نگاہوں نے تری مجھ پر کیا ایسا فسوں ساقی (منظوم کلام حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
نگاہوں نے تری مجھ پر کیا ایسا فسوں ساقی
کہ دل میں جوش وحشت ہے تو سر میں ہے جنوں ساقی
جیوں تو تیری خوشنودی کی خاطر ہی جیوں ساقی
مروں تو تیرے دروازے کے آگے ہی مروں ساقی
پلائے تو اگر مجھ کو تو میں اتنی پیوں ساقی
رہوں تا حشر قدموں پر ترے میں سر نگوں ساقی
تری دنیا میں فرزا نے بہت سے پائے جاتے ہیں
مجھے تو بخش دے اپنی محبت کا جنوں ساقی
سوا اک تیرے میخانے کے سب مے خانے خالی ہیں
پلائے گر نہ تو مجھ کو تو پھر میں کیا کروں ساقی
تجھے معلوم ہے جو کچھ مرے دل کی تمنا ہے
مرا ہر ذرہ گویا ہے زباں سے کیا کہوں ساقی
وہ کیا صورت ہے جس سے میں نگاہ ِلطف کو پاؤں
چھوؤں دامن کو تیرے یاترے پاؤں پڑوں ساقی
مجھے قیدِ محبت لاکھ آزادی سے اچھی ہے
کچھ ایسا کر کہ پابند سلاسل ہی رہوں ساقی
ترے در کی گدائی سے بڑا ہے کونسا درجہ
مجھے گر بادشاہت بھی ملے تو میں نہ لوں ساقی
فدا ہوتے ہیں پروانے اگر شمعِ منور پر
تو تیرے روئے روشن پر نہ میں کیوں جان دوں ساقی
نہ صورت امن کی مسجد میں پیدا ہے نہ مندر میں
زمانہ میں یہ کیسا ہو رہا ہے کشت و خوں ساقی
شہیدانِ محبت سے ہی میخانے کی رونق ہے
چھلکتا ہے ترے پیمانہ میں ان کا ہی خوں ساقی
(کلام محمود مع فرہنگ ۲۶۲و۲۶۳)