امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کا مستورات کے اجلاس سے بصیرت افروز خطاب کا خلاصہ
آپ جن کے ہاتھوں میں مستقبل کی نسلوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری ہے، آپ کا کام ہے کہ نمازوں کی حفاظت کریں
ہمیں اپنی حالتوں کو بھی، اپنی نسلوں کی حالتوں کو بھی تبدیل کرنا ہوگا
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر مستورات سے بصیرت افروز خطاب کا خلاصہ
(حديقة المہدي،۲۷؍جولائی ۲۰۲۴ء، نمائندگان الفضل انٹرنيشنل) جلسہ سالانہ برطانيہ کے دوسرے روز حضورِ انور ايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز حسب روايت مستورات سے خطاب فرماتے ہيں۔ مستورات سے خطاب کے ليے حضورِ انور بارہ بج کر پانچ منٹ پر والہانہ نعروں کي گونج ميں جلسہ گاہ مستورات ميں رونق افروز ہوئے اور السلام عليکم و رحمة اللہ کا تحفہ عنايت فرمايا۔ حضور انور کے کرسیٔ صدارت پر رونق افروز ہونے کے بعد اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرمہ روبینہ کاشف صاحبہ کو سورۃالاحزاب کی آیات ۳۶ – ۳۷ کی تلاوت کرنے اور تفسیر صغیر سے ترجمہ پیش کرنے کی توفیق ملی۔ اس کے بعد شوکت زکریا صاحبہ نے حضرت مصلح موعودؓ کے منظوم کلام میں سے منتخب اشعار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جس کا آغاز درج ذیل شعرسے ہوا:
ایمان مجھ کو دے دے عرفان مجھ کو دے دے
قربان جاؤں تیرے قرآن مجھ کو دے دے
بعد ازاں تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی بچیوں اور خواتین کے نام پڑھے گئے۔
تعلیمی اعزازات کا اعلان
بعد ازاں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت موجودگی میں سیکرٹری صاحبہ امور طالبات لجنہ اماءاللہ یوکے نے تعلیمی میدان میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والی طالبات کی درج ذیل فہرست پیش کی:
جی سی ایس ای
عروش مبشر، عطیۃ الہادی رچرڈسن، امۃ الباقی جوئیہ، صالحہ احمد، صبا قیصر، صوفیہ عامر محمود عائشہ، لبیبہ نعیم، سدرہ وسیم، ہانیہ بٹ، کاشفہ زاہد، دانیہ زاہد، المیرہ ورک، ثمارہ ماہین، امتل لبنیٰ، ایمن مدثر ملک ستکوہی، فاطمہ نعمان، عیشہ مرزا، کاشفہ عادل، خنسہ احمد، نبیہہ سعید، امۃ المصور، کوبا مبشر، رامین مرزا، عائزہ سیٹھی، بورشہ رحمٰن، مدیحہ داؤد، عیشہ شاہ، امۃ السبوح خان، علیزہ جھینگور، ثمرہ شافی نصر اللہ، صفا مریم احمد، راضیہ احمد، ہبۃ السلام قمر بھٹی۔
اے لیول
قرۃ العین احمد، دنیلہ جنود، فضہ سہیل، کاشفہ اقبال، عطیۃ الحیٔ بٹ، قانتہ غوری، انیقہ احمد، سبیکہ محمود، عروہ روہین، نیہا لطیف، عنایہ احمد، ایمن سیٹھی، شمائلہ نعمان محمد، رخمہ مبارکہ، لائبہ بٹ، نادیہ مجید، دعا قریشی، شائستہ گل، کنول شاہد۔
گریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ ڈگریاں
نغمہ عارف، سونیا منورہ احمد، صباحت آصف، دانیہ ویرونیکا رچرڈسن، علیشہ مریم، زویا دانیال، امۃالوکیل، کنول ناصر، طوبیٰ رحمٰن، خولہ شاہد، سعدیہ جواہیر، خولہ بھٹی، عائزہ احمد، ثنا جھینگور، غبۃ نورین احمد، صوفیہ عامر، ہما اعجاز احمد، خافیہ محبوب، ڈاکٹر ثنا رحمٰن، ڈاکٹر خُلَّت ساقی، ڈاکٹر درِّ شہوار ہاشمی، ڈاکٹر سائرہ رشید، ڈاکٹر ثنا خالد، ڈاکٹر عائشہ چودھری، نادرہ سہیل، نفیسہ زینب بیگم امیر الدین، عائشہ ادریس، سائرہ بھٹی، ماہ نور احمد، زویا احمد، شا نزہ اختر، ہبۃ النور، عائزہ احمد، صباحت باجوہ، فیروزہ نواز، امۃ التسنیم ہانی ارشد، عائشہ سلطانہ بیگم اولی بکس، ڈاکٹر سعدیہ ایاز، ڈاکٹر فرخندہ عزیز کومل، ڈاکٹر ماریہ ربانی، ڈاکٹر نصرت اقبال، ڈاکٹر امۃ الکافی ید اللہ بھنوں، ڈاکٹر درشہوار مغل، ڈاکٹر باسمہ قاضی چودھری۔
بیرون ملک سے حاصل کردہ ڈگریاں
ایمان تمیم حسن ابو دقہ، دعا الہموی، امۃ الوسیم، مائدہ مقصود، دردانہ سلیم، ڈاکٹر مصباح سحر، ڈاکٹر قرۃ العین احمد
ساڑھے بارہ بجے حضور انور ايدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز منبر پر رونق افروز ہوئے۔ السلام عليکم ورحمة اللہ کا تحفہ عنایت فرماکر حضور انور نے خطاب کا آغاز فرمايا۔
خلاصہ خطاب حضور انور
اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق دی اور ہم اللہ تعالیٰ کے وعدے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کو پورا ہوتے دیکھنے والے بن گئے۔ پس یہ بات ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بنانے والی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عبادت کا حق ادا کرنے سے ہوتی ہے اور
عبادت کا بہترین طریق نماز کی ادائیگی ہے۔یہ حکم مَردوں اور عورتوں سب کے لیے ہے۔
صحابیاتؓ، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی سند حاصل کی ان کے متعلق تو روایات میں آتا ہے کہ وہ عبادات میں مردوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی تھیں۔ ساری ساری رات عبادت کرتیں اور دن میں روزے رکھتیں۔ یہ صرف پرانی باتیں نہیں بلکہ
اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی عورتیں حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت کو عطا فرمائی ہیں جو اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے والی ہیں۔
ایسی بہت سی مثالیں ہیں لیکن مَیں اس وقت صرف حضرت اماں جانؓ کی مثال دیتا ہوں۔
آپؓ کو عورتیں ملنے آیا کرتی تھیں وہ بیان کرتی ہیں کہ دورانِ مجلس جب اذان کی آواز آتی تو آپؓ فوراً باتیں بند کرکے، جو باتیں دینی اور روحانی ہوا کرتی تھیں، انہیں بند کرکے فرمایا کرتیں مَیں اندر جاکر نماز پڑھ رہی ہوں تم لوگ بھی نماز پڑھ لو۔ پھر نماز سے واپس آکر پوچھا کرتیں کہ تم لوگوں نے نماز پڑھی ہے؟ ایک مرتبہ ایک عورت نے چھوٹے بچے کی وجہ سے جواب دیا کہ مجھے شبہ ہے کہ شاید بچے کے پیشاب کی وجہ سے میرے کپڑے صاف نہیں اس لیے مَیں گھر جاکر نماز پڑھ لوں گی۔ حضرت اماں جانؓ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا اپنے نفس کے بہانوں کو بچوں پر نہ ڈالا کرو۔
پس
بڑے خوف اور شکرگزاری کے جذبات سے لبریز ہوکر ہر ماں کوبچوں کی پیدائش کے بعد عبادتوں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
بعض دفعہ لوگ لکھتے ہیں کہ پتا نہیں کیا ہوا ہمارا بچہ بگڑ گیا حالانکہ ان کو پتا ہے کہ بچے کے بگڑنے کی وجہ ماں باپ کے رویّے ہیں، ان کی اللہ تعالیٰ سے دوری اور دین کا حق ادا نہ کرنا اس کی وجہ ہے۔ اگر بچپن سے اللہ تعالیٰ سے بچوں کے لیے دعا کریں، ان کے سامنے اپنے نمونے قائم کریں تو الّاماشاء اللہ بچے نیکیوں پر قائم ہوتے ہیں اور ماں باپ کے اطاعت گزار ہوتے ہیں۔
بچے جب ہوش کی عمر میں آتے ہیں تو وہ ماں باپ کے نمونے بھی دیکھتے ہیں۔
اگر ماں باپ نیک نمونے دکھانے والے، عبادات کا حق ادا کرنے والے، ایمان میں پختہ ہوں تو بچے دین کی طرف مائل ہوتے ہیں ورنہ دُور چلے جاتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ ماں باپ اپنے دینی علم کو بڑھانے کی طرف توجہ نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ باپ کو پیسہ کمانے اور باہر کی دنیا سے دلچسپی ہوتی ہے بعض ماؤں کو بھی اپنی مجلسیں جمانے اور ڈرامے اور فلمیں دیکھنے سے فرصت نہیں ہوتی۔ پس!اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی دنیا وعاقبت سنوارنے اور بچوں کا مستقبل اور عاقبت سنوارنے کے لیے دعاؤں کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق جوڑنے کی کوشش کریں۔ پھر اپنے بچوں کو بھی خدا تعالیٰ کے قریب لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب آپ کا بچوں کے ساتھ ایسا دوستانہ تعلق استوار ہو کہ وہ ہر بات آپ سے کرسکیں۔
دنیا میں جس تیزی سے لغویات بڑھتی جا رہی ہیں اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ماں باپ کو بچوں کی ہر مجلس اور ہر عادت ہر حرکت کا علم ہو۔
یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب بچوں میں یہ اعتماد ہو کہ ہم اپنے ماں باپ سے بات کریں گے تو وہ ہماری بہتری کے لیے ہمیں سمجھائیں گے۔
یاد رکھیں کہ اگر ہم خود دنیا کے جھمیلوں میں پڑ گئے تو پھر اگلی نسل کی کوئی ضمانت نہیں۔ عورتوں کے درد بھرے خطوط ملتے ہیں۔ خود بھی بیان کرتی ہیں لڑکے اور لڑکیاں معاشرے کی برائیوں میں ڈوب گئے ہیں ۔ تو وجہ یہی ہے میاں بیوی کی چپقلش ۔ دنیا میں الجھنے اور دین کو پیچھے کرنے کی وجہ سے دین کو بھول جاتے ہیں۔ ہر ایک اپنے حق کو فوقیت دیتا ہے۔ نقصان بچوں کا ہوتاہے۔ بچوں کے حق ادا کرنا بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ جب بچے بگڑ گئے تو خیال آتا ہے۔ تب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ دونوں کو اپنے اور بچوں کے مستقبل کے بارہ میں سوچنا چاہیے۔
اسی لیے نکاح کے وقت تقویٰ کی طرف توجہ دلائی ہے اور اپنے مستقبل کی طرف دیکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ بعد میں رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں ۔
خدا کرے کہ ہر ماں اپنے ہر بچے کے دل میں خدا کی محبت اور آخرت کی اہمیت گاڑ دے۔
اگر دلوں میں یہ بات بیٹھ جائے تو بہت حد تک اس فکر سے آزاد ہو جائیں گی کہ باہر کی دنیا کیسی ہے۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ
جب ہم نے حضرت مسیح موعودؑ کو مانا ہے، جب ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ حقیقی اسلام کی پہچان بنیں گے۔ پھر اس عہد کو پورا کرنا ہے۔ دین اور دنیا مقدم کرنے کے عہد کو پورا کر نا ہے۔
تب اپنے ایمان کی مضبوطی کا دعویٰ پورا کر سکتے ہیں۔ پس بڑے خوف سے ا س طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
نماز کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡکَرِ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے ادا کی جائے نہ کہ دنیا دکھاوے کے لیے ۔ نہ کہ گلے پڑا فرض سمجھتے ہوئے اتارا جائے۔ ایسی نمازیں کوئی فائدہ نہیں دیتیں۔ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سستی اور کاہلی سے ادا کی گئی نمازیں ہیں۔ ایسی نمازوں کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا ۔ بڑے ہی خوف کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جنّ و انس کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ یہ باتیں اللہ کے مقام کو بلند کرنے کے لیے نہیں۔ بلکہ خود عبادت کرنے والے کی عاقبت سنوارنے کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مجھے تمہاری عبادت کی ضرورت نہیں، تمہیں ضرورت ہے۔
پس
آپ جن کے ہاتھوں میں مستقبل کی نسلوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری ہے، آپ کا کام ہے کہ نمازوں کی حفاظت کریں۔ اور اپنے نمونے قائم کرتے ہوئے اپنے بچوں کی نگرانی کریں اور ان کو عبادت کرنے والا بنائیں۔
بچوں کے عمر میں بڑھنے کے ساتھ ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک دین اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو رہا ہے۔ مائیں اظہار کرتی ہیں کہ بچے پہلے کی طرح توجہ نہیں دے رہے۔ جیسا ۱۳؍ اور ۱۴؍ سال تک کی عمر میں دیتے ہیں۔ جب جوانی کی عمر کو پہنچتے ہیں تو دین اور جماعت سے ہٹ جاتے ہیں۔ بعض بچے قانون کے مطابق بلوغت پر باہر جاتے ہیں۔ تو دُور ہو جاتے ہیں ۔وجہ یہی ہے کہ والدین بچوں سے صحیح تعلق نہیں رکھتے ۔ پھر باہر کے ماحول سے متاثر ہوکر اپنے خاندانی عزت و وقار اور خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ باہر کی دنیا ہی اصل دنیاہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے۔ لیکن اس کے لیے دعا اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر ماں یا باپ یا ان میں سے کوئی ایک اپنے نمونے قائم کر کے تربیت نہیں کر رہا اور بچوں کے لیے دعا نہیں کر رہا تو بچوں کے بگڑنے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں
پس یاد رکھیں کہ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ گھر کا ماحول پاک کر لیں گی تو پھر اس کوشش میں رہیں گی کہ زمانہ کی بدعات اور لغویات گھر پر اثر نہ کریں۔ یہ باتیں ہیں جو گھر کو خراب کرتی ہیں، گھن کی طرح کھا جاتی ہیں۔
اس معاشرے کو جس کو تہذیب یافتہ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ان کی ہر چیز تہذہب یافتہ نہیں ۔ لہو و لعب میں پڑے ہیں۔ آزادیٔ خیال اور آزادیٔ ضمیر کے نام پر گلیوں اور بازاروں میں بیہودہ حرکتیں کرتے ہیں۔ آج کل گرمیاں ہیں لباس نہ ہونے کے برابر ہے۔ فرانس میں کہتے ہیں کہ ہمار ے میں رہنا ہے تو ہم جیسا بنو۔ حجاب نہیں کر سکتے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں۔ لیکن یہ ننگ تہذیب سے دُور لے جا رہا ہے۔
اگر ہمارے گھروں میں دینی ماحول ہوگا تو ان چیزوں سے بچنے والے ہوں گے۔
یہ لغویات انٹرنیٹ اور ٹی وی کے ذریعے سے ہم میں آگئی ہیں ہر ایک کے ہاتھ میں آئی فون، آئی پیڈز یا ٹیبلیٹس ہوتے ہیں جن سے کوئی بھی گندی اور ننگی فلم اور تصویریں دیکھ سکتے ہیں ۔
یہی دجّال کی وہ چالیں ہیں جو خدا سے دُور اور دین سے ہٹانے والی ہیں۔
دنیا دار کہتے ہیں ہم تو یہ اس لیے سکھاتے ہیں کہ بچوں کو جنسی تعلقات کا معلوم ہو۔ حالانکہ جس عمر میں سکھائی جاتی ہیں اس عمر میں بعض بچوں کے ذہنوں میں سوال اٹھتے ہیں کہ یہ ہمیں کیوں سکھائی جا رہی ہیں۔ پھر جوانی کی عمر میں ان سے بچنے کی بجائے اس میں پڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ اپنے تمام اعضاء کو زنا سے بچاؤ۔
ہر مرد، عورت، لڑکے اور لڑکی کو جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ ان کو اس بارے میں سمجھانا چاہیے کہ یہ برائیاں ہیں جن سے ہمیں بچناہے۔
ہر چیز جس کا ناجائز استعمال شروع ہو جائے وہ لغویات میں شامل ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت کے لیے انٹرنیٹ اس زمانہ کی ایجاد ہے۔ ٹیلیفون کا نظام ہے ۔یہ اشاعتِ اسلام کی خاطر کام آنا تھا۔ان کے ناجائز استعمال سے بچنا ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ۔ انٹرنیٹ پر دوستوں میں چیٹس میں دوسروں کا مذاق اور وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ یہ باتیں برائیوں کی طرف لے جائیں گی رشتوں میں دراڑ ڈالنے، کسی عورت کی زندگی خراب کرنے والی ہوں گی۔ پھر یہ لغویات میں شامل ہو جاتی ہیں۔ جو گناہ بن جاتی ہیں۔
آج کل موبائل پر ٹیکسٹ پیغامات دیے جاتے ہیں۔ واٹس ایپ، میسنجر اور وائبر اَور سائیٹس ہیں۔ یہ نیا سلسلہ ہے گپیں مارنے، نامحرموں سے بات کرنے کا۔ کہتے ہیں ٹیکسٹ میسج تھا کونسی بات کی ہے؟بارہ تیرہ چودہ سال کے بچے ایک دوسرے کو پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔ یہی عمر ہے جو خراب ہونے کی عمر ہے پھر یہ لغو گناہ بن جاتی ہے ۔
احمدی بچیاں اپنی عصمت، عزت، اپنے خاندان کے وقاراور اپنی جماعت کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے، اپنے خدا کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے اِن چیزوں سے بچیں۔
ہراحمدی مرد اور لڑکے بھی اِن باتوں سے بچیں۔
بعض لوگ اور بچیاں مجھے لکھتی ہیں کہ ہم نے صرف میسج کیا تھا ماں باپ کو پسند نہیں آیا تو انہوں نے صحیح کیا۔ پسند نہیں آنا چاہیے۔۱۳؍۱۴؍ سال کی عمر میں ایسے میسج ہوں گے تو پھر غلط قسم کی باتیں بھی شروع ہو جائیں گی۔ بعض بچیاں خود لکھتی ہیں کہ اکثر ہماری چیٹنگ میں سیکس کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں حالانکہ بچوں کو پڑھائی کی طرف اور دینی علم حاصل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اگر ماں باپ اس طرف توجہ رکھیں گے تو بچے بھی اس طرف توجہ دے رہے ہوں گے۔
پھر میں نے لباس کی بات کی ہے اس کا دوبارہ ذکر کردوں کہ ہر قسم کی بیہودگی اور ننگ کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ماں باپ کہہ دیتے ہیں فیشن کا شوق ہے کر لیں، کیاحرج ہے؟لیکن فیشن میں جب لباس ننگے پن کی طرف جا رہا ہو تو وہاں بہرحال روکنا چاہیے۔بعض دفعہ دین کے نام پر فیشن ہوتا ہے۔ برقعہ میں جو کوٹ پہنا جاتا ہے وہ اس قدر تنگ ہوتا ہے کہ مردوں کے سامنے جانے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔
اسلام حیا کاحکم دیتا ہے۔ پس اپنی حیا کا خیال رکھیں اور اس کی حدود میں رہتے ہوئے جو فیشن کرنا ہے کریں۔
فیشن کا اظہار اپنے گھر والوں اور شریف عورتوں کی مجلسوں میں کریں۔ بازار میں اور باہر ایسی جگہوں پر جہاں مردوں کا سامنا ہو وہاں فیشن کے اظہار ایسے نہیں ہونے چاہئیں جس سے بلاوجہ برائیاں پیدا ہونے کا امکان ہو۔
اسلامی پردے کی تاریخ قرآن کریم نے بڑی کھول کر بیان کر دی ہے اس کو پڑھیں اس پر عمل کریں۔یہ جماعت احمدیہ کا موقف نہیں ہے بلکہ یہ قرآن کریم کی تعلیم ہے۔
اپنے پردے کا خیال رکھیں۔
اپنے سروں، چہروں اور جسم کو ڈھانپ کر رکھیں۔ کوئی زینت کی چیز نظر نہ آئے۔
چادر سے بھی اگر کسی کو پردہ کرنا ہے توسارے بال، گال، ٹھوڑی اور سینہ ڈھکا ہو پھر ہی وہ صحیح پردہ ہے۔ حکم تو یہاں تک ہے کہ عورت مردوں سے ایسے لہجے میں بات کرے جس سے کسی قسم کی نرم آواز کا اظہار نہ ہو تاکہ مردوں کے دل میں بھی کبھی غلط خیال پیدا نہ ہو۔ ایک عمر کے بعد بچیاں اپنے اسکول کے کلاس فیلوز لڑکوں سے بھی ایک حجاب پیدا کریں۔ جب بھی ضرورت ہو پڑھائی کے تعلق سے تو حجاب کے اندر رہ کے ان سے بات کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے بہت سے احمدی گھرانے ایسے ہیں جو ان باتوں کا خیال رکھتے ہیں اور لڑکیاں خود بھی یہ چیزیں پسند نہیں کرتیں۔
اب یہ برائیاں معاشرے میں اتنی عام ہو گئی ہیں کہ اداروں کو بھی اس کا احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے۔لجنہ کے انتظام کو بھی اس کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ہر پروگرام میں یہ بات اچھی طرح بچیوں کے ذہن میں ڈالنی چاہیے کہ تمہارا ایک تقدس ہے اور اس معاشرے میں جنسی بے راہ روی بہت زیادہ ہے۔ تم اب شعور کی عمر کو پہنچ گئی ہو اس لیے خود اپنی طبیعت میں حجاب پیدا کرو تاکہ تمہارے اور تمہارے خاندان اور جماعت کے لئے نیک نامی کا باعث ہو۔ اگر یہ چیزیں پیدا ہوں گی تو پھر انشاءاللہ تعالیٰ ہم دنیاوی برائیوں سے محفوظ رہیں گے۔ تمام بچیاں نیکی پر قدم مارنے والی ہوں گی۔
ہر بچی اور ہر عورت یاد رکھے کہ اُس نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کے عہد کی تجدید کی تھی ۔یہ عہد کیا ہے کہ میں نے اپنے اندر، اپنی اولاد کے اندر بھی پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے اور اس کے لیے کوشش کرنی ہے۔ ان کوششوں کے ساتھ جب اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس کی عبادت کرنے والی ہوں گی تو پھر اللہ تعالیٰ ہم میں وہ پاک تبدیلی پیدا کردے گا جس سے آپ کو معاشرے میں ایک مقام حاصل ہوگا۔ جہاں آپ اور آپ کے بچوں کا نام بڑے احترام سے لیا جائے گا۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اس سلسلہ میں داخل ہو کر تمہارا وجود الگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ۔ جو کچھ تم پہلے تھے وہ نہ رہو۔ یہ مت سمجھو کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں تبدیلی کرنے سے محتاج ہوجاؤگے یا تمہارے بہت سے دشمن پیدا ہوجائیں گے۔ نہیں، خدا کا دامن پکڑنے والا ہرگز محتاج نہیں ہوتا اس پر کبھی بُرے دن نہیں آسکتے۔ خداجس کا دوست اور مدد گار ہو اگر تمام دنیا اس کی دشمن ہوجاوے تو کچھ پرواہ نہیں، مومن اگر مشکلات میں بھی پڑے تو وہ ہرگز تکلیف میں نہیں ہوتا بلکہ وہ دن ا س کے لیے بہشت کے دن ہوتے ہیں خداکے فرشتے ماں کی طرح اسے گود میں لے لیتے ہیں۔مختصر یہ کہ خدا خودان کامحافظ اور ناصر ہوجاتا ہے یہ خدا جو ایسا خدا ہے کہ وہ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ہے وہ عالم الغیب ہے وہ حی و قیوم ہے۔ اس خدا کا دامن پکڑنے سے کوئی تکلیف پا سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ خدا تعالیٰ اپنے حقیقی بندے کو ایسے وقتوں میں بچا لیتا ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد3 صفحہ263 ایڈیشن1984ء)
ہمیشہ یاد رکھیں جب ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم نے حقیقت میں اس آیت کو پورا کیا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہارا نگہبان ہوگا اور تمہیں بچا لے گا ۔
دنیا سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
ہر عورت ہر بچی یہ کوشش کرے کہ پوری دنیا کو متاثر کرنا ہے۔ دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قدموں میں لے کر آنا ہے۔ ہم نے دنیا میں انقلاب لانا ہے، دنیا کو سیدھی راہ دکھانی ہے، دنیا کو خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنانا ہے، دنیا کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آنے والا بنانا ہے۔
اس کے لیے ہمیں اپنی حالتوں کو بھی، اپنی نسلوں کی حالتوں کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔جب یہ ہوگا تو پھر ایک انقلاب ہوگا جو ہم دنیا میں پیدا کر سکیں گے ۔اس کے لیے احمدی عورتوں،لڑکیوں اور بچیوں کو خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ
آپ ہی ہیں جو لڑکوں کی بھی اصلاح کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
ہمیشہ یاد رکھیں یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے اور یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے ہم نے آپؑ کی بیعت کی ہے ورنہ بیعت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ اس بیعت کا حق ادا کرنے اور اپنی اصلاح کرنے والی ہوں اور دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلتے ہوئے دنیا میں ایک انقلاب لانے والی بن جائیں ۔اللہ تعالیٰ کرے ایسا ہی ہو۔
حضور انور کا خطاب ايک بج کر گیارہ منٹ تک جاری رہا جس کے بعد حضور انور نے دعا کرائی۔
دعا کے بعد خواتين اور بچيوں نے مختلف گروپس کي صورت ميں ترانے پيش کيے۔ ترانے مختلف زبانوں ميں پيش کيے گئے جن میں اردو، انگریزی، پنجابی، فرانسیسی، ہسپانوی،بنگلہ،عربی، یوگنڈا اور نائیجیریا کی زبانیں شامل ہیں۔
بعد ازاں حضور انور نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا اور ايک بج کر پچیس منٹ کے قريب حضور انور زنانہ جلسہ گاہ سے تشريف لے گئے۔