امنِ عالَم کے قیام میں دنیاوی اصولوں پر اسلامی تعلیم کی برتری
اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک اہم صفت ’’السَّلٰمُ‘‘ ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ سلامتی اور امن دینےوالاہے۔ جیسا کہ فرمایا:ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ۔(الحشر:24) یعنی اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیںوہ بادشاہ ہے، پاک ہے ہر عیب سے،سلامت ہے (اور دوسروں کو سلامت رکھتا ہے) سب کو امن دینے والا ہے۔ دُنیا میں شاید ہی کوئی ایسا مذہب ہو جس نے ایک ایسے خدا کو دُنیا کے سامنے پیش کیا ہو جوسراسر امن اور سلامتی چاہنے والا ہو۔ جیسا کہ فرمایا:وَاللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ۔ (یونس: 26)یعنی اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ لوگوں کے لیے سلامتی،امن اورآشتی ہی پسند کرتاہے۔اسی لیےاللہ تبارک وتعالیٰ نے اس زمانہ میں جو عالمی مذہب بھیجا اس کا نام بھی’’اسلام ‘‘ہی رکھا۔
سلام کے معنی ہی امن اور سلامتی کے ضامن کے ہیں
جس مذہب کو اللہ تعالیٰ نے آج بنی نوع انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے چنا ہے اس کا نام ہی پیارے اور امن و سلامتی والے خدا نے اسلام رکھا۔ جیسا کہ فرمایا:اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ۔(آل عمران: 20) یقیناً دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ اس آخری زمانہ میں اسلام کو مذہب کے طور پردُنیا میں بھیجنے کا سب سے بڑا مقصد ہی یہی تھا کہ اس دُنیا اور عالم میں امن قائم کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نام کسی اور مذہب کو نہیں ملا۔ سلام کا لفظ سَالمَهَ،مُسَالمَةً،سِلامًا اور سَلَمَہ سے لیا گیا ہے۔ جس کے معنی صلح، امن و آشتی، تسلیم و رضا، چین و سکون، امّان ا ور حفاظت کے ہیں۔(ماخوذ المعانی) اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بھی یہی ہدایت دی ہے کہ وہ عاجزی اور فروتنی اختیار کرتے ہوئے دُنیا میں زندگی گذاریں اور سب کے لیےامن اور سلامتی کا ضامن بن جائیں، جیسا کہ فرمایا: وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا۔( سورۃ الفرقان: 64) اور رحمٰن کے (سچے) بندے وہ ہوتے ہیں جو زمین پر آرام سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ (لڑتے نہیں بلکہ) کہتے ہیں کہ ہم توتمہارے لئے سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ تفسیر کبیر میں اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں: ’’وَ إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُونَ قَالُوا سَلٰمَا اور جب جاہل لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں اپنی حرکات سے جوش دلائیں اور کوئی جھگڑا اور فسا دکھڑا کریں تو وہ طیش میں آکر ناجائز اور اوچھے ہتھیاروں پر نہیں اُتر آتے، بلکہ ایسی حالت میں بھی اُن کی سلامتی ہی چاہتے ہیں۔ یعنی ایسے ذرائع استعمال میں لاتے ہیں جن سے اُن کی اصلاح ہو جائے۔ اور دنیا میں امن اور سلامتی کا دَور دَورہ ہو۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد نہم،صفحہ187،تفسیر سورۃ الفرقان آیت نمبر 64)ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے لڑائی اور جھگڑے سے مسلمانوں کودُور رہنے کی تاکید کرتے ہوئےاورایک دوسرے کے لیے سلامتی و امن کی خواہش رکھنے کی طرف یوں توجہ دلائی : وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغۡوَ اَعۡرَضُوۡا عَنۡہُ وَقَالُوۡا لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَلَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ۫ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ لَا نَبۡتَغِی الۡجٰہِلِیۡنَ (القصص: 56) اور جب وہ کسی لغو بات کو سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال۔ تم پر سلامتی ہو۔ ہم جاہلوں کی طرف رغبت نہیں رکھتے۔
السلام علیکم،
کی دعا سے امنِ عالَم کی یقین دہانی
دنیا میں جس قدر بھی مذاہب یا اقوام موجود ہیں،ان کے افراد جب ایک دوسرے کو ملتے یا welcome کرتے ہیں تو greeting کرنے کےان کے اپنے طریق و رواج ہیں۔مثلاً ہندو رام رام یا پَرنام کی،سکھ واہ گرو یا وائے گرو جی،سنسکرت میں نَمَسْتے یا نَمَسْکار کی آواز بلند کرتےہیں۔اسی طرح خوش آمدید، اھلاً و سہلاً و مرحَبا،انگلش میں good morningاور جرمن میں Guten Morgen کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کوئی ایک بھی greeting میں امن اور سلامتی کی اشاعت کے لیے اس قدر ذومعنی الفاظ استعمال نہیں کرتا، جس قدر سلام سے کیے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا: فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً۔ (النور: 62) یعنی جب گھروں میں داخل ہونے لگو تو اپنے عزیزوں یا دوستوں پر سلام کہہ لیا کرو۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک بڑی برکت والی اور پاکیزہ دعا ہے۔نبی کریمﷺ اس ارشادِ خداو ندی پر خود بھی عمل کیا کرتے تھےاور اپنے اصحابؓ کو بھی اس کی نصیحت کیا کرتے تھے۔ایک جگہ رسولﷺ نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس وقت تک تم جنت میں داخل نہیں ہو سکوگے۔ جب تک کہ تم ایمان نہ لے آؤ اور تم صاحبِ ایمان اس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو۔پھر فرمایا: کیا میں تم کو ایک ایسا عمل نہ بتاؤں ؟جب تم اُس کو بجا لاؤگے تو آپس میں محبت کرنےلگو گے!پھر آپﷺ نے خود ہی فرمایا: اَفْشُواالسَّلَامَ بَیْنَکُمْ یعنی آپس میں سلام کہنے کو رواج دو۔(مسلم کتاب الایمان) ایک اور موقع پر آنحضرتﷺ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان، مشرک، بتوں کے پجاری،یہودی( یعنی مختلف مذاہب کے ماننے والے) بیٹھے ہوئے تھے۔ آپﷺنے اُن سب کو السلام علیکم کہا۔ (بخاری باب الاستئذان)قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺجب دوسرے مذاہب یا اجنبی لوگوں سے ملتے تو اُن کے لیے بھی سلامتی کی دعا کیا کرتے تھے، جیسا کہ فرمایا: اِذۡ دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَقَالُوۡا سَلٰمًاؕ قَالَ سَلٰمٌ ۚ قَوۡمٌ مُّنۡکَرُوۡنَ۔(الذّٰرِیٰتِ:26) جب وہ اس کے پاس آئے(یعنی آپؐ کے پاس) تو انہوں نے کہا ہم تجھے سلام کہتے ہیں۔ اس پر نبی کریمﷺنے جواب دیا:میں تمہارے لیے دائمی سلامتی کی دعا کرتا ہوں۔(اور دل میں کہا کہ) یہ اجنبی لوگ معلوم ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرنے سے امن کی ضمانت
اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی اسلامی تعلیم کی سب سے بڑی اور پہلی خوبی یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرنے سے ہی دشمن کو امن کی ضمانت مل جاتی ہے۔ خواہ کسی دشمن نے مسلمان کو نقصان بھی پہنچایا ہو اور ڈر کی وجہ سے ہی اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ کا نام لیا ہو۔ یہ ایسی تعلیم ہے جو کہ دُنیا کی کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی اورنہ ہی کوئی مذہبی یا غیر مذہبی راہنما ایسا گذرا ہے یاموجود ہے جس نےامن قائم کرنے کے لیےاس طرح شدید ترین دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک کیا ہو۔بلکہ اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ کا نام لینے والوں کو تنگ کیا جاتا رہا اور ان کو گھروں سے نکا لنے کی کوششیں کی گئیں۔جس کی گواہی قرآن کریم ان الفاظ میں دیتا ہے جیسا کہ فرمایا: الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ۔(الحج :41)وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے۔لیکن اسلام نے تو اللہ تعالیٰ کے نام کی گواہی دینے والے کے لیے امن کی گارنٹی دی ہے اور اس کو امان بخشی ہے۔ جیسا کہ آنحضر تﷺ نےاپنے اوپر حملہ آور ہونے والوں اور ظلم کرنے والے جانی دشمنوں کے متعلق فرمایا کہ اب بھی اگر یہ کلمۂ توحید پڑھ لیں تو ہماری ان سے کوئی لڑائی نہیں۔(بخاری کتاب الایمان )گویاہماری تلواریں جو اپنے دفاع کے لیے اٹھی تھیں،کلمہ کے احترام میں پھر میانوں میں واپس چلی جائیں گی۔چنانچہ آنحضورؐ نے کلمہ توحید کا اقرار کرنے پر جانی دشمن کو امان دینے کا حکم دیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس بستی سے اذان کی آواز آتی ہو اس پر حملہ نہیں کرنا۔(بخاری کتاب الجھاد)حضرت مقداد بن عمرو کندیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺسے پوچھا کہ اگر کسی کافر کے ساتھ میدان جنگ میں میرا مقابلہ ہو، وہ میرا ہاتھ کاٹ دے اور کسی درخت کی آڑ لے کر مجھ سے بچنے کی خاطر کہہ دے کہ میں اللہ کی خاطر مسلمان ہوتا ہوں، تو کیا اس کلمے کے بعد میں اسے قتل کرنے کا حق رکھتا ہوں؟آپﷺ نے فرمایا:’’نہیں تم اسے ہر گز قتل نہ کرو۔‘‘ میں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ!اس نے میرا ہاتھ کاٹا ہے اور اس کے بعد مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ حضورﷺنے فرمایا’’اسے قتل نہ کرو۔ اگر تم اسے قتل کرو گے تو وہ مسلمان اور تم کافر سمجھے جاؤ گے۔‘‘(بخاری کتاب المغازی) نبی کریمﷺ کے ایک صحابی حضرت اسامہؓ نے جب ایک جنگ میں مدّ مقابل دشمن پرحملہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے کلمہ پڑھ لیا۔ حضرت اسامہؓ نے پھربھی اسے ہلاک کر دیا۔تو رسول اللہؐ یہ سن کر بہت ناراض ہوئے اور فرمایاکہ توحید کا اقرار کرنے والے شخص کو کیوں قتل کیاگیا ؟ قیامت کے روز جب کلمہ تمہارے گریبان کو پکڑے گا تو کیا جواب دو گے ؟ اور جب حضرت اسامہؓ نے کہا کہ وہ سچے دل سے کلمہ نہیں پڑھتا تھا تو فرمایا کہ ’’کیا تم نے اس کا دل چیرکر دیکھ لیا تھا؟‘‘ (مسلم کتاب الایمان) (ماخوذازاسوۂ انسان کامل صفحہ 34تا 35، مطبوعہ 2007ء)
اسلامی نظام عدل امن عالم کے قیام میں ایک دستورِ عمل
اللہ تعالیٰ کی طرف سے دُنیا میں بہت سے انبیائے کرام تشریف لائے،جنہوں نے اس عالَم کو امن کا گہوارہ بنانے کی پوری کوشش کی،تاکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق امن و آشتی سے زندگی گذار سکے۔لیکن بد قسمتی سے ان کے گذر جانے کے بعددنیا داروں نےان کی لائی ہوئی تعلیمات کو بھلادیا اور اپنے مفاد کی خاطر عدل و انصاف کا خون کیا۔ دنیامیں ایسے قانون امن کے نام پر بنائے گئے جن سے بڑوں کی اجارہ دار ی قائم رہی،غریب اقوام اور ممالک مزید ظلم وجبر کا نشانہ بنے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی کہاوت کا عام استعمال ہوا۔ طاقت کے زور پر اطاعت کروائی جاتی رہی،عالَم نے’’ جس کی تیغ اس کی اِطاعت بے دَریغ ‘‘کا نظام دنیا میں نافذ ہوتے دیکھا۔لیکن اسلام، عالمی امن کی ضمانت عدل وا نصاف پرقائم رہنے میں بتاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم نےفرمایا:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی۔(المائدہ:9) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :’’ دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو۔ انصاف پر قائم رہو… جو قومیں ناحق ستاویں اور دُکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں، جیسا کہ مکّہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں، ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی… مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مُدارات سے پیش آنا آسان ہے۔ مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا، یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے۔‘‘ (نور القرآن نمبر 2،روحانی خزائن جلد 9صفحہ 409-410) اس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’کسی کی دشمنی انصاف کے مانع نہ ہو۔ مثلاً آریہ لوگ تم کو دفتروں سے نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔تو اسلام کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ تم ان کے مقابلے میں بھی ایسی کوشش کرو،جہاں تمہیں اختیار حاصل ہے‘‘۔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۔ ۱۵؍اگست ۱۹۰۹ء بحوالہ حقائق الفرقان جلد۲صفحہ۸۵)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ دنیا کے امن کی خاطر،عالمی لیڈروں کو عدل و انصاف پر قائم رہ کر حکمرانی کرنے کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ امن کے فروغ کے لیےحضور اقدس نے سربراہان ممالک کو خطوط بھی ارسال کیے۔ جو خط آپ نے امریکہ کے صدر کو لکھا اُس میں آپ لکھتے ہیں: ’’آج عالمی حالات پر نظر ڈالنے والا جان سکتا ہے کہ ایک نئی عالمی جنگ کی بنیادرکھی جا چکی ہے۔ دنیا کے کئی چھوٹے بڑے ممالک ایٹمی اثاثوں کے مالک ہیں، جس کی وجہ سے ان ممالک کی باہمی دشمنیاں، کینے اورعداوتیں اپنے عروج پر ہیں۔اس گھمبیر صورت حال میں تیسری عالمی جنگ کے بادل ہمار ے سروں پر منڈلا رہے ہیں اور ایسی جنگ میں ضرور ایٹمی ہتھیار بھی استعمال ہوں گے۔ گویا یقیناً ہم خطرناک تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اگر جنگ عظیم دوم کے بعد عدل وانصاف سے پہلو تہی نہ کی جاتی تو آج ہم اس دلدل میں نہ پھنستے جہاں ایک بار پھر خطرناک جنگ کے شعلے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے تیار کھڑے ہیں۔‘‘(امریکی صدر کے نام خط،عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ175۔176)
اسی طرح جو خط آپ نے اسرائیل کے وزیر اعظم کو لکھا اُس میں فرماتے ہیں: ’’عالمی راہنماؤں کو اور خصوصاً آپ کو دوسروں پر بزورِ بازو حکومت کرنے اور کمزوروں کو دبانے کا تاثر ختم کرنا چاہئے اور اس کے بالمقابل امن وانصاف کے قیام اور ترویج کی کوششوں میں مصروف ہوجانا چاہئے۔ ایسا کرنے سے آپ خود بھی امن میں آجائیں گے، آپ کو استحکام نصیب ہوگا اور دنیا میں بھی امن قائم ہوجائے گا۔‘‘ (اسرائیلی وزیر اعظم کے نام خط،عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ161)
اسلامی جنگوں میں دنیا کے لیے امن وسلامتی کا پیغام
اللہ نے دفاعی جنگ کی اجازت ہی اس لیے دی تھی تاکہ اس کے ذریعہ سے دوسرے مذاہب کی عبادتوں گاہوں کی حفاظت کی جا سکے اور شر پسندوں کے شر سے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں اور اُن کی عبادت گاہوں کومحفوظ رکھتے ہوئے بین المذہب ہم آہنگی اورپیار ومحبت پیدا کیا جا سکے۔ یہ ایسی آشتی کی تعلیم ہے جو کہ صرف ا سلامی تعلیم کا ہی طُرہ امتیاز ہے۔ اس طرح کی تعلیم نہ ہی دُنیا کے کسی قانون میں نظر آتی ہے اورنہ ہی کسی مذہبی کتاب میں اس طرح کا ذکر ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:وَلَوۡلَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا۔ (الحج : 41) یعنی اگراللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع، ان میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتاہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس بات کا ذکر کرتے ہوئےاپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:’’ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی جو کہ مسلمانوں کو ایک لمبا عرصہ صبر کرنے اور ظلم سہنے اور ظلم میں پسنے کے بعد دی گئی، تو دنیا میں ہر طرف ظلم و فساد نظر آتا… اس پُر حکمت ارشاد نے دوسرے مذاہب کے تحفظ کا بھی انتظام کروا دیا، اگر یہ اجازت نہ دی جاتی، تو ہر مذہب کی عبادت گاہ ظالموں کے ہاتھوں تباہ و برباد کر دی جاتی، جس سے نفرتیں اور بڑھتی ہیں اور سلامتی دنیا سے اُٹھ جاتی…اس حکم میں مسلمانوں کو اس اہم امر کی طرف بھی توجہ دلا دی کہ جہاں تمہاری حکومت ہے، تمہیں اس بات سے باز رہنا چاہئے کہ د وسرے مذاہب کے راہب خانے، گرجے اور معابد ظلم سے گراؤ۔ ورنہ پھر یہ ظلم ایک د وسرے پر ہوتا چلا جائے گا تمہاری مسجدیں بھی گرائی جائیں گی اور یوں فساد کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔‘‘(خطبہ جمعہ فر مودہ 29؍ جون 2007ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 20؍جولائی2007ء،صفحہ 6)
مساوات اور برابری کی تعلیم امن ِعالم کے لیےایک زندہ مثال
دنیا میں امن وامان اس وجہ سے بھی خراب ہو رہا ہے کہ ذات پات، رنگ و نسل اورایک قوم کا ایک دوسری قوم پر برتری کا خیال ابھی تک قائم ہے۔جس کی وجہ سے مخلوق خدا کے درمیان دُوریاں اور نفرتوں کا لا متناہی سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اور سوسائٹی میں بھی یہ بھیانک نظارہ اکثر دیکھنے میں ملتا ہے۔ اس سے دنیا کا امن خراب سے خراب تر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔اکثر ممالک میں اس زہر کو ختم کرنے کے لیے racismاورdiscrimination کے خلاف قوانین تو نظر آتے ہیں۔لیکن عمل کہاں تک ہوتا ہے؟ اس کا علم کسی کے پاس نہیں! ہاں! ا سلامی تعلیم میں پندرہ سو سال سے یہ خدائی قانون ان نفرتوں کےتدارک کے لیے موجود ہے، جیسا کہ فرمایا: یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ۔(الحجرات:14)اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔اسی طرح نبی کریمﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر دُنیا کے سامنے جو دستور پیش کیا، اس نے discrimination اورracismکوجڑ سے اُکھیڑتے ہوئے، مساوات اور برابری کو قائم کیا ہے،جیسا کہ آپﷺ نےفرمایا: اے انسانو! یقیناً تمہارا ربّ ايک ہے، تمہارا باپ بھی ايک ہی ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضيلت نہيں (یعنی تمام انسان برابر ہیں) اپنی بات جاری رکھتے ہوئے آپؑ نے مزیدفرمایا :غور سے سنو! کالےرنگ والے کو سرخ پر اور سرخ رنگ والے کو کالے پر کوئی برتری حاصل نہيں ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ discrimination کےخلاف آواز بلند کرتے ہوئے فرماتےہیں: ’’آج کی دنیا میں جتنے فسادات ہیں اور انسان کو انسان سے جتنے خطرات لاحق ہیں ان میں جو بھی محرکات کارفرما ہیں، ان میں قومی برتری کا احساس سب سے طاقتور اور خطرناک محرک ہے۔اس کو Racismیا Racialismکہاجاتا ہے۔ یہ Racismاگرچہ بظاہر ناپسند کیا جاتا ہے، لیکن آج بھی اسی طرح موجود ہے، جس طرح نازی دور میں جرمنی میں ہوا کرتا تھا۔یہ Racismسفید بھی ہے اور سیاہ بھی۔ اور سفید قوموں کے خلاف جو افریقن ممالک میں نفرتوں کے لاوے اُبلتے رہتے ہیں، اس کو Blackیا سیاہ فام Racismکہا جاتا ہے۔ افسوس ہے کہ اب تک دنیا اس بھوت کے چنگل سے آزاد نہیں ہوسکی۔یہ کوئی ایسا پودا نہیں ہے جسے آسانی سے اکھاڑ پھینک دیا جائے، لیکن سب اہل حق جو سچ بات کو دیکھنا اور پہچاننا جانتے ہیں ان کو علم ہے کہ باوجود ہر قسم کی تقریروں اور Racismکے خلاف باتوں کے Racismکی جڑیں مختلف شکلوں میں مغرب کے تمام ممالک میں بھی پائی جاتی ہیں اور مشرق کے تمام ممالک میں بھی۔ ‘‘(عدل، احسان اور ایتاء ذی القربیٰ صفحہ ۲۲۹ )
معاہدہ کی پاسداری کے ذریعہ امنِ عالَم کا قیام
آج عہد کرنے کے بعد اُس کو نبھانے کا دستور کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے۔ امیر ممالک کے حکمران جب کوئی معاہدہ غریب ملکوں سے کرتے ہیں تو اُس کو پورا کرنا اپنی تو ہین خیال کرتے ہیں۔اسی طرح،غریب ممالک اگر آپس میں اپنے مفاد کی خاطرکوئی عہد وپیمان کربھی لیں تو جن کے ہاتھوں میں دنیا کی دولت ہے وہ بعض اوقات اپنے مفا دکی خاطر ان کے کیے ہوئے معاہدوں کوتوڑ کر دم لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے دُنیا میں خوف اور عدم تحفظ پیدا ہونے کے ساتھ امن و سکون بھی جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ سلسلہ جاری تھا اور ابھی تک رواں دواں ہے۔ قرآن پاک نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے:کُلَّمَا عٰہَدُوۡا عَہۡدًا نَّبَذَہٗ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ۔(البقرہ:101) یعنی جب کبھی بھی وہ کوئی عہد کریں گے ان میں سے ایک فریق اس (عہد) کو پرے پھینک دے گا۔لیکن اللہ تعالیٰ عہد کوپورا کرنے کے بارےمیں بڑا واضح حکم دیتا ہے، فرمایا: اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا۔(بنی اسرائیل: 35)یعنی عہد کو پورا کرو یقیناً عہد کے بارےمیں پوچھا جائے گا۔بلکہ مومنین کی تو نشانی ہی یہی ہے، جیسا کہ فرمایا: وَالَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَعَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ (المومنون:9)یعنی مومن وہ لوگ ہیں جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کی نگرانی کرنے والے ہیں۔ ہمارے پیارے آقا نبی کریمﷺ اس کی ایک عملی تصویر تھے۔آپﷺ جانتے تھے کہ عہدتو ڑنے سے بد امنی کی فضا پیدا ہونے کے ساتھ امن کو نقصان ہوتا ہے۔اس کی ایک مثال جنگ بدر کے موقع پر اس طرح ملتی ہے۔حضرت حذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں کہ میں غزوہ بدر میں شامل نہ ہوسکا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ میں اور میرا ایک ساتھی ابوحسیل سفر میں تھے،کہ کفار مکہ نے ہمیں پکڑلیا۔اور جب ان کو معلوم ہوا کہ ہم مدینہ نبی کریمﷺ کے پاس جارہےہیں۔تو انہوں نے ہم سے عہد لیا کہ ہم اس شرط پر مدینہ جاسکتے ہیں، کہ مدنیہ پہنچ کر ہم مسلمانوں کے ساتھ مل کرکفار کے خلاف لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ یہ عہد گو جبراً لیا گیاتھا اور کسی معروف ضابطہ اخلاق میں اس کا ایفا لازمی نہیں تھا۔مگر حضورپاکﷺ کو عہد کا اتنا پاس تھا کہ ایسے نازک وقت میں بھی ! جبکہ ایک ایک سپاہی کی ضرورت تھی،آپﷺنے فرمایا:تم عہد کوپورا کرو اور واپس جاؤ ہم اللہ تعالیٰ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور اسی کی نصرت پر ہمارا بھروسہ ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد باب الوفاء بالعہد)اسی طرح صلح حدیبیہ میں ایک شرط یہ تھی کہ مکہ سے جو مسلمان ہو کر مدینہ چلا جائے گا وہ اہل مکہ کے مطالبہ پر واپس کردیا جائے گا۔ عین اس وقت جب معاہدہ کی شرطیں زیرِ تحریر تھیں اور ابھی دستخط بھی نہ ہوئے تھے۔کہ حضرت ابو جندلؓ پابہ زنجیر اہل مکہ کی قید سے بھاگ کر رسول اللہﷺ کے پاس فریادی بن کر آئے۔ مسلمان اس درد انگیز منظر کو دیکھ کر تڑپ اٹھے،لیکن معاہدے کے علمبردار نبی کریمﷺ نے ابوجندل کو مخاطب ہو کر فرمایا :اے ابوجندل صبر کرو!ہم بدعہدی نہیں کرسکتے،اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے لیے کوئی راستہ نکالے گا۔ (صحیح بخاری کتاب الشروط) (ماخوذ ازشمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 43تا44)
امن عالم کے لیے قرآن کریم کابیان کردہ ایک اہم نسخہ
اسلام نے عالَم میں امن کی خاطر ایک اہم نسخہ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اگر لڑائی کرنے والوں میں صلح ہو جائے تو جو فریق صلح کرنے کے بعد پھر صلح کے معاہدے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے لڑائی کی طرف آتا ہے، تو پھر اُس کے خلاف مل کر لڑائی کی جائے جب تک کہ وہ لڑائی کو ختم کر کے صلح کی طرف نہیں لو ٹتا۔جیسا کہ فرمایا: وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَاۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَاَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ۔( الحجرات:10) اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوںمیں صلح کرادو۔ پھر اگر صلح ہو جانے کے بعد ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر چڑھائی کرے، تو سب مل کر اس چڑھائی کرنے والے کے خلاف جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، پھر اگر وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے تو عدل کے ساتھ ان (دونوں لڑنے والوں) میں صلح کرادو اور انصاف کو مدنظر رکھو اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔یہ ایساعالمی امن کا نسخہ ہے کہ اگر اس پر ہی عمل کر لیا جائے تو دُنیا کےبہت سے ممالک، براعظموں اور خطوں میں امن کے جھنڈے گاڑے جا سکتے ہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اس پر نہ ہی مسلمان عمل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی دوسرے لوگ! ہر خطہ یا ملک اپنے مفاد کی خاطر اُس کی مدد کرتا ہے جہاں اس کےاپنے مفاد ہیں، خواہ اس سےدنیا کا امن خراب ہوتا ہو یا دوسرے کے حقوق کی حق تلفی ہورہی ہو۔
چنانچہ آج کےامت مسلمہ کے امن کے سفیر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف مواقع پردُنیا کو اس طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’قیام امن کے لیے سب سے ضروری چیز عدل کا قیام ہے۔ اور اُصول عدل کی پابندی کے باوجود اگر قیام امن کی کوششیں ناکام ثابت ہوں تو مل کر اُس فریق کے خلاف جنگ کرو جو ظلم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ظالم فریق امن قائم کرنے کے لیے تیار نہ ہو جائے۔ لیکن جب ظالم اپنے ظلم سے باز آجائے تو پھر عدل کا تقاضا ہے، کہ انتقام کے بہانے نہ تلاش کرو۔ طرح طرح کی پابندیاں مت لگاؤ۔ ظالم پر ہر طرح سے نظر رکھو لیکن ساتھ ہی اُس کے حالات بھی بہتر بنانے کی کوشش کرو۔ اس بدامنی کو ختم کرنے کے لیے جو آج دُنیا کے بعض ممالک میں موجود ہے اور بد قسمتی سے ان میں بعض مسلمان ممالک نمایاں ہیں۔اُن اقوام کو جنہیں ویٹو کا حق حاصل ہے بطور خاص اس امر کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ کیا صحیح معنوں میں عدل کیا جارہا ہے؟۔‘‘ (عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ ۱٦)
دوسرے مذاہب اور اُن کے پیشواؤں کااحترام، امن عالم کا ایک بہترین نسخہ
اسلامی تعلیم امن وصلح کی خاطردوسرے مذاہب اور ان کے پیشواؤں کا احترام لازمی قرار دیتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا:وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ۔( الانعام:109) اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’اب ایک اخلاقی تعلیم پیش کرتا ہے کہ حق بات کہو۔دین کی تبلیغ کرو، مگر کسی کے بزرگ کو گالی نہ دو، نہ رام چندر کو،نہ کرشن کو،نہ بُدھ کو،اور نہ کسی اور کو۔‘‘(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ174)ایک اور جگہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں:’’اس راہ کے آداب و اخلاق کے سکھانے میں بھی قرآن کریم کو ہی یہ فخر حاصل ہے،کہ اس مبارک کتاب نے تعلیم دی ہے کہ الباطل سے جنگ کرنے کے وقت اس کے قابل اکرام معبودوں اور معظم معبودوں اور معظم مقصوروں کی نسبت کس طریق پر کلام کرنا چاہیے…اس مبارک تعلیم سے وید اور دوسری تمام کتابیں محض برہنہ ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں میں کوئی ذاتی خوبی اور جو ہر نہیں۔ یہ کتابیں اپنی جگہ بے زبان ہیں۔ کوئی دعویٰ اپنی دلیل کے ساتھ ان میں نہیں، یہاں ان کے وکیلوں اور حامیوں کے منہ میں لاریب سیاہ زہردار کو برہ کی دو شاخی زبانیں ہیں۔ یہ لوگ پادری اور آریہ اپنی کامیابی اور ظفر اسی میں سمجھتے ہیں کہ دوسروں کی عیب چینی کریں۔ اپنی کتابوں اور عقیدوں کے معارف و اسرار کے اظہار سے انہیں کوئی غرض نہیں۔‘‘( نور الدین ایڈیشن سوم، حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ،175) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو اپنے ایک خط میں جو آپ نے پوپ کو تحریر کیا لکھتےہیں’’امن عالم کو تباہ کرنے میں ایک بڑا عنصریہ ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ دانا، تعلیم یافتہ اور آزاد خیال ہیں۔ لہٰذا انہیں بانیان مذاہب کی تحقیر اور تذلیل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ معاشرتی امن کے قیام کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر شخص دل سے تمام کدورتیں نکال کر برداشت کے معیار کو بڑھائے۔ایک دوسرے کے انبیاء کی تکریم و تعظیم کے احترام میں اُٹھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ دنیا جس بے چینی اور اضطراب کے دور سے گزر رہی ہے وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ پیار اور محبت کی فضا قائم کی جائے۔ ہم اپنے ماحول میں باہمی محبت و اخوت کے پیغام کو فروغ دیں اور یہ کہ ہم پہلے سے بڑھ کر رواداری کے ساتھ بہتر انداز میں رہنا سیکھیں اور انسانی اقدار کو مقدم رکھیں۔‘‘(پوپ بینیڈکٹ کے نام خط،عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ152)
کیاامن کے اداروں ’’لیگ آف نیشنز‘‘ اور’’اقوامِ متحدہ ‘‘نے امن قائم کیا؟
پہلی جنگ عظیم کے بعد جنگ و قتال کو ختم کرنے اور امن کی بحالی کے لیے لیگ آف نیشنز کا قیام ۱۹۲۰ء میں عمل میں لایا گیا۔ لیکن یہ تنظیم امن و امان کو نہ قائم کر سکی۔جس کے نتیجہ میں جنگ عظیم دوم کی تباہی کو دُنیا نے دیکھا۔ پھر دنیا میں امن قائم کرنے والوں نے اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی، لیکن وہ بھی امن قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔مورخہ ۲۲؍مئی ۲۰۲۱ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ایک میٹنگ میں صحافیوں کےساتھ عالمی امن کے قیام پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے فرمایا:’’جہاں تک عالمگیر معاملات کا تعلق ہے جب تک انصاف نہ ہوگا، امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ کے دوہرے معیار ہوں گے جیساکہ ہم آج کی دنیا میں دیکھتے ہیں، جن کا مظاہرہ بڑی طاقتوں سے ہوتاہے تو پھر وہ دنیا میں امن کو قائم نہیں کر سکتے۔ لیگ آف نیشنز کے قیام کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ لیگ آف نیشنز کا قیام اس غرض سے کیا گیا تھا کہ ہر ملک کو مساوی حقوق اور انصاف مل سکے۔ مگر وہ ناکام ہوگئی اور اس کا خمیازہ دوسری جنگ عظیم کی صورت میں بھگتنا پڑا‘‘ پھر فرمایا:’’یہی حالات آج اقوام متحدہ کے بھی ہیں۔ وہ انصاف سے کام نہیں لے رہے۔ غریب اور امیر کے لیے ان کے دوہرے معیار ہیں یعنی مغربی ممالک اور افریقی اور ایشیائی ممالک کے لیے، اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج دنیا میں بد امنی دیکھ رہے ہیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۵؍جون ۲۰۲۱ءصفحہ 2)
ایک خطبہ جمعہ میں پیارے امام حضرت خلیفةالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مظلوم فلسطینیوں کے لیے دعا کی تحریک کی اور فرمایا:’’یہ لوگ جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر عمل کرتے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں دنیا کی معیشت ہے ان کے آگے ہی انہوں نے جھکنا ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ بڑی طاقتیں جنگ بھڑکانے پر تُلی ہوئی ہیں، بجائے اس کو ٹھنڈا کرنے کے۔ یہ لوگ جنگ ختم کرنا نہیں چاہتے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جنگوں کے خاتمے کے لیے بڑی طاقتوں نے لیگ آف نیشنز بنائی لیکن انصاف کے تقاضے پورے نہ کرنے اور اپنی برتری قائم رکھنے کی وجہ سے یہ ناکام ہو گئی اور دوسری جنگ عظیم ہوئی اور کہتے ہیں سات کروڑ سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں۔ اب یہی حال یواین (UN)کا ہو رہا ہے۔ بنائی تو اس لیے گئی تھی کہ دنیا میں انصاف قائم کیا جائے گا اور مظلوم کا ساتھ دیا جائے گا۔ جنگوں کے خاتمے کی کوشش کی جائے گی لیکن ان باتوں کا دُور دُور تک پتہ نہیں۔ اپنے مفادات کو ہی ہر کوئی دیکھ رہا ہے۔ اب جو اس بے انصافی کی وجہ سے جنگ ہوگی اس کے نقصان کا تصور ہی عام آدمی نہیں کر سکتا اور یہ سب بڑی طاقتوں کو پتہ ہے کہ کتنا شدید نقصان ہو گا لیکن پھر بھی انصاف قائم کرنے پر کوئی توجہ نہیں ہے اور توجہ دینے پر کوئی تیار بھی نہیں ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍اکتوبر ۲۰۲۳ء)
امن و آشتی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ’’ویٹو پاور ‘‘
دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والا بین الاقوامی ادارہ جسے دنیا’’ اقوام متحدہ ‘‘کے نام سے جانتی ہے، نے بد قسمتی سے ’’ ویٹو کی پاور‘‘ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین فرانس، روس، برطانیہ، چین اور امریکا کو دے کر جہاں انصاف کا خون کیا، وہاں پر پوری دُنیا کوتیسری جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔مورخہ ۹؍مارچ ۲۰۲٤ء کو جماعتِ احمدیہ برطانیہ کی طرف سے منعقد ہونے والی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاس بات کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا:’’تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ ادارے بھی جنہیں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے بنیادی مقصد کے ساتھ قائم کیا گیا تھا تیزی کے ساتھ اپنی ساکھ کھوتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ ایک کمزور اور تقریباً بے اختیار ادارہ بن گیا ہے جہاں چند اثرورسوخ رکھنے والے ممالک تمام اختیارات پر اجارہ داری رکھتے ہیں اور اکثریت کے خیالات کو آسانی سے مسترد کر دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ نمائندہ ممالک ہر مسئلے کو حقائق اور میرٹ کی بنیاد پر طے کرنے کے بجائے اپنے اپنے اتحادیوں اور اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے طے کرتے ہیں۔ بالآخر، اہم فیصلے اُن چنیدہ ممالک کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جن کے ہاتھ میں ویٹو پاور ہے۔ جہاں بھی ان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے بجائے اس کے کہ امن اور انصاف کے قیام کے لیے مخلصانہ کوششوں کی حمایت کی جائے وہ اپنا ویٹو کا حق تُرپ کے پتے کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ چاہے اس کی وجہ سے دوسری قوموں کا امن و امان پامال ہوتا ہو اور چاہے سینکڑوں بے گناہ ہلاک ہوتے ہوں۔ لہٰذا واضح رہے کہ جہاں ویٹو پاور موجود ہے وہاں انصاف کا ترازو کبھی متوازن نہیں ہو سکتا…جب تک ویٹوپاور موجود ہے دنیا میں حقیقی امن کا قیام ناممکن ہے۔ اسی وجہ سے اقوامِ متحدہ اپنی پیش رو تنظیم لیگ آف نیشنز کی طرح روز بروز غیرمؤثر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ فرمایا کہ اگر بین الاقوامی قوانین کی عمارت چاہے وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو منہدم ہو گئی تو جو بدنظمی اور تباہی دیکھنے میں آئے گی اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے…یوکرین،رشیا جنگ اور اسرائیل، فلسطین جنگ کے معاملات طے نہ پاسکنے کی ایک وجہ ویٹو پاور کا ہونا بھی ہے کیونکہ ویٹوپاور بالفاظ دیگر انصاف کی روح کے خلاف اور جمہوریت اور مساوات کے اصول کی سراسر نفی ہے۔‘‘(اداریہ الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍اپریل ۲۰۲٤ءصفحہ2)
امن عالم کے قیام کے لیے آج کاسب سے بڑا ہتھیار
ہر انسان اس دورمیں بد امنی کا شکار ہے۔ امن و آشتی کی پامالی ہوتے ہوئےاپنی آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سن رہا ہے۔امن کی فضاکو بد امنی کی لہروں نے گندا اور آلودہ کردیاہے۔ ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ انتہا تو یہ ہےکہ یہ سب امن کے نام پرکیا جارہا ہے۔یعنی امن ہی امن کا قاتل ہے۔ اسلحہ کی نمائشوں اور خبروں نے راتوں کی نیندیں اور دن کا سکون تباہ کر دیا ہے۔ انسان سوچتا ہے وہ کیا کرے؟ جائے تو وہ کہاں جائے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے! اور وہ یہ ہےکہ! اپنے مولا کے آگے امن و آشتی کے لیے دعائیں کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر امن ہو۔اس زمانے میں امن کے سب سے بڑے خواہش مند اور لیڈرو روحانی پیشوا ہمارے پیارے امام نے بھی ہمیں امن کے لیے دعاؤں کی طرف ہی بلایا ہے۔ جیسا کہ آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’دنیا بڑی خوفناک تباہی کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نہ مسلمانوں میں انصاف رہا ہے، نہ غیر مسلموں میں انصاف رہا ہے اور نہ صرف انصاف نہیں رہا بلکہ سب ظلموں کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ پس ایسے وقت میں دنیا کی آنکھیں کھولنے اور ظلموں سے باز رہنے کی طرف توجہ دلا کر تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کا کردار صرف جماعت احمدیہ ہی ادا کر سکتی ہے۔ اس کے لئے جہاں ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں عملی کوشش کرنی چاہئے، وہاں عملی کوشش کے ساتھ ہمیں دعاؤں کی طرف بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسلمان ممالک کی ناانصافیوں اور شامتِ اعمال نے جہاں اُن کو اندرونی فسادوں میں مبتلا کیا ہوا ہے وہاں بیرونی خطرے بھی بہت تیزی سے اُن پر منڈلا رہے ہیں۔ بلکہ اُن کے دروازوں تک پہنچ چکے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ بڑی جنگ منہ پھاڑے کھڑی ہے اور دنیا اگر اُس کے نتائج سے بےخبر نہیں تو لاپرواہ ضرور ہے۔ پس ایسے میں غلامانِ مسیح محمدی کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے دعاؤں کا حق ادا کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا حق ادا کرنے والا بنائے اور دنیا کو تباہی سے بچا لے۔آمین۔ ‘‘(فرمودہ26؍اپریل2013ء،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍مئی2013ء،صفحہ7)