متفرق مضامین

امت مسلمہ کو امن میں لانے کے لیے خلفائے احمدیت کی تڑپ: مسلم ممالک میں بد امنی کی وجوہات اور اُن کا حل

(’ایم-ایم-طاہر‘)

جماعت احمدیہ کے قیام کے مقاصد میں جہاں تجدید دین اور دین حق کے حقیقی چہرہ سے لوگوں کو روشناس کروانا ہے وہاں دنیا میں قیام امن بھی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے کاموں اور فرائض کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ يَضَعُ الْحَربَ کہ وہ آئے گا تو جنگوں کو موقوف کر دے گا یعنی قیام امن کا داعی هو گا۔خلافت حقہ احمدیہ اس قیام امن کی ضامن ہے اور سو سال سے زیادہ کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ خلفائے احمدیت امت مسلمہ کو امن میں لانے کے لیے ہمیشہ تڑپتے رہے اور مسلم ممالک میں پھیلی ہوئی بد امنی، فساد اور بے چینی کی وجوہات کو بیان کرتے رہے اور ان کے لیے ہمدردانہ مشورے دیتے رہےہیں۔

آیت استخلاف میں جہاں مسلمانوں کو قیام خلافت کی نوید دی گئی تھی وہاں اس کی برکات کا بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس کی ایک علامت اور برکت یہ بیان فرمائی کہ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ( النور : 56) کہ اللہ تعالیٰ اُن کے خوف کو امن میں بدل دے گا۔یہ خلافت حقہ کی ایک علامت ٹھہرا دی گئی کہ خلافت کے ساتھ امن وابستہ ہوگا۔خوف ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکے گا۔ خلافت پر یقین اور ایمان لانے والے حالت امن میں رہیں گے جبکہ اس کے باہر حالت خوف ہو گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:

ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار

خلافت حقّہ احمدیہ کے دائرہ سے باہر درندوں کا راج ہوگا۔ ہاں وہی امن و آشتی کے قلعہ میں ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عافیت کے حصار میں ہوں گے۔

مذہبی جنگوں کا خاتمہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا کیونکہ آنحضورؐ نے فرما دیا کہ یضع الحرب کہ وہ جنگ و جدال کو موقوف کر دے گا اور صلح کے شہزادے کا کردار ادا کرے گا۔ اس حقیقت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے منظوم کلام میں یوں بیان فرماتے ہیں:

فرما چکا ہے سید کونین مصطفیٰؐ

عیسیٰ مسیح جنگوں کا کردے گا التوا

جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا

جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا

جو لوگ آنحضور ؐکی اس بات پر یقین نہیں رکھیں گے اور مذہب کے نام پر جنگ و جدال کریں گے انہیں سخت شرمندگی اور شکست سے دوچار ہونا پڑے گا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا

وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا

آج مسلم دنیا کی تنزلی اور ابتری اس پرنشان بنی ہوئی ہے اور آنحضورؐ کے حکم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انکار کے نتیجہ میں دشمن سے سخت ہزیمت اٹھا رہے ہیں۔ بیشتر مسلم ممالک میں بدامنی کی وجوہات انہی تعلیمات سےانکار کا نتیجہ ہے۔ خلافت حقہ احمدیہ ان وجوہات سے بار بار آگاہ کرتی رہی ہے اور امت کو حالت امن میں لانے کے لیے تڑپتی رہی ہے۔ اس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

امن ترقی کا ضامن

حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے دنیا کی ترقی کا راز قیام امن کو قرار دیا اور اسی قیام امن کے لیے احباب کو کوشش کرنے کی تلقین فرمائی۔ آپؓ فرماتے ہیں : ’’دنیا کا کام امن پر موقوف ہے۔ اور اگر امن دنیا میں قائم نہ ر ہے تو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ جس قدر امن ہوگا اسی قدر اسلام ترقی کرے گا۔ اس لئے ہمارے نبی کریمﷺ امن کے ہمیشہ حامی رہے۔آپ نے طوائف الملوکی میں جو مکہ معظمہ میں تھی اور عیسائی سلطنت کے تحت جو حبشہ میں تھی۔ ہم کو تعلیم دی کہ غیر مسلم سلطنت کے ماتحت کس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اس زندگی کے فرائض سے امن ہے۔ اگر امن نہ ہوتو کسی طرح کا کوئی کام دین و دنیا کا ہم عمدگی سے نہیں کر سکتے۔ اس واسطے میں تاکید کرتا ہوں کہ امن بڑھانے کی کوشش کرو اور امن کے لئے طاقت کی ضرورت ہے۔ وہ گورنمنٹ کے پاس ہے۔ میں خوشامد سے نہیں بلکہ حق پہنچانے کی نیت سے کہتا ہوں کہ تم امن پسند جماعت بنو تا تمہاری ترقی ہو اور تم چین سے زندگی بسر کرو۔اس کا بدلہ مخلوق سے مت مانگو۔ اللہ سے اس کا بدلہ مانگو۔ اور یاد رکھو کہ بلا امن کوئی مذہب نہیں پھیلتا اور نہ پُھول سکتا ہے۔(بدر 31؍مارچ 1910ء صفحہ 5،خطبات نور صفحہ466 مطبوعہ نظارت اشاعت)

ترک مجروحین کے لیے امداد

خلافت اولیٰ میں عثمانی ترک حکومت زبوں حالی کا شکار تھی۔ ترکوں کے مفادات برصغیر کے مفادات سے ٹکراؤ رکھتے تھے اور جماعت کو اپنے خطے کے مفاد عزیز تھے۔ ان حالات میں بھی جب ترک مسلمان مجروحین کے چندہ کی بات ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے مجروحین ترکی کی ہمدردی کے لیے چندہ کرنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ مسلمانوں کی ہمدردی کا نمونہ دکھایا۔ چنانچہ آپؓ نے فرمایا : ’’دیکھو میں نے بہت کوشش کی تاکہ مجھے یہ معلوم ہو سکے کہ غریب مسلمانوں کا روپیہ ضائع نہ ہو اور تر کی مجروحین کو پہنچ جانے کا ثبوت مل جائے اس لئے میں نے کرانچی،مدراس، کلکتہ،بر ہما،کولمبو قو نصلوں کو ضروری خطوط لکھے۔ ان میں سے کسی نے جواب نہ دیا۔ہاں البتہ کولمبو والے نے اتنا جواب دیا کہ عبدالحمید ظالم تھا اب جو بادشاہ ہیں بڑے نیک ہیں۔ میرا بڑا جی چاہا کہ اگر ایک بھی اور گواہ ہو جائے مگر مجھے تو میسر نہ ہوا۔ البتہ اب تم اگر اس سے زیادہ تحقیقات کر کے اطمینان حاصل کر سکتے ہو کہ یہ روپیہ ترک مجروحین کو پہنچ جائے گا تو اس چندے میں حصہ لو۔ اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ تم سے دو کروڑ مانگا جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر چودہ کروڑ بھی دینے سے ایک مسلمان سلطنت بچ جائے تو پھر بھی یہ سوداسستا ہے۔ کشمیر کو قریباً کروڑ روپے سے ہندو راجہ نے مول لیا تھا۔ تر کی سلطنت اگر دو کروڑ سے بچتی ہے تو خوشی کی بات ہے۔‘‘ (الحکم 14؍دسمبر 1912ء، خطابات نور صفحہ 528 مطبوعہ نظارت اشاعت )

خلافت ثانیہ

حضرت مصلح موعود ؓکا وجود اسیروں کی رستگاری کرنے والا تھا، قوموں نے آپؓ سے برکت پائی۔ آپ نے اپنے باون سالہ دور خلافت میں امت مسلمہ، مسلم ممالک کی خیر خواہی، ان کی آزادی اور ان کے حقوق اور پھر مسلم ممالک میں قیام امن کے لیے غیر معمولی کوشش فرمائی۔ تاریخ احمدیت کے ہزاروں صفحات ان کوششوں سے بھرے پڑے ہیں۔ صرف چند مثالیں پیش ہیں:

کشمیر میں امن کے لیے کوشش

کشمیری مسلمانوں کے حقوق اور قیام امن کے لیے آپؓ کی کوششیں طویل ہیں اور وہ کوششیں ثمر آوربھی ہوئیں۔ بطور صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی آپ فرماتے ہیں:’’میں اپنی طرف سے اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے اقرار کرتا ہوں کہ ہر اک جائز مدد ہم انشاء اللہ ان کی کریں گے۔ اور خداتعالیٰ کے فضل سے جب تک اور جس حد تک ہم سے ہو سکے گا ریاست اور ان کے درمیان وقار والی صلح کرانے کے لئے کوشش کریں گے۔ اور ہم اللہ تعالیٰ سے امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے فضل سے آپ لوگوں کو بھی اور مہاراجہ صاحب کو بھی ایسے راستہ پر چلنے کی توفیق دے گا جس سے ریاست اور اہل ریاست دونوں کی عزت بڑھے گی اور کشمیر اپنے طبعی ذرائع کے مطابق اپنے ہمسایہ ممالک کے دوش بدوش عزت و اکرام کے مقام پر کھڑا ہو گا۔‘‘(انوارالعلوم جلد 12 صفحہ 150)

بطور صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کشمیریوں کے لیے کامیاب جد و جہد

آپؓ فرماتے ہیں: ’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا کام ایک ٹھوس کام ہے۔ اس کمیٹی نے اُس وقت ہندوستان میں کشمیر سے دلچسپی پیدا کرا دی جبکہ پنجاب سے باہر کے لوگ اس مسئلہ کی حقیقت سے بالکل ناواقف تھے۔ اور نہ صرف ہندوستان میں بلکہ انگلستان، امریکہ، شام، مصر، جاوا،سماٹرا وغیرہ ممالک میں بھی لوگوں کو کشمیر کے مسلمانوں کی حالت سے واقف کر کے ان سے ہمدردی کا مادہ پیدا کیا اور ریاست کو اس کی اصلی صورت میں ظاہر کیا۔ پھر کشمیر کمیٹی نے وزارت برطانیہ اور حکومت ہند کو متواتر حقیقت حال سے آگاہ کر کے اور ممبران پارلیمنٹ میں ایجی ٹیشن پیدا کر کے اس امر میں دلچسپی لینے کے لئے آمادہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست اب مسلمانوں کو حقوق دینے پر آمادہ ہے۔ کشمیر کے تختہ مشق مظلوموں کی مالی امداد، انہیں صحیح مشورہ، طبی امداد، علمی امداد اور ہر قسم کی ضروری امداد کا انتظام کیا اور کر رہی ہے۔‘‘(انوارالعلوم جلد 12 صفحہ 213 )

اسرائیل کے قیام اور فلسطینیوں سے نا انصافی پر ان کے حق میں آواز

1947ء اور 1948ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد اور پھر اسرائیل کے قیام اور فلسطینیوں کے ساتھ ناانصافی پر مبنی فیصلوں نے مسلم دنیا میں بے چینی پیدا کردی اور مشرق وسطیٰ میں بد امنی کی بنیاد رکھ کر امت مسلمہ کی معاشی اور معاشرتی صورتحال کو بھی ابتر کرنے کا منصوبہ بنا دیا گیا۔ اس ظالمانہ فیصلہ کے اثرات آج بھی 75 سال بعد پوری دنیا میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ ایسے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے اس ظلم اور عدل کے خلاف فیصلے سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا۔ ان کی راہنمائی فرمائی اور امت کے اتحاد کے لیے اپنی تڑپ کا اظہار فرمایا۔

اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ستمبر 1948ء بمقام رتن باغ لاہور میں آپؓ نے فرمایا:’’ اب تو ایک ہی چارہ ہے کہ مسلمان متحد ہو جائیں اور جو کچھ ان کے پاس ہے وہی لے کر دنیا کا مقابلہ کریں۔ جب بعد میں بھی یہی ہونا ہے تو کیوں نہ ابھی سے اس پر عمل کیا جائے۔ ہندوستان کے مسلمان مصیبت میں گرفتار ہیں، انڈونیشیا کے مسلمان محفوظ نہیں، مصر کے مسلمان محفوظ نہیں، شام کےمسلمان محفوظ نہیں، ٹرانس جورڈن کے مسلمان محفوظ نہیں، سعودی عرب میں مسلمان امن میں نہیں اور لبنان میں بھی مسلمان خطرہ سے خالی نہیں۔ غرض کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں مسلمانوں کو خطرہ لاحق نہ ہو رہا ہو۔ صرف فلسطین کا ہی مسئلہ درپیش نہیں بلکہ سب مسلمان ممالک خطرہ کی لپیٹ میں آ گئے ہیں…غرض فلسطین کا جھگڑا شام، لبنان، عراق، مصر اور سعودی اور یمنی عرب کا جھگڑا ہے اور یہ سب اسلامی ممالک خطرہ میں ہیں۔ پنجاب اور دوسرے علاقوں کا یہی حال ہے۔ یہی حال انڈونیشیا کا ہے…میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان اب بھی بیدار ہو جائیں تو ایسا امکان ہے کہ حالات سازگار ہو جائیں۔ پس مسلمان لیڈروں اور راہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر خاص تبدیلی پیدا کریں اور ان خطرات کا اکٹھے ہو کر مقابلہ کریں۔ اس صورت میں یا تو وہ ان خطرات پر فتح پا لیں گے اور یا عزت کی موت مر جائیں گے جو ذلّت کی زندگی سے بہرحال بہتر ہے۔ میں نے اس کے متعلق بہت غور کیا ہے اور پہلے بھی اشارتاً توجہ دلائی ہے کہ اب مزید انتظار کی ضرورت نہیں۔ مسلمان لیڈروں اور راہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور موجودہ حالات کا مقابلہ کریں ورنہ دوسروں کے لیے جگہ چھوڑ دیں تاوہ کشتیٔ اسلام کو اس بھنور سے نکالنے کی کوشش کریں۔ ‘‘ (خطبات محمود جلد 29 صفحہ 286 تا 289)

اس خطبہ کے علاوہ بھی آپؒ نے کئی مواقع پر اس خوفناک سازش کو آشکار کیا اور اتحاد بین المسلمین کی تحریک فرمائی۔ اپنے کتابچہ الکفر ملة واحدة میں اس مسئلہ کی اہمیت، صیہونی اور دجالی طاقتوں کی سازش سے امت مسلمہ کو آگاہ فرمایا اور دنیا بھر میں اس کی تشہیر کروائی۔

خلافت ثالثہ

حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒ 1965ء میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ آپ نے امن کے سفیر کے طور پر اپنا کردار ادا کیا اور دنیا کو ’’ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کا ماٹو دیا۔ امت مسلمہ کو درپیش بے چین کر دینے والے مسائل سے آگاہ فرماتے رہے اور اتحاد بین المسلمین کا درس دیا۔

مشرق وسطیٰ کا امن اور اتحاد امت مسلمہ کا مسئلہ

حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒ نے 21؍دسمبر 1973ء کے خطبہ میں دو عالمگیر نوعیت کے مسائل بیان کرتے ہوئے ان کے لیے دعا کی تحریک فرمائی۔آپؒ فرماتے ہیں:’’ ایک مسئلہ مشرق وسطیٰ میں پیدا شدہ فساد کے حالات کو دُور کرنے کی کوشش سے متعلق ہے…دنیا کے امن اور سلامتی کے لئے یہ ایک بہت بڑا اور نہایت ہی اہم مسئلہ ہے۔ ہم احمدیوں کو یہ مسئلہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کیونکہ وہ جنگ جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو خبر دی گئی تھی اور جس سے یہ خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے ( جیسا کہ بتایا گیا ہے) کہ خطہ ہائے ارض سے زندگی (صرف انسانی زندگی نہیں بلکہ ہر قسم کی زندگی) کا خاتمہ ہو جائے۔ کیونکہ لوگوں نے ایٹم اور ہائیڈروجن بم وغیرہ قسم کے مہلک ہتھیار ایجاد کر رکھے ہیں۔ اس بھیانک جنگ کی ( خدا اس سے محفوظ رکھے) اگر ابتداء ہوئی تو اس کی ابتداء انہی علاقوں سے ہو گی جہاں آج کل فساد پیدا ہو رہا ہےاور مسلمان علاقوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی تھی اس وقت شام کا جغرافیہ کچھ اور تھا۔ اور آج کچھ اور ہے۔ چنانچہ پیشگوئیوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ ارض شام سے اس جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں یعنی شام سے اس جنگ کی ابتداء ہو سکتی ہے۔ تاہم یہ ایک انذاری پیشگوئی ہے جو دعاؤں، صدقات، اصلاح نفس اور توبہ و استغفار سے ٹل سکتی ہے…

پس احباب جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ ان ایام میں کثرت سے یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس بین الاقوامی اور عالمگیر فساد کے خطرہ کو ٹال دے۔ جو لوگ ابھی اسلام کی روشنی سے منور نہیں ہو سکے ان کو بھی اس خطرے کو دور کرنے کی سمجھ عطا ہو تاکہ دنیا کے افق پر جو خطرات منڈلا رہے ہیں وہ ٹل جائیں اور ہر طرف امن و امان قائم ہو جائے۔

ایک دوسرا اور بڑا اہم مسئلہ وہ اجتماع ہے جو جنوری میں ہمارے اپنے ملک پاکستان میں منعقد ہونے والا ہے ( سنا ہے اب یہ فروری میں ہو گا) جس میں اسلامی ممالک کے سربراہ شامل ہوں گے۔ اور وہ اپنی کانفرنس میں سر جوڑ کر سوچیں گے۔ احباب جماعت اس کانفرنس کی کامیابی کے لیے بھی دعا کریں۔ گریہ و زاری اور تضرع سے بھی خاموشی سے بھی اپنے رب کریم کے حضور جھکیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسلامی ملکوں کے سربراہوں کو صرف وہی فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اسلامی تعلیم کی رُو سے فساد کی جگہ اصلاح کی فضاء پیدا کرنے کا موجب ہوں۔ گویا فساد کے ہر پہلو سے ان کی سوچ، ان کے فیصلے اور ان کے عمل محفوظ رہیں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔‘‘ (خطباتِ ناصر جلد۵صفحہ۳۷۱)

خلافت رابعہ

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے اپنے 21 سالہ دور خلافت میں امت مسلمہ میں قیام امن کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائی۔ آپ کا زیادہ عرصہ تو انگلستان میں گزرا اور تمام بر اعظموں کے آپؒ نے دورے فرمائے اور حکومتی ایوانوں تک آپ کی آواز پہنچتی رہی۔آپ نے امت کو درپیش بد امنی اور فساد کے مسائل سے آگاہ بھی فرمایا اور قیام امن کے لیے کوشاں بھی رہے۔

بار بار نازل ہونے والے مصائب کی وجہ

امت میں بار بار نازل ہونے والے مصائب کی وجہ بیان کرتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ 3؍اگست 1990ء میں آپؒ فرماتے ہیں:’’ اسلام کی عزت اور وقار مجروح ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اس لئے خدا کا خوف کریں اور اسلام کی تعلیم کی طرف واپس لوٹیں۔ اس کے سوا اور کوئی پناہ نہیں ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ادبار اور تنزل کا دور اور یہ بار بار کے مصائب حقیقت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انکار کا نتیجہ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے اس لئے آخری پیغام میرا یہی ہے کہ وقت کے امام کے سامنے سرتسلیم خم کرو۔ خدا نے جس کو بھیجا ہے اس کو قبول کرو۔ وہی ہے جو تمہاری سربراہی کی اہلیت رکھتا ہے، اس کے بغیر، اس سے علیحدہ ہو کر تم ایک ایسے جسم کی طرح ہو جس کا سر باقی نہ رہا ہو جس میں بظاہر جان ہو اور عضو پھڑک رہے ہوں بلکہ درد اور تکلیف سے بہت زیادہ پھڑک رہے ہوں لیکن وہ سر موجود نہ ہو جس کو خدا نے اس جسم کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے پیدا فرمایا ہے پس واپس لوٹو اور خدا کی قائم کردہ اس سیادت سے اپنا تعلق باندھو۔ خدا کی قائم کردہ قیادت کے انکار کے بعد تمہارے لئے کوئی امن اور فلاح کی راہ باقی نہیں ہے۔ ‘‘ (خلیج کا بحران اور نظام جہان نو صفحہ 8-9 مطبوعہ نظارت اشاعت)

خلیج کے بحران کا محرک

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ اپنے خطبہ جمعہ 17؍اگست 1990ء میں فرماتے ہیں:’’ ان حالات کا سب سے بڑا محرک اسرائیل ہے اور اسرائیل کے مفادات ہیں۔ اور اس وقت تمام عالم اسلام گویا اسرائیل کے مفادات کی حفاظت کے لئے کھڑا ہو چکا ہے اور اس کے مقابل پر ایک ایسے اسلامی ملک کو برباد کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے جس کی یقیناً بعض حرکتیں غیراسلامی تھیں اور تقویٰ اور انصاف کے خلاف تھیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس بات کا سزاوار تو نہیں کہ اس کو ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے اور برباد کر دیا جائے۔ انصاف کے خلاف ساری دنیا میں حرکتیں ہو رہی ہیں… سب سے بڑا خطرہ جو آج عالم اسلام کو دکھائی دینا چاہئے وہ یہ ہے کہ مسلمان ممالک کی تائید اور نصرت اور پوری حمایت کے ساتھ ایک ابھرتی ہوئی اسلامی مملکت کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اور خود اس میں اس مملکت کے ارباب حل و عقد ذمہ دار ہیں۔ ایسی صورت میں کیا ہو سکتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی وقت اتنا نہیں گزر چکا کہ حالات کو سنبھالا نہ جا سکتا ہو۔ لیکن مسلمانوں کے لئے سوائے اس کے کہ خدا اور رسول کی طرف لوٹیں اور کوئی نجات اور امن کی راہ نہیں ہے۔‘‘ (خلیج کا بحران اور نظام جہان نو صفحہ 28-29 مطبوعہ نظارت اشاعت)

دعا کے ذریعہ امت محمدیہ ؐکی مدد کرتے چلے جائیں

آپؒ فرماتے ہیں:’’جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میری نصیحت یہ ہے کہ خواہ وہ آپ سے فائدہ اٹھائیں یا نہ اٹھائیں، خواہ وہ آپ کو اپنا بھائی شمار کریں یا نہ کریں، دعا کے ذریعے آپ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و علی آلہٖ و سلم کی مدد کرتے چلے جائیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس تعلیم کو کبھی فراموش نہ کریں کہ

اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار

کاخر کنند دعویٔ حب پیمبرم

کہ اے میرے دل ! تو اس بات کا ہمیشہ دھیان رکھ، ہمیشہ اس بات کا خیال رکھ کہ یہ تیرے دشمن یعنی مسلمانوں میں سے جو دشمنی کر رہے ہیں، آخر تیرے محبوب رسولؐ کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پس تو اس محبوب رسول کی محبت کی خاطر ہمیشہ ان سے بھلائی کا سلوک کرتا چلا جا۔ خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ (خلیج کا بحران اور نظام جہان نو صفحہ 10 مطبوعہ نظارت اشاعت)

خلافت خامسہ

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 2003ء میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ آپ کے زیر سایہ اسلامی ممالک میں امن کی کوششیں قولی و فعلی دونوں طرز پر جاری ہیں۔ آپ امن کے سفیر کے طور پر دنیا بھر کے دوروں کے دوران اور مختلف ممالک کی پارلیمنٹس میں بھی اسلام کی پر امن تعلیم کو بیان فرماتے ہیں اور بد امنی کی وجوہات سے پردہ چاک کرتے ہوئے دنیا بھر اور مسلم ممالک کے لیڈران کی بالخصوص راہنمائی فرماتے ہیں۔ اپنی تقاریر و خطبات میں آپ قیام امن کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ قیام امن کی خاطر آپ نے 2012ء میں دنیا کے بڑے سربراہان کو خطوط لکھے اور عالمی خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے اس کی پیش بندی کے لیے متنبہ بھی فرمایا۔ ان خطوط میں آپ نے سعودی عرب کے بادشاہ اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو بھی خطوط لکھے اور قیام امن کے لیے اپنی تڑپ کا اظہار فرمایا۔

7؍مارچ 2012ء کو اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد کے نام خط میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تیسری عالمی جنگ کا انتباہ کرتے ہوئے لکھا کہ وہ اپنی عالمی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے تیسری عالمی جنگ کے امکانات کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور اسرائیل کے ساتھ جس حد تک ممکن ہو تصفیہ طلب امور کے لیے بین الاقوامی تعلقات کے انصرام اور مذاکرات کی راہ اپنانے اور اختلافی امور کے لیے طاقت کے استعمال کی بجائے ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں۔(الفضل انٹر نیشنل 8؍جون 2012ء)

خلافت خامسہ کے دور میں امن کے قیام کے لیے عالمی کوششوں کے سلسلہ میں جماعت کی طرف سے پیس سمپوزیم کا باقاعدہ انعقاد کیا جا رہا ہے، احمدیہ مسلم امن ایوارڈ کا اجرا کیا گیا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ دنیا کے مختلف ممالک کی پارلیمنٹس سے خطابات فرماتے ہیں اور سیاسی راہنماؤں سے ملاقات کے دوران ان کو اسلام کی پر امن تعلیمات سے آگاہ کرتے ہیں جوپائیدار امن کی ضامن ہیں۔

امت مسلمہ میں بد امنی، بے چینی اور فساد کی وجوہات سے بھی آپ اپنے خطبات و خطابات میں آگاہ فرماتے ہیں۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

آج دنیا کو امن کی ضرورت ہے

قابل مذمت حرکات کے ذریعہ اور مذہبی اشتعال پھیلا کر مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍اگست 2010ء میں یوں راہنمائی فرمائی کہ’’جماعت احمدیہ بھی میڈیا کے ذریعے اور مختلف طریقوں سے اس Dove Church کو اپنی اس مذموم حرکت سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے… بہر حال امریکہ کی جماعت کو بھی میں نے کہا تھا کہ ایک مہم کی صورت میں اس پر کام کریں اور دنیا کی باقی جماعتوں کو بھی اسی طرح کرنا چاہئے کہ یہ جو طریقہ اپنا رہے ہیں یہ دنیا میں فساد پیدا کرنے کا طریقہ ہے۔ اس سے بجائے محبتوں کے کینوں اور بغضوں کی دیواریں کھڑی ہوں گی۔ قرآن کریم میں حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام جو ظاہر کیا ہے وہ ان لوگوں کو نظر نہیں آتا۔ قرآن کریم تو ہر نبی کی عزت کرتا ہے۔ بہر حال جیسا کہ میں نے کہا ان کی یہ حرکت نفرتوں کی دیوار یں کھڑی کرے گی۔ وہ مسلمان جو بدقسمتی سے اس زمانہ کے امام کو نہ مان کر بے لگام ہیں، یا ان کی لگا میں بد قسمتی سے ان لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہیں جو اپنے مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان مسلمانوں سے غلط رد عمل بھی ہوسکتا ہے۔ دنیا کو آج امن کی ضرورت ہے، محبت کی ضرورت ہے، بھائی چارہ کی ضرورت ہے، جنگوں کی تباہی سے بچنے کی ضرورت ہے، خدا تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کی ضرورت ہے تا کہ تباہ ہونے سے بچ سکیں۔ اس کے حصول کے لیے عیسائیوں کو بھی اپنے قبلہ کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اور مسلمانوں کو بھی صحیح رد عمل دکھانے کی ضرورت ہے۔ دلائل کی بحثیں کریں، علمی بحثیں کریں۔ لیکن ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنا چاہئے۔ آج مسلمان بھی اگر حقیقت میں حب پیغمبری اور حب قرآن کا دعویٰ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو سمجھتے ہوئے اپنی راہنمائی کے لیے اس رہنما کو تلاش کریں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ارشاد کے تابع اور پیشگوئیوں کے مطابق مبعوث ہوا…ہدایت کے معیار وہ بنائیں جو قرآنِ کریم نے بنائے ہیں۔ ہدایت دینے والے کو پانے کے لیے بھی خالص ہو کر دعا کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا سکھائی ہے۔ اگر خالص ہو کر یہ دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور راہنمائی فرماتا ہے۔ اس دعا کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ غیر مسلموں کی بھی راہنمائی فرما دیتا ہے، مسلمانوں کی تو ضرور کرے گا۔ کاش کہ ہمارے مسلمان بھائی ہمارے اس دردمندانہ پیغام اور جذبات کو سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اور اپنی دنیاو آخرت سنوار لیں۔‘‘(خطبات مسرور جلد ہشتم صفحہ 429-430)

بد امنی اور بے چینی کی ایک وجہ سودی نظام

اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍اکتوبر 2008ء میں آپ فرماتے ہیں:’’ مسلمان ممالک اگر خاص طور پر یہ جائزہ لیں۔ ہر ملک کو یہ جائزہ لینا چاہئے لیکن ان ملکوں کو تو خاص طور پر (جائزہ لینا چاہئے ) تو انہیں نظر آئے گا کہ سود کی وجہ سے امیر غریب کی خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے، ملکوں کے اندر بھی اور ایک دوسرے ممالک میں بھی، جو غریب مسلمان ممالک ہیں وہ غریب تر ہو رہے ہیں۔ جو امیر ہیں، تیل والے ہیں وہ سمجھ رہے ہیں ہمارے پاس دولت ہے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر بے چینیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پھر بغاوتیں ہوتی ہیں مسلمان ملکوں کے اندر بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی۔ جیسا کہ میں نے پاکستان کی مثال دی تھی۔ وہاں بھی امیر غریب کا فرق بہت وسیع ہوتا چلا جا رہا ہے اور ملک میں بے چینی کی وہاں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ دولت کے لالچ میں امیر غریب کے حقوق ادا نہیں کرتے اور اسی وجہ سے پھر مولوی کو اس ملک میں کھل کر کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔ اگر غریب کا حق صحیح طرح ادا ہوتا تو وہ خودکش بموں کے حملے جو غریبوں کے بچوں کو استعمال کر کے کروائے جاتے ہیں اس میں ان لوگوں کو آج اس طرح کامیابی نہ ہوتی…اللہ تعالیٰ کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے حقدار کو اس کا حق ادا کیا جائے تو شیطان کے مس سے بچ سکتے ہیں۔ سودی نظام سے بچیں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن سکتے ہیں۔ اگر دنیا اسے ہر سطح پر نہیں سمجھے گی تو پھر جنگ کی صورت رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وقتا ًفوقتاً اسی طرح دنیا والوں کو مار پڑتی رہے گی۔ پس آج کل کے بحران کا حل مومنوں کے پاس ہے اور تمام مسلمانوں اور مسلمان ملکوں کو اس بحران سے نکلنےاور نکالنے کے لئے پہل کرنی چاہئے۔‘‘ (خطبات مسرور جلد 6 صفحہ 454-456)

امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے دعا کریں

اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍فروری 2008ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’آجکل بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ امت مسلمہ کے لئے بھی دعائیں کریں کہ اگر یہ اپنی رنجشیں چھوڑ کر ایک بڑے مقصد کے حصول کے لئے ایک ہو جائیں، اللہ تعالیٰ کے اشارے کو سمجھیں تو بہت سارے شر سے محفوظ رہیں گے۔ یہی چیز ہے جو ان حملہ آوروں کے حملوں سے ان کو محفوظ رکھے گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے۔‘‘(خطبات مسرور جلد 6 صفحہ 97)

امت مسلمہ کے اتحاد اور ان کے اندر امن کے قیام،ان کی اصلاح احوال کی بہتری کے لیے حضور انور ایدہ اللہ آئے دن اپنے خطبات و خطابات میں دعاؤں کی تحریک کرتے ہیں۔ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍جولائی 2024ء کے اختتام پر آپ نے فرمایا کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں عمومی امن بھی قائم فرمائے۔ وہ امن جس کی خاطر آنحضورﷺنے کوششیں کیں اور یہی مقصد آپؐ کی بعثت کا تھا۔ فرمایا کہ مسلمانوں کو اپنی بقا کے سامان کرنے ہونگے۔ ایک اکائی بننا ہو گا۔ اپنی حالتوں کو بہتر کرنا ہو گا۔ مسلمان ملکوں سوڈان وغیرہ میں مسلمان مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ ان کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ملک و قوم کی خدمت کرنے والا اور امن قائم کرنے والابنائے۔آمین۔(خلاصہ خطبہ 5؍جولائی 2024ء از الفضل انٹرنیشنل)

خلفائے احمدیت کی امت مسلمہ میں قیام امن کی تڑپ کے حوالے سے چند مثالیں اس مضمون میں پیش کی گئی ہیں۔ ان مثالوں سے عیاں ہوتا ہے کہ کس طرح خلافت حقہ احمدیہ امت مسلمہ کی خیر خواہی، ان کی راہنمائی اور ان کے ہاں قیام امن کے لیے کوشاں رہی ہے۔ امت میں فساد اور بد امنی کی وجوہات کو بھی بڑی شدو مد کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کیونکہ جب تک بد امنی کی وجوہات قائم رہیں فساد برقرار رہتا ہے۔ خلافت احمدیہ نے راہنما کا کردار بھی ادا کیا ہے اور اپنی عملی کوششوں کے ساتھ امت کی خدمت کا حق بھی ادا کیا ہے۔ اللہ کرے کہ امت میں بد امنی کی اصل وجوہات کا خاتمہ ہو جس میں سب سے بڑی وجہ امام الزمانؑ کو نہ ماننا ہے۔ جو ہدایت اللہ کی طرف سے آتی ہے اس کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے ہی حقیقی امن اور ترقی کی ضمانت ملے گی کیونکہ خلافت کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے امن کا وعدہ عطا فرمایاہے کہ وہ ان کے خوف کی حالت کو امن میں تبدیل کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ امت کو امام الزمان ؑکو پہچاننے کی توفیق دے تا وہ عافیت کے حصار میں آ جائیں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button