خدا کے سامنے جھکنا عبادت کا تقاضا ہے
خدا کے سامنے جھکنا عبادت کا تقاضا ہے
یہی ایمان کی سچی حرارت کا تقاضا ہے
مٹا کر اپنی ہستی کو سبھی کچھ نذر کر دینا
امامِ وقت کی دل سے اطاعت کا تقاضا ہے
جو امت میں ہے یہ تقسیم شوقِ رہبری کی ہے
امام و پیشوا ہو ایک وحدت کا تقاضا ہے
بہت نقصان کر ڈالا ہے اس امت کا فرقوں نے
اکائی ایک بن جانا ہی ساعت کا تقاضا ہے
وہ نعمت جس کے دم سے اک بشر انسان بنتا ہے
اسے محفوظ رکھنا ہی ذکاوت کا تقاضا ہے
قیامت تک رہے محفوظ یہ نعمت میرے مولیٰ
خلافت امنِ عالم کی حفاظت کا تقاضا ہے
صداقت کے چراغوں کو ہواؤں سے بچانا ہی
دئیے سے دوستی اس کی حمایت کا تقاضا ہے
ہر اک شے اس کی رہ میں وار دینا باوفا بن کر
خدا سے کی ہوئی اپنی تجارت کا تقاضا ہے
رہِ مولیٰ میں جو سر کٹتے ہیں بالا ہی رہتے ہیں
نوشتوں کی گواہی اور شہادت کا تقاضا ہے
وہ قربانی جو ابراہیم کی سنت ہے صدیوں سے
اب اس کو ہم نہ دہرائیں ریاست کا تقاضا ہے
میں ہر غم بھول جاتا ہوں غمِ عاشور آنے پر
مری آلِ محمدؐ سے محبت کا تقاضا ہے
خدا سب ظالموں کو آپ ہی نابود کر دے گا
فقط اس سے دعاؤں اور ریاضت کا تقاضا ہے
بھلے وقتوں میں تو اکثر زمانہ ساتھ دیتا ہے
برے وقتوں میں کام آنا رفاقت کا تقاضا ہے
توکل ہو خدا کی ذات پر سرحد پہ گھوڑے ہوں
نشانی ہے یہ مومن کی فراست کا تقاضا ہے
گیا ہوں ان کے کوچے میں ہمیشہ باوضو ہو کر
یہ میری اپنے مرشد سے ارادت کا تقاضا ہے
خودی کو خاک کرنے سے ہی ملتی ہے ہر اک عظمت
یہ وہ نسخہ ہے جو ہر ایک رفعت کا تقاضا ہے
جھکا لینا نگاہیں جب بھی بزمِ یار میں آنا
یہ الفت کی علامت ہے عقیدت کا تقاضا ہے
خدا اب بھی بناتا ہے کلیم اللہ جسے چاہے
یہ سنت ہے ہمیشہ سے یہ فطرت کا تقاضا ہے
ظفرؔ قربان ہونا اپنے آقا کے اشارے پر
رگوں میں دوڑتی میری وراثت کا تقاضا ہے
(مبارک احمد ظؔفر۔ انگلستان)