خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ جولائی 2024ء

غزوہ بنو مُصْطَلِقْ کےحالات و واقعات کابیان نیز محرم کے دنوں میں درود شریف پڑھنے اور دعائیں کرنے کی تلقین

بنو مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار نے اپنی قوم اور اہلِ عرب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے لیے تیار کیا

اور مدینہ سے قریباً چھیانوے میل کے فاصلے پر لشکر کو ایک مقام پر جمع کرنا شروع کر دیا

بنو مصطلق کے دن مسلمانوں کا شعار یَا مَنْصُوْرُ اَمِتْ اَمِتْ تھا

ان دنوں میں احمدیوں کو درود شریف پڑھنے اور مسلمانوں کی اکائی کے لئے خاص دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

اپنی حالتوں کو بھی بہتر کرنے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنے کی طرف بھی ہمیں خاص توجہ دینی چاہیے

مکرم بونجا محمود صاحب شہید آف ٹوگو ، مکرم رشید احمد صاحب سابق معاون ناظر امور عامہ، مکرم چودھری مطیع الرحمٰن صاحب نائب ناظر امور عامہ، مکرمہ منظور بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم محموداحمد بھٹی صاحب آف سرگودھا اور مکرم ماسٹر سعادت احمد اشرف صاحب ابن مکرم خوشی محمد صاحب باڈی گارڈ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ جولائی 2024ء بمطابق 12؍وفا 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج

غزوۂ بنو مصطلق یا غزوۂ مُرَیْسِیْع

یہ بھی اس کا نام ہے۔ اس کا ذکر کروں گا۔ یہ غزوہ کب ہوا۔ اس کے متعلق سیرت نگاروں کا اختلاف ہے۔ علامہ ابن اسحاق، طبری اور ابن ہشام کے نزدیک غزوۂ بنو مصطلق شعبان چھ ہجری میں ہوا۔

(السیرۃالنبویۃ ابن اسحاق صفحہ 439 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

( السیرۃالنبویۃ لابن ہشام صفحہ669-670 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(تاریخ طبری جلد2صفحہ 109، دار الکتب العلمیۃ بیروت)

بعض نے اس کی تاریخ پانچ ہجری بیان کی ہے۔

(طبقات الکبری لابن سعد جلد2 صفحہ48 دارالکتب العلمیۃ بیروت1990ء)

(کتاب المغازی للواقدی جلد 1صفحہ 341، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

صحیح بخاری میں موسیٰ بن عقبہ سے روایت ہے کہ غزوۂ بنو مصطلق چار ہجری کو ہوا تھا البتہ شارح بخاری علامہ ابنِ حَجَر عَسْقَلَانِی نے لکھا ہے کہ یہ قلم کی لغزش ہے انہوں نے پانچ ہجری لکھنا چاہا تھا لیکن چار ہجری لکھا گیا۔

(فتح الباری جلد 7صفحہ 430کتاب المغازی مکتبۃ السلفیہ)

اس غزوہ کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی اپنی تحقیق کی ہے۔ کہتے ہیں کہ غزوۂ بنومصطلق کی تاریخ شعبان پانچ ہجری ہے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 557)

چونکہ یہ غزوہ قبیلہ خُزَاعَہ کی ایک شاخ بنو مصطلق کے ساتھ ہوا اس لیے اس غزوہ کو بنو مصطلق کہا جاتا ہے اور یہ قبیلہ ایک کنویں کے پاس رہتا تھا جس کو مریسیع کہتے تھے۔ اس وجہ سے اس غزوہ کا دوسرا نام غزوۂ مریسیع بھی ہے۔ مریسیع مدینہ سے قریبا ًایک سو آٹھ میل کے فاصلہ پر تھا۔

(ماخوذ از طبقات الکبریٰ جلد 2صفحہ48دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

(اردو لغت جلد 17 صفحہ 773 زیر لفظ ’’مرحلہ‘‘)

بنو مصطلق قریش کے حلیف تھے۔ انہوں نے حَبَشِی نامی پہاڑ کے دامن میں جو مکہ کے زیریں حصہ میں ہے اکٹھے ہو کر حلف لیا تھا کہ ہم لوگ ایک جان ہو کر قریش کے ساتھ رہیں گے۔ اس لیے ان لوگوں کو اَحَابِیْش کہا جانے لگا اور اسی معاہدے کے تحت بنو مصطلق غزوۂ احد میں کفار قریش کے لشکر میں شامل تھے۔

(سیرت الحلبیہ جلد2صفحہ 297دارالکتب العلمیۃ بیروت)

اس غزوہ کا ایک سبب تو یہ تھا کہ بنو مصطلق اسلام دشمنی میں بے باک ہو گئے تھے اور مسلسل آگے ہی بڑھ رہے تھے۔ انہیں کفار قریش کی مکمل تائید اور حمایت حاصل تھی۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں شرکت کی وجہ سے اب یہ کھل کر مسلمانوں سے مقابلے پر اتر آئے تھے اور ان کی سرکشی میں بہت اضافہ ہو گیا تھا۔ دوسری بات یہ تھی کہ مکہ مکرمہ کی طرف جانے والے مرکزی راستے پر بنو مصطلق کا کنٹرول تھا۔ یہ لوگ مکہ میں مسلمانوں کا عمل دخل روکنے کے لیے مضبوط رکاوٹ کی حیثیت رکھتے تھے۔

(مرویات غزوہ بنی مصطلق از ابراہیم بن ابراہیم صفحہ 89مطبوعہ احیاء التراث الاسلامی)

تیسرا اور سب سے اہم سبب اس غزوہ کا یہ تھا کہ

بنو مصطلق کے سردار حَارِث بن ابی ضِرَار نے اپنی قوم اور اہل عرب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے لیے تیار کیا اور مدینہ سے قریباً چھیانوے میل کے فاصلے پر لشکر کو ایک مقام پر جمع کرنا شروع کر دیا۔

(سبل الہدیٰ و الرشاد جلد 4صفحہ 344، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

(فرہنگ سیرت صفحہ 226مطبوعہ زوار اکیڈمی کراچی)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی سیرت خاتم النبیینؐ میں اس کے بارے میں لکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’قریش کی مخالفت دن بدن زیادہ خطرناک صورت اختیار کرتی جاتی تھی۔ وہ اپنی ریشہ دوانی سے عرب کے بہت سے قبائل کو اسلام اور بانی اسلام کے خلاف کھڑا کرچکے تھے لیکن اب ان کی عداوت نے ایک نیا خطرہ پیدا کر دیا اور وہ یہ کہ حجاز کے وہ قبائل جو مسلمانوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے اب وہ بھی قریش کی فتنہ انگیزی سے مسلمانوں کے خلاف اٹھنے شروع ہو گئے۔ اس معاملہ میں پہل کرنے والا مشہور قبیلہ بنوخزاعہ تھا جن کی ایک شاخ بنومصطلق نے مدینہ کے خلاف حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی اوران کے رئیس حرث بن ابی ضرار نے اس علاقہ کے دوسرے قبائل میں دورہ کر کے بعض اور قبائل کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 557)

بنو مصطلق کی اس تیاری کی اطلاع جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بُرَیْدَہ بن حُصَیْب اَسْلَمِیؓ  کو بھیجا تا کہ وہ حالات معلوم کر کے آئیں ۔ وہ روانہ ہوئے اور ان کے چشمہ پر انہیں جا ملے۔ بریدہ نے دھوکے باز قوم دیکھی جو نہ صرف خود جمع تھے بلکہ انہوں نے اردگرد کے لوگوں کا لشکر بھی جمع کر رکھا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت بریدہ ؓسے پوچھا کہ تم کون ہو؟ حضرت بریدہ ؓنے کہا کہ مَیں تم میں سے ہی ایک ہوں ۔ میں تمہارا لشکر کشی کا سن کر یہاں آیا ہوں ۔ اس طرح اپنی حکمت عملی سے ان لوگوں کی جنگی تیاریوں کا اچھی طرح جائزہ لے کر حضرت بریدہ ؓآپؐ کی خدمت میں آئے اور ان لوگوں کے حالات بتائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بلایا اور دشمن کے بارے میں خبر دی اور اسلامی لشکر جلد از جلد تیار ہو کر روانہ ہو گیا۔

بنو مصطلق کی طرف آپؐ کی روانگی کی تفصیل

ایک روایت کے مطابق یوں بیان ہوئی ہے کہ آپؐ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو مدینہ میں نائب مقرر کیا۔ ابن ہشام نے حضرت ابو ذر غِفَاری ؓکا نام بیان کیا ہے۔ اسی طرح حضرت نُمَیْلَہ بن عبداللہؓ کا نام بھی بیان کیا جاتا ہے۔ بہرحال یہ لشکر روانہ ہوا۔ اسلامی لشکر سات سو افراد پر مشتمل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شعبان پانچ ہجری کو پیر کے دن مدینہ منورہ سے کوچ کیا اور اسلامی لشکر کو لے کر بنو مصطلق کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت مسعود بن ھُنَیْدَہؓ غزوہ مریسیع میں راستے کے گائیڈ تھے۔ اس سفر میں مسلمانوں کے پاس کل تیس گھوڑے تھے جن میں سے مہاجرین کے پاس دس گھوڑے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دو گھوڑے تھے۔ لِزَاز اور ظَرِب۔ جن مہاجرین کے پاس گھوڑے تھے ان کے اسماء درج ذیل ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق،ؓ حضرت عمرفاروق،ؓ حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ،حضرت طلحہ بن عُبَیدُ اللہؓ، حضرت مِقداد بن عمروؓ۔ اور انصار صحابہ کے بیس گھڑ سواروں میں سے پندرہ کے نام ملتے ہیں جن میں حضرت سعد بن معاذ ؓ، حضرت اُسَید بن حُضَیرؓ ، حضرت ابو عَبْس بن جَبْرؓ، حضرت قتادة بن نعمانؓ ، حضرت عُوَیم بن سَاعِدہؓ ، حضرت مَعْنِ بن عدیؓ، حضرت سعد بن زید اَشْھَلیؓ، حضرت حارث بن حَزْمَہ ؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ ، حضرت ابوقتادةؓ، حضرت ابُوابَی بن کعبؓ، حضرت حُبَاب بن منذِرؓ ، حضرت زِیَاد بن لَبِیدؓ ، حضرت فَرْوَہ بن عمروؓ، حضرت مُعَاذ بن رِفَاعَہ بن رافعؓ۔

بہرحال اس کی تفصیل میں مزید یہ بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے منافقین بھی نکلے۔ وہ اس سے قبل اس طرح کسی غزوہ کے لیے نہیں نکلے تھے اور کیوں نکلے؟ کہتے ہیں کہ انہیں جہاد کی رغبت نہیں تھی بلکہ وہ مال غنیمت کے لیے نکلے تھے کہ اگر جیت ہوئی تو ہمیں مال غنیمت ملے گا۔

(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4صفحہ 344دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)

(البدایہ والنہایہ جلد4صفحہ169 دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء)

(کتاب المغازی جلد1 صفحہ341، 343، دارالکتب العلمیۃ بیروت2004ء)

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد6صفحہ82دارالکتب العلمیۃ بیروت1995ء)

(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 7صفحہ 154دار السلام)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارے میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپؐ نے مزید احتیاط کے طورپر اپنے ایک صحابی بُرَیْدَہ بن حُصَیْبؓ نامی کو دریافتِ حالات کے لئے بنو مصطلق کی طرف روانہ فرمایا اور ان کو تاکید فرمائی کہ بہت جلد واپس آ کر حقیقةالامرسے آپؐ کواطلاع دیں ‘‘۔ کیا ہوا؟ حقیقت کیا ہے؟ اس بارے میں بتائیں ۔ ’’بریدہ گئے تو دیکھا کہ واقعی ایک بہت بڑا اجتماع ہے اور نہایت زور شور سے مدینہ پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ انہوں نے فوراً واپس آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی اور آپؐ نے حسب عادت مسلمانوں کو پیش قدمی کے طور پر دیاربنو مصطلق کی طرف روانہ ہونے کی تحریک فرمائی‘‘۔ بجائے اس کے کہ وہ پہلے حملہ کریں آپؐ نے کہا پہلے ان کی طرف روانہ ہو جاؤ۔ ’’اوربہت سے صحابہؓ آپؐ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے بلکہ ایک بڑا گروہ منافقین کا بھی جواس سے پہلے اتنی تعداد میں کبھی شامل نہیں ہوئےتھے ساتھ ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پیچھے ابوذر غِفَاریؓ یابعض روایات کی رو سے زید بن حارثہ کو مدینہ کا امیر مقرر کر کے اللہ کا نام لیتے ہوئے شعبان پانچ ہجری میں مدینہ سے نکلے۔ فوج میں صرف تیس گھوڑے تھے۔ البتہ اونٹوں کی تعداد کسی قدر زیادہ تھی اور انہی گھوڑوں اور اونٹوں پرمل جل کر مسلمان باری باری سوار ہوتے تھے‘‘۔

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 557-558)

اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ مزید بیان کرتے ہیں کہ ’’راستہ میں مسلمانوں کو کفار کاایک جاسوس مل گیا جسے انہوں نے پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا اور آپؐ نے اس تحقیق کے بعد کہ وہ واقعی جاسوس ہے اس سے کفار کے متعلق کچھ حالات وغیرہ دریافت کرنے چاہے مگر اس نے بتانے سے انکار کیا اور چونکہ اس کا رویہ مشتبہ تھا اس لئے مروجہ قانونِ جنگ کے ماتحت‘‘ اس زمانے میں جو قانونِ جنگ رائج تھا ’’حضرت عمرنے اسے قتل کر دیا۔ اور اس کے بعد لشکر اسلام آگے روانہ ہوا۔ بنومصطلق کو جب مسلمانوں کی آمدآمد کی اطلاع ہوئی اور یہ خبر بھی پہنچی کہ ان کا جاسوس مارا گیا ہے تو وہ بہت خائف ہوئے کیونکہ اصل منشا ان کا یہ تھا کہ کسی طرح مدینہ پر اچانک حملہ کرنے کا موقع مل جاوے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیدار مغزی کی وجہ سے اب ان کو لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔ پس وہ بہت مرعوب ہو گئے اور دوسرے قبائل جو ان کی مدد کے لئے ان کے ساتھ جمع ہو گئے تھے وہ تو خدائی تصرف کے ماتحت کچھ ایسے خائف ہوئے کہ فوراً ان کا ساتھ چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ مگر خود بنو مصطلق کو قریش نے مسلمانوں کی دشمنی کا کچھ ایسا نشہ پلا دیا تھا کہ وہ پھر بھی جنگ کے ارادے سے باز نہ آئے اور پوری تیاری کے ساتھ اسلامی لشکر کے مقابلہ کے لئے آمادہ رہے‘‘۔

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 558)

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مریسیع پہنچے تو آپؐ کے لیے چمڑے کا خیمہ لگایا گیا۔ آپؐ کی ازواجِ مطہرات میں سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓآپؐ کے ہمراہ تھیں ۔ بعض مؤرخین نے حضرت ام سَلَمہؓ کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ بھی حضرت عائشہؓ کے ساتھ تھیں لیکن علامہ ابن حجر نے ایسی روایات کو ضعیف قرار دیا ہے جن میں حضرت ام سلمہؓ کے ساتھ ہونے کا ذکر ہے۔ ان کے نزدیک بخاری کی روایت میں حضرت عائشہ ؓکے الفاظ یہ ہیں: فَخَرَجَ سَھْمِیْ یعنی میرا قرعہ نکلا۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ اس غزوہ میں ازواجِ مطہرات میں سے تنہا حضرت عائشہ ہی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئی تھیں ۔

(فتح الباری مترجم (فیض الباری) پارہ 19صفحہ 193کتاب التفسیر مطبوعہ اصحاب الحدیث لاہور)

اس غزوہ میں مسلمانوں کا شعار

کیا تھا۔ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ

غزوہ بنو مصطلق کے دن مسلمانوں کا شِعار یَا مَنْصُوْرُ اَمِتْ اَمِتْ تھا۔

اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے مدد یافتہ شخص! مار دے ۔مار دے۔ اس شعار کے استعمال کرنے کی حکمت یہ تھی کہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان اشتباہ نہ ہو اور رات کے اندھیرے میں بھی مسلمان ایک دوسرے کو پہچان سکیں ۔

(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4صفحہ 358دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)

(مرویات غزوہ بنی مصطلق از ابراہیم بن ابراہیم صفحہ 109 مطبوعہ احیاء التراث الاسلامی)

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ673 دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی صف بندی کی۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو دیا گیا۔ دوسرا قول ہے کہ حضرت عمار بن یاسرؓ کو دیا گیا اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہؓ کو دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو حکم دیا کہ لوگوں میں یہ اعلان کریں یعنی دشمن کی فوج کے سامنے یہ اعلان کریں کہ اے لوگو !کہو اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس کے ذریعہ سے اپنے نفوس اور اموال محفوظ کر لو۔ حضرت عمرؓ نے اسی طرح کیا مگر مشرکین نے انکار کر دیا۔ کچھ دیر تیر اندازی ہوتی رہی۔ پہلے مشرکین میں سے ایک شخص نے تیر پھینکا اور مسلمان بھی کچھ دیر تیر اندازی کرتے رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام ؓکو حکم دیا کہ حملہ کریں ۔ انہوں نے یکجان ہو کر حملہ کیا۔ مشرکین میں سے کوئی بھی بھاگ نہ سکا۔ ان میں سے دس مقتول ہوئے اور باقی سارے قیدی ہو گئے۔ آپؐ نے ان کے مرد و خواتین، اولاد اور جانوروں کوقید کر لیا۔

(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4صفحہ 345دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مریسیع میں پہنچے جس کے قریب بنومصطلق کا قیام تھا اور جو ساحلِ سمندر کے قریب مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام کانام ہے تو آپؐ نے ڈیرہ ڈالنے کا حکم دیا اور صف آرائی اور جھنڈوں کی تقسیم وغیرہ کے بعد آپؐ نے حضرت عمر کو حکم دیا کہ آگے بڑھ کر بنو مصطلق میں یہ اعلان کریں کہ اگر اب بھی وہ اسلام کی عداوت سے باز آجائیں‘‘دشمنی سے باز آ جائیں ’’اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت کو تسلیم کرلیں توان کو امن دیا جائے گا‘‘۔ مذہب کی تبدیلی کا ذکر نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو تسلیم کر لیں تو امن دیا جائے گا ’’اور مسلمان واپس لوٹ جائیں گے مگر انہوں نے سختی کے ساتھ انکار کیا اور جنگ کے واسطے تیار ہوگئے۔ حتی کہ لکھا ہے کہ سب سے پہلا تیر جو اس جنگ میں چلایا گیا وہ انہی کے آدمی نے چلایا ‘‘۔ یعنی بنو مصطلق کے آدمی نے۔ ’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ حالت دیکھی تو آپؐ نے بھی صحابہ کولڑنے کا حکم دیا۔ تھوڑی دیرتک فریقین کے درمیان خوب تیز تیراندازی ہوئی جس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو یکلخت دھاوا کر دینے کا حکم دیا اور اس اچانک دھاوے کے نتیجے میں کفار کے پاؤں اکھڑ گئے مگر مسلمانوں نے ایسی ہوشیاری کے ساتھ ان کا گھیرا ڈالا کہ ساری کی ساری قوم محصور ہو کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئی اور صرف دس کفار اور ایک مسلمان کے قتل پراس جنگ کا جو ایک خطرناک صورت اختیار کرسکتا تھا خاتمہ ہو گیا‘‘۔

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 558-559)

آج ایک شہید اور بعض مرحومین کا بھی میں نے ذکر کرنا ہے۔ اس لیے یہ اصل خطبہ مختصر ہی دے رہا ہوں تاہم

محرم کے حوالے سے جس میں ہم آجکل گزر رہے ہیں دعا کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں۔

یہ ایک دردناک واقعہ ہے جس میں ظلم و بربریت کی انتہائی مثال قائم ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور آپؐ کے خاندان کے لوگوں کو شہید کیا گیا لیکن مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ اس سے سبق لینے کی بجائے یہ ظلم اب تک چل رہا ہے۔ محرم میں شیعہ سنی فساد یا دہشتگردی کے حملوں کے واقعات بڑھ جاتے ہیں ۔ اس میں دونوں طرف سے جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں۔ بلکہ اس فرقہ واریت اور ذاتی مفادات کے حصول کی خواہش نے مسلمان دنیا میں فتنہ و فساد کی صورت پیدا کی ہوئی ہے بلکہ سارا سال ہی علماء کی طرف سے بھی مختلف گروہوں کی طرف سے بھی اور حکومتوں کی طر ف سے بھی ایک دوسرےکے خلاف ظلم و تعدی کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کوئی عقل ان کو نہیں آتی کہ کچھ تو سیکھیں۔ کچھ تو خوفِ خدا کریں ۔

اللہ تعالیٰ نے جو اس فساد کو ختم کرنے کے لیے اپنے وعدے کے مطابق انتظام فرمایا ہے اسے یہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ یہ مسیح موعود کی بیعت میں آنا ہی نہیں چاہتے جو واحد ایک ذریعہ ہے۔ جو امت کو امتِ واحدہ بنانے کا نظارہ دکھا سکتا ہے اور فسادوں کو ختم کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کی اکائی قائم ہو کر ان کی ساکھ قائم ہو سکتی ہے۔ یہی ایک ذریعہ ہے۔ کاش کہ ان لوگوں کو سمجھ آئے۔

بہرحال

ان دنوں میں احمدیوں کو درود شریف پڑھنے اور مسلمانوں کی اکائی کے لیے خاص دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اپنی حالتوں کو بھی بہتر کرنے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنے کی طرف بھی ہمیں خاص توجہ دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

جیسا کہ میں نے کہا تھا

بعض شہداء اور مرحومین کا ذکر

کرنا ہے۔ ایک شہید ہے۔

یہ جو شہید ہیں ان کا نام ہے بونجا محمود (Bondja Mahmoud) صاحب

جو جماعت تامانجوارے (Tamanjouare) ٹوگو کے رہنے والے تھے۔ 21جون کو دہشت گردوں نے ان کے گھر میں گھس کر ان کو شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کی عمر چونسٹھ سال تھی۔ پسماندگان میں دو بیویاں اور چودہ بچے شامل ہیں ۔

نوید نعیم صاحب مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ ٹوگو کے شمالی ریجن کے مرکزی شہر کے قریب یہ جماعت تامانجوارے ہے۔ یہ علاقہ برکینا فاسو سے ملنے والی سرحد پرواقع ہے۔ بونجا محمود صاحب کو اس جماعت کے ابتدائی ممبران میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ کھیتی باڑی کر کے اپنا رزق کماتے تھے۔ وہیں ایک عارضی رہائش بنائی ہوئی تھی جہاں بارشوں کے موسم میں بیوی بچوں کے ساتھ منتقل ہو جاتے تھے۔ خشک موسم میں گاؤں آ جاتے تھے جو کافی دور تھا۔ پھر rainy seasonمیں وہاں چلے جاتے تھے۔ آجکل یہ اپنے فارم پر ہی موجود تھے جب 21جون کی رات آٹھ بجے چار دہشت گرد ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ ٹارچ جلائی۔ ان کے بیٹے جس کی عمر چودہ سال تھی اس نے گھر میں روشنی دیکھی تو فوراً وہاں آیا اور دیکھا کہ ان کے والد کو دہشت گردوں نے گھیرا ہوا ہے۔ اس پر وہ خوفزدہ ہو کر وہاں سے بھاگ گیا۔ بہرحال اس کے بعد دہشت گرد نے مرحوم کی ٹھوڑی کی نچلی طرف بندوق رکھی اور فائر کر دیا اور گولی ناک کو چیرتی ہوئی باہر نکل گئی۔ موقع پرہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ دہشت گرد اس کارروائی کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے اور گھر کے کسی اور فرد کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ لگتا تھا کہ مقصد صرف ان کو شہید کرنا تھا اس لیے وہ آئے تھے۔ واقعہ کی اطلاع ملنے پر وہاں کے ملٹری والے بھی پہنچ گئے۔ حکومت کے تو اختیارات آجکل بہت محدود ہیں ۔ دہشتگردوں نے ہر جگہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ میت کو فوج نے اپنے قبضہ میں لے لیا اور ارد گرد کا جائزہ لینے کے بعد اور اپنی معمول کی کارروائی کرنے کے بعد اگلے دن میت ورثاء کے سپرد کر دی۔

ماما بیلوصاحب جو اس علاقے کے لوکل مشنری ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مرحوم ابتدائی بیعت کرنے والوں میں شامل تھے۔ بہت ابتدا میں انہوں نے بیعت کی تھی۔ بیعت کے بعد وہ نمازوں اور تمام جماعتی پروگراموں میں باقاعدہ شامل ہوتے۔ اسی طرح باقاعدگی سے چندہ بھی ادا کرنا شروع کر دیا۔

ان کے حلقہ مشنری جداما (Djidama) طاہر صاحب کہتے ہیں ان کی بیعت جو 2007ء میں انہوں نے کی تھی اس کے فوراً بعد رمضان شروع ہو گیا۔ بارشوں کا موسم تھا۔ فصل کے لیے زمین کی تیاری شروع ہو چکی تھی۔ گاؤں کے چند لوگوں نے ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ اب تم مسلمان ہو گئے ہو روزہ رکھو گے یا کھیتی میں کام کرو گے کیونکہ روزے کے ساتھ تو اتنی محنت کر نہیں سکتے جبکہ ہم تو محنت کریں گے اور ہماری فصلیں اچھی ہو جائیں گی۔ انہوں نے جواب دیا کہ اسلام کو میں نے دل سے قبول کیا ہے اس لیے روزے تو ضرور رکھنے ہیں۔ فصل کا اللہ مالک ہے۔ جتنا کام کر سکا کر لوں گا۔ جو میرے نصیب میں ہو گا وہ مجھے ملے گا وہ خدا مجھے ضرور دے گا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ بارشوں کا سلسلہ ہی ان دنوں میں رک گیا اور پورا رمضان بارش نہیں ہوئی۔ انہوں نے بھی آرام سے روزے رکھے اور عید کے دوسرے دن بارشیں شروع ہو گئیں اور جس طرح وہاں کے گاؤں میں اس علاقے میں فارمنگ ہوتی ہے، سارے لوگ پھر باہر نکلے تو انہوں نے بھی اپنے کھیتوں کا رخ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی کام سے روک دیا جو ان کا مذاق اڑا رہے تھے اور اپنے بندے کو بھی عبادت کی توفیق دے دی۔

جماعت کے قیام کے چار سال بعد مرکز کی طرف سے مسجد کی تعمیر کا پروگرام بنا۔ غیر احمدیوں نے ان پر بہت زور لگایا کہ اس مسجد کی کیا ضرورت ہے۔ تم ہماری مسجد میں نماز پڑھ لیا کرو لیکن انہوں نے کہا کہ ہم تو اپنی مسجد بنائیں گے اور پھر یہ مسجد بننے کے بعد جب بھی یہ گاؤں میں ہوتے پانچوں نمازیں مسجد میں باقاعدگی سے ادا کرتے۔ ان کے بڑے بھائی یعقوب صاحب بیان کرتے ہیں کہ بڑے نرم دل تھے۔ کبھی کسی کا برا نہیں چاہا۔ خاندان کا کوئی بھی مسئلہ جب کسی سے نہ سلجھتا تو وہ ان کے پاس آتا اور مرحوم بڑی آسانی سے اس کو حل کر دیتے۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد اور نسل کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان علاقوں میں دہشت گردوں کا بھی اللہ تعالیٰ خاتمہ فرمائے اور امن و امان کی صورتحال قائم فرمائے۔ یہ صورتحال جو کہنے کو تو یہی ہے کہ لوگوں میں آپس میں لڑائیاں ہیں یا مسلمانوں کے گروہوں نے فتنہ مچایا ہوا ہے لیکن اس سب کچھ کی پشت پناہی بڑی طاقتوں کی طرف سے ہو رہی ہے جو اپنے مفادات کے لیے ان ملکوں میں دہشت گردی کو ہوا دیتی ہیں اور پھر خود ہی امن قائم کرنے کے بیان دے کر ہمدرد بننے کی بھی کوشش کرتی ہیں ۔ اگر یہ لوگ ان کی پشت پناہی نہ کریں تو یہ تنظیمیں چل ہی نہیں سکتیں اور مسلمانوں کو عقل نہیں آ رہی کہ ہم کیا کر رہے ہیں ۔ بعض مسلمان تنظیمیں ہیں، بعض سیاسی لوگ بھی ہیں جو ان دہشتگردوں میں شامل ہو چکے ہیں ۔

اگلا جو ذکر ہے وہ ہے

مکرم رشید احمد صاحب سابق معاون ناظر امور عامہ

جو نور حسین صاحب کے بیٹے تھے۔ گذشتہ دنوں چھیاسی سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

یہ قادیان میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی احمدی تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد نور حسین صاحب کے ذریعہ ہوا جنہوں نے 1924ء میں خلافت ثانیہ کے دور میں بیعت کرکے احمدیت میں شمولیت کی سعادت پائی تھی۔ رشید صاحب نے ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد میٹرک کرنے کے بعد جماعتی خدمات کا آغاز کیا۔ 1998ء میں گو ان کی ریٹائرمنٹ ہو گئی تھی لیکن ری امپلائی کیے گئے اور 2021ء تک جب تک صحت نے اجازت دی ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ مرحوم کی مجموعی طورپر جماعتی خدمت کا سلسلہ تقریباً پینسٹھ سال پر محیط ہے۔

بےشمار خصوصیات کے حامل تھے۔ روز کا کام روز کرنے کے عادی تھے۔ سلسلہ کے انتہائی وفا دار اور ذمہ دار ہونے کے علاوہ تمام جماعتی امور رازداری کے ساتھ سرانجام دیتے تھے۔ وقت کی پابندی نمایاں وصف تھا۔ نظام وصیت میں شامل ہوئے اور چندہ جات کی ادائیگی کی بہت فکررہتی تھی۔ اول وقت میں چندہ ادا کیا کرتے تھے۔ ہر جماعتی تحریک میں حصہ لینے کی کوشش کرتے ۔ رشتہ داروں سے اپنائیت کا تعلق رکھا۔ ضرورتمندوں کی خاموشی سے مدد کرتے خلافت سے ان کو خاص عشق اور تعلق تھا۔ خلافت ثانیہ سے لے کر خلافت خامسہ تک سارے دوروں میں انہوں نے مختلف خدمات کی توفیق پائی اور بڑی وفا سے خدمت سرانجام دی۔ بڑی خاموشی سے کام کرنے والے اور بڑے بےلوث خدمت گزار تھے۔ 1974ء اور 1984ء کے پُرآشوب دور میں بھرپور طور پر مخالفانہ حالات کا سامنا کرنے کی بھی ان کو توفیق ملی۔ 74ء کے مخالفانہ حالات میں پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا اور گرفتار کر کے پولیس بس پہ فیصل آباد لے جا رہی تھی کہ چنیوٹ میں مخالفین کے ہجوم نے بس پہ حملہ کر دیا جس میں ان کو پولیس لے جا رہی تھی۔ پولیس اور بس کے دیگر مسافر بھاگ گئے پولیس والے بھی ان کو چھوڑ کے دوڑ گئے۔ پولیس نے ان کو ہتھکڑی لگائی ہوئی تھی۔جلوس کے شرکاء نے ہتھکڑی لگے ہونے کی حالت میں انہیں چاقوؤں کے وار سے شدید زخمی کر دیا۔ معجزانہ رنگ میں جان بچی۔ کئی ماہ ہسپتال رہے۔ اس کے بعد دوبارہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ اسی وجہ سے ان کی انگلیاں بھی کٹ گئی تھیں ۔ ان کے چہرے پر بھی زخم تھے اور کافی دیر تک بولنا بھی ان کے لیے مشکل تھا لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان کی جان بچائی۔

ستمبر 1979ء میں ربوہ میں بے بنیاد الزام کے تحت حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے خلاف اور دیگر عہدیداران کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔ اس میں رشید احمد صاحب کا نام بھی تھا اور ایک لمبا عرصہ اس مقدمے کی پیروی ہوتی رہی۔ رشید صاحب کے خلاف دیگر تین جماعتی عہدیداران کے ہمراہ 1987ء میں ایک اَور مقدمہ پولیس سٹیشن ربوہ میں قائم ہوا اور کئی سال تک ان کو عدالتوں کے چکر لگانے پڑے۔

ان کی بیٹی امة الصبور کہتی ہیں کہ باجماعت نماز کے پابند، حقوق العباد کا خیال رکھنے والے، دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنے والے اور کئی بار ایسا ہوا کہ محض معاملے کو ختم کرنے کے لیے اپنا حق بھی چھوڑ دیتے تھے۔ ان کی بیٹی نے مزید بتایا کہ والدہ کی وفات کے بعد مَیں نے فیصلہ کیا کہ ان کے پاس چلی جاؤں اور اپنے بچوں کے ساتھ ان کے پاس آ گئی توآتے ہی انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ اگر میرے پاس رہنا ہے تو بچوں کو سمجھا دو کہ نماز باجماعت کی ادائیگی کی پابندی کریں گے۔ جماعتی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔ شام کے بعد گھر سے باہر نہیں جائیں گے اور عہدیداران جماعت کی طرف سے بلائے جانے پر انکار نہیں کریں گے۔ کہتی ہیں اس تربیت کا مجھے بہت فائدہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کے بچوں اور نسل کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اگلا ذکر ہے

مکرم چودھری مطیع الرحمٰن صاحب نائب ناظر امور عامہ

ابن چودھری علی اکبر صاحب جو گذشتہ دنوں انانوے89 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

پیدائشی احمدی تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد چودھری علی اکبر صاحب کے ذریعہ ہوا جنہوں نے فروری 1916ء میں خلافت ثانیہ میں بیعت کی سعادت پائی۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے والد چودھری علی اکبر صاحب کو بطور نائب ناظر تعلیم خدمت سلسلہ کی توفیق بھی ملی۔ چودھری مطیع الرحمن صاحب نے ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد تعلیم مکمل کرکے محکمہ تعلیم سے وابستہ ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خود کو جماعتی خدمت کے لیے پیش کیا اور بطور نائب ناظر امور عامہ پچیس سال سے زائد عرصہ تا دم آخر خدمت سلسلہ کی توفیق پائی۔ بڑے خاموش طبع اور کام کرنے والے انسان تھے۔

چودھری مطیع الرحمٰن صاحب بےشمار خصوصیات کے حامل تھے۔ ابتدائی عمر میں نظامِ وصیت میں شامل ہونے کی سعادت پائی۔ وصیت کا حساب بڑی باقاعدگی سے صاف رکھتے تھے۔ وقت کے پابند تھے۔ باجماعت نمازوں کی ادائیگی میں باقاعدہ، جماعتی چندہ جات اول وقت میں ادا کرنے والے تھے۔ علمی ذوق نمایاں تھا۔ سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ ہر کسی سے دوستانہ اور محبت کا تعلق تھا۔ کبھی کسی ساتھی کارکن سے اگر کوئی بات ہو جاتی یعنی کوئی ناراضگی والی بات ہوتی تو پہلے صلح کا ہاتھ بڑھاتے۔ دفتری طور پر جو بھی فریضہ ان کے سپرد کیا جاتا اس کو جلد از جلد مکمل کرتے۔ کام pendingکرنے کو سخت ناپسند کرتے اور آخر تک انہوں نے اپنے اس وصف کو جاری رکھا۔ کبھی دفتر کا کام pending نہیں ہونے دیا۔ مرحوم خلافت سے وابستہ رہنے اور نظام جماعت کی اطاعت کی ہمیشہ تلقین کیا کرتے تھے اور اپنے قریبیوں کو اور ایک ان کی بیٹی تھی اس کوبھی، بچوں کو بھی ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ خلافت کی اطاعت میں ہی برکتیں ہیں ۔

ان کی اہلیہ بھی چند سال قبل وفات پا گئی تھیں ۔ ایک ہی بیٹی ہے ان کی جس کے خاوند بھی وفات پا گئے ہیں اور یہ سارے صدمے انہوں نے بڑے صبر سے برداشت کیے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ مرحوم چودھری اعجاز الرحمٰن صاحب سابق صدر انصار اللہ یوکے کے چچا تھے۔

اگلا ذکر ہے

منظور بیگم صاحبہ

جو محمود احمد بھٹی صاحب مرحوم سرگودھا کی اہلیہ تھیں، گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ حضرت چودھری غلام حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو تھیں۔

ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے تایا چودھری غلام نبی علوی صاحب اور چچا مکرم چودھری عطامحمد علوی صاحب کے ذریعہ ہوا۔ ان دونوں بزرگوں نے چیچہ وطنی میں ایک مناظرہ سننے کے بعد بیعت کی تھی۔ مرحومہ کے والد چودھری محمد عبداللہ علوی صاحب نے بعد میں تین برس تحقیق کرنے کے بعد 1935ء میں احمدیت قبول کی۔ ان کے خاوند محمود احمد بھٹی مرحوم اور بیٹے طاہر محمود بھٹی صاحب کو اسیر راہ مولیٰ ہونے کی سعادت بھی ملی۔مرحومہ کے ایک بھائی نصیر احمد علوی صاحب کو 1991ء میں احمدیت کے نام پر سندھ کے علاقہ دوڑ میں شہید بھی کردیا گیا تھا۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں تین بیٹیاں اور سات بیٹے شامل ہیں ۔ ان کے ایک بیٹے عابد محمود بھٹی صاحب واقف زندگی ہیں۔ مربی ہیں۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ اور جماعت تنزانیہ کے نائب امیر ہیں ۔ اور جو میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے والدہ کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے۔

اس چک کی سابق صدر لجنہ قیوم صاحبہ ہیں کہتی ہیں کہ پندرہ برس بطور صدر لجنہ مجھے خدمت کا موقع ملا اس عرصےمیں مَیں نے مرحومہ کی بیشمار خصوصیات دیکھی ہیں۔ صوم و صلوٰة کی پابند، پنجوقتہ نماز بہت اہتمام سے ادا کرتیں۔ جب تک لجنہ کو مسجد آنے کی اجازت تھی باقاعدگی سے جمعہ پر آتیں اور ہمیشہ پہلی صف میں بیٹھتیں۔ اب تو وہاں پابندیاں ہیں عورتیں مسجد میں جا نہیں سکتیںجمعہ پڑھنے کے لیے بھی نہ عید پڑھنے کے لیے۔ گھروں میں بیٹھی ہیں اور بے چین رہتی ہیں کہ کب ہمارے حالات ٹھیک ہوں اور کب ہم مسجدوں میں جا سکیں ۔ ان کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ پاکستان کے لوگوں پر رحم فرمائے۔ ہر اجلاس میں یہ شامل ہوتی تھیں ۔ رمضان میں باقاعدگی سے لجنہ کے ساتھ تراویح مسجد میں ادا کرتیں ۔ ہمیشہ اپنے بچوں اور ان کے بچوں کو بھی مسجد سے جوڑے رکھا۔ بچوں کی بہت اچھی تربیت کی۔ ہمیشہ بچوں کو جماعتی خدمت کی طرف راغب رکھا۔

قیصر محمود بھٹی صاحب ان کے بیٹے چندہ جات کی ادائیگی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہمیشہ اپنے جیب خرچ سے خود ادا کرتیں ۔ وصیت کی رقم بھی اپنی جمع پونجی سے ادا کی۔ ہم نے ان کو اصرار کیا کہ چندہ حصہ جائیداد جو ہے ہم ادا کر دیتے ہیں لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ میں نے اپنے خدا کی راہ میں وصیت کی ہے یہ میرا حق ہے۔ دین کے لیے خاص غیرت اور حمیت رکھتی تھیں ۔ 1989ء میں گاؤں میں جماعت کے حالات کشیدہ ہوئے اور معاندین نے گاؤں میں احمدی گھروں کو آگ لگانا اور مسجد پر قبضہ کرنا چاہا تو انہوں نے اپنے خاوند کو کہا اور اپنے بیٹوں کو کہا کہ آپ لوگ مسجد کی طرف جائیں۔ میں اکیلی گھر کی حفاظت کر لوں گی۔اُن دنوں ان کے خاوندا ور ان کے بیٹوں کو پولیس نے گرفتار بھی کر لیا لیکن اس طرف سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی بلکہ ان کے یہ بیٹے کہتے ہیں کہ یہ ساری ساری رات رو رو کے دعا کیا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ میرے خاوند اور بچوں کو جماعت کے ساتھ استقامت سے کھڑا رہنے کی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

اگلا ذکر

مکرم ماسٹر سعادت احمد اشرف صاحب

کا ہے جو مکرم خوشی محمد صاحب باڈی گارڈ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے بیٹے تھے۔ گذشتہ دنوں تراسی سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں ۔ ایک بیٹے عثمان احمد طالع صاحب مربی سلسلہ سیرالیون ہیں جو میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے ان کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے۔

عثمان صاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں کہ والد صاحب پیشے کے لحاظ سے استاد تھے۔ 1963ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے بشیر آباد سندھ میں ہجرت کر آئے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں عربی پڑھانے پر مامور ہو گئے۔ بشیر آباد سندھ ہجرت سے قبل دارالرحمت غربی میں رہا کرتے تھے ۔ ان کا حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ سے بہت پیار کا تعلق تھا۔ کہتے ہیں مولانا راجیکی صاحبؓ میرے والد کو اپنا منہ بولا بیٹا کہتے تھے اور ان کی نیک طبیعت کی وجہ سے ان سے بڑا پیار کا سلوک کرتے تھے۔ یہ لکھتے ہیں کہ مولوی صاحب ان سے ذاتی کام بھی کروا لیا کرتے تھے۔ جب بھی کوئی مولانا راجیکی صاحبؓ کو دعا کی غرض سے نذرانہ کی رقم دے کر جاتا تو میرے والد کو بلا کےیہ کہا کرتے تھے کہ یہ رقم دارالضیافت میں جمع کروا دو اور اس کی رسید لے آنا۔ چندے میں دے دیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن گرمی کے موسم میں حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ گھر تشریف لائے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ والد صاحب باہر نکلے۔ مولانا صاحب سے عرض کی کہ اتنی گرمی میں آپ کیوں تشریف لائے ہیں۔ مجھے کہلا بھیجا ہوتا میں حاضر ہو جاتا۔ اس پر مولوی صاحب نے جواباً والد صاحب کو کہا کہ اگر تمہیں پیسوں کی ضرورت تھی تو مجھے خود بتا دیتے۔ حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ نے مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکماً فرمایا ہے کہ سعادت کو پیسوں کی ضرورت ہے۔ جاؤ اور اسے پیسے دے کے آؤ اور حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ نے جیب سے روپے نکالے اور ان کو دیے اور چلے گئے۔ اس طرح ان کا بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق تھا کہ خود ہی اپنے ایک دوسرے نیک بندے کے دل میں ڈالا کہ جاؤ اور اس کی مدد کرو۔

اطاعتِ خلافت کا معیار ان کا قابل رشک تھا۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل خاکسار رخصت لے کر ان سے ملنے پاکستان گیا۔ ان کی طبیعت دیکھ کر میں نے کہا کہ مناسب سمجھیں تو مزید رخصت لے لوں تو اس پر بڑی سختی سے آپ نے فرمایا کہ آئندہ ایسی بات نہ سوچنا۔ نہ اپنی زبان پہ لانا۔ خلیفہ وقت نے تمہیں ایک مورچے پر بٹھایا ہے وہیں بیٹھے رہو اور جماعت کی خدمت اور حفاظت آخری سانس تک کرتے رہو۔ ہمیشہ بہن بھائیوں کو تلقین کیا کرتے تھے کہ سفر میں جب بھی جاؤ درود شریف پڑھتے رہنا۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہ کا ورد کرتے رہنا۔

انہوں نے ان کا ایک واقعہ مبشر گوندل صاحب کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب بی ایڈ کا امتحان دے رہے تھے تو عربی کا پرچہ کافی مشکل تھا اور نصاب سے ہٹ کے بعض باتیں تھیں تو کہتے ہیں والد صاحب نے کچھ دیر کے بعد ایک زائد شیٹ لی اور لکھتے رہے۔ اس کے بعد پھر دوبارہ شیٹیں لیتے رہے۔ کاغذ مزید لیتے رہے۔ ساتھیوں نے استفسار کیا کہ ہمارے سے تو جو کاغذ دیے گئے تھے پرچہ حل کرنے کے لیے وہ بھی پورے نہیں ہوئے، تم کیا لکھ رہے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے جو آتا تھا وہ تو مَیں نے لکھ دیا۔ اس کے بعد میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قصیدہ یَاعَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ وَالْعِرْفَانِ کے جو ستّر اشعار تھے وہ بھی لکھ آیا ہوں تا کہ جو بھی ان کو پڑھے گا اس کو کم ازکم تبلیغ تو ہو جائے گی ۔ پاس تو پتہ نہیں میں نے ہونا ہے کہ نہیں ہونا۔ examiner پاس کرتا ہے کہ نہیں، کم از کم شعر پڑھ کے اس کو ایک احساس تو پیدا ہو گا کہ کسی احمدی نے لکھا ہے یا کس کے یہ شعر ہیں اور پھر تحقیق کرے گا اور اس لحاظ سے تبلیغ کا رستہ کھلے گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے بھی فضل کیا کہ اس امتحان میں صرف تین لوگ پاس ہوئے اور والد صاحب ان میں سے ایک تھے۔ کہتے ہیں یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل اور قصیدے کی برکت تھی۔

نوافل، عبادات اور روزوں کا اکثر اہتمام کرتے۔ قرآن مجید کی محبت اور تلاوت کا بہت شغف تھا۔ ہمیشہ قرآن کریم کی بعض سورتوں کو گنگناتے ہوئے سنا۔ قصیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمیشہ پڑھتے ہوئے سنا۔ اکثر قصیدہ پڑھتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطالعہ کرتے اور صحابہ کرامؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واقعات سناتے۔ خاص طور پر حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے واقعات اپنے شاگردوں کو ضرور سنایا کرتے تھے۔ پُرجوش داعی الی اللہ تھے یہ اور مستعد شخصیت کے حامل تھے۔ جماعتی پروگراموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی یہ نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

الفضل انٹرنیشنل ۲؍ اگست ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button