احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن: مختصر تعارف وتاریخ
تاریخ عالم گواہ ہے کہ وہ وجود جنہوں نے دنیا کے لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا، اُن میں انبیاء علیہم السلام کانام اور اُن کا پیغام سب سے نمایاں اور ممتاز ہے۔ ابتدائے انسانیت سے اللہ کے یہ فرستادے اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے اور روحانی مائدہ تقسیم کرنے کے لیے مبعوث ہورہے ہیں تاکہ دنیا میں خدا تعالیٰ کے نور کے اُجالے نمودار ہوں اور وہ توحید کے جھنڈے کو تھام کر امن اور سلامتی کے حصار میں داخل ہوجائیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں نیکی کی روشنی،اچھائی کا نور،دلوں کی صفائی اور پُرخلوص جذبوں کی حکمرانی ہے اُس کے پیچھے انبیائے کرامؑ کی لائی ہوئی تعلیم اور وہ نورِ ہدایت کارفرما ہے جو اللہ کے اُن فرستادوں کے ذریعہ آسمان سے اُتاراجاتا رہا۔ ہر وہ ملک اور قوم جہاںکسی وقت آسمانی نور کے یہ اُجالے نمودار ہوئے آج بھی اُس جگہ اُن برکتوں کا اُجالا کہیں نہ کہیں ضرور نظر آجاتاہے جو دلوں کی صفائی کا موجب ہواتھا۔
دنیا کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ہر سمجھداراور صاحبِ بصیرت انسان اس اہم سوال کے سامنے مبہوت کھڑا ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ناانصافی، بدامنی، بے اعتدالی، فکروپریشانی اور جو بے چینی نظر آرہی ہے اس کے ہوتے ہوئے ہم کس طرح اپنی تہذیب و تمدن،اپنی بقا اور سالمیت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔اگرانصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو دنیا کے اکثر انسان اور اُن کے لیڈر مثبت جذبات واحساسات سے عاری ہوچکے ہیں اور وہ اپنے مفادات کا تحفظ ہر قیمت پر مقدم سمجھتے ہیں،خواہ اس کے نتیجہ میں ان گنت انسانی جانیں ضائع ہوجائیں اور بے شمار بچے یتیم بن جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے موجودہ حالات میں دنیاکی سلامتی اور اُس کی بقا پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے اور وہ ایک نہایت بھیانک اور نازک دَور میں داخل ہوچکی ہے۔اگر اب بھی انسان خواب غفلت سے بیدار نہ ہوا تو اُس کا ہلاکت و تباہی ا و ربربادی سے بچنا بہت مشکل ہے۔
اس زمانے کے امام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اُسی آسمانی نظام کا حصہ ہے جو اس سے پہلے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے ذریعہ اس دنیا میں جاری ہوچکا ہے۔ یہ نظام امن وآشتی، صلح جوئی اور باہمی نفرتوں کو مٹا کر پیغام توحید کو عام کرنے کے لیے قائم ہواہے تاکہ دنیا کے تمام انسانوں کو دینِ واحد پر جمع کیاجاسکے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے مَیں دنیامیں بھیجا گیا۔ ‘‘(الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۶)
انسانی تہذیب و تمدن اور اُس کی سلامتی کے لیے جس بنیادی عنصر یعنی ’’امن ‘‘ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ دنیا سے دن بدن مفقود ہوتا جارہا ہے۔ اس زمانے میں جماعت احمدیہ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ امن کے قیام اور دنیا میں اُس کے فروغ کے لیے بھرپور کردار ادا کرے۔اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ دنیا بھر میں مختلف طریق پر قیامِ امن کی کوششوں میں مصروف ہے۔جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا میں قیام امن کے لیے جو مختلف ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں اُن میں سے ایک اہم ذریعہ امن کانفرنسز کا انعقاد ہے۔ جماعت احمدیہ کے زیر انتظام دنیا بھر میں امن یا پیس کانفرنس کے نام سے مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جن میں اس ملک کی اہم شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے تاکہ باہم مل کر امن کے قیام کے لیے آواز بلند کی جاسکے۔
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن کا مختصر تعارف
جماعت احمدیہ کے قیام کی بنیادی اغراض میں سے ایک اہم غرض دنیاوی رشتوں کو مضبوط کرکے اُن میں اخوت ومحبت پیدا کرنا ہے تاکہ اُس میں بسنے والے امن اور سلامتی کے ساتھ اپنی زندگیاں بسر کرسکیں۔ دنیا میں پائیدار امن کے قیام میں جماعت احمدیہ کا ماٹو’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ہر انسان کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتا ہے۔ جماعت احمدیہ کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ وہ دنیا میں امن کے قیام کے سلسلہ میں ہر کوشش کو سراہتی اور اُس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
برطانیہ کے ۴۳ویں جلسہ سالانہ برطانیہ کے آخری روز مورخہ ۲۶؍جولائی ۲۰۰۹ء کو ’احمدیہ مسلم امن انعام برائے فروغ امن ‘کا اعلان کرتے ہوئے مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے بتایا کہ خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کے دوسرے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے اس انعام کا آغاز کیا جارہا ہے جو کسی ایسی اہم شخصیت کو دیا جائے گا جنہوں نے امن کے قیام کے لیے غیر معمولی کام کیا ہوگا۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ تمام ممالک کے امراء جماعت موزوں افراد کے نام مع تفصیل پیش کریں گے۔ ایک مرکزی کمیٹی تمام ناموں اور ان کی خدمات کا جائزہ لینے کے بعد حضور انور کی خدمت میں انعام کی مستحق شخصیت کا نام بطور سفارش پیش کرے گی۔ انعام کی رقم دس ہزار پاؤنڈز مقرر کی گئی ہے۔ (ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍ستمبر تا ۱۷؍ستمبر ۲۰۰۹ء صفحہ ۲)
جماعت احمدیہ برطانیہ کے زیر اہتمام گذشتہ تقریباً دو دہائیوں سے پیس کانفرنس منعقد کی جارہی ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے مہمانان خاص طور پر شرکت کرتے ہیں۔ اس کانفرنس کے موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز دنیا کے حالات کے تناظر میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دنیاکو امن کی طرف متوجہ فرماتے ہیں۔جب سے احمدیہ مسلم امن انعام کا اجرا ہوا ہے تو یہی طریق رایج ہے کہ جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس میں مکرم امیر صاحب برطانیہ اس انعام کے حق دار کا اعلان کرتے ہیں جبکہ اس کے بعد منعقد ہونے والی اگلی پیس کانفرنس کے موقع پر انعام وصول کیا جاتا ہے۔
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن ۲۰۰۹ء
پہلے احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن کے لیے جس خوش قسمت شخصیت کو منتخب کیا گیا اُن کا نام لارڈ ایوبری(Lord Avebury)ہے۔جناب لارڈ ایوبری نے ۱۹۷۶ء میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے برطانیہ میں ایک کمیٹی قائم کی اور ۳۱؍سال تک آپ اس کے چیئرمین رہے۔اس کمیٹی نے مختلف ممالک کے مظلوم عوام کی مدد کی ہے۔ اس کمیٹی نے ایک وفد پاکستان بھجوایا اور جماعت احمدیہ کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک خاص طور پر ربوہ میں کیا جارہا ہے اس کی تحقیق کرکے ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان ہے :Rabwah-A Place for Martyrs (الفضل انٹرنیشنل ۱۱تا ۱۷؍ستمبر ۲۰۰۹ء صفحہ ۲)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۰؍مارچ ۲۰۱۰ء کو منعقدہ امن کانفرنس کے موقع پر بنفس نفیس یہ ایوارڈ لارڈ ایوبری کو عنایت فرمایا۔ اس کے ساتھ دس ہزار پاؤنڈز کا ایک چیک بھی تھا۔(الفضل انٹرنیشنل ۹؍اپریل ۲۰۱۰ء صفحہ ۹) لارڈ ایوبری کی وفات فروری ۲۰۱۶ء میں ہوئی۔
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن۲۰۱۰ء
جلسہ سالانہ۲۰۱۰ء کے موقع پر اعلان کیا گیا کہ انعام اور میڈل معروف سماجی شخصیت جناب عبدالستار ایدھی صاحب کو دیا جائے گا جو کہ ان شاء اللہ آئندہ پیس سمپوزیم میں حضور انور عطا فرمائیں گے۔ جناب عبدالستار ایدھی صاحب نے کراچی (پاکستان) میں خدمت انسانی کے لیے ایک ٹرسٹ بنایا ہوا ہے جو سالہا سال سے دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کررہا ہے اور اسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوچکی ہے۔ ان بے لوث خدمات کے اعتراف میں امسال احمدیہ پیس پرائز کے لیے ان کا نام منتخب کیا گیا ہے۔ (الفضل انٹرنیشنل ۸تا۱۴؍اکتوبر ۲۰۱۰ء صفحہ ۲)
حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ ۲۰؍مارچ ۲۰۱۱ء کوجماعت احمدیہ برطانیہ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی آٹھویں پیس سمپوزیم میںجناب ایدھی صاحب کی فائونڈیشن کے یورپین شعبہ کے سربراہ مکرم طارق اعوان صاحب کواحمدیہ امن انعام عطا فرمایا۔ جناب عبدالستار ایدھی صاحب جاپان میں سونامی کی وجہ سے جو آفت آئی ہے وہاں آفت زدگان کی امداد میں مصروف ہونے کی وجہ سے امن کانفرنس میں شریک نہیں ہوسکے تاہم انہوں نے ایک ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعہ شرکت کی۔مکرم عبدالستار ایدھی صاحب نے اپنے پیغام میں کہا کہ’’ مَیں اختلافات رکھنے میں یقین نہیں رکھتا۔ میرا مذہب انسانیت ہے۔ جو لوگ تکلیف میں میرے پاس آتے ہیں مَیں نے ان سے کبھی نہیں پوچھا کہ ان کا مذہب کیا ہے ؟ مَیں صرف یہ جانتا ہوں کہ وہ انسان ہیں اور انہیں میری مدددرکار ہے۔‘‘ (ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۲۹؍اپریل تا۵؍مئی ۲۰۱۱ء صفحہ ۱۶)
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن ۲۰۱۱ء
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ برطانیہ کے زیراہتمام ۲۴؍مارچ ۲۰۱۲ء کو طاہر ہال مسجد بیت الفتوح لندن میں ۹واں سالانہ امن سمپوزیم منعقد ہوا جس میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بنفس نفیس شرکت فرمائی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت احمدیہ کی طرف سے تیسرا سالانہ امن انعام فلاحی ادارہ S.O.S Childern´s Villages UKکوعطا فرمایا۔ یہ ادارہ دنیا کے بہت سے ممالک میں یتیم اور بے گھرو بے آسرا بچوں کی دیکھ بھال کا انتظام کرتا ہے۔ ان کا مطمح نظر یہ ہے کہ ’’ہر بچے کو ایک محبت کرنے والا گھر میسر ہو۔‘‘ ادارہ کی صدر Dame Mary Richardson DBEتقریب میں موجود تھیں۔ انہوں نے انعام عطا ہونے پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اُن کا ادارہ دنیا کے مختلف ملکوں میں جہاں بڑی تعداد میں بچے بے آسرا ہیں، نہایت خاموشی سے بچوں کو سنبھالا دینے اور ترقی کی راہ پر چلانے کے لیے خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ وہ اس یقین پر قائم ہیں کہ بلا تفریق و امتیاز تمام بچوں کی فلاح و بہبود کو فوقیت دی جانی چاہیے۔ (ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۱۵؍تا۲۱؍جون ۲۰۱۲ء صفحہ ۲)
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن۲۰۱۲ء
مورخہ ۲۳؍مارچ ۲۰۱۳ء کو مسجد بیت الفتوح کے طاہر ہال میں جماعت احمدیہ برطانیہ کی طرف سے دسویں نیشنل پیس سمپوزیم کا انعقاد ہوا۔ مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے ۸۰۰مہمانوں نے اس تقریب میں شرکت کی جن میں برطانوی وزراء، مختلف ممالک کے سفیر، برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران اور House of Lordsکے ممبران شامل تھے۔ اس اہم تقریب میں چوتھے احمدیہ امن انعام کے حقدار قرار پانے پر Dr.Oheneba Boachie-Adjeiکو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ انعام عطا فرمایا۔ ڈاکٹر بوچی آجے نے دنیا میں ترقی پذیر ممالک میں قیام امن کے لیے بے حد نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی انسانیت کی یہ خدمات ہزاروں دکھی اور بیمار انسانوں کے لیے امید کی کرن بن گئی اور ان مایوس مصیبت زدہ لوگوں کو اپنے لیے مستقبل بنانے کی سہولت ملی۔ ڈاکٹر بوچی آجے اس تقریب میں شرکت کے لیے غانا سے تشریف لائے اور انعام وصول کیا۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے اور وہ اپنے دل میں بہت انکسار کے جذبات محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ لوگ اس چیز کو یاد رکھیں کہ ان کا ماضی کہاں سے شروع ہوا تھا اور وہ جو حاصل کریں اس میں سے کچھ حصہ انسانیت کی خدمت کے لیے پیش کریں۔ (ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۷تا ۱۳؍جون ۲۰۱۳ء صفحہ ۱۲)
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن ۲۰۱۳ء
جماعت احمدیہ برطانیہ کے ۴۷ویں جلسہ سالانہ کے آخری روز مورخہ یکم ستمبر ۲۰۱۳ء کو اعلان کیا گیا کہ اس سال کا ایوارڈ میگنس مقفارلین بیرو(Magnus Macfarlane Barrow)کو دوران سال بچوں اور سیلاب زدگان کی نمایاں خدمات سر انجام دینے پر حضور انور کی طرف سے عطا کیا جائے گا۔ ان کی ایک کمپنی میری میلز (Mary`s Meals)ہے جو سکول کے بچوں کو روزانہ بڑی تعداد میں ایک وقت کا کھانا مہیا کرتی ہے۔ (الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍تا۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۳ء صفحہ اوّل)
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن ۲۰۱۴ء
اللہ تعالیٰ کے فضل سے۱۴؍مارچ ۲۰۱۴ء کو جماعت احمدیہ برطانیہ کا بارھواں پیس سمپوزیم منعقد ہوا۔ اس میں ایک ہزار سے زائد مردوزَن شامل ہوئے جن میں چھ سو سے زائد غیر از جماعت مہمان تھے۔ ان مہمانوں میں حکومتی وزراء، مختلف ممالک کے سفراء، ممبرانِ پارلیمنٹ اور ہاؤس آف لارڈز، کئی علاقوں کے میئرز اور سوسائٹی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے سیاسی، سماجی اور مذہبی افراد شامل تھے۔ اس تقریب کے دوران امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انڈیا سے تعلق رکھنے والی ایک مشہور سماجی کارکن محترمہ سِندھوتائی سَپگل صاحبہ کو جو کہ ’یتیموں کی مائی ‘ کے نام سے مشہور ہیں ’احمدیہ مسلم پرائز فار دی ایڈوانسمنٹ آف پیس‘سے نوازا۔ یہ ایوارڈ انسانیت کی خاطر ان کی بے مثال خدمات کے اعتراف میں دیا گیا۔ آپ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود اب تک چودہ سو سے زائد یتیم اور بے سہارا بچوں کی کفالت اور پرورش کا مشکل کام سرانجام دے چکی ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ (ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۱۰تا ۱۶؍اپریل ۲۰۱۵ء صفحہ ۲)
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن ۲۰۱۵ء
مورخہ ۱۹؍مارچ ۲۰۱۶ء بروز ہفتہ مسجد بیت الفتوح مورڈن لندن میں جماعت احمدیہ برطانیہ کی تیرھویںسالانہ امن کانفرنس منعقد ہوئی۔ امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت اس کانفرنس میں شرکت کی اور صدارتی خطاب فرمایا۔ اس تقریب میں چھبیس ممالک سے تعلق رکھنے والے نَو صد سے زائد افراد نے شرکت کی جن میں سے پانچ صد کے قریب غیر احمدی و غیر مسلم مہمان شامل تھے۔ اس موقع پر حضورِانور نے محترمہ حدیل قاسم صاحبہ (Hadeel Qassim)کو احمدیہ مسلم پرائز فار دی ایڈوانسمنٹ آف پیس (Ahmadiyya Muslim Prize for the Advancement of Peace)بھی عطا فرمایا۔ موصوفہ مشرقِ وسطیٰ کے ناگزیر حالات میں مہاجر بچوں کی فلاح وبہبود کے لیے غیر معمولی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ پیس کانفرنس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ دنیا میں دیر پا امن کے قیام کے لیے ہمیں معاشرہ کی ہر سطح پر برابری کی بنیادوں پر انصاف کو قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ میڈیا کو دنیا میں قیامِ امن کے لیے تصویر کے اچھے رخ کوبھی پیش کرنا چاہئے۔ (ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۱۵تا ۲۱؍اپریل ۲۰۱۶ء صفحہ ۲)
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن ۲۰۱۶ء
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ برطانیہ کے زیر اہتمام ۲۵؍مارچ۲۰۱۷ء کی شام طاہر ہال مسجد بیت الفتوح میں چودھویں سالانہ امن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں سیکرٹریانِ سٹیٹ، ممبران پارلیمنٹ، وزرائے مملکت، مختلف ممالک کے سفارت کار، جرنلسٹس، مختلف شعبہ ہائے تعلیم کے ماہرین اور مفکرین، سرکاری عہدیداران، میئرزو مختلف مذاہب، چیریٹیز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے احمدی، غیر احمدی وغیر مسلم معزز خواتین وحضرات نے شرکت کی۔ امن کانفرنس کے موقع پر مکرم امیر صاحب جماعت احمدیہ برطانیہ نے امن انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امسال مکرمہ Setsuko Thurlowصاحبہ کو یہ انعام دیا جائے گا۔ آپ کی پیدائش جاپان کی ہے۔ آپ Hiroshima پر ایٹمی بم گرائے جانے کے بعد بچ گئی تھیں اور اب Nuclearہتھیاروں کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ آپ تیرہ سال کی تھیں جب Hiroshima پر اگست ۱۹۴۵ء میں Atomic Bombگرایا گیا۔ اس کے بعد حالات وتجربات نے آپ کی زندگی بدل دی۔ بذات خود Atomic Bomb کے نتائج یعنی موت، انتہائی تکالیف اور تباہی کو دیکھ کر آپ نے اپنی زندگی Nuclear ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لیے وقف کردی۔ آپ نے نیوکلیئر جنگوں کے نتیجہ میں انسانی ہمدردی اور انسانی خدمت کے پہلو کو خاص طور پر اجاگر کیا ہے اور نیوکلیئر کے موضوع سے متعلق خاموشی کو ختم کرنے کی بالخصوص کوشش کی اور نیوکلیئر کے خلاف کئی مہمات جاری کیں۔ آپ اب کینیڈا میں رہتی ہیں اور وہاں کی نیشنل ہیں۔ کینیڈا اور جاپان دونوں نے آپ کے کام کو سراہا ہے اور آپ کو The order of Canada Medalبھی ملا ہے جو کینیڈا کے شہری کے لیے سب سے بڑا نعام ہے۔ آپ کو جاپانی حکومت کی طرف سے نیوکلیئر ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لیے خاص نمائندہ بنایا گیا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پیس کانفرنس کے موقع پر موصوفہ کو احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن عطا فرمایا۔ اس موقع پر موصوفہ نے کہا : میں نے جب آپ کی جماعت کی تاریخ، آپ کے مشن اور آپ کے کاموں سے آگاہی حاصل کی تو مجھے درد کے ساتھ معلوم ہوا کہ آپ کو مذہبی ناروا امتیازی سلوک اور مخالفت سہنی پڑ رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے غیر متشددانہ یعنی امن اور انصاف کی راہ اختیار کرنے کو منتخب کیا۔ آپ عالمی برادری کے لیے کیا ہی روشن اور مثالی نمونہ ہیں۔(ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۲۱تا۲۷؍اپریل ۲۰۱۷ء صفحہ ۱۰)
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن ۲۰۱۷ء
جماعت احمدیہ برطانیہ کا پندرہواں پیس سمپوزیم ۱۷؍ مارچ۲۰۱۸ء کو مسجد بیت الفتوح کے طاہر ہال میں منعقد ہوا۔ آٹھ سو سے زائد مہمانوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی جن میں وزائے مملکت، ممبران پارلیمنٹ،سفارت کار اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مہمان شامل تھے۔ اس پیس کانفرنس کی خاص بات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بنفس نفیس شرکت اور آپ کا صدارتی خطاب تھا۔ حضور انور نے اس اہم موقع پر روس سے تعلق رکھنے والی Dr Leonid Roshal کو امن کے لیے اُن کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ۲۰۱۷ء کا’احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن‘عطا فرمایا۔(Al Hakam, 19th March 2018 Online Edition)
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن ۲۰۱۸ء
اللہ تعالیٰ کے فضل سے مورخہ ۹؍مارچ ۲۰۱۹ء بروز ہفتہ مغربی یورپ کی سب سے بڑی مسجد ’بیت الفتوح ‘مورڈن میں جماعت احمدیہ برطانیہ کی سولہویں سالانہ امن کانفرنس (Peace Symposium)کا انعقاد ہوا۔ امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کانفرنس میں بنفس نفیس شرکت فرمائی اور خطاب فرمایا۔ اس تقریب میں تیس سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد افراد نے شمولیت اختیار کی جن میں سات صد کے قریب غیر احمدی وغیر مسلم مہمان شامل تھے۔۲۰۱۸ء کے احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن کے لیے محترم فریڈ میڈنِک (Fred Mednick)کومنتخب کیا گیا۔ موصوف اساتذہ کی ایک عالمی تنظیم ’ٹیچرز وِد آؤٹ بارڈرز‘(Teachers Without Borders)کے بانی ہیں۔ یہ تنظیم دنیا بھر کے مختلف پسماندہ علاقوں میں رضا کارانہ طور پر بلا تفریق رنگ ونسل لوگوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنے کا مشن سرانجام دے رہی ہے۔ حاضرین کو اس تنظیم کے بارے میں ایک مختصر ڈاکومنٹری دکھائی گئی۔ اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے محترم فریڈ میڈنِک کو قرآن کریم، کرسٹل سے تیار شدہ منارہ، ایک سرٹیفکیٹ، احمدیہ لٹریچر کی منتخب کتب اور دس ہزار پاؤنڈز کے چیک پر مشتمل پیس پرائز عطا فرمایا۔ بعد ازاں موصوف نے سٹیج پر تشریف لاکرجماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرنے کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ اپنایا جانے والا پیشہ ’تدریس‘ہے۔ ایک استاد معاشرے میں پائے جانے والے تقریباً ہر مسئلہ کا علم رکھتا ہے۔ اساتذہ ایک فوج کی طرح ہیں۔ ۲۰سال قبل ہماری تنظیم نے تعلیم اور ترقی کے باہمی تعلق کی اہمیت کو جانا اور اسی لیے ہم نے اپنی تنظیم کا آغاز کیا۔ (ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍اپریل ۲۰۱۹ء صفحہ اول و صفحہ ۱۷-۱۸)
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن ۲۰۱۹ء
کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے گذشتہ تین سالوں کے دوران جماعت احمدیہ برطانیہ کی پیس کانفرنس منعقد نہ ہوسکی۔ اس لیے ۲۰۲۳ء میں منعقد ہونے والی پیس کانفرنس کے موقع پر مورخہ ۴؍مارچ ۲۰۲۳ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۰۱۹ء کے لیے احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن محترمہ Barbara Hofmannکو عطا فرمایا۔ انہوں نے Beira, Mozambique میں یتیموں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ محترمہ نے اپنے تہنیتی کلمات میں کہا کہ یہاں میں صرف ’میں‘نہیں بلکہ ’ہم‘ ہیں۔ میں اس اعزاز کو اپنے لوگوں کے ساتھ بانٹتی ہوں۔ میں ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھتی ہوں۔ میں اس وقت دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہوں جو کہ یونیورسٹی آف چلڈرن ہے۔ جہاں روزانہ کچھ نیا سیکھا جاتا ہے۔ میں نے کئی نازک مواقع دیکھے۔ ہم امن وبھائی چارے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ہم امن اس وقت تک نہیں دے سکتے جب تک کہ ہمارے اندر امن وبھائی چارہ نہ ہو۔ ہمیں اپنے آپ سے شروع کرنا پڑے گا۔ اپنے چہرے کی جھریوں سے نہ ڈریں بلکہ خیال رکھیں کہ آپ کے دل پر جھریاں نہ پڑجائیں۔ (الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍مارچ ۲۰۲۳ء صفحہ ۱۴)
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن ۲۰۲۰ء
اللہ تعالیٰ کے فضل سے مورخہ ۹؍مارچ ۲۰۲۴ء بروز ہفتہ جماعت احمدیہ برطانیہ کے زیر اہتمام اٹھارھویں سالانہ پیس سمپوزیم کا انعقاد ہواجس میں تیس ممالک سے ۵۵۰؍خصوصی مہمانان سمیت کل بارہ سو افراد شامل ہوئے۔ سنہ ۲۰۲۰ء کا امن انعام محترمہ Adi Rocheکو دیا گیا۔ ان کا تعلق آئرلینڈ سے ہے۔ آپ Chernobyl Children´s Projectکی سی ای او ہیں۔چرنوبل کے سانحہ کے بعد انہوں نے انسانی بنیادوں پر بچوں کے لیے طبی اور تعلیمی خدمات پیش کیںاور اس انعام کی مستحق قرار پائیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے انعام وصول کرنے کے بعدانہوں نے مختصر خطاب میں کہاکہ یہ انعام وصول کرنا ان کے لیے باعث اعزاز ہے۔ موصوفہ نے کہا کہ چرنوبل کے سانحہ کی سب سے بڑی قیمت وہاں کے بچوں نے ادا کی۔ انہوں نے اپنی ٹیم میں شامل ڈاکٹروں کی مساعی کا احسن انداز میں ذکر کیا۔ ایک بچی کو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا لیکن ہمارا ماٹو ہے کہ آخری سانس تک امید ہوتی ہے اور اس بچی کو بالآخر اس امید نے بچا لیا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم سب کو مل کر اس امید کو جگانے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو مل کر انسانیت کو بچانے کی ضرورت ہے تب ہی ہم دنیا کو بچا سکتے ہیں۔ (روزنامہ الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍مارچ ۲۰۲۴ء صفحہ ۲)
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن ۲۰۲۱ء
سنہ ۲۰۲۱ء کا احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن تائیوان سے تعلق رکھنے والی جناب Cheng Yenکو دیا گیا۔ آپ مئی ۱۹۷۳ء میں تائیوان میں پیدا ہوئیں۔ امن اور مساوات کے فروغ میں ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ان کو احمدیہ مسلم امن انعام سے نوازا گیا۔ (احمدیہ مسلم پیس پرائز/ ویکی پیڈیا)
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن ۲۰۲۲ء
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مورخہ ۴؍مارچ ۲۰۲۳ء بروز ہفتہ مسجد بیت الفتوح کی نو تعمیر شدہ عمارت کے افتتاح کے ساتھ ہی جماعت احمدیہ برطانیہ کی سترھویں امن کانفرنس کا کامیاب انعقاد ہوا۔اس امن کانفرنس میں چالیس ممالک کی نمائندگی تھی۔ اس بابرکت موقع پر سیدنا وامامنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس تشریف لائے اور کانفرنس کے شرکاء سے بصیرت افروز خطاب فرمایا۔ اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۰۲۲ء کا احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن جناب ڈاکٹر Tadatoshi Akibaآف جاپان کو عطا فرمایا۔ اس تقریب کے دوران موصوف نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس تقریب میں شامل ہونے پر شکر گزار ہیں اور ایوارڈ کو ہیروشیما اور ناگا ساکی کے متاثرین اور امن کے کارکنان کے نام کرتے ہیں۔ انہوں نے مذکورہ لوگوں کی طرف سے اس ایوارڈ کو قبول کیا۔ انہوں نے کہا کہ ناگاساکی پر بم گرایا گیا تھا لیکن یہ دنیا میں دوبارہ کبھی نہیں ہونا چاہیے۔ میں جماعت احمدیہ کو جانتا ہوں، آپ وہ پہلے ہیں جنہوں نے اس نیوکلیئر بم کی مخالفت کی۔ (سہ روزہ الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍مارچ ۲۰۲۳ء صفحہ ۱۴)
احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن۲۰۲۳ء
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے مورخہ ۹؍مارچ ۲۰۲۴ء کو جماعت احمدیہ برطانیہ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اٹھارھویں پیس سمپوزیم کے موقع پر ۲۰۲۳ء کا احمدیہ مسلم انعام برائے فروغِ امن جناب David Spurdleکو عطا فرمایا۔ ان کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ ان کے ادارہ Stand by Meنے گذشتہ تیس سالوں میں پانچ ہزار سے زائد بچوں کی فلاح کے لیے خدمات پیش کیں۔انعام وصول کرنے کے بعد موصوف نے سٹیج پر تشریف لاکر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ انعام ان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ انہوں نے لبنان سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ تباہ حال عمارتیں، بدحال لوگ، یتیم بے سہارا بچوں نے مجھے متاثر کیا۔ انہوں نے اپنے کام کے آغاز کا ذکر کیا اور اپنے فلاحی کام کے سفر کا خلاصہ بیان کیا اور آخر میں امن انعام ملنے پر شکریہ ادا کیا۔ (روزنامہ الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍مارچ ۲۰۲۴ء صفحہ ۲)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یہ بھی یاد رکھو ہمارا طریق نرمی ہے۔ ہماری جماعت کو چاہئے کہ اپنے مخالفوں کے مقابل پر نرمی سے کام لیا کرے تمہاری آواز تمہارے مقابل کی آواز سے بلند نہ ہو۔ اپنی آوازاور لہجہ کو ایسا بناؤ کہ کسی دل کو تمہاری آواز سے صدمہ نہ ہووے…یاد رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آجاتا ہے اُس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آکر آپے سے باہر ہوجاتا ہے…جسے نصیحت کرنی ہو اُسے زبان سے کرو۔ ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں اداکرنے سے ایک شخص کو دشمن بناسکتی ہے اور دوسرے پیرایہ میں دوست بنادیتی ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد ۳صفحہ ۱۰۳-۱۰۴۔ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)
مضمون کے اختتام پرامیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے قیام امن کے متعلق چند سنہری اقوال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
٭…جب اسلام کی حسین اور خوبصورت تعلیم کو غلط طریقے سے پیش کیا جاتا ہے تو دنیا محسوس کرتی ہے کہ کوئی ایسا ہو جو اسلام کا حسین چہرہ دکھائے اور اسلام کی حسین تعلیم پیش کرے۔ آج جماعت احمدیہ کے بانی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی خوبصورت اور حسین تعلیم پیش کی ہے جو کہ محبت، بھائی چارے اور امن کے پیغام پر مشتمل ہے۔ یہی پیغام آج جماعت احمدیہ ساری دنیا میں پہنچا رہی ہے۔ (ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۲تا ۸؍جون ۲۰۰۶ء صفحہ ۲)
٭…آج جو بڑی طاقتیں چھوٹے ممالک پر حملے کررہی ہیں میزائل پھینک رہی ہیں۔ کیا یہ میزائل محبت پیدا کرسکتے ہیں۔ ہرگز نہیں اور لوگوں کو اس بے دردی سے اور ظلم سے مارنا کیا اس سے امن قائم ہوگااور دہشت گردی ختم ہوجائے گی۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ بڑی طاقتوں کی طرف سے یہ ظلم وستم آپ کو تیسری عالمی جنگ کی طرف لے جائے گا۔(ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۲تا ۸؍جون ۲۰۰۶ء صفحہ ۲)
٭…اسلام کے مطابق ہر انسان جو چاہے اپنا عقیدہ رکھ سکتا ہے اس پر کوئی جبر نہیں ہے۔اس وقت تک دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ انصاف نہ ہو۔ پس ہمیشہ انصاف کرو۔انصاف رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ایک کے ساتھ برابری کا سلوک ہو اور دوہرے معیار نہ ہوں۔(ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۲تا ۸؍جون ۲۰۰۶ء صفحہ ۲)
٭…’’ ہمارا پختہ اعتقاد ہے کہ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر قوم میں نبی آتے رہے ہیں۔ ان کا مقصد لوگوں کو خدا کی طرف راہنمائی کرنا اور نیک کام کرنے کی تعلیم دینا تھا۔ … ہم احمدیہ مسلمان نہ تو کسی نبی کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸تا۲۴؍جولائی ۲۰۰۸ء صفحہ ۳-۴)
٭…’’ ہم امن کے قیام کے لیے لوگوں کو خدا کے قریب لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کتاب جو آنحضرتﷺ پر اُتاری گئی وہ اصل حالت میں موجود ہے اور خدا نے اپنی طرف سے مسیح موعود کی صورت میں وہ امام بھیجا ہے جس نے اسلام کی یہ تعلیمات اصل صورت میں ہمارے سامنے پیش کی ہیں۔ (ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸تا۲۴؍جولائی ۲۰۰۸ء صفحہ ۴)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں توفیق عطا فرماتا رہے کہ بحیثیت ایک احمدی مسلمان ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے دنیا میں امن اور سلامتی کے قیام کے لیے اسلامی تعلیم کی روشنی میں ہرجگہ اور ہر سطح پرہر ممکن کوشش جاری رکھ سکیں تاکہ دنیا امن اور سلامتی کے حصار میں داخل ہوکر اپنے پیدا کرنے والے کو مان لے اور اُس کی حقیقی عبد بن جائے۔ آمین اللھم آمین