شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَعَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَعَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّلَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ۔ (البقرۃ:۸) اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی شنوائی پر بھی۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ اور ان کے لئے بڑا عذاب (مقدر) ہے۔
اس آیت میں دلوں اور کانوں کے لیے تو مہر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو زیادہ سخت ہے لیکن آنکھوں کے لیے پردہ کا لفظ استعمال کیا ہے جو ہٹ بھی سکتا ہے۔ (ماخوذ از تفسیرکبیر جلد۱صفحہ۲۳۲۔ایڈیشن۲۰۲۳ء)
حضرت مصلح موعود ؓاس کی تفسیر میں فرماتے ہیں ہدایت کے تین بڑے ذریعے ہیں… اول دل ہے… جو شخص سوچنے کا عادی ہوتا ہے وہ بیسیوں صداقتوں کو پا لیتا ہے۔ …دوم کان …اگر کسی میں زیادہ عقل اور سمجھ نہیں ہوتی کہ غور کرکے خود فیصلہ کرلے وہ کسی سے سن کر بات مان لیتا ہے۔… تیسرے آنکھیں ہیں اگر کانوں سے سن کر ہدایت نہ پائے تو کم سے کم آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے کہ جو باتیں مجھ سے کہی جاتی ہیں ان کا نتیجہ دنیا میں کیا پیدا ہو رہا ہے۔ (تفسیرکبیر جلد ۱ صفحہ۲۲۷۔ایڈیشن۲۰۲۳ء)
جب سے تہذیب انسانی کا آغاز ہوا ہے اس میں ایسے کئی ادوار آئے ہیں جب انسان پر غرور آگیا اور اپنی وقتی کامیابیوں کے باعث اور اپنی طاقت کے زعم میں خدا تعالیٰ کے فرستادوں کو کہنے لگا یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَاُ مَا عَلِمۡتُ لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرِیۡ۔ (القصص:۳۹)
لیکن جب خدائے قادر و توانا کی تقدیر کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو بےاختیار پکار اٹھتا ہےوَاَنَا مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ۔ (یونس:۹۱)
دور جدید میں جب مغربی قومیں اپنے عیسائی مذہب سے لا تعلق ہو کر ترقی کی شاہراہوں پر گامزن ہوئیں تو انہوں نے بعض تازہ خداؤں کو اپنا معبود بنا لیا۔
جن میں قومیت پرستی ، سائنسی ترقی اور نسل پرستی کا خدا بھی شامل تھا۔ اور سیاسی لیڈر ایک بار پھر طاقت کے زعم میں مبتلا ہوگئے۔ برطانوی وزیراعظم لائیڈ سٹون نے کہا کہ اگر آسمان بھی گرا تو ہم اسے اپنی سنگینوں کی نوک پر تھام لیں گے۔
لیکن ہوا یہ کہ سائنسی ترقی کا خدا چاہتا تھا کہ سرحدوں کی دیواریں ملیامیٹ ہو جائیں تاکہ وہ آزادی سے اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔ لیکن قومیت کا خدا اس کے آڑے آگیا۔ تو ہوا وہی جو قرآن پاک فرقان مجید نے فیصلہ سنایا تھا۔
لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا۔(الانبیاء:۲۳)
چنانچہ خدا تعالیٰ کے ایک فرستادہ نے جنگ عظیم اول کے آغاز سے سات سال قبل دنیا کو انتباہ فرما دیا:’’اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ ۲۶۹)
حیرت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے خبر باکر دنیا کو سات سال قبل انتباہ فرمادیا تھا کہ کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔ لیکن برطانیہ کا وزیر اعظم Herbert Asquith ، جولائی ۱۹۱۴ء میں یہ سمجھ رہا تھا کہ
’’if conflict did break out, England would not be anything more than spectator‘‘(Hall Gardner: The Failure to Prevent World War I, page 1)
لیکن دنیاوی لیڈر اس سچائی اور حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے جو کسی فانی فی اللہ کے آئینہ ادراک میں ہوتی ہے کیونکہ ان کا تکبر اور علم کا غروران کے لیے ایک حجاب بن جاتا ہے۔ وہ دیکھنے کے قابل نہیں رہتے جس کے نتیجہ میں قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق
اِنَّا جَعَلۡنَا فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ اَغۡلٰلًا فَہِیَ اِلَی الۡاَذۡقَانِ فَہُمۡ مُّقۡمَحُوۡنَ۔(یٰسٓ:۳۶)
We have put around their necks chains of habits and custom, which reach up to their chins, thus forcing up their heads. (The Quran۔ English translation: Muhammad Zafrullah Khan p.43)
لیکن دنیا اپنے مصنوعی معبودوں کے چنگل سے باہر نہ نکل سکی کیونکہ وَاُشۡرِبُوۡا فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡعِجۡلَ بِکُفۡرِہِمۡ۔(البقرۃ:۹۴)
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق دنیا میں فساد برپا ہو گیا۔جنگ عظیم اول کا آغاز ہو گیا اور اس فساد کے نتیجے میں چالیس ملین لوگ لقمہ اجل بن گئے۔جس کی مثال گذشتہ تاریخ میں نہیں ملتی تھی۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں مغرب کے اربابِ بست و کشاد امن کے فروغ کے لیے لیگ آف نیشنز کے قیام کے بارے میں غور و فکر کرنے لگے۔
۱۹۲۴ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے سیکرٹری لیگ آف نیشنز ریلیجن اینڈ ایتھکس کمیٹی کو ان کی درخواست پر مندرجہ ذیل آیت قرانی کا حوالہ دیتے ہوئے ایک نصیحت فرمائی:وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَاَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ۔(الحجرات:۱۰)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس آیت قرانی کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’دو صورتوں سے امن قائم ہو سکتا ہے۔ اول دلوں میں تبدیلی ہو۔ اگر دلوں میں تبدیلی پیدا ہو جائے تو پھر لیگ کی ضرورت نہیں۔ دوم طاقت سے اور اس طاقت سے یہ مطلب نہیں کہ لیگ ایک فوج رکھے۔ اس صورت میں لیگ خود ایک فریق بن جائے گی۔ بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ جو قوم نقص امن کرے۔باقی تمام اقوام اس کے خلاف اخلاقی طاقت استعمال کریں اور جب مغلوب ہو جائے تو صلح کے وقت صرف اسی امر کو جو باعث تنازعہ تھا منوا دیا جاوے۔ دوسری باتوں کو مغلوب سمجھ کر پیش نہ کیا جائے جیسا کہ عہد نامہ ورسیلز میں کیا گیا ہے۔‘‘(الفضل ۱۴اکتوبر ۱۹۲۴ء، صفحہ۳۔۴)
لیکن طاقتور اقوام جو کہ اپنے اپنے مفادات کے حصار سے باہر نہ نکل سکیں اور قران کریم کی حیات آفریں تعلیمات سے استفادہ نہ کر سکیں
The posibility of successful action by the League of nation is further limited by the fact that great Powers of Europe often subordinate their policy at Geneva to the needs of their respective internal politics.(Edward Benes: the League of Nations foreign Affairs: Vol II, NO. 1(oct ..1932, pp 66-80)
چنانچہ اس اتمام حجت کے بعد جب بڑی طاقتوں نے طغیان کیا تو انسانیت نے نہ صرف شُوَاظٌ بلکہَنُحَاسٌ کا بھی نظارہ دیکھا: یُرۡسَلُ عَلَیۡکُمَا شُوَاظٌ مِّنۡ نَّارٍ ۬ۙ وَّنُحَاسٌ فَلَاتَنۡتَصِرٰنِ۔ (الرحمٰن:۳۶)
جماعت احمدیہ نے ہر دور میں امن کے قیام کے لیے دنیا کی راہنمائی قرآن پاک کی حیات آفریں تعلیمات کے مطابق کی اور اسے حصارِ عافیت کی طرف آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۰۱۲ء میں عالمی لیڈروں کو خطوط تحریر کیے اور انہیں امن کے قیام کے لیے دعوتِ فکر دی اور خاص طور پر انصاف کے قیام پر زور دیا۔ آپ نے ایران کے صدر احمدی نژاد کو ۷ مارچ ۲۰۱۲ء کو تحریر فرمایا:
It is undeniably true that the major powers act with double standards, their injustices have caused restlessness and disorder to spread all across the world. (The Review of Religions: 22 April 2012)
لیکن دنیا نے اس نصیحت پر کان نہیں دھرا اور اب ایک طرف یورپ اور دوسری طرف ایشیا میں فساد پیدا ہو چکا ہے اور ان جنگوں کا دائرہ بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ چنانچہ ایک صحافی موجودہ فلسطین اسرائیل کے تنازعہ پر انتباہ کرتا ہے:
“If war against Hezbollah begins, the Gaza fighting will have been an overture. And if Tehran‘s most prized proxy is threatened with destruction, thet prospect of the direct entry of Iran and its remaining proxies into the fight will be very real.(Middle East forum: June 24,2024)
پیارے امام نے فرما دیا تھا کہ تیسری عالمی جنگ کاآغاز ہو چکا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَعَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَعَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ میں ’’قلوب اور کانوں پر مہر لگانے کو تو اپنی طرف منسوب کیا ہے لیکن آنکھوں کے پردوں کو اپنی طرف منسوب نہیں کیا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد۱ صفحہ ۲۳۳)کیونکہ انسان یہ جواز پیش کرسکتا ہے کہ ہم باریک حکمتوں کو نہیں سمجھ سکے، ہمیں سننے کا موقع نہیں ملا لیکن جوخدا تعالیٰ کے انتباہ کے مطابق دائیں بائیں ہو رہا ہے اس کے بارے میں وہ کیا جواب دیں گے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ النحل میں فرماتا ہے:طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ سَمۡعِہِمۡ وَ اَبۡصَارِہِمۡ (النحل:۱۰۹)
یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں، ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں پر مہر لگادی ہے…
سورۂ بقرہ میں اس حالت کا ذکر ہے کہ جب ابھی مہر کا وقت نہ آیا تھا اور سورۃالنحل میں اس حالت کا ذکر ہے جبکہ معجزات کو دیکھ کر بھی ایک لمبے عرصہ تک انسان ایمان نہ لائے۔(تفسیر کبیر جلد۱ صفحہ ۲۳۳)
چنانچہ اب بھی اگر دنیا طغیان اور فساد سے باہر نہیں آتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بُروز ِکامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت حق سے روگردانی کرتی ہے تو جنگ عظیم دوم میں تو دنیا نے نار اور نحاس کا نظارہ دیکھا تھا لیکن اب صرف وہ نحاس کا نظارہ دیکھے گی۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ دنیاہمیشہ کے لیے جلال و تقدس کے تخت پر بیٹھنے والے ہادی برحق ، مولائے کل، ختم الرسل آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شناخت کا حق ادا کرے جن کے طفیل انسانیت کو وہ نسخۂ کیمیا عطا ہوا جو شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ہے اور عافیت کے حصار میں داخل ہو جائے۔