جلسہ سالانہ پر Exhibition مارکی میں نمائش روزنامہ الفضل انٹرنیشنل بعنوان ’’الفضل تاریخ احمدیت کا بنیادی ماخذ‘‘ (۱۹۱۳ءتا۱۹۳۶ء)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے امسال الفضل انٹرنیشنل کو جلسہ سالانہ برطانیہ کے مبارک موقع پر نہایت دلچسپ تاریخی نمائش بعنوان ’’الفضل تاریخ احمدیت کا بنیادی ماخذ‘‘ کے اہتمام کی توفیق ملی۔ اس نمائش میں ۱۹۱۳ء سے ۱۹۳۶ء تک کی تاریخ احمدیت سے متعلق بعض شماروں کے عکس آویزاں کیے گئے۔ نمائش میں درج ذیل عناوین کے تحت انتخاب کیا گیا:
٭…الفضل خلیفہ وقت کی آواز
٭…مختلف ممالک میں احمدیت کی تبلیغ
٭…الفضل میں جلسہ ہائے سالانہ کی رپورٹنگ
٭…۱۹۲۴ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے سفر یورپ کی رپورٹنگ
٭…تحریرات و دروس حضرت مصلح موعودؓ
٭…اسلام اور احمدیت کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کا سد باب
٭…مسجد فضل لندن کی تعمیر کا سفر الفضل کے آئینہ میں
٭…جماعت احمدیہ کی مخالفت
٭…الفضل قادیان کے خصوصی شمارے
٭…حضرت مصلح موعودؓ اور دیگر معروف شعراء کا منظوم کلام
٭…الفضل میں شائع ہونے والے نادر تبرکات
٭…تحریک جدید۔ ایک الٰہی تحریک
٭…ادارہ جات اور تنظیمات کا آغاز
اس نمائش کا مقصد یہ تھا کہ احبابِ جماعت احمدیہ کو اپنی تاریخ سے مزید دلچسپی پیدا ہو اور وہ یہ سمجھ سکیں کہ ایک اخبار کا کسی قوم کی زندگی میں کتنا اہم کردار ہوتا ہے۔
اس نمائش کے ساتھ آڈیو تعارف(guided tour) کا بھی انتظام کیا گیا جس میں ناظرین ہر ایک باب کا تفصیلی تعارف سن سکتے تھے۔
اسی طرح درج ذیل لنک پر ورچوئل نمائش بھی تیار کی گئی ہے جس کے ذریعہ گھر بیٹھ کر لوگ نمائش کو اس طرح دیکھ سکتے ہیں جس طرح کہ وہ خود جلسہ میں شامل ہوں۔
علاوہ ازیں موضوع نمائش پر ایک ڈاکومنٹری بھی تیار کی گئی ہےجسے روزنامہ الفضل کے یوٹیوب چینل پر بسہولت سنا جا سکتا ہے۔
نمائش کے عین درمیان میں چار میٹر کی دیوار کھڑی کی گئی تھی جس کے ایک جانب الفضل کے حوالے سے خلفائے کرام کے مبارک ارشادات کو جبکہ دوسری جانب بچوں کا الفضل کا تازہ شمارہ بابت جلسہ سالانہ آویزاں کیا گیا تھا۔
الفضل کے اجرا کے وقت جماعت کی مالی حالت کمزور تھی لیکن حضرت مصلح موعودؓ کے اہل خانہ نے اپنا زیور تک اس مقصد کے لیے پیش کردیا۔اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہ ؓکے دل میں رسول کریمﷺ کی مدد کی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایساہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دیا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اُس زمانہ میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا۔ اپنے دو زیور مجھے دے دیئے کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کردوں ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے اور دوسرے ان کے بچپن کے کڑے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم سَلَّمَھَا اللہ تعالیٰ کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ میں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کے فروخت ہوئے یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا۔ الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازه رکھے گا۔(یادِ ایام ،انوارالعلوم، جلد ۸ صفحہ ۳۶۹)
الفضل کے لیے سرمایہ مہیا کرنے میں دوسری ہستی حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی تھی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضورؓ تحریر کرتے ہیں:آپؓ نے اپنی ایک زمین جو قریباً ایک ہزار روپے میں بکی الفضل کے لئے دے دی۔ مائیں دنیا میں خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں مگر ہماری والدہ کو ایک خصوصیت حاصل ہےاور وہ یہ کہ احسان صرف ان کے حصہ میں آیا ہے اور احسان مندی صرف ہمارے حصہ میں آئی ہے۔ وہ اب بھی ہمارے لئے تکلیف اٹھاتی ہیں اور ہم بھی کئی طرح ان پر بار ہیں… پیدائش سے اس وقت تک ان کی طرف سے احسان ہی احسان ہیں اور یہاں ایک بدلے کا خیال بھی۔ ایک نہ پوری ہونے والی امیدوں کا سلسلہ۔(یادِایام،انوارالعلوم ، جلد 8 صفحہ ۳۷۰-۳۷۱)
مزید فرماتے ہیں :تیسرے شخص جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نےتحریک کی وہ مکرمی خان محمد علی خان صاحبؓ ہیں۔ آپ نے کچھ روپیہ نقد اور کچھ زمین اس کام کے لئے دی۔ پس وہ بھی اس رو کے پیدا کرنے میں جو اللہ تعالیٰ نے ’’الفضل‘‘ کے ذریعہ سے چلائی حصہ دار ہیں۔ اور السّابقون الاوّلون میں سے ہونے کے سبب سے ا س امر کے اہل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اس قسم کا کام لے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہر قسم کے مصائب سے محفوظ و مامون رکھ کر اپنے فضل کے دروازے ان کے لئے کھولے۔(یاد ایام ،انوارالعلوم ، جلد 8 صفحہ ۳۷۱)
آخر پر ہم حضرت مصلح موعود ؓکی اس حسنِ نیت اور دعا کے ساتھ ختم کرتے ہیں جو الفضل کے جاری کرنے سے آپ کی تھی۔ آپؓ فرماتے ہیں: اے میرے دلدار میرے محبوب خدا! تو دلوں کا واقف ہےاور میری نیتوں اور ارادوں کو جانتا ہے۔ میرے پوشیدہ رازوں سے واقف ہے۔ میرے حقیقی مالک میرے متولی۔تجھے علم ہے کہ تیری رضا حاصل کرنے کے لئے اور تیرے دین کی خدمت کے ارادہ سے یہ کام میں نے شروع کیا ہے۔ تیرے پاک رسول کے نام کے بلند کرنے اور تیرے مامور کی سچائیوں کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے یہ ہمت میں نے کی ہےتو میرے ارادوں کا واقف ہےمیری پوشیدہ باتوں کا رازدار ہے۔ میں تجھی سے اور تیرے ہی پیارے چہرہ کا واسطہ دے کر نصرت و مدد کا امید وار ہوں۔ تو جانتا ہے کہ میں کمزور ہوںمیں ناتواں ہوں۔میں ضعیف ہوں۔میں بیمار ہوں۔میں تو اپنے پہلے کاموں کا بوجھ بھی اٹھا نہیں سکتا۔ پھر یہ اور بوجھ اٹھانے کی طاقت مجھ میں کہاں سے آئے گی۔ میری کمر تو پہلے ہی خم ہے۔ یہ ذمہ داریاں مجھے اور بھی کبڑا کر دیں گی۔ ہاں تیری ہی نصرت ہےجو مجھے کامیاب کر سکتی ہے۔ صرف تیری ہی مددسے میں اس کام سےعہدہ برآ ہو سکتا ہوں۔ تیرا ہی فضل ہے جس کے ساتھ میں سر خرو ہو سکتاہوں اور تیرے ہی رحم سے میں کامیابی کا منہ دیکھ سکتا ہوں۔ دین اسلام کی ترقی اور اس کی نصرت خود تیرا کام ہےاور تو ضرور اسے کر کے چھوڑے گا۔ مگر ثواب کی لالچ اور تیری رضا کی طمع ہمیں اس کام میں حصہ لینے کے لئے مجبور کرتی ہے۔ پس اے بادشاہ! ہماری کمزوریوں پر نظر کراور ہمارے دلوں سے زنگ دُور کر۔اسلام کی ترقی کے دن پھر آئیں اور پھر یہ درخت بار آور ہو اور اس کے شیریں ثمر ہم کھائیں اور تیرا نام دنیا میں بلند ہوتیری قدرت کا اظہار ہو۔ نور چمکے اور ظلم دُور ہو۔ہم پیاسے ہیں اپنے فضل کی بارش ہم پر برسااور ہمیں طاقت دے کہ تیرے سچے دین کی خدمت میں ہم اپنا جان ومال قربان کریں اور اپنے وقت اس کی اشاعت میں صرف کریں۔ تیری محبت ہمارے دلوں میں جاگزین ہو اور تیرا عشق ہمارے ہر ذرہ میں سرایت کر جائےہماری آنکھیں تیرے ہی نور سے دیکھیں اور ہمارے دل تیری ہی یاد سے پر ہوں اور ہماری زبانوں پر تیرا ہی ذکر ہو تو ہم سے راضی ہو جائےاور ہم تجھ سے راضی ہوں تیرا نور ہمیں ڈھانک لے۔ اے میرے مولا! اس مشتِ خاک نے ایک کام شروع کیا ہے اس میں برکت دےاور اسے کامیاب کر۔ میں اندھیروں میں ہوں تو آپ ہی راستہ دکھا۔لوگوں کے دلوں میں الہام کرکہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض کو لاکھوں نہیں کروڑوں تک وسیع کر اور آئیندہ نسلوں کے لئے بھی اسے مفید بنااس سبب سے بہت سی جانوں کو ہدایت ہو۔ میری نیتوں کا تو واقف ہےمیں تجھے دھوکا نہیں دے سکتا کیونکہ میرے دل میں خیال آنے سے پہلےتجھے اس کی اطلاع ہوتی ہےپس تو میرے مقاصد و اغراض کو جانتا ہےاور میری دلی تڑپ سے آگاہ ہےلیکن میرے مولا میں کمزور ہوں اور ممکن ہے کہ میری نیتوںمیں بعض پوشیدہ کمزوریاں بھی ہوں تو ان کو دور کراور ان کے شر سے مجھے بچا لےاور میری نیتوں کو صاف کراور میرے ارادوں کو پاک کرتیری مدد کے بغیر میں کچھ بھی نہیں کر سکتاپس اس ناتواں و ضعیف کو اپنے دروازہ سے خائب و خاسرمت پھیریو کہ تیرے جیسے بادشاہ سے میں اس کا امیدوار نہیں۔ تو میرا دستگیر ہو جااور مجھے تمام ناکامیوں سے بچا لے۔ آمین ثم آمین ثم آمین۔
(الفضل ۱۹؍جون 1913ء)
قارئین سے درخواست ہے کہ نمائش سے متعلق اپنی قیمتی آرا و تجاویز سے ادارہ الفضل کو درج ذیل ای میل پر ضرور مطلع فرمائیں: [email protected]۔ جزاکم اللہ خیراً
(رپورٹ: احسان احمد۔ یوکے)