تعمیر مساجد کے ذریعہ قیام امن
مسجد! خدائے واحد ویگانہ کے حضور سربسجود ہونے کا مقام۔ حقیقی امن، ذہنی سکون اور اطمینان قلب کے متلاشیان کے لیے حصار عافیت۔ بندگی و عبودیت کا حق ادا کرنے اور لقائے الٰہی حاصل کرنے کی مخصوص جگہ۔ روئے زمین پر اس چنیدہ مقام کی فضیلت قرآن کریم نے بیان کی۔اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمۡ یَخۡشَ اِلَّا اللّٰہَ۔ (التوبہ:18)اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یومِ آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔ وَ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا۔(الْجِنّ:19)اور یقیناً مسجدیں اللہ ہی کے لئے ہیں پس اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو‘‘۔
وہ رب العزت جو سلامتی اور امن کا مبدا، منبع اور سرچشمہ ہے کیسے ممکن ہے کہ اس کے حضور سربسجود ہونے کی جگہ سلامتی اور امن کا گھر نہ ہو۔ وادی بکّہ میں سنگ و خشت سے تعمیر ہونے والا پہلا خانہ خدا ازل سے اس صداقت کا اعلان کر رہا ہے :مَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا۔(آل عمرن:98) اس بیت اللہ کی غرض بنی نوع انسان کو تہذیب و تمدن کے ایک لامتناہی، مسلسل آگے بڑھنے والے سفر پر روانہ کرنا تھا جس کا سلسلہ روزمحشر تک جاری و ساری رہے گا۔
ابو الانبیاء نےاپنے لخت جگر کے ساتھ اس بیت کو ازسرنو ایستادہ کرتے ہوئے بارگاہ ایزدی میں جس عالمگیر رسول کی بعثت کی التجا کی وہ بھی امن کا شہزادہ اور رحمۃللعالمین بن کر ظاہر ہوا۔
تاریخ اسلام میں مساجد کے کردار پرغور کریں تو متعدد خصوصیات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہیں۔ مسجد قبا کے بعد دورِ نبویؐ کی پہلی مسجد، مسجدِ نبوی تھی اور یہی مسجد ملّتِ اسلامیہ کا اوّلین مرکز قرار پائی۔ دیگر گوناگوں خصائص کے علاوہ اس مسجد کو اعلیٰ ترین درس گاہ بلکہ اس دَور کی یونیورسٹی ہونے کا فخر بھی حاصل تھا۔ جہاں شب و روز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معلّمِ انسانیت سے تعلیم و تربیت حاصل کرتے، خصوصاً اصحابِ صفہ تو مسجد نبوی میں رہ کر اسی کام کے لیے کمر بستہ رہتے۔ پھر مساجد کی وجہ سے ہمیں پاکیزگی اور صفائی کی نعمت بھی میسر ہے مسجد میں نماز کے لیے آنے والے ہر شخص کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ باوضو ہو۔بدبو دار چیز لہسن، پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں نہ آئے۔ بلکہ ہو سکے تو خوشبو لگا کر آئے۔ لباس بھی پاک صاف ہو۔ بنا بریں نماز کی پابندی کرنے اور مسجد میں پانچ وقت حاضری دینے سے انسان میں طبی طور پر طہارت و نظافت کے احساسات کروٹ لیتے ہیں۔سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی مسجد کو ایک نمایاں اور منفرد حیثیت حاصل ہے۔ قرونِ اولیٰ میں مسلمان مساجد میں صرف نماز ہی کے لیے اکٹھے نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کے تمام اجتماعی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے صلاح و مشورے اور فیصلے وغیرہ بھی مساجد ہی میں ہوتے تھے۔ عمومی طور پر نماز کے بعد مجلس شوریٰ منعقد ہوتی جس میں مختلف مسائل زیر بحث آتے اور ان کے فوری تدارک کے لیے تجاویز اور پروگرام مرتب کیے جاتے تھے۔اسی طرح باہر سے جو وفود اور سفراء وغیرہ آتے ان سے ملاقات و مذاکرات بھی مسجد ہی میں ہوتے اور اگر کہیں لشکر کشی کا ارادہ ہوتا تو اس کے لیے بھی تجاویز مسجد ہی میں پاس کی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ مسجد نبویؐ میں تو لوگ فنونِ حرب کی مشق بھی کیا کرتے تھے۔ دورِ نبوی اور اس کے بعد خلافتِ راشدہ کے زمانہ میں مسجد کو عدالت کی حیثیت حاصل رہی۔ مقدمات یہیں فیصلے ہوتے اور مجرموں کی سزائیں وغیرہ بھی یہیں تجویز ہوتی تھیں۔
خُلق عظیم کےاعلیٰ و ارفع مقام پر فائز رسول رحمتﷺ کا غزوات میں بھی یہی معمول تھا کہ اگر کہیں حملے کا ارادہ فرماتے تو رات بھر انتظار کرتے۔ صبح کو جہاں سے اذان کی آواز آتی وہاں حملہ کرنے سے روک دیتے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُغِيْرُ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، وَكَانَ يَسْتَمِعُ الْأَذَانَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا، أَمْسَكَ، وَإِلَّا أَغَارَ، فَسَمِعَ رَجُلًا، يَقُولُ: اللّٰهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَى الْفِطْرَةِ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَرَجْتَ مِنَ النَّارِ فَنَظَرُوا، فَإِذَا هُوَ رَاعِي مِعْزًى۔ (صحيح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ باب الإِمْسَاكِ عَنِ الإِغَارَةِ عَلَى قَوْمٍ فِي دَارِ الْكُفْرِ إِذَا سُمِعَ فِيهِمُ الأَذَانُ حدیث نمبر: 847)حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب فجر طلوع ہوجاتی تو حملہ کرتے۔آپﷺ اذان کی آواز پر کان لگائے رکھتے تھے اور اگر مخالفوں کے شہر میں سے آپﷺ کو اذان کی آواز سنائی دیتی تو حملہ کرنے سے رک جاتے۔ ایک مرتبہ آپ نے کسی کو کہتے ہوئے سنااللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہےتو فرمایا فطرت پر ہے۔ پھر اس نے کہا: أَشْهَدُ أَنْ لٰا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ۔ تو فرمایا:’’ تُو آگ سے نکل گیا۔‘‘ اس کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ وہ بکریوں کا چرواہا تھا۔
عَنِ ابْنِ عِصَامٍ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِيْهِ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ جَيْشًا أَوْ سَرِيَّةً يَقُولُ لَهُمْ: إِذَا رَأَيْتُمْ مَسْجِدًا، أَوْ سَمِعْتُمْ مُؤَذِّنًا، فَلَا تَقْتُلُوا أَحَدًا۔(سنن ترمذي كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حدیث نمبر: 1549)حضرت عصام مزنیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب کوئی لشکر یا سریہ بھیجتے تو ان سے فرماتے:جب تم کوئی مسجد دیکھو یا مؤذن کی آواز سنو تو کسی کو نہ مارو۔ مندرجہ بالا توضیحات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسجد کو دینی، تعلیمی، معاشرتی، سماجی اورسیاسی لحاظ سے بھی بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
بیت اللہ امن کا پہلا مرکز
قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:وَاِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَیۡتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمۡنًا ؕ(البقرہ:126)اور جب ہم نے (اپنے) گھر کو لوگوں کے بار بار اکٹھا ہونے کى اور امن کى جگہ بنایا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت میں موجود خانہ کعبہ کی تعریف میں اَلْبَیۡتکی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اَلْبَیْت خانہ کعبہ کا نام ہے۔ اسے اَلْبَیْت اس لئے کہتے ہیں کہ اِس میں بیت کے تمام خواص جمع ہیں۔ جیسے کہتے ہیں زَیْدُنِ الرَّجُلُ زید ہی آدمی ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ ایک معقول آدمی کے اندر جس قدر خوبیاں پائی جانی چاہئیں وہ سب کی سب زید میں پائی جاتی ہیں۔ پس خانہ کعبہ ہی گھر ہے کا مطلب یہ ہے کہ گھر کی جو خصوصیتیں ہوتی ہیں وہ سب کی سب صرف اِسی گھر سے حاصل ہوتی ہیں۔ گھر کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں۔ گھر کی یہ خصوصیات ہوتی ہیں کہ (1) گھر مستقل رہائش کی جگہ ہوتی ہے (2) گھر چوری اور ڈاکہ سے حفاظت کا ایک ذریعہ ہوتا ہے (3) گھر امن کا مقام ہوتا ہے جس میں داخل ہو کر انسان ہر قسم کے مصائب سے نجات پا جاتا ہے (4) گھر تمام قریبی رشتہ داروں اور عزیزوں کے جمع ہونے کی جگہ ہوتا ہے (5) گھر انسان کے مال و متاع کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اِن پانچ خصوصیتوں کے لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو درحقیقت خانہ کعبہ ہی اصل گھر ہے… پھر گھر کی یہ خصوصیت کہ اس میں انسان کو ہر قسم کا امن حاصل ہوتا ہے یہ بھی خانہ کعبہ کو میسر ہے۔ کیونکہ امن اسی صورت میں میسر آتا ہے جب تمام جھگڑے مٹ جائیں اور خانہ کعبہ ہی ایک ایسا مقام ہے جو توحید کا مرکز ہونے کی وجہ سے تمام دنیا کو ایک نقطۂ اتحاد پر جمع کرنے کا ذریعہ ہے۔ غرض خانہ کعبہ ہی حقیقی اور کامل گھر ہے جس میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ایک گھر میں پائی جانی چاہئیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 163، 165،ایڈیشن 1986ء)
مسجد… آخرین کے لیے مقام امن
رب العالمین کا وہ عاشق صادق جس کے لیے تمام زمین مسجد بنائی گئی،اُس نے جہاں آخری زمانے میں مساجد کے ہدایت سے خالی ہونے کی پیشگوئی کی وہیں مسیح آخر الزمان کے ذریعہ ایمان وایقان کو ثریا سے واپس لانے کا مژدہ جانفزا بھی سنایا۔اور اُسی رسول اطہرﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق جب وہ مسیح محمدی ظاہر ہوا تو اُس نے بھی اسلام کے حقیقی غلبہ کی داغ بیل ڈالنے کے ساتھ دار الامان میں مسجد مبارک تعمیر کروائی جس کے بارے میں مولائے کُل نے بار بار یہ خبر دی کہ یہ مسجد مخلوق کے لیے امن کی ضمانت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’ اس مسجد مبارک کے بارے میں پانچ مرتبہ الہام ہوا۔ منجملہ ان کے ایک نہایت عظیم الشان الہام ہے…… فِیْہِ بَرَکَاتٌ لِّلنَّاسِ۔ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا۔‘‘… سوم یہ کہ یہ الہام دلالت کررہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں کوئی آفت آنے والی ہے اور جو شخص اخلاص کے ساتھ اس میں داخل ہوگا وہ اس آفت سے بچ جائے گا۔‘‘(تذکرہ صفحہ83، حاشیہ ایڈیشن 2006ء نظارت نشرو اشاعت قادیان)
پس ہادی کاملﷺ کی پیش خبریوں کے مطابق آخرین کے دور میں پیدا ہونے والے اس ظل ِ کامل نے اپنے عہد با سعادت میں باقاعدہ طور پر جو پہلی مسجد تعمیر کروائی ربِّ رحمٰن و رحیم نے اسے مرکزِ امن قرار دیا۔
مساجد، امن گاہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’ افسوس کہ لوگ اگر ذرابھی آسودگی پاتے ہیں تو مخلوق الٰہی کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ اس کا انجام خطرناک ہے۔ ان لوگوں میں تحقیر کا مادہ یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ اگر کسی کی طاقت مسجد کے متعلق ہے تو وہ ان لوگوں کو جو اس کے ہم خیال نہیں مسجد سے روک دیتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ آخر وہ بھی خداہی کا نام لیتا ہے۔ ایسا کرکے وہ اس مسجد کو آباد نہیں بلکہ ویران کرنا چاہتا ہے۔ بارہویں صدی تک اسلام کی مسجدیں الگ نہ تھیں بلکہ اس کے بعد سنّی اور شیعہ کی مساجد الگ ہوئیں پھر وہابیوں اور غیر وہابیوں کی اور اب تو کوئی حساب ہی نہیں۔ ان لوگوں کو شرم نہ آئی کہ مکہ کی مسجد تو ایک ہی ہےاور مدینہ کی بھی ایک ہے۔ قرآن بھی ایک، نبی بھی ایک مرشد بھی ایک۔ پھر ہم کیوں ایسا تفرقہ ڈالتے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ مسجدوں میں خوف الٰہی سے بھرے داخل ہوتے… یاد رکھو کسی کو مسجد سے روکنا بڑا بھاری ظلم ہے۔اپنے نبی کریمﷺ کے طرز عمل کو دیکھو کہ نصرانیوں کو اپنی مسجدمبارک میں گرجا کرنے کی اجازت دے دی… یہ بڑا اعلیٰ نسخہ ہے کسی کو عبادت گاہ سے نہ روکواور کسی مخلوق کی تحقیر نہ کرو۔ مگر اس سے یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں امربالمعروف نہ کرو۔ ہرگز نہیں بلکہ صرف حسن سلوک اور سلامت روی سےپیش آؤ۔‘‘(حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ 22۱،22۰۔ایڈیشن 2005ء۔ نظارت نشرو اشاعت قادیان)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پیدرو آباد سپین میں مسجد بشارت کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کے دوران فرمایا:’’ مسجد ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمام انسان برابر ہیں۔ خواہ وہ غریب ہوں یا امیر۔ پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ… اسلام ہمیں باہم محبت اور الفت سے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمیں انکساری سکھاتا ہے،اور بتاتا ہے کہ انسانوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے وقت ہمیں مسلم اور غیر مسلم میں کسی قسم کی کوئی تمیز روا نہیں رکھنی چاہیے۔ انسانیت کا یہی تقاضا ہے…میرا پیغام صرف یہ ہے کہ Love for All Hatred For None یعنی سب کے ساتھ پیار کرو، نفرت کسی سے نہ کرو۔‘‘(حیات ناصر جلد اوّل مرتبہ محمود مجیب اصغر صفحہ65۸،65۷)
یکم اگست 1980ء کو مسجد نور ناروے کے افتتاح پر آپؒ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’ تمام عبادت گاہیں یعنی مساجد اللہ ہی کی ملکیت ہیں اس لئے مسجد کا مالک خدا ہی ہوتا ہے۔ ہماری حیثیت تو صرف ایک مہتمم اور نگہداشت کرنے والےکی ہے۔ اس لئے مسجد کے دروازے تما م موحدین کے لئے کھلے ہوتے ہیں… اےخدا ! ہماری اس کوشش کو قبول کر اور اپنے اس گھر کو اس خوبصورت سر زمین کے باشندوں کے لئے جائے پناہ اور عبادت کا مرکز بنا، اور ان تمام لوگوں کے لئے جو اس کے اہل ہوں اس گھر کوامن اور حفاظت کی جگہ بنا۔‘‘(خطبا ت ناصر جلد ہشتم صفحہ 645تا647)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت السلام سکنتھورپ برطانیہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران فرمایا:’’ آج کا دن ہمارے لیے نہایت خوشی اور مسرت کا دن ہے کیونکہ آج ہم اپنی اس نئی مسجد کے افتتاح کی توفیق پا رہے ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں بھی آئیں جس کی وجہ سے اس کی تعمیر اور افتتاح میں تاخیر ہوئی۔ مقامی آبادی کی طرف سے اس مسجد کے قیام کی مخالفت کی گئی لیکن خدا کے فضل سے تمام مشکلات دور ہوگئیں۔ اس سلسلے میں مَیں مقامی کونسل اور متعلقہ حکام نیز مقامی آبادی کا بھرپور شکریہ ادا کرتا ہوں۔اس مسجد کا قیام ہماری جماعت کی مالی قربانیوں کے طفیل ممکن ہوا ہے۔ بعض احباب نے اس سلسلے میں بڑی بھاری رقوم پیش کیں تاکہ وہ سب ایک جگہ جمع ہوکر اجتماعی طور پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی کوشش کرسکیں۔مجھے اندازہ ہے کہ جب میں یہ بات کہتا ہوں کہ یہ مسجد اس علاقے میں اسلامی تعلیمات کے عملی اظہار کا مظہر ہوگی تو یقیناً بعض لوگوں کے دلوں میں وساوس اور خدشات پیدا ہوتے ہیں اور یہ قدرتی بات ہے، جس کا ہمیں احساس ہے۔ اس دور میں تو ویسے بھی مسلمانوں اور اسلام کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام تو ظلم اور زیادتی سے منع کرتا ہے اور معاشرے میں امن اور سلامتی کے قیام کا درس دیتا ہے۔ اسلام کا پیغام تو یہ ہے کہ بنی نوع انسان بلا تفریق مذہب و ملت اور رنگ و نسل انسان ہونے کی حیثیت میں اکٹھے ہو جائیں…اسی طرح اسلام ہمیں یہ حکم بھی دیتا ہے کہ بلا امتیاز ہم بنی نوع انسان کے حقوق ادا کریں۔ اس حوالے سے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام کا جو نقشہ یہ شدت پسند گروہ پیش کرتے ہیں اسلامی تعلیمات اس سے یکسر مختلف ہیں۔ اسلام تو امن و سلامتی اور محبت کا مذہب ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ بات آپ کو متاثر کرنے کے لیے میں یوں ہی کہہ رہا ہوں بلکہ یہ قرآنی تعلیمات ہیں جو میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ اسلام بڑا واضح حکم دیتا ہے کہ دین کے معاملے میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں۔ہر حقیقی مومن اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ جب بھی کوئی مسجد تعمیر ہو تو وہ ان مقاصد کے تابع ہو جو اولین مسجد یعنی بیت الحرام کی تعمیر کے مقاصد تھے۔ پس ہر مسجد کا رخ کعبۃ اللہ کی طرف ہی ہوا کرتا ہے۔ بیت اللہ کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو بھی اس میں داخل ہوتا ہے وہ گویا امن میں داخل ہوتا ہے۔ قرآن نے تو یہ حکم دیا ہے کہ جاہل شخص کی جہالت کا جواب بھی جہالت سے نہیں دینا بلکہ امن اور وقار سے ایسی صورتحال سے گزر جانا ہے۔ اسلام مسلمانوں کو صبر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔عین ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر اسلام اتنا ہی پرامن مذہب ہے تو اسلام کے آغاز میں جنگیں اور خون خرابہ کیوں ہوا۔ یہ سوال دراصل اسلام کی تعلیمات سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ اسلام تو بڑے پیچیدہ اور مخصوص حالات میں جنگ کی اجازت دیتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ پر انتہائی ظلم و ستم ہوا۔ انہیں گھروں سے بےگھر کیا گیا، انہیں قتل کیا گیا۔ مکہ معظمہ کے تیرہ سالہ قیام کے دوران مسلمانوں پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد بھی اُن ظالموں نے اسلام کا پیچھا کیا، مسلمانوں پر زبردستی جنگ مسلط کی۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو محض دفاعی جنگ کی اجازت دی گئی۔ اس اجازت کا ذکر سورہٴ حج کی آیات میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو جنگ کی اجازت دی گئی جن پر حد درجہ ظلم ہوا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد پر قادر ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے ذریعے بعض دوسرے گروہوں کو روکنے کا انتظام نہ فرماتا تو یقیناً لوگوں نے مسیحیوں کے گرجاگھر، یہود کے معابد اور مسلمانوں کی مساجد سب کو منہدم کردینا تھا۔پس مسلمانوں کو دفاعی جنگ کی اجازت مذہبی آزادی کے قیام کی غرض سے دی گئی تھی۔آج کے دور میں اگر جائزہ لیا جائے تو کہیں بھی مسلمان اسلام کی سربلندی کے لیے کفار سے برسرِ پیکار نہیں۔ بلکہ یہ سیاسی جنگیں ہیں جن میں اسلامی ممالک کے علاوہ دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ یوکرین کی مثال آپ سب کے سامنے ہے۔ اس دور کی جنگیں دراصل زیادہ سے زیادہ علاقے اور وسائل پر قابض ہونے کے لیے لڑی جانے والی جنگیں ہیں۔ پس یہ تو بہت بڑا ظلم ہوگا اگر ان جنگوں کو مذہب سے نتھی کیا جائے۔ہم تو اس بات پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہر طرح کی مذہبی آزادی میسر ہے۔ ہم اپنے دین پر آزادی کے ساتھ عمل کرسکتے ہیں۔ اپنے مذہب کے پرچار کے لیےمساجد کی تعمیر کرسکتے ہیں…مجھے امید ہے کہ اس مسجد کی تعمیر سے اس علاقے کے لوگ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے متعارف ہوسکیں گے۔ اسی طرح ان لوگوں کے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق تمام شکوک وشبہات بھی ان شاءاللہ دور ہو جائیں گے۔ اس مسجد کا تو نام ہی’بیت السلام‘یعنی سلامتی اور امن کا گھر رکھا گیا ہے۔آخر میں مَیں خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ یہ مسجد خدا کے نور اور اس کی روشنی کا مظہر بن جائے۔ خدا کرے کہ یہ مسجد حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی، رواداری اور محبت کی طرف توجہ دلاتے چلے جانے کا باعث ہو۔ خدا کرے کہ یہاں کے مقامی احمدی مسلمان اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہوں۔ یہ لوگ یہاں کی آبادی کے لیے امن اور سلامتی کا ضامن بن جائیں۔‘‘(روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 24؍جون 2023ء صفحہ2۔جلد30شمارہ103)
مسجد فتحِ عظیم زائن امریکہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’درحقیقت عبادت گاہیں، کہ جہاں لوگ اجتماعی طور پر عبادت کرسکیں تمام ہی مذہبی جماعتوں کےلیے انتہائی ناگزیراور اہم ہوا کرتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق،مساجد کے قیام کی دو بنیادی اغراض اور فوائد ہیں۔ اوّل یہ کہ مساجد کا قیام مسلمانوں کوایک ایسی جگہ فراہم کرتا ہے کہ جہاں وہ اکٹھےہوکر اجتماعی عبادات بجا لاسکیں اور اپنے اعتقاد اور تعلیمات کے مطابق مذہبی فرائض ادا کرسکیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو دن میں پانچ مرتبہ عبادت کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح مساجد کی تعمیر کی دوسری غرض یا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح معاشرے کا ایک وسیع حصّہ اسلام اور اُس کی تعلیمات سے رُوشناس اور متعارف ہوجاتا ہے۔ اگرمساجد میں عبادت کےلیے حاضر ہونے والے کامل سنجیدگی اور بھرپور کوشش کے ساتھ اسلامی تعلیمات کا عملی اظہار کرنے والے ہوں تو یقیناً یہ چیز مقامی افراد میں اسلام کے متعلق قدرتی طور پر دلچسپی اور تجسس بڑھانے والی ہوگی۔ اسلام کے متعلق اُن کا عِلْم اور ادراک ترقی کرے گااور جب وہ مسلمانوں کو اپنے درمیان پُرامن طریق سےمعاشرے میں مثبت کردار ادا کرتے ہوئے دیکھیں گےتوخدا کے فضل سے اُن کولاحق ہر طرح کے تحفظات اور خدشات دُور ہوں گے۔ پس، یہ ہیں وہ دو مقاصد جن کو پورا کرنےکےلیے جماعت احمدیہ مسلمہ دنیا بھر میں مساجد تعمیر کرتی ہے…ہمارا واحدمقصد اور مطمح نظر پیار اور محبت کے ذریعے دنیا کے دلوں کو فتح کرنااور انہیں خدائے یگانہ کے قریب لانا ہے تاکہ وہ حقیقی معنوں میں اُس کے عبد بن سکیں اورباہم ایک دوسرے کےحقوق ادا کرنے والے ہوں… پس قرآن کریم ہی وہ واحد الہامی صحیفہ ہے جو مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت ہی نہیں دیتا بلکہ اس سے بڑھ کر وہ مسلمانوں اور مسجدوں میں داخل ہونے والوں کو غیرمسلموں کےمذہبی حقوق کی حفاظت کی تاکید بھی فرماتا ہے۔ یہ وہ آسمانی صحیفہ ہےکہ جو تمام مذاہب، عقائد اورمسالک کا محافظ اور نگہبان ہے۔ یہ ہیں وہ اصلی، حقیقی اور جامع اسلامی تعلیمات کہ جن کی دنیا کےگوشےگوشے میں ترویج و اشاعت کےلیے ہم کوشاں ہیں…اب آخر میں مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ آج سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودومہدی معہودعلیہ الصلوٰة و السلام کے متبعین خداتعالیٰ کےحضور اس کا شکر بجالاتے ہیں کہ ہم زائن شہر میں اس مسجد یعنی ’مسجد فتح ِعظیم‘‘ کے افتتاح کی توفیق پارہے ہیں جو دراصل حقیقی مذہبی آزادی کی علامت ہے۔اس مسجد کے دروازے اس روشن اور واضح پیغام کے ساتھ کھلے ہیں کہ تمام لوگوں اور گروہوں کے مذہبی حقوق اور پُرامن عقائد کا تحفظ اور احترام ہمیشہ کیا جاتا رہے گا۔ جماعت احمدیہ مسلمہ کا نصب العین بنی نوع انسان کو روحانی بقا کی راہوں پر گامزن کرنا اور اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ تمام بنی نوع انسان بلا تفریق رنگ و نسل ہم آہنگی اور باہم عزت و احترام کے ساتھ حقیقی امن اور سلامتی کے سائے تلے زندگی بسر کرسکیں۔مَیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعا کرتاہوں کہ یہ مسجدتمام بنی نوع انسان کے لیےہمیشہ امن و سلامتی، محبت اور رواداری کا تابندہ نشان بنی رہے۔ میری دعا ہے کہ یہ وہ مقام ثابت ہو کہ جہاں لوگ مکمل خلوص اورعاجزی کے ساتھ اپنے خالق خدا کی معرفت اور اُس کے حضور سجدہ ریز ہونے اور بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کا سبق سیکھنےکےلیے ہمیشہ جمع ہوتے رہیں، کیونکہ ہمارا کامل اور پختہ ایمان ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کے بنا فلاح و کامیابی کا تصور ناممکن ہے۔‘‘(روزنامہ الفضل انٹرنیشنل(سالانہ نمبر) 24تا 29جولائی2023ء صفحہ1۴،1۳۔جلد30شمارہ12۸،۱۲۷)
حرف آخر
اسلام وہ کامل و اکمل دین ہے جو مسجد، مندر، گرجاگھر، راہب خانے، گوردوارے اور یہود کے معابد گویا ہر مذہب و ملت کی عبادت گاہوں کی حفاظت اور امن کی ضمانت دیتا ہے۔ سورۃ الحج کی آیت نمبر 41 تا ابد اس صداقت پر گواہ رہے گی۔ مگر حیف صد حیف آج اسلام کے نام لیوا مذہبی جنونیوں اور نام نہاد علما کی وجہ سے یہ امن خطرے میں ہے۔ مخبر صادقﷺ کی زبان اطہر سے نکلے الفاظ مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَاءِ کا درجہ رکھنے والی روئے زمین پر یہ بدترین مخلوق اپنے اقوال وافعال اور عفونت زدہ خیالات سے نوجوان نسل کے ذہنوں کو آلودہ کر رہی ہے۔امن اور سلامتی بخشنے والے رب ذوالجلال کے حضور سربسجود ہونے والی جگہ بے گناہ اور معصوم کلمہ گوؤں کے خون سے رنگی جارہی ہیں۔شرق و غرب میں مساجد حقیقی امن سے عاری اور غیر محفوظ ہوتی چلی جارہی ہیں اور ان میں شیعہ سنی دیوبندی اور وہابی مسجد کی تفریق نہیں۔ ماضی قریب اپنے دامن میں ایسے سینکڑوں واقعات سموئے ہوئے ہے۔ رحمۃلّلعالمینﷺ کی پاک تعلیم کے ادراک سے عاری یہ بدبخت لوگ ا س عظیم ذات کاجو ہر عیب سے مبرا، حمد کامل سے متصف شان کبریائی رکھنے والاہے کا نعرہ بلند کرکے اسی خالق و مالک کے دیے ہوئے وجود کو چیتھڑوں میں بدل کر اس کے غضب کا مورد بنتے ہیں۔ اور اپنے ساتھ بیسیوں معصوموں کی زندگی ختم کرکے ان کے پسماندگان کو سوگوار کر جاتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’جماعت احمدیہ کو ہمیشہ کے لئے یہ پیغام دل نشین کرلینا چاہیے کہ ہم نے اسلام کی سچی قدروں کو دوبارہ اجاگر کرنا ہے اور تمام بنی نوع انسان کو قرآن کی تعلیم کی طرف بلانا ہے اور قرآن کی تعلیم کے ان حسین پہلوؤں کو جو بعض لوگوں کے تعصّبات کے تلے دب چکے ہیں جیسے کسی خوبصورت چیز پر رفتہ رفتہ گرد کی تہیں جم جاتی ہیں انہیں صاف کرنا ہے۔ اس گرد کو دور کرنا ہے۔ یہ روحانی غسل خانہ کعبہ کو دینا ہے کہ جس غسل کے بعد وہ خانہ کعبہ ابھرے جو محمد رسول اللہﷺ کے دل پر جلوہ گر ہواتھا، جس کی ابراہیم اور اسماعیل نے تعمیر کی تھی۔‘‘(خطبات طاہر( عیدین) صفحہ 548۔ایڈیشن 2007ء طاہر فاؤنڈیشن انڈیا)