متفرق مضامین

فلسطین میں قیامِ امن کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ دو اہم نکات

(ابو نائل)

ایک طویل عرصہ سے فلسطین کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔اس قضیہ کی وجہ سے کئی جنگیں لڑی گئیں۔ دنیا بھر کا امن خطرے میں پڑا۔ کتنی ہی مرتبہ دنیا کے مدبر سرجوڑ کر بیٹھے اور کئی بین الاقوامی معاہدے ہوئے اور تالیاں بجا کر داد دی گئی۔ عالمی اداروں میں قراردادیں منظور کی گئیں لیکن نتیجہ صفر۔آخر ایسا کیوں ہے؟

جب بھی کسی ملک یا خطہ کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے یا اس بارے میں تجاویز پیش کی جائیں اور اس بات کو ہی خاطر میں نہ لایا جا ئے کہ وہاں کے اصل باشندوں کی اپنی رائے اور مرضی کیا ہے؟ اور طرح طرح کے نسخے تجویز کر کے ان پر مسلط کیے جائیں تو اس طریق پر تنازعات کبھی حل نہیں ہو سکتے۔

اس پہلو سے فلسطین کی تاریخ کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں۔یہ چند سالوں کا نہیں ایک صدی سے زائد عرصہ کا قصہ ہے کہ سیاستدان ہوں یا سفارت کار یا کوئی مدبر، جو بھی نام نہاد حکیم فلسطین کے بارے میں کوئی نسخہ تجویز کرتا ہے، اس پہلو کا ذکر کرنے کا تکلّف نہیں کرتا کہ فلسطینیوں کی اپنی مرضی کیا ہے؟

چارلس وارن کے نظریات

۱۸۷۵ء میں ایک برطانوی فوجی افسر اور ماہر آثار قدیمہ چارلس وارن (Cahrles Warren) نے ایک کتاب لکھی جس کا نام The Land of Promise or Turkeys Guarantee تھا۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس دور میں فلسطین کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے ماتحت تھا۔ان صاحب نے اس حکومت کی اجازت سے خاص طور پر یروشلم کے علاقہ کے آثار قدیمہ پر تحقیق بھی کی تھی۔اس کتاب کے آغاز میں اس بات پر کافی ماتم کیا گیا ہے کہ سلطنت عثمانیہ فلسطین کا نظم و نسق بالکل صحیح طریق پر نہیں چلا رہی۔ وہاں کی آبادی کی حالت قابل رحم ہو چکی ہے ان پربہت مظالم ہو رہے ہیں۔ چونکہ ترکی کی سلطنت عثمانیہ مغربی طاقتوں کی بری طرح مقروض ہے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر مغربی طاقتوں کو سلطنت عثمانیہ کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ فلسطین کے علاقہ کا انتظام ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر ایک کمپنی کے حوالے کردے جو کہ مغربی طاقتوں کے تحت کام کرے۔ اور یہ کمپنی بیس سال تک فلسطین کا انتظام چلائے۔وہاں کی زراعت کو ترقی دے۔پھر یہ صاحب اس کتاب کے صفحہ ۵ پر تحریر کرتے ہیں کہ اس انتظام کا اولین مقصد یہ ہوگا کہ وہاں پر یہود یوں کو لا کر آباد کیا جائے تاکہ وہ وہاں کی فوج، سفارتی کاموں میں اور زرعی منصوبوں میں شامل ہوجائیں۔ اور ترکی وہاں سے اپنے عہدیدار نکال لے اس کے بعد وہاں پر یہودیوں کی ایک حکومت قائم کر دی جائے۔اگر اس وقت تک ترکی قائم رہا تو بے شک رسمی طور پر یہ نئی حکومت سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہے۔

اس کتاب میں یہ مسئلہ بیان ہو رہا تھا کہ سلطنت عثمانیہ کے تحت فلسطین کے عربوں کی حالت بہت بری ہے اور وہ محکوم حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور علاج یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ وہاں یہودیوں کو آباد کر دیا جائے تا کہ وہ وہاں کی مقامی آبادی پر حکومت کریں۔یہ صاحب بعد میں جنرل کے عہدہ پر فائز ہوئے۔یہ ذکر کرنا بے محل نہیں ہو گا کہ یہ صاحب بہت سرگرم فری میسن بھی تھے۔

صیہونی تحریک اور بالفور اعلامیہ

بعد کی دہائیوں میں فلسطین کے بارے میں جو تجاویز منظر عام پر آئیں وہ کم و بیش وارن کی کتاب کا چربہ معلوم ہوتی ہیں۔جیسا کہ خاکسار نے اپنے گذشتہ مضمون ’فلسطین میں بنی اسرائیل کے دوبارہ آباد ہونے کے بارے میں قرآنی پیشگوئی(مطبوعہ روزنامہ انٹرنیشنل۲۵؍جون۲۰۲۴ء) میں ذکر کیا تھا کہ ۱۸۹۶ء میں یہودیوں کی صیہونی تحریک کے بانی تھیوڈر ہرزل نے کتاب دی جیوئش سٹیٹ شائع کی۔

اور اس سے اگلے سال بیسل میں پہلی صیہونی کانگرس منعقد ہوئی۔ اور اس میں یہی تجویز پیش کی گئی کہ فلسطین میں یہودیوں کو آباد کر کے ان کی ریاست قائم کی جائے۔ اس کتاب میں یہ ذکر تو تفصیل سے کیا تھا کہ دنیا کی بڑی طاقتوں سے روابط کر کے ان کی حمایت حاصل کی جائے لیکن اس سوال پر کوئی توجہ نہیں دی گئی کہ یہ معلوم کیا جائے کہ وہاں کے اصل باشندوں کی یعنی وہاں کی عرب آبادی کی اپنی مرضی کیا ہے؟ وہ کیا چاہتے ہیں۔اسی طرح نومبر ۱۹۱۷ءمیں جب پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت عثمانیہ کی عظمت کا سورج غروب ہو رہا تھا اور فلسطین سمیت دوسرے عرب علاقے ان کے ہاتھ سے ایک ایک کر کے نکل رہے تھے تو سلطنت برطانیہ نے ایک اعلامیہ جاری کیا جو کہ تاریخ میں بالفور اعلامیہ کے نام سے معروف ہے۔ اس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ سلطنت عثمانیہ فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کی پالیسی کی حمایت کرتی ہے تاکہ وہاں پر ان کاقومی وطن قائم کیا جائے۔ اس اعلان سے پہلے یہ تکلف نہیں کیا گیا کہ فلسطین کے باشندوں کی مرضی معلوم کر لی جائے کہ کیا وہ اسے پسند کرتے ہیں کہ یہودیوں کو جمع کر کے فلسطین میں آباد کیا جائے۔اور نہ ہی اس اعلامیہ میں اس بات کا کوئی ذکر ہے ہم اس سلسلہ میں وہاں کی آبادی کی رائے معلوم کر نے کی کوشش کریں گے۔

تحریک خلافت کے نظریات

یہ کیا کم تھا کہ بد قسمتی سے یہی غلطی ہندوستان کے مسلمانوں نے کی۔جب پہلی جنگ عظیم میں ترکی کو شکست ہو گئی اور فاتح طاقتوں نے آپس میں اس کے ماتحت علاقوں کی تقسیم شروع کی تو ہندوستان کے مسلمانوں نے ترکی کے بادشاہ جسے خلیفہ کہا جاتا تھا کی حمایت میں ’تحریک خلافت ‘کا آغازکیا۔اس تحریک نے پہلے یہ غلط مفروضہ قائم کیا کہ ترکی کے سلطان تمام مسلمانوں کے خلیفہ ہیں۔ حالانکہ صرف احمدی ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے بہت سے فرقے انہیں مذہبی طور پر اپنا خلیفہ تسلیم نہیں کرتے تھے۔اور اس بنیاد پر دوسرا غلط مفروضہ یہ قائم کیا کہ خلیفہ اسلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ وسیع علاقہ پر حکمران ہو اور مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور یروشلم جیسے مقدس مقامات اس کی سلطنت کا حصہ ہوں۔حالانکہ اس وقت فلسطین اور شام سمیت تمام عرب علاقے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر کے برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی مدد کر چکے تھے اور یہ واضح اعلان کر چکے تھے کہ وہ اب آزاد ہونا چاہتے ہیں اور سلطنت عثمانیہ کے تحت نہیں رہنا چاہتے۔اور یہ تجویز بھی پیش کی جا رہی تھی کہ فلسطین اور حجاز اور دوسرے عرب علاقوں کو ساتھ ملا کر ایک ملک بنا دیا جائے۔لیکن جب مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں تحریک خلافت کے وفد نے برطانوی وزیر اعظم لائڈ جارج سے ملاقات کی تو برطانیہ کی حکومت کو بھی یہ تجویز پیش کی کہ فلسطین، شام اور حجاز سمیت دوسرے عرب علاقوں کو آزاد نہ کیا جائے بلکہ انہیں سلطنت عثمانیہ کے تحت رکھا جائے۔یہ واضح طور پر ان ممالک میں عرب آبادی کی حق تلفی تھی۔

(Shan Muhammad. The Indian Muslims. A Documentary Record. Meenakshi Publications Dehli 1983, p185-203)

حضرت مصلح موعودؓ کا ارشاد

۱۹۱۹ء میں مسلم کانفرنس کی طرف سے مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی قائدین کا ایک اجلاس طلب کیا گیا۔ اور ان کے سیکرٹری ظہور احمد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں درخواست بھجوائی کہ حضور بھی اس اہم مشورہ میں شامل ہوں۔ حضور اس اجلاس میں تو نہیں گئے لیکن حضور نے ایک دستاویز کی صورت میں اپنی تجاویز اپنے نمائندوں کے ساتھ بھجوا دیں۔ ان تجاویز کو اس اجلاس میں پڑھا گیا اور بعد میں یہ راہنمائی ’ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض ‘کے عنوان سے شائع بھی ہوئی۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تمام عرب علاقوں کے بارے میں تحریر فرمایا:’’عربوں نے غیر اقوام کی حکومتوں کے ماتحت اپنی زبان اور اپنے تمدن کے متعلق جو کچھ نقصان اٹھایا ہے وہ مخفی امر نہیں ہے اور ہر ایک شخص جو ان ممالک کے حالات سے آگاہ ہے اس امر سے واقف ہے۔ اور پھر عربوں نے جو کچھ قربانی اس آزادی کے حصول کے لئے کی ہے وہ بھی چھپی ہوئی بات نہیں۔ عرب کی غیرت قومی جوش مار رہی ہے اور اس کی حریت کی رگ پھڑک رہی ہے۔ انہیں اب کسی صورت میں اپنی مرضی کے خلاف ترکوں کے ساتھ وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔تیرہ سو سال بعد اب وہ اپنی چاردیواری کا آپ حاکم بنا ہے۔اور اپنے حسن انتظام اور عدل و انصاف سے اس نے اپنے حق کو ثابت کر دیا ہے۔ اس کے متعلق کوئی نئی تجویز کامیاب ہو سکتی ہے نہ کوئی معقول انسان اس کو قبول کر سکتا ہے نہ عرب اس کو ماننے کو تیار ہے۔‘‘(انوارالعلوم جلد ۴ صفحہ ۴۷۹)

اس وقت عربوں میں ایک یہ نظریہ رائج تھا کہ حجاز، شام اور فلسطین وغیرہ کے علاقے مل کر ایک ملک بنائیں گے۔ لیکن حضورؓ کے اس ارشاد میں ایک اصول بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ اگر پائیدار امن قائم کرنا ہے تو سب سے پہلے جس ملک یا علاقے کے بارے میں غور کیا جارہا ہے وہاں کے لوگوں کی مرضی معلوم کرنا اور ان کی منشا کے مطابق فیصلہ کرنا ضروری ہے۔خواہ حجاز ہو خواہ شام یا اردن ہو یا فلسطین ہو یا دوسرا کوئی ملک یا علاقہ ہو، اگر اس اصول کو نظر انداز کیا جائے گا تو اس سے فسادوں اور جنگوں کا راستہ کھلنے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔لیکن جہاں تک فلسطین کا تعلق ہے چاہے مسلمانوں کی تحریک خلافت ہو یا یہودیوں کی صیہونی تحریک ہو، خواہ مغربی طاقتوں کے سیاستدان ہوں یا دنیا کے دانشور ہوں، یا عالمی ادارے ہوں، یہ اصول ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے اور اس کا نتیجہ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔

لیگ آف نیشنز کی دھونس

بہر حال پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی۔ اب مفتوح علاقوں کے نصیبوں کا فیصلہ کرنے اور امن قائم رکھنے کے لیے پیرس پیس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں فاتح طاقتوں نے مل بیٹھ کر جو فیصلے کیے ان کے نتیجہ میں ۱۰؍جنوری ۱۹۲۰ء کو دنیا کے ممالک کی عالمی تنظیم لیگ آف نیشنز کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ۱۹۱۹ء میں ہی اس عالمی تنظیم کا منشور تیار ہو چکا تھا۔ اس کے اولین مقاصد یہ بیان کیے گئے تھے کہ ایسا انتظام کیا جائے کہ اب مختلف ممالک ایک دوسرے سے جنگ نہ کریں اور عالمی سطح پر انصاف قائم کیا جائے۔اور اس کے بعد اس منشور میں جو تفاصیل درج تھیں وہ ایسی تھیں جن میں عالمی سطح پر انصاف کا گلا گھونٹنے کا بھرپور انتظام کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اسی منشور کے مطابق بڑی طاقتوں نے مفتوح اقوام سے کچھ معاہدے کیے جن میں آئندہ عالمی تنازعوں کی بنیاد رکھی گئی۔لیگ آف نیشنز کے منشور کے آرٹیکل ۲۲ کا یہ حصہ ملاحظہ فرمائیں

To those colonies and territories which as a consequence of the late war have ceased to be under the sovereignty of the States which formerly governed them and which are inhabited by peoples not yet able to stand by themselves under the strenuous conditions of the modern world, there should be applied the principle that the well-being and development of such peoples form a sacred trust of civilisation and that securities for the performance of this trust should be embodied in this Covenant.

The best method of giving practical effect to this principle is that the tutelage of such peoples should be entrusted to advanced nations who by reason of their resources, their experience or their geographical position can best undertake this responsibility, and who are willing to accept it, and that this tutelage should be exercised by them as mandatories on behalf of the League.

ترجمہ : وہ کالونیاں اور علاقے جن پر پہلے دوسرےممالک کی حکومت تھی اور اس جنگ کے نتیجہ میں وہ حکومت ختم ہو چکی ہے اور ان میں ایسے لوگ آباد ہیں جو ابھی عالمی سطح پر جدید دنیا کے سخت حالات کی وجہ سے اس قابل نہیں کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں، ان کی فلاح و بہبود اور ترقی ایک مقدس امانت ہے جسے اس منشور میں تحفظ دیا گیا ہے۔ اس امانت کی ادائیگی کے لیے ان کی سرپرستی ان ترقی یافتہ اقوام کے سپرد کرنی چاہیے جو اپنے وسائل، تجربے اور جغرافیائی محل وقوع کی بنا پر یہ ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں اور اس کے لیے تیار ہیں۔اور یہ اقوام لیگ کی طرف سے سرپرست کے طور پریہ نگرانی کریں گی۔

اس آرٹیکل کا مطلب یہ ہے کہ کمزور ممالک کو بڑی طاقتوں کا محکوم بنایا جائے گا۔حالانکہ پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادیوں نے عرب قبائل کی مدد اس شرط پر حاصل کی تھی کہ انہیں ٓزادی دلائی جائے گی۔یہ شق اس لیے بھی مضحکہ خیز ہے کہ اس منشور میں جن اقوام کو ترقی یافتہ اور سرپرست اور تجربہ کار قرار دے کر کمزور ممالک کو ان کا محکوم بنایا جا رہا ہے، یہ وہی طاقتیں تھیں جن کی فاش غلطیوں کی وجہ سے پہلی جنگ عظیم جیسی عالمی تباہی برپا ہوئی اور ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگ ان کی عقلمندیوں کے نتیجہ میں ہلاک ہوگئے تھے۔

معاہدے مسلط کیے جاتے ہیں

لیگ آف نیشنز کے منشور میں اس ناانصافی کی بنیاد رکھنے کے بعد، مفتوح ممالک سے معاہدے کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ چنانچہ ۱۰؍اگست ۱۹۲۰ء کو پہلی جنگ عظیم میں فاتح اتحادیوں یعنی برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان اور مغلوب ترکی کے درمیان ایک معاہدہ کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس کی شرائط فاتح اقوام کی طرف سے مسلط کی گئی تھیں۔ اس معاہدہ کو معاہدہ سیورائے (Sevres) کہا جاتا ہے۔ اس کی شق ۹۵ یہ تھی کہ شام اور عراق کی آزادی فاتح اقوام میں سے ایک نگران (Mandatory)کے تحت ہو گی۔ جب تک یہ اقوام تنہا کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہو جاتیں۔ اسی طرح فلسطین کے بارے میں اس معاہدہ کی شق ۹۶ میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اس کی سرحدوں کا تعین یہ فاتح ممالک کریں گے۔ اور ان میں سے ایک کو فلسطین کا نگران مقرر کیا جائے گا۔ اور اس نگران ملک کی ذمہ داری ہو گی کہ برطانیہ کی حکومت نے نومبر ۱۹۱۷ء کو جو اعلان کیا تھا کہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کر کے وہاں پر یہودیوں کا قومی وطن قائم کیا جائے، یہ نگران ملک اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے کا ذمہ دار ہو گا۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ فرانس اور ان کے اتحادیوں نے یہ سبز باغ دکھا کر عربوں کی حمایت حاصل کی تھی کہ اس وقت تم ترکوں کے غلام ہو ہم تمہیں ان سے آزادی دلائیں گے لیکن آزادی دلانے کی بجائے عملی طور پر انہیں اپنا محکوم بنا لیا اور فلسطین جس کی اکثریت مسلمان تھی کے متعلق یہ فرمان جاری کر دیا کہ ہم یہاں پر یہودیوں کو لا کر آباد کریں گے تا کہ ان کا قومی وطن یہاں پر بن سکے۔

حضرت مصلح موعودؓ نقائص کی نشاندہی فرماتے ہیں

چنانچہ اس بندر بانٹ کے نتیجہ میں عراق اور فلسطین کو برطانوی مینڈیٹ یعنی نگرانی کے تحت کر دیا گیا اور فرانس کو شام اور لبنان کے ممالک عطا ہوئے تاکہ وہ وہاں پر اپنا مینڈیٹ قائم کرے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا لیگ آف نیشنز یا اتحادی طاقتوں نے یہ قدم اٹھانے سے قبل ان ممالک کی آبادی کی مرضی معلوم کرنے کا تکلف کیا تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس ایک قدم نے ان فتنوں کو جنم دیا جن کی کوکھ سے آج تک جنگوں اور المیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جنم لے رہا ہے۔یہ صورت حال اس اصول کے بالکل خلاف تھی جس کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے پہلے بیان فرمایا تھا۔ابھی اس معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے لیکن اس کی شرائط منظر عام پر آ چکی تھیں۔ اسی وقت حضورؓ نے ان شرائط پر ایک محاکمہ تحریر فرمایا۔ اسے یکم اور ۲؍جون ۱۹۲۰ء کو الہ آباد میں ہونے والی کانفرنس میں بھیجا گیا اور یہ تحریر بعد میں ’معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ ‘کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کا ایک اقتباس پیش ہے:’’ترکوں کے متعلق شرائط صلح کا فیصلہ کرتے وقت ان اصولوں کی پابندی نہیں کی گئی جن کی پابندی یورپ کے مدبر انصاف کے لئے ضروری قرار دے چکے ہیں۔عراق کی آبادی کو ایسے طور پر اپنی رائے کے اظہار کا موقع نہیں دیا گیا جیسا کہ جرمن کے بعض حصوں کو۔ ان سے باقاعدہ طور پر دریافت نہیں کیا گیا کہ وہ اپنے لئے کس حکومت یا طریق حکومت کو پسند کرتے ہیں۔ شام کی آبادی کو باوجود اس کے صاف صاف کہہ دینے کے کہ وہ آزاد رہنا چاہتی ہے فرانس کے زیر اقتدار کر دیا گیا۔ فلسطین کو جس کی آبادی کا ۳/۲ حصہ مسلمان ہے ایک یہودی نو آبادی قرار دے دیا گیا حالانکہ یہود کی آبادی اس علاقہ میں ۴/۱کے قریب ہے۔ اور یہ آبادی بھی جیسا کہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے ۱۸۷۸ء سے ہوئی ہے ’’اور زیادہ تر ان پناہ گیروں کی ہے جنہوں نے ان ممالک سے آکر یہاں پناہ لی ہے جن میں یہودیوں پر ظلم کرنا سیاست کا ایک بڑا جزو قرار دیا گیا ہے‘‘ (یعنی روس وغیرہ۔)…

پس ایسے علاقے سے ترکوں کو دستبردار کرانا اور یہود کے سپرد کر دینا جس میں کثیر حصہ آبادی مسلمان ہے اور جو یہود کے لئے ایک یہی جائے پناہ تھی… جبکہ مسیحی حکومتیں ان کو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے بے دخل کر رہی تھیں۔

یہی حال لبنان کا ہے۔ اس کو فرانس کے زیر اقتدار دینا بالکل کوئی سبب نہیں رکھتا۔‘‘(انوارالعلوم جلد۵صفحہ۱۷۷)

اس کے بعد حضورؓ نے اس معاہدہ کے دوسرے نقائص پر روشنی ڈالی۔ اس اقتباس سے واضح ہے کہ حضور کا موقف تھا کہ لیگ آف نیشنز کی چھتری کے سائے میں ایسے معاہدے کیے جا رہے ہیں جن کے ذریعہ زبردستی دوسرے ممالک پر اپنی رائے مسلط کی جا رہی ہے۔ جب کہ ضروری تھا کہ فلسطین سمیت ان ممالک کے باشندوں کی رائے معلوم کی جاتی اور انہیں اپنے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جاتا۔ تاریخ گواہ ہےایک نا انصافی کے بعد یہ سلسلہ بند نہیں ہوجاتا۔ ایک کے بعد دوسرا المیہ اس کی کوکھ سے جنم لیتا رہتا ہے۔ ان مندرجہ بالا ممالک کی فہرست پر نظر ڈالیں فلسطین سمیت نہ ان ممالک میں آج پائیدار امن قائم ہے اور نہ ہی اس خطے میں جنگوں کا سلسلہ بند ہوا ہے۔ اگر اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی نصیحت پر عمل کر لیا جاتا تو سانحوں کا یہ سلسلہ شروع ہی نہ ہوتا۔

نفرت انگیزی اور امن

جب بھی دنیا میں مختلف گروہوں کے خلاف نفرت انگیزی کو پروان چڑھایا گیا ہے تو اس کے نتیجہ میں نہ صرف ناانصافیوں نے جنم لیا ہے بلکہ دنیا کا امن بھی غارت ہوا ہے۔ جنگوں کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ نفرت انگیزی اس خون خرابے کو جنم دیتی ہے۔ جب پہلی جنگ عظیم کے فوری بعد ترکوں اور عرب ممالک کو طرح طرح کے غیر منصفانہ فیصلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا توحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مسلمانوں کو اس اہم پہلو کی طرف توجہ دلائی کہ امن کے قیام اور اپنے سے ہونے والی ناانصافیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انہیں اپنے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈا کا منظم اور بھرپور مقابلہ کرنا ہوگا۔

اپنی تحریر ’ترکوں کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض‘میں حضورؓ نے ہندوستان کے سیاسی لیڈر لالہ لاجپت رائے صاحب جو کہ آریہ سماج میں بھی رہ چکے تھے، کی تحریر کا حوالہ دیا۔ اس وقت انہوں نے مغربی ممالک کے کئی سفر کیے تھے۔ انہوں نے لکھا کہ اس سفر میں مجھے کسی چیز نے اتنی تکلیف نہیں دی جتنی اس نا واقفیت نے پہنچائی جو کہ مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے بارے میں پھیل رہی ہے۔آپ کو چین، جاپان اور ہندوستان کے ہمدرد تو ملیں گے لیکن اپنے پانچ سالہ سفروں میں مجھے ایک شخص نہیں ملا جو کہ مسلمانوں یا مسلمان ممالک کے حق میں کوئی کلمہ خیر نکالتا ہو۔اور ان کی مجالس میں جو گفتگو ہوتی ہے، ان سے ان کی ناواقفیت اور تعصب ظاہر ہوتے ہیں۔ اس ہندو لیڈر نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اپنے قابل وفود ان ممالک میں بھیج کر اس تعصب کی فضا کا مقابلہ کریں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو خود نقصان اٹھائیں گے۔ حضور نے لالہ لاجپت رائے صاحب کے خیالات درج کرنے کے بعد تحریر فرمایا:’’بہت سا وقت ضائع ہو چکا ہے اور تھوڑا باقی ہے۔اگر اب بھی سستی کی گئی تو کسی بہتری کی امید رکھنا فضول ہے۔جب تک اسلام بہیمیت اور دنیا کے لئے ایک مہلک بیماری کے رنگ میں دیکھا گیا اس وقت تک مغربی بلاد سے کسی انصاف کی امید رکھنا ایک فضول امر ہے…‘‘

یہ یاد کرانے کے بعد کہ یہ ایک مذہبی فریضہ ہے حضور نے تحریر فرمایا:’’اگر پہلے مذہب کے حکم کے ماتحت انہوں نے اس کام سے غفلت برتی ہے۔ تو اب اپنی جان بچانے کے لئے عزت کی زندگی بسر کرنے کے لئے انہیں اس کام کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔اور سب ذرائع عارضی ہیں مگر یہ ذریعہ کامیابی مستقل ہے۔جب کوئی شخص بیماریوں کا گھر بن جاتا ہے۔ تو طبیب سمجھ لیتا ہے کہ یہ سب کسی خاص سبب سے پیدا ہوئی ہیں اور وہ بجائے الگ الگ بیماریوں کا علاج کرنے کے اس جڑ کا علاج کرتا ہے۔اس وقت مسلمانوں کے دنیاوی مصائب کا اصل سبب ان ممالک کا اسلام کے متعلق غلط واقفیت رکھنا ہے جن کو اس وقت غلبہ اور اقتدار حاصل ہے۔پس فرداََ فرداََ ان مصائب کا علاج فضول ہے۔ جڑ کا علاج کرو مرض خود دور ہو جاوے گی۔‘‘(ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض،انوارالعلوم جلد ۴ صفحہ ۴۵۰،۴۴۹ص)

قیام امن کی راہ میں جس رکاوٹ کی طرف حضور نے توجہ دلائی تھی وہ رکاوٹ آج بھی موجود ہے۔ نہ صرف فلسطین کے مسئلہ پر بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز خیالات قیام امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

مختلف مذاہب، اقوام، نسلوں اور ممالک کے درمیان اگر احترام کا وجود نہیں ہوگا تو پائیدار امن کا خواب محض ایک خواب ہی رہے گا۔اگر صرف مسلمانوں کی مثال لی جائے تو یہ چشم کشا اعداد و شمار آج بھی ہمیں اسی پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہیں جس کی نشاندہی ایک صدی قبل حضورؓ نے فرمائی تھی۔۲۰۱۱ء میں گیلپ نے ایک سروے کیا کہ کتنے فیصد یہ کہتے ہیں کہ مغربی معاشرے میں مسلمانوں کے معاشرے کا احترام نہیں کیا جاتا۔ اس سروے سے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ امریکہ میں ۵۲فیصد، کینیڈا میں ۴۸ فیصد، یوکے میں ۳۸ فیصد جرمنی میں ۳۴فیصد اور فرانس میں تیس فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ مغربی معاشرے میں مسلمانوں کے معاشرے کا احترام نہیں کیا جاتا۔ اگر ایسے ممالک میں جہاں تعلیم زیادہ عام ہے عدم احترام کا یہ عالم ہے تو باقی ممالک کے حالات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔اس باہمی عدم ِاحترام کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اب امن کے ساتھ رہنے کی امیدیں بھی دم توڑتی جا رہی ہیں۔پیو ریسرچ سینٹر کی تحقیق کے مطابق ۲۰۱۳ء میں پچاس فیصد اسرائیل کی یہودی آبادی کا خیال تھا کہ فلسطین اور اسرائیل کی ریاستیں ایک ساتھ رہ سکتی ہیں اور ۲۰۲۳ء میں صرف ۳۵ فیصد اسرائیل کے یہودی اس سوال کا جواب مثبت میں دے رہے تھے۔۲۰۱۳ء میں اسرائیل کی ۷۴ فیصد عرب آبادی کا خیال تھا کہ یہ ممکن ہے اور ۲۰۲۳ء میں صرف ۴۱ فیصد آبادی کو یہ ممکن نظر آرہا تھا۔

اللہ تعالیٰ سب کو حضرت مصلح موعودؓکے بیان فرمودہ اصولوں کے مطابق دنیا میں انصاف اور مساوات پر مبنی امن قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button