے اغراض ومقاصد پرروشنی ڈالی گئی اور صدر جلسہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ اور حضرت حکیم الامت مولوی نورالدین صاحبؓ نے قیام امن پر تقاریر فرمائیں…(صفحہ 494)
دور خلافت اولیٰ
(1908ء تا 1914ء)
امن عالم کے لیے انہی کوششوں کے اس جائزہ میں آگے بڑھیں تودور خلافت اولیٰ سے بطور مثال اُن تشدد پسند پارٹیوں کی مذمت کا معاملہ ہے جو برصغیر میں امن وامان کے شدید ترین مسائل کا پیش خیمہ بن رہی تھیں۔
دراصل تب تقسیم بنگال اور یونیورسٹیز ایکٹ کے بعد ۱۹۰۶ء میں سیاسی جماعت کانگریس نے اپنے اجلاس کلکتہ میں لوکل سیلف گورنمنٹ دیے جانے کا مطالبہ کیا اور ملک میں جابجا دہشت انگیز اور انقلاب پسند خفیہ انجمنیں قائم ہو گئیں اور بم سازی اوریورو پین افسروں کے قتل کی سازشیں زور پکڑ گئیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے ان ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’نیکی اوربھلائی اور رفاہ عام کے کام کبھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ ان کے لئے اخفا ضروری ہو اس لئے اگر کوئی خفیہ انجمن اپنے اغراض نوع انسان کی بھلائی کے متعلق ظاہر نہیں کرتی یا نہیں بتاتی وہ کبھی قابل ِتسلیم نہیں ہوسکتی کیونکہ ان انجمنوں میں شرارت اور شیطنت ہوتی ہے خفیہ انجمنوں کی تاریخ پر نظر کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ جہاں کہیں وہ ہیں انہوں نے امن عامہ میں خلل ڈالا ہے ہم ایسی انجمنوں سے سخت بیزار ہیں پس ان سے ہمیشہ پر ہیز کرو۔ ‘‘ (الحکم قادیان۔۲۶-۳۰؍اگست1918ءصفحہ1)
یاد رہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے طرز عمل کی روشنی میں حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ کا یہ مشورہ ایک نہایت مبارک اقدام تھا جس نے نہ صرف جماعت کو بلکہ مسلمانوں کو تباہی سے بچالیا۔ کیونکہ یہ واضح بات ہے کہ اگر اس زمانہ میں ان دیسی سیاست دانوں کے منصوبے کامیاب ہو جاتے تو ملکی اقتدار کی پوری باگ ڈور مستقل طور پر ایک اکثریتی گروہ کے ہاتھوں میں چلی جاتی اور برصغیر جو دنیا کے معاشی اور معاشرتی امن کی بنیادی کڑی تھا، ایک مشکل صورت حال کا شکار ہوکر ساری معلوم دنیا کے لیے بے چینی کا سبب بن جاتا۔
اسی طرح آپؓ نے دنیا کی ترقی اورخوشحالی کا سربستہ راز بیان کرتے ہوئےفرمایا:’’دنیا کا کام امن پر موقوف ہے۔ اور اگر امن دنیا میں قائم نہ ر ہے تو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ جس قدر امن ہوگا۔ اسی قدر اسلام ترقی کرے گا۔ اس لئے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم امن کے ہمیشہ حامی رہے۔آپؐ نے طوائف الملوکی میں جو مکہ معظمہ میں تھی اور عیسائی سلطنت کے تحت جو حبشہ میں تھی۔ ہم کو تعلیم دی کہ غیر مسلم سلطنت کے ماتحت کس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اس زندگی کے فرائض سے ’’امن‘‘ ہے۔ اگر امن نہ ہوتو کسی طرح کا کوئی کام دین و دنیا کا ہم عمدگی سے نہیں کر سکتے۔ اس واسطے میں تاکید کرتا ہوں کہ امن بڑھانے کی کوشش کرو اور امن کے لئے طاقت کی ضرورت ہے۔ وہ گورنمنٹ کے پاس ہے۔ میں خوشامد سے نہیں بلکہ حق پہنچانے کی نیت سے کہتا ہوں کہ تم امن پسند جماعت بنو تا تمہاری ترقی ہو اور تم چین سے زندگی بسر کرو۔اس کا بدلہ مخلوق سے مت مانگو۔ اللہ سے اس کا بدلہ مانگو۔ اور یاد رکھو کہ بلا امن کوئی مذہب نہیں پھیلتا اور نہ پُھول سکتا ہے۔‘‘(حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ ۴53-۴54)
دورِ خلافت ِثانیہ
(1914ء تا 1965ء)
دور خلافت ثانیہ میں سے صرف جنگ عظیم اول کی مثال درج کی جاتی ہے کیونکہ اس جنگ کے دنیا پر نہایت گہرے اثرات تھے، اس جنگ سے کئی سلطنتوں اور خطوں کا جغرافیائی نقشہ ہی بدل گیا، اور عالمی منظر پر بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
امن عالم کے لیے ان تباہ کن اور تاریخ ساز برسوں کا جائزہ بتاتا ہے کہ تب خلافت احمدیہ کے دوسرے مظہر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا دور تھا، جس میں آپؓ نے ہر لحاظ سے راہنمائی فرمائی اس لیے اس وسیع مضمون کو چونکہ محض چند صفحات میں سمیٹا نہیں جا سکتا۔ذیل میں 5؍اگست 2022ء کو الفضل میں مطبوعہ ’’ابونائل ‘‘کے مضمون کا ملخص پیش ہے جس کے مطابق تب برسراقتدار افراد اور حکومتوں اور سلطنتوں کو اس حقیقت کا پورا ادراک ہی نہیں تھا کہ ان کے بعض مقامی اور بظاہر چھوٹے چھوٹے تنازعات عالمی امن کے لیے کس حد تک خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اورتب ہرکوئی سیاسی سرگرمیوں اور بحث و مباحثوں میں منہمک تھا۔ مگر چونکہ خدائی جماعتوں کے مقاصد دنیا کی باقی تنظیموں اور حکومتوں اور عام لوگوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں اور وہ ذاتی سیاست، سیادت اور وجاہت میں اضافوں کے متمنی ہونے کی بجائے خالصتاً امن عالم کے لیے کوشاں ہوا کرتے ہیں۔ اس مرحلے پر 3؍جولائی 1914ءکے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمانوں کی راہنمائی فرمائی کہ سیاست کو چھوڑ کر تم دین کی طرف لگ جاؤ۔بے شک کسی حد تک دنیاوی امور کی طرف بھی توجہ کرنی پڑتی ہے لیکن اصل مقصد کبھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔
آگے چلیں تو خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جون1916ءکا مطالعہ بتاتا ہے کہ تب اقوام عالم کی ایک غلطی جس نے پوری دنیا میں آگ لگا دی تھی وہ تمدنی غلطی یہ تھی کہ بغیر کسی واجبی تحقیق کے مخالف ملک و قوم کو الٹی میٹم دے کر حملہ کردیا گیا۔یوں حتمی ثبوتوں کی غیر موجودگی میں محض مفروضوں کی بنا پر بغیر مناسب تحقیق کے دنیا کا امن برباد کر دیا گیا اور ایک کروڑ انسان ہلاک ہو گئے۔
خلافت احمدیہ کی یہ راہنمائی اور نصیحت آج تک اتنی ہی اہم ہے جتنی آج سے سو سال قبل تھی۔ بلکہ شاید اس دَور میں اس کی اہمیت و ضرورت کئی گنا زیادہ ہوچکی ہے۔
عالمی بے چینی اور بدامنی کے اسباب میں سے ایک بہت بڑی وجہ سود دینے اور لینے والی سلطنتیں اور طاقت ور ادارے اور افراد ہوا کرتے ہیں۔ جب پہلی جنگ عظیم جاری تھی تو حضورؓ نے بطور خاص مسلمان ممالک کو ایک نہایت اہم انتباہ فرمایا اور یہ انتباہ سود کے بارے میں تھا۔لیکن افسوس ہے کہ دین فطرت کے پیروکار ہوکر سودی رقوم سے پہلےبے دریغ سامانِ عشرت اور پھر بےحدو حساب سامانِ جنگ خریدنے والی اسلامی سلطنتیں جنہوں نے سود دیا یا لیا سب کی سب مٹ گئیں۔ دوسری قوموں کی سلطنتوں کوبھی زوال آئے۔ کیونکہ جب مسلمان سلطنتوں نے سود لیا تو روپیہ دینے والی سلطنتوں نے ان کے ملک میں آہستہ آہستہ اپنا تسلط جمانا شروع کیا۔کبھی ریلوں کا ٹھیکہ لیا۔ کبھی کانوں کو کفالت میں رکھا۔ کبھی کسی اور صیغہ پر قبضہ کر لیا۔آخر مسلمانوں کو سلطنت سے دستبردار ہونا پڑا۔
الغرض جنگوں میں کودنے والوں کے ضروری مالی وسائل اور معاشی استحکام کے بغیر یہ اقدامات خودکشی کے مترادف ٹھہرے، جنگ شروع ہوجانے کے بعد اپنی ہی رعایا اور عوام کے عدم تعاون وغیرہ نے کئی اور مسائل کو جنم دیا۔ نیز خواہ امن کی حالت ہو یا جنگ کی حالت ہو، مسلمانوں کو تفرقہ بازی نے بہت نقصان پہنچایا۔ مختلف فرقے غیر معمولی حالات میں بھی اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لیے اکٹھے نہ ہو سکے بلکہ ان نازک مواقع پر دشمنوں کے ساتھ مل کر دوسرے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔اور پہلی جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد کے سالوں میں بھی یہ تفرقہ اپنا رنگ دکھاتا رہا۔یوں امن عالم کے قیام کے اساسی مقصد کو بنیاد بغیر لڑی جانے والی ان جنگوں میں سب سے زیادہ نقصان اور ہزیمت ان مسلمانوں نے اٹھائی جن کے نام میں ہی صلح، سلامتی اور امن کا پیغام تھا۔
آج ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر آسمانی نور سے منور اس موعود مصلح کی نصائح پر کان نہ دھرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ عرب دنیا کا نقشہ ناگفتہ بہ ہوتا جا رہا ہے۔یمن، سوڈان، سعودی عرب وغیرہ کا نام لیے بغیر ہم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ ایک طرف مغربی طاقتوں سے ہر چھوٹی، بڑی مالدار ریاست فوجی اور دفاعی معاہدے کررہی ہے اور دوسری طرف ان ممالک میں اپنی ہی عوام کی زبان بندی اور مظالم کی الگ داستان جاری ہے۔ نیز غیر تو غیر رہے،خود ہی مسلمان ممالک کی گروہی، نسلی اور مسلکی اختلاف رکھنے والے کمزور ہمسایہ ممالک پر فوج کشی نہ صرف اسلام کے حسین نام کو بدنام کررہی ہے بلکہ قدرتی وسائل سے مالامال ان خطوں کے ارضی حسن کو بھی گہنا رہا ہے۔
آپؓ کی عملی کوششوں پر نظر ڈالیں تو آپ کے دورِ خلافت میں آپؓ کی شبانہ روز کوششوں اور کاوشوں کے نتیجے میں خدا نے بہت سی روحوں کو امن وسکون سے سرفراز فرمایا۔ کیا ہندوستان اور کیا ہندوستان سے باہر کے علاقے، آپ کی شفقت اکناف ِعالم پہ محیط تھی۔جنگ زدہ علاقوں میں خدمت خلق سے لے کر ظالموں کی قید میں مظلوم جانوں کی گردنیں آزاد کروانے تک،مذاہب عالم کے مابین ہم آہنگی اور باہمی احترام سے لے کر سیاسی کشیدگی میں فریقین کو سمجھانے تک،ہر محاذ پہ حضرت مصلح موعودؓ نے گرانقدر خدمات انجام دیں اور امن عالم میں وہ کردار ادا کیا جس کی نظیر ملنا محال ہے۔مثلاً 1952ء میں انٹرنیشنل ورلڈ پیس ڈے منانے کے لیے جاپان کی ایک انجمن نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں لکھا کہ جماعت احمدیہ بھی قیام امن کی کوشش میں شریک ہواور اس اہم مقصد کے لیے ایک معین دن مقرر کر کے دعائیں کر یں۔ حضور نے دنیا بھر کی جماعتوں کو ہدایت کی کہ وہ 2؍اگست 1952ء بروز جمعہ قیام امن کے لیے دعا کر یں۔نیزعام راہنمائی کے لیے حضور نے سورت فاتحہ کی جامع دعا کی طرف سے توجہ دلائی۔(روزنامہ الفضل لاہور 9؍جولائی 1952ء صفحہ6)
ورق تمام ہوا چاہتا ہے مگر حضرت مصلح موعود ؓکی قیام امن کے لیے نچلی سطح پر کوششوں کا تذکرہ الگ سے جگہ کا متقاضی ہے، کہ کس طرح آپؓ نے ہندوستان کے طول و عرض میں قائم ریاستوں اور راجواڑوں میں ہر چھوٹے بڑے ظلم پر آواز بلندکی اور عملی کوششوں سے مظلوموں کی داد رسی کرتے ہوئے ظالموں کا ہاتھ روکا۔ ریاست کشمیر کے لیے آپؓ کی کوششیں اس سلسلہ میں ایک کافی مثال ہیں۔ ’’پیغام صلح ‘‘میں بیان فرمودہ اصولوں کی روشنی میں بقائے باہمی کی طرز پر آپ کی کاوشوں کے معاصر سکھ، ہندو، مسلمان اور عیسائی لیڈران اور عوام بھی معترف تھے۔
دورِ خلافتِ ثالثہ
(1965ء تا 1982ء)
نافلہ ٔموعود حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے پیشروؤں کی روش کو جاری رکھا اور دنیا میں قیام امن کے لیے دعاؤں کی تحریک کے ساتھ مسلسل عملی اقدامات بھی فرمائے۔
قبلہ اول کی حفاظت کا مسئلہ ہو یا خون خرابے سے عبارت مہدویت کے دعویدار کا مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کی عمارت پر قبضہ ہو، مسلمان ممالک پر اغیار کی فوجی یلغار ہو، ہر آفت کے وقت حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے اپنی جماعت کودعا کا ہتھیار استعمال کرنے کی تحریک کی۔
امن عالم کے لیے علاوہ دیگر عملی اقدامات اور کاوشوں کے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان امن اور اتفاق پیدا کرنے کی خاطر یہ تجویز دی کہ مسلمانوں کے تمام فرقے کچھ عرصہ کے لیے اپنے اندرونی اختلافات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے محض اسلام کی تبلیغ اور تشہیر کےلیے مل کر کوشش کریں۔ اسی طرح حضورؒ نے طویل سفروں کی صعوبتیں اٹھا کر اور جدید ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لاکر دنیا بھر میں اسلام احمدیت کے امن پسندہونے اور دنیا میں امن قائم رکھنے والے اصولوں کی خوب منادی کی۔یوں قیام امن کے لیے دنیا بھر میں جاری جماعتی کاوشوں کو تشکر اورقدر کی نگاہ سے دیکھاجانے لگااور جماعت کا نعرہ ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی زبانِ مبارک سے ہی ادا ہوا اور دنیا میں پہچان بنا۔ تفریق اور نفرتوں سے بھری اس دنیا میں محبت کا یہ اعلانِ عام تھا جس کے سبب مغربی دنیا کے پریس اور ارباب اختیار حضورؒ کو سفیرِ محبت کے نام سے موسوم کرنے لگے۔
دوسری طرف جہاں تک دنیا کو متنبہ کرنے کی بات ہے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 28؍جولائی 1967ء کو وانڈز ورتھ ٹاؤن ہال لندن میں’’امن کا پیغام اور ایک حرفِ انتباہ‘‘کے عنوان سےایک تاریخی خطاب فرمایا۔ جس میں حضورؒ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق ایک تیسری عالمی جنگ سے متنبہ کیا۔
خلافتِ رابعہ
(1982ء تا 2003ء)
دور خلافتِ رابعہ میں جماعت احمدیہ نے اسلام کے دور اول کی یاد تازہ کرتے ہوئے شدید تکالیف اور مصائب کا صبر و استقامت سے مقابلہ کیا اور اپنے امام کی راہنمائی اور قیادت میں اپنی امن پسند ی کی روش اوردنیا بھر میں قیام امن کے لیے کوششوں کو جاری رکھا۔
امن پسندی کی ذاتی مثال قائم کرنے کے علاوہ جب 1991ء میں خلیج عرب کے ممالک کو ایک شدید بحران کا سامنا تھا اور مختلف طاقتوں نے خلیجی ریاستوں میں امن کو تہ وبالا کرڈالا تو حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس ساری صورت حال کی بابت مسلمانوں کو سمجھانے کے لیے خطبات کا ایک سلسلہ شروع فرمایا اور حضورؒ کے وہ تمام تجزیےجو خداداد بصیرت اورمومنانہ فراست سے کیے گئے تھے،وہ حرف بحرف پورے ہو ئے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ اربابِ اختیار اور مسلمان ممالک کے سربراہان آج بھی اگر چاہیں ان باتوں پر کان دھر کر دنیا میں بے امنی اور بے چینی کے خاتمہ میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔
اسی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نےعصرحاضر کے مسائل کے حل کے لیے اسلام کے نمائندہ کے طور پر انسانوں کو نسل پرستی کی وبا سے نہ صرف خبردار کیا بلکہ انذار فرمایا کہ آئندہ آنے والے وقت میں یہ وبا امنِ عالم کے لیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوگی۔ آپ نے اسلام کی حسین تعلیم سے اس کا حل بھی بتایا۔
الغرض بوسنیا کی جنگ میں معصوموں کی منظم نسل کشی ہویا کوئی بھی اورنازک موقع، جماعت احمدیہ نے خلافت کے زیرسایہ اس دور میں امن عالم کے قیام کے لیے اپنی بھرپور سعی جاری رکھی۔
عہد ِخلافتِ خامسہ
ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم عہدِ خلافت خامسہ کے انوارو برکات سے فیضیاب ہورہے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس مبارک دور کے بالکل آغاز سے ہی حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی و راہنمائی میں امن عالم کے لیے ہمہ جہت کوششیں اور کاوشیں جاری ہیں۔ آج بھی جب مشرق و مغرب امن کو ترس رہے ہیں اور تیسری عالمی جنگ منہ کھولے کھڑی ہے اور اس کے مہیب سائے سروں پر منڈلا رہے ہیں، امن کا یہ شہزادہ دنیا کو بار بار امن کی طرف بلا رہا ہے۔
آپ کی ان کاوشوں کی مختصر سی جھلکیوں کو حضور انور کے خطبات جمعہ، خطابات، حضور انور کے سربراہان کو لکھے گئے خطوط، احمدیہ مسلم امن انعام، برطانوی پارلیمنٹ میں تاریخی خطاب، یورپین پارلیمنٹ میں خطاب، کیپیٹل ہل واشنگٹن ڈی سی اور بین المذاہب کانفرنس، گِلڈ ہال، لندن میں خطابات، دورہ جات کے دوران دنیا کے طول وعرض میں سیاست دانوں، مذہبی و سماجی عمائدین، صحافیوں اورہر مذہب ومسلک کے ارباب علم و دانش، حکومتی وزراء،ممبر ان پارلیمنٹ، کونسلرز، میئرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز، وکلاء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے معز زین کے اجتماعات سے خطابات سے دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ اس پہلو سے بعض غیروں کی مختصر گواہیاں درج کی جاتی ہیں:
٭…’’اپنی قیادت کی وجہ سے آپ دنیا میں ایک عالمی اہمیت کی حامل شخصیت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں… آپ سرحدوں کے پار ایک عظیم طاقت اور ترقی پذیر دنیا کے لئے ایک سرمایہ ہیں… آپ حکمت اور خدا ترسی سے پُررہنما ہیں جنہوں نے عدم تشدد نیز مختلف مذاہب کے درمیان باہمی احترام کو ایک فاتح کے طور پر قائم کیا ہے۔‘‘
٭…’’سیدنا حضور انور حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز امن کے پیغامبر ہیں… میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ کے فلاحی کام اور باہمی پیار و محبت کی آپ کی فلاسفی (محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں)برطانیہ میں بھی اور ساری دنیا میں یونہی پھلتی پھولتی رہے گی۔‘‘
٭…’’آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک انقلابی شخصیت ہیں جنہوں نے پوری دنیا میں امن اور رواداری کو بڑھاوا دیا ہے۔‘‘
٭…’’سیدنا حضور انور حضرت مرزا مسرور احمد نے اپنی ساری زندگی قیام امن کے لیے وقف کی ہوئی ہے۔آپ کی زندگی کا مقصد بین المذاہب امن کا قیام ہے۔یہ میری خواہش ہے کہ سیدنا حضور انور مستقل طور پر جاپان تشریف لے آئیں تا ہمارا ملک بھی حقیقی اسلام کے نور سے منور ہو جائے۔‘‘
٭…’’آپ مذہبی آزادی اور امن کے ایک بہادر فاتح ہیں اور آپ اسلام کا ایک سچا خیر خواہ چہرہ ہیں۔‘‘(’’دنیا میں امن و سلامتی کے لیےخلافت احمدیہ کی بین الاقوامی کوششیں‘‘از ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز،الفضل انٹرنیشنل ۲؍ستمبر ۲۰۲۲ءصفحہ ۱۴)
یہ مذکورہ بالا چند تاثرات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی امن عالم کے لیے فکرمندی اور بے لوث کوششوں پر غیروں کی گواہیاں ہیں۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی امن عالم کے لیے اس قدر کوششوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امن اور اس کا قیام جماعت احمدیہ کے جملہ مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے۔آنحضرتﷺ نے آخری زمانہ میں آنے والے امام کی ایک ذمہ داری یہ بھی بیان فرمائی تھی کہ وہ جنگ وجدل کا خاتمہ کردے گا۔ اور مذہب کی آڑ میں ہونے والی قتل و غارت کی بنیاد مٹا دے گا۔
معزز قارئین! جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکاہے ،خالق و مالک کو بھول جانا، معمولی نوعیت کے باہمی اختلافات کوانصاف اور عدل کے اصولوں پر چل کر حل نہ کرنا، سودی لین دین کرنا، بغیر تحقیق و تفتیش کے الزام تراشی اور حملہ کر دینا،غیر منصفانہ معاشی اور اقتصادی پالیسیاں بنانا اور چلانا، نسل پرستی،ویٹو پاور، ہم خیال اور باہمی مفاد رکھنے والوں کے بلاک بنانا، وغیرہ وغیرہ یہ سب بظاہر معمولی نظر آنے والے امور امنِ عالم کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
خلافت احمدیہ نے ان تمام مسائل کا بغیر کسی لگی لپٹی رکھے ذکر کیا ہے اور اُن کا مؤثر ترین حل بھی تجویز کیا ہے۔ یہ خلافت احمدیہ ہی ہے جو ایک صدی سے زائد عرصہ سے جہاں مذاہبِ عالم کے مابین امن و آشتی اور ہم آہنگی کا طریق بتا رہی ہے، وہاں معاشرتی امن، اقتصادی امن، قومی و بین الاقوامی امن، سیاسی امن اور انفرادی امن کے ہر پہلو پہ راہنمائی کے لیے موجود ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس آسمانی آواز پر بلا تاخیر لبیک کہا جائے، کیونکہ
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضانِ محبت عام سہی عرفانِ محبت عام نہیں