الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء

(قسط دوم۔ تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍ جولائی ۲۰۲۳ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں شامل اشاعت مکرم فضیل عیاض احمد صاحب کے مضمون میں آنحضورﷺ کی ناموس کی حفاظت اور آپؐ کی سیرت سے دنیا کو روشناس کروانے میں الفضل اخبار کے کردار کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

جس دَور میں ہندوستان بھر میں عیسائیوں اور آریوں کی طرف سے خصوصاً اسلام اور آنحضورﷺ کی ذات اقدس کو نشانہ بنایا جارہا تھا بلکہ ان حملوں کا دفاع کرنے کی بجائے مسلمانوں کے علماء عیسائیت کی آغوش میں جارہے تھے چنانچہ مولوی عمادالدین تب پادری عمادالدین اور عبداللہ، عبداللہ آتھم بن کر گرجوں میں کھڑے ہوکر مسلمانوں کو للکار رہے تھے۔ نہایت دلآزار کتب میں آنحضورﷺ اور ازواج مطہّرات پر رقیق حملے کیے جارہے تھے۔ ایسے میں ایک روح تڑپ کر اور ایک دل گداز ہوکر آگے بڑھا اور ماہی بےآب کی طرح بےچین ہوکر ان حملوں کے آگے چٹان بن کر کھڑا ہوگیا۔ یہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تھے جنہوں نے اپنے قلم معجز رقم سے وہ عظیم الشان لٹریچر پیدا کردیا جس کے بارے میں غیر بھی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا: ’’ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تاکہ وہ مہتم بالشّان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پامال بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے۔ مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہادکرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہوکر اسلام کی طرف سے فرضِ مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادرگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایتِ اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے، قائم رہے گا۔ (اخبار ملّت لاہور۔ ۷؍جنوری۱۹۱۱ء)

خدمتِ دین کی اس روایت کو آپؑ کی اتّباع میں اُن مخلصین نے جاری رکھا جو آپؑ کی قوّتِ قدسیہ اور فیضِ علمی و روحانی سے مستفیض تھے۔ چنانچہ خلافتِ اولیٰ کے بابرکت دَور میں حضرت مسیح موعودؑ کے فرزند دلبند سیّدنا حضرت محمود نے الفضل جاری کرکے خدمت اسلام کا حق ادا کردیا۔ اسلام اور آنحضورﷺ کی ذات گرامی پر ہونے والے حملوں کا دفاع کرنے کے لیے اہل قلم احمدیوں کی وہ جماعت سامنے آئی جو نہ صرف والہانہ محبت، دعا اور جوشِ عشق سے سرشار تھی بلکہ اُن کے ہاتھوں میں وہ قلمی ہتھیار موجود تھے جن کا خمیر عشق محمدمصطفیٰﷺ سے اٹھایا گیا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے قلم سے نکلنے والے مضامین نہ صرف عشق محمد مصطفیٰﷺ سے مملو تھے بلکہ اپنے اندر عارفانہ رنگ بھی رکھتے تھے۔

یہ امر بھی نہایت حیرت انگیز ہے کہ سیرۃالنبیﷺ کے حوالے سے الفضل کے مضمون نگاروں میں احمدیوں کے علاوہ مشہور مسلمان قلمکار مثلاً خواجہ حسن نظامی، ہندو قلمکار مثلاً لالہ رام چندجی، آریہ پروفیسر رام دیو اور سکھ قلمکار مثلاً ڈاکٹر من موہن سنگھ بھی دکھائی دیتے ہیں۔

۱۹۲۸ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ ہائے سیرۃالنبیﷺ منانے کی تحریک فرمائی اور اس کے ساتھ ہی الفضل نے ’خاتم النبیّین نمبر‘ شائع کرنے شروع کیے جن میں اب تک ہزاروں مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ (مضمون نگار نے ۱۹۱۳ء سے ۱۹۶۵ء کے دوران سیرۃالنبیﷺ کے حوالے سے شائع کیے جانے والے مضامین کی فہرست بھی دی ہے۔)

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کا کلام شامل ہے جو سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آڑے وقت کی ایک معروف پُردرد دعا کا منظوم ترجمہ ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

اے مرے محسن اے مرے خدا!

اِک ہوں ناکارہ مَیں بندہ ترا

ظلم پر ظلم ہوا مجھ سے سدا

تُو نے انعام پر انعام کیا

دیکھے عصیاں پہ ہیں عصیاں تُو نے

کیے احساں پہ ہیں احساں تُو نے

پردہ پوشی کی ہمیشہ میری

انتہا ہے نہ تری رحمت کی

رحم کر اب بھی تُو نالائق پر

ترا بندہ ہوں عاجز مضطر

دے رہائی میرے اس غم سے مجھے

چارہ گر ہے نہ کوئی جُز تیرے

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم سیّد قمرسلیمان احمد صاحب اپنے مختصر مضمون میں بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ایک چچا نے الفضل اخبار کے حوالے سے چند اعتراضات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ کی خدمت میں تحریر کیے تو جواباً حضرت میاں صاحبؓ نے تحریر فرمایا: ’’پیارے امین! تمہارا خط ملا۔ جس عمر میں تم نے اعتراض کرنا سیکھا ہے اس عمر میں مَیں نے الفضل میں مضمون لکھنا سیکھ لیا تھا۔‘‘

اس خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگ الفضل کو ’اپنا اخبار‘ سمجھتے تھے اور اس کی بہتری اور ترقی کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ اسی ضمن میں حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ نے ۱۲؍ستمبر۱۹۳۶ء کے شمارے میں ایک مضمون بعنوان ’’اخبار الفضل حضرت مسیح موعودؑ کا ایک بازو ہے‘‘ بھی تحریر فرمایا تھا۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم عنایت اللہ صاحب اپنی یادداشت کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ مَیں ۱۹۳۸ء میں تین سال کی عمر میں اپنے خالوجان حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحبؓ کے پاس قادیان میں جاکر رہنے لگا۔ اُس زمانے میں محترم خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل تھے جن کا گھر بھی ہمسائیگی میں ہی تھا اور مَیں اُن کے بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ جب کچھ سُدھ بُدھ ہوئی اور لکھنے پڑھنے لگا تو الفضل کو بھی پہچاننے لگا۔ خالوجی تو نہایت انہماک سے سارے الفضل کا مطالعہ فرماتے اور باقی افراد بھی اپنی اپنی دلچسپی کے مطابق اسے دیکھتے۔ پاکستان بننے کے بعد جب مَیں سندھ منتقل ہوگیا تب بھی الفضل پڑھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر پڑھائی کے لیے خالوجی کے پاس ربوہ آکر میٹرک کیا اور پھر لاہور چلاگیا تو بھی الفضل سے تعلق رہا لیکن ۱۹۵۴ء میں افغانستان چلاگیا تو الفضل کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ پھر تئیس سال بعد ۱۹۷۷ء میں واپس پاکستان آیا تو الفضل سے ٹوٹا ہوا رشتہ جُڑ گیا تو باقاعدگی کے ساتھ الفضل کا مطالعہ کرنے لگا۔ اب تو یہ حال ہے کہ چھٹی والے دن تشنگی بڑھ جاتی ہے اور کوئی پرانا اخبار بھی نظر آجائے تو اُسے بھی پڑھ لیتا ہوں۔ جب تک برسرروزگار رہا تو پورا چندہ ادا کرتا رہا اور جب ریٹائر ہوگیا تو میری درخواست پر مینیجر صاحب نے رعایتی قیمت پر اخبار جاری کردیا۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل اخبار کے حوالے سے مکرم انجینئر محمود مجیب اصغر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھے الفضل پڑھنے کی عادت بچپن میں پیدا ہوئی کیونکہ والد محترم میاں فضل الرحمٰن صاحب بسمل سابق امیر جماعت احمدیہ بھیرہ الفضل منگواتے اور باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے۔ الفضل کے مطالعہ نے ہی مجھ میں لکھنے کا شوق بھی پیدا کردیا۔

۱۹۶۷ء میں مجھے ایک یوگوسلاوین فرم میں ملازمت ملی تو چند ماہ بعد ایک غیرازجماعت انجینئر حبیب الرحمٰن بھی میرے ساتھ متعیّن ہوئے۔ پہلے ہی دن انہوں نے میرے پاس الفضل دیکھا تو مجھ سے لے کر پڑھا۔ اس میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا خطبہ جمعہ بھی شائع ہوا تھا۔ پڑھ کر کہنے لگے کہ مجھے آپ کی جماعت سے دیرینہ تعارف ہے بلکہ حضرت نواب محمدعلی خان صاحب کے خاندان سے دُور کا تعلق بھی ہے اور مَیں نے آپ کے خلیفہ ثانی کے کئی خطبات اس سے پہلے پڑھے ہیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریر میں بھی بڑا جذب اور روانی ہے لیکن خلیفہ ثانی کی تحریر پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے اور آج خلیفہ ثالث کا خطبہ پڑھ کر بھی مجھ میں وہی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔

میرے والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ جوانی میں انہیں حقّہ پینے کی عادت پڑ گئی۔ انہی دنوں اپنے ایک زیرتبلیغ دوست کو آپ نے الفضل کا وہ شمارہ دیا جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا حقّہ نوشی کے مضرّات سے متعلق مضمون شائع ہوا تھا۔ وہ مضمون پڑھ کر میرے والد صاحب کو کہنے لگے کہ آپ مجھے احمدی بنانا چاہتے ہیں، پہلے یہ مضمون تو پڑھیں اور اپنا حال دیکھیں۔ والد صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے اسی وقت توبہ کی اور حقّہ توڑ دیا اور پھر زندگی بھر اس کے قریب نہیں گیا۔ پھر وہ صاحب بھی احمدی ہوگئے اور بعد میں اُن کے ایک بیٹے (مکرم عبدالرشید یحییٰ صاحب)کو مبلغ سلسلہ امریکہ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم بشیر احمد شاہد صاحب اپنی یادداشت کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ الفضل میرے بچپن سے ہی میرا دوست ہے اور اس کے ساتھ میری کئی حسین یادیں وابستہ ہیں۔ مثلاً F.Sc میں اپنے کالج کی لیبارٹری میں ایک پریکٹیکل کے دوران حادثہ ہوا جس کے نتیجے میں میری آنکھوں میں سلفیورک ایسڈ پڑگیا۔ اس کے بعد قریباً ایک سال تک میرا پڑھنے لکھنے سے ناطہ ٹوٹ گیا۔ بعد میں مَیں نے اپنے مضمون تبدیل کرکے F.Aکرنا چاہا تو سالانہ امتحان میں چھ سات ماہ باقی تھے۔ کالج کے پرنسپل نے کہا کہ تم سائنس پڑھتے رہے ہو اور نئے مضامین کو اتنے مختصر وقت میں cover نہیں کرسکوگے۔لیکن پھر میرے اصرار پر کہا کہ اگر دسمبر ٹیسٹ میں اردو کے مضمون میں پاس ہوگئے تو پھر اجازت ہے ورنہ نہیں۔ مَیں نے اس پابندی کو بخوشی قبول کرلیا۔ جب دسمبر ٹیسٹ ہوئے تو مَیں اپنی کلاس میں اوّل آیا اور میرے پروفیسر جن کا تعلق لکھنؤ سے تھا، انہوں نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے اتنی اچھی کارکردگی کی وجہ دریافت کی۔ مَیں تو صرف ایک بات جانتا تھا کہ بچپن سے الفضل کا قاری رہا تھا اور اخبار میں شائع ہونے والے بلند پایہ مضامین سے بہت کچھ اخذ کرلیتا تھا۔

میرا مشاہدہ ہے کہ بعض گھرانوں میں الفضل آتا تو ہے لیکن بچے تو ایک طرف بڑے بھی کماحقّہٗ اس سے استفادہ نہیں کرتے۔ مَیں یہی کہہ سکتا ہوں کہ بچوں کو بھی الفضل کے مطالعہ کا عادی بنائیں تو وہ اردو کے مضمون کے علاوہ بھی علمی میدان میں بہت کچھ سیکھ لیں گے۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم ظفراللہ صاحب اپنی یادداشت کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ میرے والد الفضل کے عاشق تھے۔ شیخوپورہ کے ایک گاؤں ڈھامکےؔ میں ہمارا واحد احمدی گھرانہ تھا۔ لاہور میں ہمارے گاؤں کا ایک آدمی ملازم تھا جو وہاں ایک احمدی کی دکان پر آنے والا ہمارا الفضل روزانہ کام سے واپس آتے ہوئے ہمارے لیے لے آتا تھا۔پھر میرے بڑے بھائی لاہور میں ملازم ہوگئے تو یہ فریضہ وہ سرانجام دینے لگے۔بعد میں یہی ذمہ داری میرے حصے میں آئی۔ مَیں گھر پہنچتا تو والد صاحب بڑی شدّت سے الفضل کے منتظر ہوتے اور اخبار ملتا تو شام کا کھانا اور دوسری ضروریات بھی پس منظر میں چلی جاتیں۔ اُن کی محویت کا یہ عالم ہوتا کہ اخبار پڑھتے ہوئے کبھی کھانا کھاتے تو لقمہ پلیٹ سے باہر میز کی سطح کو چھو رہا ہوتا۔ مطالعے کے بعد اپنی اخبارات کو والد صاحب مجلّد شکل میں سنبھال کررکھتے جو آج بھی ہمارے گھر کی زینت ہیں۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم محمد صدیق صاحب امرتسری کا منظوم کلام شامل ہے جس میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

وہ آنکھ کیا جو ذکرِ الٰہی میں تر نہیں

وہ دل ہی کیا جسے کوئی عقبیٰ کا ڈر نہیں

یہ اَور بات ہے تجھے ذوقِ نظر نہیں

نورِ خدا وگرنہ کہاں اور کدھر نہیں

یہ فصلِ گُل یہ حُسنِ گلستاں یہ چاندنی

جلوے تو بےنقاب ہیں اہلِ نظر نہیں

اس جانِ کائنات کو پانا ہے زندگی

وہ جس کو مل گیا اُسے کوئی خطر نہیں

سب مشکلوں کا ایک ہی مشکل کُشا ہے وہ

اس کے سوا ہمارا کوئی چارہ گر نہیں

مشکل کے وقت کام جو آئے وہی ہے دوست

ورنہ جہاں میں دوست کوئی معتبر نہیں

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم عبدالقدیر قمر صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے بعض دوستوں کی الفضل کے حوالے سے خوبصورت یادوں کو بیان کیا ہے۔

٭…مضمون نگار کی اہلیہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ ہمارے گھرانے نے احمدیت قبول کی تو گھر میں الفضل بھی آنے لگا۔ میری والدہ مجھ سے پڑھواکر اخبار سنتیں تو میری بھی تربیت ہوتی جاتی۔ ایک روز ایک مربی سلسلہ کے تعلق باللہ کا احوال ایک مضمون میں پڑھا تو میرے دل میں شدّت سے خواہش پیدا ہوئی کہ میری شادی بھی کسی مربی سلسلہ سے ہوجائے۔ جب میری شادی کے پیغامات آنے شروع ہوئے تو مَیں نے اپنی خواہش کا اظہار اپنی والدہ سے کیا۔ وہ کہنے لگیں کہ ہم نئے احمدی ہیں، جماعت میں ہمیں کوئی جانتا نہیں، ہمیں مربی کا رشتہ کیسے ملے گا؟ مَیں نے کہا کہ میری تو یہی شدید دلی تڑپ ہے۔ پھر مَیں نے دعائیں بھی شروع کردیں اور آخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری شادی مربی سلسلہ سے ہوگئی۔

٭…مکرم منصور صاحب نے بیان کیا کہ الفضل کا ہمارے خاندان پر یہ احسان ہے کہ ہم نُوراحمدیت سے منور ہوئے۔ میرے والد مکرم چودھری بشیر احمد صاحب سٹیشن ماسٹر تھے، ایک قریبی سکول میں ایک احمدی استاد مکرم ماسٹر ابراہیم شاد صاحب تعینات تھے جنہوں نے الفضل لگوا رکھا تھا۔ وہ الفضل کا مطالعہ کرنے کے بعد اخبار کو سٹیشن کے کسی بنچ پر چھوڑ جاتے جسے والد صاحب اٹھاکر ایک الماری میں رکھ دیتے۔ ایک بار شدید بارش کی وجہ سے ڈیوٹی پر کوئی اَور نہ آیا اور میرے والد اکیلے ہی بیٹھے تھے تو اپنی تنہائی دُور کرنے کے لیے الماری میں رکھے ہوئے الفضل کے پرانے شماروں کا مطالعہ شروع کردیا۔ جوں جوں یہ مطالعہ آگے بڑھتا رہا تو شکوک و شبہات کے دبیز پردے ہٹتے چلے گئے۔ اور آخر آپ کا سینہ احمدیت کے نُور نے منور کردیا۔

٭…مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار ضلع گوجرانوالہ کا مربی ضلع تھا تو مکرم خالد صاحب سے تبادلہ خیال ہوا۔ انہوں نے کچھ عرصہ مطالعہ کرنے اور ایم ٹی اے دیکھنے کے بعد بیعت کرلی۔ چند دن بعد ہی اُن کے والدین نے بھی احمدیت قبول کرلی۔ اُن کے والد صاحب نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل اُن کے گاؤں کا ایک نوجوان احمدی ہوگیا اور اُس نے الفضل لگوالیا تو اُس کی شدید مخالفت شروع ہوگئی۔ اس مخالفت سے تنگ آکر وہ کہیں باہر چلا گیا۔ اب الفضل تو آتا تھا لیکن اُسے لینے والا کوئی نہ تھا۔ ایک روز مَیں نے سوچا کہ مَیں دیکھوں تو سہی کہ اس اخبار میں کیسے مضامین آتے ہیں جس پر مخالفت ہوتی ہے۔ جب اخبار پڑھنا شروع کیا تو اس میں خدا تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہﷺ کے دلنشیں تذکرے اور دوسرے علمی مضامین کو پایا جنہوں نے چند ہی دن میں میری کایا پلٹ دی اور مَیں نے اپنے بیٹے خالد کو نصیحت کی کہ جب بھی تمہارا رابطہ احمدیوں سے ہو تو اُن کے ساتھ شامل ہوجانا اور مجھے بھی ملانا۔ خدا تعالیٰ نے ہماری سچی تڑپ کو دیکھا اور آپ لوگوں سے ملادیا۔

اس خاندان کو الفضل سے بہت محبت تھی اور اس کے مضامین سے اُن کے علم میں ایسی جِلا آئی کہ دعوت الی اللہ کی لگن پیدا ہوئی اور خالد صاحب کو مزید ۳۵؍بیعتیں کروانے کی سعادت بھی ملی۔

٭…ایک دوست نے بیان کیا کہ میرا بیٹا شدید بیمار ہوگیا اور علاج کے باوجود مرض بڑھتا گیا۔ آخر یوں لگنے لگا کہ ہمارا پیارا بیٹا چند دنوں کا مہمان ہے۔ آخر مجھے خیال آیا کہ الفضل میں دعا کا اعلان کرواؤں۔ خدا نے ایسا فضل کیا کہ جس دن اعلان شائع ہوا اگلے ہی دن سے حالت سنبھلنے لگی اور چند دن کے اندر بیٹا بالکل صحت مند ہوگیا۔ اُس دن سے مَیں الفضل پڑھتے ہوئے اعلانات کا مطالعہ کرتا ہوں تو بیماروں کے لیے دعا بھی کرتا ہوں۔

٭…مکرم مظفر احمد درّانی صاحب بیان کرتے ہیںکہ بچپن سے ہی الفضل سے تعلق ہوگیا۔ جب افریقہ میں متعیّن ہوا تو یہ بھی دیکھا کہ بہت سے افریقن بزرگ الفضل کے مضامین کے مطالعہ کی شدید تڑپ رکھتے تھے چنانچہ اُن کے شوق کو دیکھتے ہوئے الفضل کے اہم مضامین کا ترجمہ کرکے انہیں سمجھایا جاتا اور مقامی اخبار میں بھی ان کا خلاصہ شائع کروایا جاتا۔

٭…مکرم صفدر نذیر صاحب گولیکی بیان کرتے ہیں کہ میرے بچپن سے ہی اخبار الفضل ہمارے ہاں آتا تھا اور میرے والد محترم تو اس کے شیدائی تھے۔ خود پڑھ کر اپنے دوستوں کو بھی مطالعہ کے لیے دیتے۔ جب مَیں میٹرک میں تھا تو ہم خانیوال میں مقیم تھے۔ میرے والد صاحب نے میری ڈیوٹی لگائی کہ گاڑی میں ربوہ سے الفضل آتا ہے، تم بلٹی چھڑاکر لایا کرو اور اخبار احمدی گھرانوں میں تقسیم کیا کرو۔ مَیں روزانہ یہ خدمت کرنے لگا لیکن خود مطالعہ کا اتنا شوق نہ تھا۔ ایک دن مخالفین نے اخبار کا بنڈل مجھ سے چھین کر پھاڑ دیا اور مجھے بھی ڈرایا دھمکایا۔ اس واقعے کے بعد مَیں نے الفضل کو بنظر غائر پڑھنا شروع کیا کہ اس میں کونسی چیز مخالفین کو ناپسند آئی ہے۔ لیکن اس مطالعے نے مجھے یہی دکھایا کہ یہ تو خدا اور رسولﷺ کی محبت بڑھانے والا اور ہماری علمی ترقی کا ذریعہ ہے۔ جب مَیں دعوت الی اللہ کے لیے افریقہ گیا تو مَیں نے دیکھا کہ اگر الفضل میں اُن ممالک کے کسی بزرگ کا ذکرخیر ہوتا تو وہاں کے باشندوں کی خوشی دیدنی ہوتی۔

٭…مکرم محمد آصف خلیل صاحب نے بتایا کہ جب سے ہمارے گھرانے نے احمدیت قبول کی تو الفضل ہمارے ہاں آنے لگا۔ اخبار آتا تو سارا دن گاؤں میں ہماری دکان پر موجود رہتا اور کئی غیرازجماعت بھی اسے بڑے شوق سے پڑھتے اور کہتے کہ تمہارے اخبار میں دینی اور دنیاوی دونوں طرح کے علوم پائے جاتے ہیں۔ ہم نئے احمدی تھے ہماری تو الفضل نے تربیت ہی نہیں کی بلکہ خلافت سے محبت کرنے کے انداز بھی سکھائے۔ نماز اور مالی قربانی میں قدم بڑھانے کی عادت ڈالی اور پھر میرا زندگی وقف کرنے کا موجب بھی الفضل ہی بنا اس لیے مجھے اس سے عشق ہے۔

٭…مکرم مقصود احمد قمر صاحب نے بیان کیا کہ میری عمر دس گیارہ سال تھی تو میری والدہ مجھے اخبار الفضل پڑھنے کے لیے روزانہ احمدیہ مسجد سے ملحقہ لائبریری میں بھیجا کرتیں اور جب مَیں گھر آتا تو پوچھتیں کہ کیا پڑھ کر آئے ہو؟ اس طرح بچپن سے ہی غور سے اخبار پڑھنے کی عادت ہوگئی۔ جب میری تقرری تنزانیہ میں ہوئی تو الفضل باقاعدگی سے نہ ملتا۔ ہفتے میں ایک بار بنڈل کی صورت اخبار آتے تو ہماری خوشی دیدنی ہوتی۔ ہمارے تنزانین دوست بھی ہم سے الفضل پڑھواکر سنتے۔ جن کو اردو سے شُدبُد ہوتی وہ خود بھی پڑھنے کی کوشش کرتے۔ خاص طور پر مولانا محمدیوسف کانبولا صاحب اور ابوطالب صاحب کو الفضل سے عشق تھا۔ٹبورا کی ایک خاتون تھیں جو خاص طور پر مشن سے الفضل منگواکر پڑھتیں اور بچوں کو سناتی تھیں۔

٭…مکرم میاں محمد زاہد صاحب آف جھنگ بیان کرتے ہیں کہ جن دنوں میری ڈیوٹی ضلع شیخوپورہ کے ایک مقام پر تھی تو سخت گرمی کے موسم میں نہر کے کنارے ایک درخت کے سایے میں بیٹھے بیٹھے مَیں نے اپنے بچوں کو آواز دی کہ مجھے الفضل پکڑادیں۔ میری آواز نہر کے دوسرے کنارے پر گزرتے ہوئے دو آدمیوں نے بھی سُن لی تو اُن میں سے ایک نے بوٹ اور جرابیں اتاریں، پتلون اوپر کی اور نہر میں سے ہوتا ہوا میرے پاس آگیا۔ اُس کا ساتھی بھی پیچھے پیچھے آگیا۔ اُس نے پوچھا کہ کیا آپ احمدی ہیں؟ میرے اثبات میں جواب دینے پر کہنے لگا کہ میرا نام محمد ارشد ہے اور مَیں محکمہ نہر میں اوورسیئر ہوں۔ میرے کانوں میں الفضل کا نام پڑا تو نہر سے گزر کر آگیا کہ ایک تو احمدی دوست سے ملاقات ہوجائے اور دوسرے الفضل بھی پڑھ لوں۔

اسی جگہ ایک روز بیٹھا ہوا تھا۔ چارپائی پر الفضل بھی پڑا تھا کہ ایک غیرازجماعت آگیا اور اخبار اٹھاکر پڑھنے لگا۔ جب اُس نے حضرت مسیح موعودؑ کے یہ الفاظ پڑھے کہ سچی توبہ گناہوں کو اس طرح ختم کردیتی ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، تو عجیب کیفیت اُس پر طاری ہوگئی۔ وہ بار بار یہ الفاظ پڑھتا رہا۔ پھر کہنے لگا کہ اگر بانی جماعت احمدیہ کی یہی تعلیم ہے تو مَیں بیعت کرتا ہوں۔ چنانچہ بعدازاں وہ نہایت مخلص احمدی بن گیا۔

٭…مکرمہ شوکت اسد صاحبہ نے الفضل سے اپنی بےانتہا محبت کا پس منظر یہ بیان بتایا کہ بچپن میں ہم اپنے نانا محترم قاضی عطاءاللہ صاحب کے ہاں جاتے تو انہیں اور نانی جان کو الفضل کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھتی۔ مَیں نے بھی کئی دفعہ پڑھا لیکن کوئی کہانی یا لطیفہ نہیں نظر آیا تو سوچتی کہ یہ اتنی دلچسپی سے کیوں پڑھتے ہیں۔ جب ہم ربوہ آگئے تو اپنے ماموں محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری کو دیکھا کہ بڑی گہری نظر سے الفضل کا مطالعہ کرتے، نوٹس لیتے اور مضامین کو اہل خانہ سے ڈسکس بھی کرتے۔یہاں سے مجھے بھی الفضل سے دلچسپی پیدا ہوتی گئی۔ پھر والدہ صاحبہ نے اخبار لگوالیا تو مجھے بھی ایسی لگن ہوگئی کہ انتظار رہتا۔ شادی کے بعد جب اخبار نہ ملا تو بڑی بےچینی ہوئی۔ آخر اپنے شوہر کی دادی کے ہاں سے منگواکر پڑھتی۔ پھر ایک قریبی احمدی گھرانے کا علم ہوا تو وہاں سے منگوانے لگی اور خود پڑھنے کے بعد چار پانچ دوسرے گھرانوں کو بھی پڑھنے کے لیے دیتی جو خود نہیں لگواسکتے تھے۔ مَیں یہ بھی دعا کرتی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنا گھر دے تو سب سے پہلے الفضل لگواؤں گی۔ جب اللہ تعالیٰ نے دعاؤں کو سنا تو مَیں نے بھی اپنا عہد پورا کیا اور اب الفضل خود پڑھ کر دوسرے گھروں میں بھی بھجوادیتی ہوں۔

٭…مکرم صوفی محمد اکرم صاحب بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۷۰ء میں میری تعیناتی محکمہ محنت لاہور میں تھی اور ہمارا دفتر آبادی سے کچھ فاصلے پر تھا۔ لاہور میں کسی بھی ہاکر سے الفضل روزانہ مل سکتا تھا۔ مَیں نے ایک دوسرے دفتر میں اخبار دینے والے ہاکر سے کہا کہ مجھے الفضل دے جایا کرو۔ اُس نے کہا کہ صرف الفضل اخبار کے لیے اتنی دُور جانا مشکل ہے کیونکہ الفضل پر صرف ایک ٹیڈی پیسہ کمیشن ملتا ہے۔ مَیں نے کہا کہ الفضل شروع کرو اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا۔ وہ ایک شریف انسان تھا اور اگلے ہی روز سے اُس نے الفضل ہمارے دفتر میں پہنچانا شروع کردیا۔ یہ دیکھ کر دفتر کے مختلف دوستوں نے اپنے پسندیدہ مختلف اخبارات لگوانے شروع کیے اور چند ہی روز میں دس بارہ اخبار رسالے ہمارے دفتر آنے لگے۔ یہ اخبارات سب سے پہلے شعبے کے ہیڈ ایس اے نقوی صاحب (ایم بی ای)کے پاس جاتے اور وہ ہر اخبار پڑھ کر اس پر دستخط بھی کرتے (وہ جنرل یحییٰ خان سابق صدر کے کزن تھے۔) الفضل پر بھی اُن کے دستخط ہوتے۔ پھر باقی سٹاف بھی الفضل پڑھنے لگا۔ بہرحال اب ہاکر بہت خوش تھا۔ مجھے کبھی الفضل کا بِل نہ پوچھتا بلکہ مَیں جب بھی اُسے پیسے دیتا تو یہی کہتا کہ رہنے دیں، یہ سب کچھ الفضل کی برکت سے ہی ہے۔

٭…مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ شادی سے قبل دوسرے احمدی گھرانوں سے الفضل منگواکر پڑھا کرتی تھیں۔ شادی کے بعد پہلی عید پر جب شوہر نے پسند کا تحفہ پوچھا تو انہوں نے الفضل لگوانے کی فرمائش کی جو شوہر نے پوری کردی۔

٭…مکرم محمد انوارالحق صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم محمد عبدالحق صاحب لاہور ریلوے ورکشاپ میں ملازم تھے۔ ۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران اُن کے دوستوں نے ایک روز پوچھا کہ آپ پر ان فسادات کا کیا اثر ہوا ہے؟ یہ کہنے لگے کہ سارا دن مَیں اخباروں میں مخالفانہ خبریں پڑھتا ہوں اور لوگوں سے سنتا ہوں لیکن جب گھر جاکر اپنا اخبار الفضل پڑھتا ہوں تو سارے دن کی باتوں پر یہ تریاق کا کام دیتا ہے اور راحت و سکون اور حوصلہ مل جاتا ہے۔

میری تلقین سے پندرہ افراد الفضل کے خریدار بن چکے ہیں۔ ایک دوست کے غیراحمدی ہاکر نے اُسے بتایا کہ وہ بھی الفضل کا خریدار ہے کیونکہ اس میں بڑے اچھے اور تربیتی مضامین ہوتے ہیں۔

٭…مکرم ایس اے احمد صاحب انبالہ چھاؤنی سے لکھتے ہیں کہ مالی کمزوری کی وجہ سے آج تک الفضل نہیں خرید سکا۔ اب ارادہ کیا ہے کہ سقہ اڑا کر بچت کی جائے اور الفضل جاری کروایا جائے۔ پانی خود بھر لیا کریں گے۔

٭…ستمبر ۱۹۳۵ء میں ایک انگریز نواحمدی مکرم مبارک احمد فیولنگ صاحب نے لندن سے ایک خط اردو میں ادارہ الفضل کے نام لکھا جس میں پوچھا کہ اُن کی الفضل کی قیمت کب ختم ہوتی ہے تاکہ مزید قیمت ارسال کردیں۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم مبارک صدیقی صاحب کا کلام شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

فصیلِ شب میں یہ روشن دیا ہے

سرِ مقتل صداقت کی صدا ہے

سلگتی دھوپ میں بادِ صبا ہے

مرا الفضل اِک فضلِ خدا ہے

اگرچہ اس نے ہیں طوفان دیکھے

بہت دنیا کے بھی نقصان دیکھے

سلاخیں ، بیڑیاں ، زندان دیکھے

کئی فرعون اور ہامان دیکھے

مگر حق بات یہ لکھتا رہا ہے

مرا الفضل اِک فضلِ خدا ہے

خدا کی حمد کے نغمات گاتے

ہمیں قرآن کی باتیں سناتے

ہدایت کی طرف سب کو بلاتے

بڑھے جاتا ہے یہ شمعیں جلاتے

امام وقت اس کا رہنما ہے

مرا الفضل اِک فضلِ خدا ہے

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم عبدالباسط چودھری صاحب کا ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ہماری دکان ملتان کینٹ میں احمدیوں کی پرانی مشہور دکان ہے۔ والد صاحب نے دکان میں ایک طرف کرسی میز لگائی ہوتی تھی جس پر الفضل اور دیگر جماعتی لٹریچر پڑے رہتے تھے۔ کافی تعداد میں احباب ان کا مطالعہ کرتے۔ ایک ہسپتال کے لیبارٹری اسسٹنٹ باقاعدگی سے آتے اور کہا کرتے کہ عجیب عادت سی ہوگئی ہے کہ جب تک الفضل کا مطالعہ نہ کرلوں، دل ہی نہیں لگتا۔ ایک ٹی وی چینل کے میزبان مجھ سے الفضل لے جاتے ہیں کہ جب وہ کام سے تھک جاتے ہیں اور قلبی سکون چاہتے ہیں تو الفضل کا مطالعہ کرتے ہیں۔

ایک ایسا دَور بھی آیا جب الفضل نسبتاً ایک دو دن دیر سے ملنے لگا۔ مَیں نے ڈاکیے سے وجہ پوچھی تو پہلے تو اُس نے ٹال دیا لیکن پھر ایک دن بتایا کہ جب مَیں ڈاکخانے سے نکلتا ہوں تو باہر بیٹھا ہوا ایک عرضی نویس مجھ سے اخبار الفضل لے لیتا ہے اور پڑھ کر اگلے روز واپس کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے مطالعے سے میرے ذہن کو سکون ملتا ہے۔

جناب مخدوم حسن رضا گردیزی صاحب جو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے کلاس فیلو بھی رہے تھے اور جناب شاہ محمود قریشی صاحب سابق وزیرخارجہ کے چچاسسر تھے، وہ بھی باقاعدگی سے الفضل کا مطالعہ کرنے ہماری دکان پر آیا کرتے تھے بلکہ اخبار میں شائع ہونے والے بعض اشعار بھی اپنی ڈائری میں نوٹ کرتے اور کہا کرتے تھے کہ احمدیوں کے اشعار انتہائی معیاری ہوتے ہیں جنہیں جب مَیں کسی مجلس میں سناتا ہوں تو لوگ عش عش کراٹھتے ہیں۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل اخبار کے حوالے سے مکرم انورندیم علوی صاحب نے اپنی چند خوبصورت یادیں مرتب کی ہیں۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ۱۹۶۵ء میں ہم اپنے گاؤں گوٹھ امام بخش میں رہتے تھے۔ اباجی مکرم چودھری غلام نبی علوی صاحب صدر جماعت تھے۔ میرا سکول سات کلومیٹر دُور دریاخاںمری میں واقع تھا جو سندھی میڈیم تھا۔ اُس وقت سندھ کے تعلیمی اداروں کا معیار تعلیم کافی بہتر تھا۔ وہاں ایک احمدی دوست مکرم سیٹھ صادق احمد صاحب کی آڑھت کی دکان تھی جہاں ہمارے گاؤں کی ڈاک بھی آتی تھی۔ یہ ڈاک سکول سے واپسی پر مَیں لے آتا جس میں اخبار الفضل بھی ہوتا۔ گاؤں میں بجلی نہ تھی۔ رات کو لالٹین کی روشنی میں ابّاجی مجھ سے اخبار پڑھواکر سنتے اور مشکل الفاظ کے معانی بھی سمجھاتے۔

جب پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو سندھ کے سکول بند ہوگئے لیکن ربوہ کے تعلیمی ادارے کھلے تھے چنانچہ مَیں ربوہ آکر تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل ہوگیا جہاں سندھی کے نام سے مشہور ہوا۔ پہلے امتحانات میں ہی سندھی میڈیم میں پڑھنے والا یہ ’سندھی‘ اوّل آگیا تو سب حیران ہوئے لیکن مجھے معلوم تھا کہ دراصل ’’الفضل‘‘ ہی میرا محسن تھا۔ بعدازاں الفضل کے لیے مضامین لکھنے کا سلسلہ بھی جاری ہوا اور ان مضامین پر مشتمل دو کتب اب تک شائع ہوچکی ہیں۔

اسی ضمن میں ابّاجی کا ذکرخیر بھی ضروری ہے۔ انہوں نے بائیس سال کی عمر میں (اپنے خاندان میں سب سے پہلے) احمدیت قبول کی اور پھر باقی فیملی بھی احمدیت کی آغوش میں آتی گئی۔ آپ نے قریباً ۹۷سال عمر پائی اور آخری عمر تک الفضل کا روزانہ بےچینی سے انتظار اور پھر مطالعہ جاری رکھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب خصوصاً ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘، ’’انفاخ قدسیہ‘‘ اور ’’کشتی نوح‘‘ اُن کے سرہانے موجود رہتیں۔وفات کے بعد بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم محمد رئیس طاہر صاحب رقمطراز ہیں کہ دفتر الفضل سے ۲۰۱۲ء میں پنشن پانے والے مکرم منیر احمد صاحب ابن مکرم سراج دین صاحب ۲۵؍فروری۱۹۷۴ء کو بطور چِٹ کلرک بھرتی ہوئے اور پھر قریباً ۳۸سال بطور انچارج شعبہ اشتہارات خدمت کی توفیق پائی۔ ۱۹۷۶ء میں انہوں نے اشتہارات کی مد میں ساٹھ ہزار روپے کی ریکارڈ رقم اکٹھی کی تو اُس وقت کے مینیجر مکرم گیانی عباداللہ صاحب نے اس نمایاں کامیابی کی اطلاع حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں دی اور یہ بھی لکھا کہ کسی زمانے میں تو ادارے کا بجٹ اتنا ہوا کرتا تھا۔ اس پر حضورؒ نے بھی نہ صرف خوشنودی کا اظہار فرمایا بلکہ تمام کارکنان کے لیے ایک ایک سو روپے کی رقم بطور انعام بھی منظور فرمائی۔

۱۹۷۴ء میں الفضل کی اشاعت پر سنسرشپ کے دوران مکرم منیر احمد صاحب کو بھی یہ توفیق ملتی رہی کہ اشاعت سے قبل سنسر کے لیے اخبار کی کاپی انفارمیشن آفس سرگودھا میں لے جایا کریں۔ اُس وقت ایک کاتب مکرم منور احمد صاحب بھی سرگودھا میں رہائش پذیر تھے، اُن سے کاپی لکھوانے کے لیے بھی آپ بارہا سرگودھا کا سفر کرتے رہے۔

انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ ۱۹۸۴ء میں الفضل اخبار پر پابندی لگادی گئی جو مسلسل چار سال تک جاری رہی۔ اس دوران کارکنان کو فارغ کردینے کا بھی جواز نہ تھا چنانچہ وہ وقت کے بہترین استعمال کے لیے اور کچھ آمد پیدا کرنے کے لیے دفتر میں بیٹھ کر لفافے بنایا کرتے تھے اور پھر اُن کو بازار میں فروخت کیا کرتے تھے۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں کئی ایسے بزرگوں کا ذکر ہے جو الفضل کا مطالعہ کرتے تو درخواستِ دعا کے اعلانات پڑھتے ہوئے خاص طور پر دعا بھی کرتے۔ اسی طرح خصوصی شمارے میں بہت سے ایسے واقعات بھی شامل ہیں جب اخبار میں دعا کا اعلان کروایا گیا اور خداتعالیٰ نے فضل فرمانا شروع کردیا۔ مثلاً مکرمہ امۃالحفیظ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میرے والد محترم حکیم منور احمد عزیز صاحب کو ۱۸؍نومبر۲۰۱۲ء کی صبح اچانک منہ سے اتنا وافر خون آنا شروع ہوا کہ منہ کے آگے جو کپڑا بھی رکھتے وہ خون سے بھر جاتا۔ فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا۔ ایمرجنسی میں چیک اَپ ہوا لیکن کوئی وجہ سمجھ نہ آئی۔ آخر ICU میں منتقل کردیے گئے۔ جب تمام ٹیسٹ کلیئر آئے اور بیماری کا کچھ پتا نہ چلا تو میری والدہ نے دفتر الفضل میں رابطہ کرکے دعا کی درخواست لکھائی۔ الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے احباب کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور چند گھنٹوں میں شفا ہوگئی جبکہ ڈاکٹروں کو بیماری کی وجہ پھر بھی معلوم نہ ہوسکی۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں’’دنیا کی پہلی کتاب کی اشاعت‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ یورپ میں چھاپہ خانہ کا باقاعدہ آغاز تو پندرھویں صدی میں جان گوٹن برگ نے کیا تھا مگر ۱۹۰۰ء میں تاؤ مذہب کے پیروکار ایک راہب کو ترکستان میں Tanhaung کے مقام پر ایک کتاب ملی تھی جس کا نام Simond Sutra تھا۔ یہ کتاب گوتم بدھ کی تصاویر اور اُن کی تعلیمات کے سات اوراق پر مشتمل ہے جو آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہر شیٹ کی لمبائی اڑہائی فٹ اور چوڑائی ایک فٹ ہے۔ جب ان سات اوراق کو مکمل طور پر کھولا گیا تو سولہ فٹ لمبا اسکرول بن گیا۔ اس کتاب کے ایک ورق پر عبارت اور چھ اوراق پر گوتم بدھ کی تصاویر ہیں جن میں گوتم بدھ اپنے چند (مرد اور خواتین) پیروکاروں کے درمیان بیٹھے ہیں۔ تصویر میں دو بلیاں بھی دکھائی گئی ہیں۔ کتاب کے آخر پر یہ تحریر ہے کہ ’’یہ کتاب ۱۱؍مئی۸۶۸ء کو Wang Chieh نے مفت تقسیم کرنے کے لیے چھاپی تاکہ اُس کے والدین کی یاد کو دوام حاصل ہو۔‘‘

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل اخبار کے حوالے سے مکرم محمودانور صاحب خوشنویس کی چند ایمان افروز یادیں شامل اشاعت ہیں۔

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار ۱۹۷۹ء میں روزنامہ الفضل ربوہ کے شعبہ کتابت سے منسلک ہوا اور بعد میں ہیڈکاتب کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔ اسی دوران اخبار لیتھو سے آفسٹ پرنٹنگ پر منتقل ہوا جو کاتبوں کے لیے ایک مشکل مرحلہ تھا کیونکہ زرد پیپر سے بٹرپیپر پر سیاہی کے ساتھ لکھنے کی تبدیلی ہمارے لیے بہت دقّت طلب تھی۔

خاکسار کو ہمہ وقت اور پھر جزوقتی طور پر کسی نہ کسی رنگ میں ۲۰۰۲ء تک الفضل میں خدمت کی توفیق عطا ہوتی رہی۔ اپنی ملازمت کے دوران مجھے مکرم یوسف سہیل شوق صاحب کی شفقت ہمیشہ حاصل رہی۔ چنانچہ اس خدمت کے دوران ایک بار مجھے اپنی والدہ کی اچانک بیماری کی اطلاع ملی جب مَیں دفتر میں بیٹھا اخبار کے پہلے صفحہ کی کتابت کررہا تھا۔ پریشانی کے عالَم میں مَیں فوری طور پر گھر پہنچا تو والدہ کی طبیعت واقعی خراب تھی۔ مَیں نے انہیں ہسپتال لے جانے کا سوچا تو والدہ نے کہا کہ تم سلسلے کا کام جاری رکھو، خداتعالیٰ مجھے ضرور شفا دے گا کیونکہ تم اُسی کے کام میں مصروف ہو۔ چنانچہ خاکسار دوبارہ کام پر دفتر میں آگیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے والدہ صاحبہ بھی روبصحت ہوگئیں۔

اسی طرح ایک بار خاکسار کو سخت بخار تھا۔ رات گئے مکرم شوق صاحب تشریف لائے اور بتایا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے ضمیمہ فوری شائع کرنے کا ارشاد فرمایا ہے لہٰذا دفتر جانا ہے۔ اپنی حالت سوچ کر ابھی مَیں فیصلہ نہیں کرپایا تھا کہ والدہ محترمہ نے حکم دیا کہ فوراً اٹھو اور تیار ہوجاؤ، حضورؒ کے حکم کی تعمیل کرو، اللہ تعالیٰ بخار اُتار دے گا۔ اور پھر واقعی ایسا ہی ہوا۔ ایسے کئی معجزے دیکھے ہیں۔

ایک دن حضورؒ نے مجھے اپنے دفتر میں یاد فرمایا اور حاضر ہونے پر الفضل کا شمارہ میرے سامنے رکھ کر فرمایا: مجھے تمہاری کتابت میں نکھار دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ پھر مزید فرمایا کہ مَیں تمہارے لیے بہت دعا کرتا ہوں۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل اخبار کے حوالے سے مکرم خواجہ عبدالمومن صاحب کی نظم شائع ہوئی ہے جس میں سے انتخاب پیش ہے:

نعمت ہے مرے مولیٰ کی الفضل ہمارا

محمودؔ کا اخبار ہے سو جان سے پیارا

ہر روز بڑے شوق سے پڑھتے ہیں شمارہ

مضمون بھی نظمیں بھی ، عجب رنگ ہے سارا

یہ نہر ہے وہ جس نے کیا سب کو ہے سیراب

ہر سمت ہی بہتا ہے ، اسی نہر کا دھارا

الفضل نے بخشی ہے مرے شعروں کو برکت

الفضل کا مجھ پر بڑا احسان ہے بھارا

الفضل کی ہو جوبلی صد سالہ مبارک

روشن رہے دانش کا ، ادب کا یہ منارا

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button