جلسہ سالانہ پر ترجمانی کا نظام: بائبل کی ایک پیشگوئی کا عظیم الشان ظہور
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحؑ کا مثیل بنا کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔ آپؑ کی حضرت مسیحؑ سے مشابہت کئی رنگوں میں تھی۔ اگر ہم قرآن کریم، احادیث اور دیگر آسمانی صحائف کا جائزہ لیں تو ان میں موجود کئی ایسی مشابہتیں پائیں گے جو مسیح محمدیؑ اور مسیح ناصریؑ کے درمیان ہوں گی۔ اسی طرح بعض ایسی مشابہتیں بھی تھیں جو مسیح محمدی اور مسیح ناصری کے حواریوں کی آپس میں تھیں یا اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جو حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت اور حضرت مسیح ناصریؑ کی جماعت میں پائی جاتی ہیں۔ اس طرح کی ایک مشابہت کا ذکر اس مضمون میں بیان کرنا مقصود ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا ایک واقعہ بائبل میں بیان ہوا ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ ایک دفعہ عید پنتکست(Pentecost) کے دن جب سب یہودی جمع تھے تو روح القدس کے اثر کے نتیجہ میں حواریوں نے ان سے خطاب کیا تو ہر یہودی اس خطاب کو اپنی زبان میں سمجھنے لگ گیا اور یہ ایک معجزہ تھا جو اُس وقت ان یہودیوں کو دکھایا گیا۔
اس واقعہ کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں درج ہے:’’جب عید پنتکست کا دن آیا تو وہ سب ایک جگہ جمع تھے۔ کہ یکایک آسمان سے اَیسی آواز آئی جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے اور اس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج گیا۔ اور انہیں آگ کے شعلہ کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دکھائی دیں اور ان میں سے ہر ایک پر آ ٹھہریں۔ اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں بولنے لگے جس طرح روح نے انہیں بولنے کی طاقت بخشی۔ اور ہر قَوم میں سے جو آسمان کے تَلے ہے خدا ترس یہودی یروشلیم میں رہتے تھے۔ جب یہ آواز آئی تو بھیڑ لگ گئی اور لوگ دَنگ ہوگئے کیونکہ ہر ایک کو یہی سنائی دیتا تھا کہ یہ میری ہی بولی بول رہے ہیں۔ اور سب حیران اور متعجب ہو کر کہنے لگے دیکھو۔ یہ بولنے والے کیا سب گیلی نہیں؟ پھر کیونکر ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے؟ حالانکہ ہم پارتھی اور مادی اور عیلامی اور مسوپتامیہ اور یہودیہ اور کپرکیہ اور پنطس اور آسیہ۔ اور فروگیہ اور پمفیلیہ اور مصر اور لبوآ کے علاقہ کے رہنے والے ہیں جو کرینے کی طرف ہے اور رومی مسافر خواہ یہودی خواہ ان کے مرید اور کریتی اور عرب ہیں۔ مگر اپنی اپنی زبان میں ان سے خدا کے بڑے بڑے کاموں کا بیان سنتے ہیں۔ اور سب حیران ہوئے اور گھبرا کر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے؟ اور بعض نے ٹھٹھا کر کے کہا کہ یہ تو تازہ مَے کے نشہ میں ہیں۔‘‘(اعمال باب 2 آیت 1 تا 13)
عیسائی دنیا مسیح کے حواریوں اور یہودیوں کے درمیان پیش آنے والے اس واقعہ کو مسیح کی صداقت کی نشانی قرار دیتی ہے۔ بلکہ اس واقعہ کو عہد نامہ قدیم میں مذکور ایک پیشگوئی کا مصداق قرار دیتی ہے۔ یوایل نبی کی کتاب میں مذکور ہے کہ’’اور اس کے بعد میں ہر فرد بشر پراپنی رُوح نازل کروں گا اور تمہارے بیٹے بیٹیاں نبوت کریں گے۔تمہارے بوڑھے خواب اور جوان رؤیا دیکھیں گے۔ بلکہ میں ان ایام میں غلاموں اور لونڈیوں پر اپنی روح نازل کروں گا۔ اور میں زمین و آسمان میں عجائب ظاہر کروں گایعنی خُون اورآگ اور دُھوئیں کے ستون۔‘‘(یوایل باب ۲آیات 28-30)
لیکن اگر اس باب اور ان آیات کے سیاق و سباق کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہاں آخری زمانےکا ذکر ہو رہا ہے۔ نہ کہ مسیح کے زمانہ کا۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ اسی واقعہ کے بارے میں فرماتے ہیں:’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت مسیح ناصریؑ کے مثیل تھے۔ اور حضرت مسیح ناصری کے متعلق آتا ہے۔ ان کے حواریوں کے متعلق پیشگوئی تھی۔ کہ وہ غیر زبانوں میں تقریریں کریں گے۔ چنانچہ لکھا ہے (اعمال باب 2) کہ حضرت مسیح کہ واقعہ صلیب کے بعد ایک موقع پر جب مختلف علاقوں کے یہودی آئے توحضرت مسیح ناصری کے حواریوں نے ان کے سامنے مختلف زبانوں میں تقریریں کیں۔ مجھے اس کے متعلق نہایت تعجب آتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ اس بات کو غلط طور پر سمجھا گیا ہے۔ عام طور پر عیسائی بھی اسی طرح پیش کرتے ہیں اور اسی طرح سمجھا جاتا ہے کہ حواری غیر زبانوں میں باتیں کرتے تھے۔ حالانکہ اسی واقعہ سے ثابت ہے کہ وہ غیر زبانوں میں نہیں بلکہ یہودیوں کی مختلف زبانوں میں باتیں کرتے تھے کیونکہ لکھا ہے کہ یہودی مختلف علاقوں سے آئے تھے ان کے سامنے انہوں نے مختلف زبانوں میں تقریریں کیں اور وہ ان زبانوں کو سمجھتے تھے لیکن اگر غیرزبانوں میں تقریریں ہوتیں تو پھر یہودی کس طرح سمجھ سکتے تھے؟ حقیقت یہی ہے کہ یہودی قبیلوں میں جس طرح باتیں کی جاتی تھیں اسی طرز میں حواریوں نے تقریریں کیں۔ اور وہ بھی غلط تھیں۔ کیونکہ لکھا ہے کہ یہودی ہنستے اور کہتے تھے کہ تقریر کرنے والے شراب کے نشہ میں مست ہو رہے ہیں۔ اب اگرکوئی فرانسیسی زبان میں اعلیٰ طور پر تقریر کرے تو کیا اسے کہا جائے گا کہ یہ شراب میں بدمست ہے؟ان کے یہ کہنے کا یہی مطلب تھا کہ حواری غلط بولتے تھے۔ انہیں دوسرے قبیلوں کی زبانیں اچھی طرح نہ آتی تھیں۔ لیکن ان میں جوش تبلیغ اتنا تھا کہ جس جس قبیلہ کے لوگ وہاں جمع تھے اسی کی زبان میں تقریریں کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اور جب وہ کوئی لفظ غلط بولتے تو سننے والے ان کی زبان پر ہنستے تھے۔ جیسے اب بھی جس وقت کسی کے منہ سے کوئی ایسا لفظ نکل گیا۔ جو غلط تھا تو اس پر لوگ ہنس پڑتے تھے۔ ‘‘(الفضل قادیان 2؍فروری 1926ء)
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اسی مشابہت یا پیشگوئی کے پورا کرنے کے لیے ایک جلسہ کا اہتمام مورخہ 29؍جنوری 1926ء کو فرمایا۔ اس جلسہ میں 24؍مختلف زبانوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر تقاریر ہوئیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا:’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہلے مسیح سے اعلیٰ تھے۔ اور العود احمدؐ کے مطابق ان سے بالا تھے۔ اس لئے اگر پہلے مسیح کے حواریوں کو یہ توفیق ملی کہ انہوں نے یہودیوں کی مختلف زبانیں بولیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ اس میں غیر زبانیں بولنے والے پیدا ہو گئے۔ یہودی قبیلوں کی زبانوں میں اگر چہ کچھ نہ کچھ اختلاف تھا مگر درحقیقت ان کی زبان ایک ہی تھی۔ جیسے اردو زبان ہے جو کئی قسم کی ہے۔ حیدر آباد کی اور ہے، یو۔پی کی اور ہے، دہلی، لکھنؤکی اور ہے، پنجاب کی اور ہے۔ ہماری جماعت میں اس قسم کے لوگ بھی ہیں جو ہر قسم کی اردو بولتے ہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پنجاب میں مبعوث ہوئے اور پنجابی زبان بھی کئی قسم کی ہے۔ سیالکوٹ کے علاقہ کی اور ہے، جھنگ اور لائلپور کی اور ہے، فیروزپور، لدھیانہ کی اور ہے، گجرات اور جہلم کی اور ہے۔ اور ان سب زبانوں میں کلام کرنے والے ہماری جماعت میں موجود ہیں۔ اس طرح حضرت مسیح ناصری ؑسے مشابہت پوری ہو جاتی ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت کو اس سے بڑھ کر یہ فضیلت ہے کہ اس میں غیر زبانیں بولنے والے موجود ہیں جو دوسرے علاقہ جات اور ممالک میں بولی جاتی ہیں۔ پھر اسی ملک کی زبان سیکھ لینا اور بات ہے مگر ان ممالک اور علاقوں کے لوگوں کا پکڑے ہوئے جماعت میں داخل ہونا اور بات ہے۔ بہت لوگ ہیں۔ ہندو، پٹھان، آریہ، مسلمان وغیرہ جو انگریزی سیکھ کر انگریزی بولتے ہیں مگر اس سے کسی طرح کوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔ لیکن اگر کوئی انگریز کسی اور مذہب میں داخل ہو تو اس مذہب کی فضیلت ہو گی۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو اس قدر فضیلت دی گئی کہ اس قدر مختلف قوموں کے لوگ آپؑ کی جماعت میں داخل ہوئے جس قدر حضرت مسیح کی جماعت میں نہ داخل ہوئے تھے۔ بیشک اب عیسائیت میں مختلف ممالک کے لوگ داخل ہیں مگر حضرت مسیح کے زمانہ میں اور پھر ان کے بعد تین سو سال تک تین چار ممالک میں ہی عیسائیت پھیلی تھی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی وفات پر 17 سال گذرے ہیں کہ اب تک احمدیت تیس کے قریب غیر ممالک میں پھیل چکی ہے۔
پس یہ تقریریں جو مختلف زبانوں میں صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر ہوئی ہیں۔ یہ ساری مل کر بجائے خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی دلیل ہیں۔‘‘(الفضل قادیان 2؍فروری 1926ء)
بیشک حضرت مصلح موعودؓ کے زمانہ میں بھی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ایک نظارہ دنیا نے دیکھا لیکن اگر آج ہم اس پیشگوئی کا بغور مطالعہ کریں تو یہ مزید صفائی اور مزید سنہرے انداز میں ہمیں آج بھی پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ اگر ہم اس واقعہ پر کچھ تدبر کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ ایک واقعہ ہی نہ تھا بلکہ یہ ایک پیشگوئی تھی جس کا کامل ظہور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ ہونا تھا۔ اس واقعہ کو پڑھنے سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں۔
1۔ایک ایسے موقع پر یہ واقعہ ہوا جب لوگ ایک جگہ پر جمع تھے اور وہ عید کا دن تھا۔
2۔یہودی مختلف علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔
3۔حضرت مسیح کے حواریوں نے انہیں تبلیغ کی۔
4۔وہ تقریریں لوگوں کو اپنی اپنی زبانوں میں سمجھ آرہی تھیں۔
5۔ہر فرد بشر مرد اور عورت رؤیا دیکھیں گے۔ غلام، لونڈیاں آزاد سب یہ نظارہ دیکھیں گے۔
اب انہی باتوں کو جماعت احمدیہ کے جلسوں پر چسپاں کر کے دیکھیں تو یہ واقعہ انہی جلسوں کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ اور ان جلسوں میں یوکے کا جلسہ اس پیشگوئی کو سب سے واضح رنگ میں پورا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
(الف) بالکل اسی واقعہ کی طرح مختلف ممالک (دنیا کے تمام بر اعظموں) سے لوگ ایک اجتماع کے لیے وقت مقررہ پر جمع ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے لائے ہوئے پیغام کو اپنی زبان میں سن اور سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ گویا جلسہ میں ایک عید کا سماں ہی ہوتا ہے۔اور دنیا کے بیسیوں ممالک سے لوگ سارا سال اس اجتماع کا انتظار کرتے ہیں اور پھر بھر پور تیاری کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔
(ب) جب اس جلسہ میں حضرت مسیح موعودؑ کا خلیفہ یا آپ کا کوئی ماننے والا تقریر کر رہا ہوتا ہے اور اسے وہاں اس جلسے میں موجود مختلف زبانیں بولنے والے Live Translation کے ذریعہ اپنی اپنی زبانوں میں سن رہے ہوتے ہیں اور نہ صرف اس جلسہ گاہ میں موجود لوگ اسے سن رہے ہوتے ہیں بلکہ MTA کی بدولت دنیا کے مختلف کونوں میں بیٹھے مختلف رنگ و نسل کے لوگ بھی اپنی اپنی زبان میں اسے سن اور سمجھ رہے ہوتے ہیں۔اور یہ تمام تقاریر تبلیغی اور تربیتی موضوعات پر ہوتی ہیں۔ گویا کہ ہر ایک کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں اور مختلف زبانوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والے اسے اپنی زبان میں سن اور سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک روح پرور نظارہ ہوتا ہے جس کا ذکر آسمانی صحیفوں میں صدیوں پہلے ہی کر دیا گیا تھا۔ یہ جلسے جہاں حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا ثبوت ہیں وہاں آسمانی صحیفوں کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذریعہ بھی ہیں۔
(ج) عالمی بیعت کا نظارہ بھی اس پیشگوئی کو ایک اور انداز میں پوراکرتا نظر آتا ہے جب خلیفة المسیح لوگوں سے بیعت لے رہے ہوتے ہیں تو بیعت کنندہ اپنے اپنے الفاظ میں اس بیعت کو دہرا رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ بیعتیں بھی گویا اس تبلیغ کا ہی ثمرہ ہوتی ہیں جنہیں لوگوں نے اپنی اپنی زبان میں سنا اور سمجھا ہوتا ہے۔
(د) ہر فرد بشر مرد و زن، بچے بوڑھے، غلام، لونڈیوں کے رؤیا دیکھنے کا ذکر یو ایل کی کتاب میں پایا جاتا ہے۔ رؤیا دیکھنے کو کہتے ہیں۔ اب اگر اس کو آجکل کے زمانہ میں MTA کی آنکھ سے دیکھیں تو یہ پیشگوئی ایک عظیم الشان رنگ رکھتی ہے۔ کیونکہ نہ صرف یہ کہ جلسہ گاہ میں موجود مختلف رنگ و نسل کے لوگ اپنی اپنی زبانوں میں سن رہے ہوتے ہیں اور مقرر کو دیکھ رہے ہوتے ہیں بلکہ ایم ٹی اے کے ذریعےساری دنیا میں اپنی زبان میں سننے کے ساتھ براہ راست (Live Visuals) بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور سمارٹ فون سمارٹ گیجٹس نے اس کو مزید واضح ایسے بھی کر دیا ہے کہ ہر فرد بشر مرد و زن، بچے اور بوڑھے انفرادی صورت میں بھی الگ الگ اس کو دیکھ سکتے ہیں اور اس سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔ غلام لونڈیوں کا لفظ بھی اس میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ یہ صرف آج کل کے سوشل میڈیا کے دور میں ہی پورا ہورہا ہے کیونکہ آج کل کے زمانے میں امیر غریب تقریباًہر کسی کے پاس سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے اورجلسہ سالانہ کی لائیو ترجمانی ہر کسی کو میسر ہے، چاہے امیر ہو یا غریب۔
پیشگوئی کے الفاظ، عید پنتکست میں پیش آنے والے واقعہ اور آج جماعت احمدیہ کے منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ اور اس کے لائیو ترجمہ کے نظام کو سامنے رکھیں تو ہم اس بات کو کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ پیشگوئی دراصل آخری زمانے میں مسیح محمدی کے زمانے سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ یہ جلسہ سالانہ اور اس میں موجود ترجمےکا نظام در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے جس کا ذکر قدیم نوشتوں میں موجود ہے۔ دنیا میں اَور کونسا اجتماع یا عید ہے جس میں اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دنیا دیکھ سکے؟ اگر حضرت مسیح ناصری کے زمانے میں بھی یہ واقعہ ایسا ہی ظہور میں آیا تھا تو بھی اس کی معراج اور اس کی شان آج مسیح محمدی کے ماننے والوں کے ذریعہ ہی عروج کو پہنچ گئی ہے۔ جماعت احمدیہ کا Translationکا نظام اور MTA پر Live Translations اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اور ساری دنیا کو چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی ہیں کہ جَاءَ الْمَسِیْح جَاءَ الْمَسِیْح۔کون ہے جو اس آسمانی صحیفہ کی پیشگوئی کو جھٹلا سکے۔ فتدبروا یا اولی الالباب
اس وقت دنیا کے کسی حصے میں اس قدر وسیع براہ راست ترجمے کا نظام موجود نہیں۔اقوام متحدہ میں بے شک براہ راست ترجمے کا نظام موجود ہے اور کم و بیش دس مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ کسی طور پر بھی اس پیشگوئی کو پورا نہیں کرتی جس کا ذکر بائبل میں ملتا ہے کیونکہ
اوّل تو وہاں تبلیغی یا تربیتی موضوع پر بات نہیں ہو رہی ہوتی۔دوم ان کا ترجمہ کا نظام بھی اتنا وسیع نہیں۔پھر وہاں عام لوگوں کا اجتماع نہیں ہوتا نہ ہی عید کا سما ں ہوتا ہے۔ بلکہ صرف خاص لوگوں کا اجتماع ہے جس میں دین سے متعلق کوئی بات نہیں ہوتی۔
نیز جماعت احمدیہ کے جلسوں پر ترجمہ کرنے والے تمام رضا کارمسیح محمدی کے دین کی خدمت کے لیے یہ کام رضاکارانہ طور پر کرتے ہیں جبکہ اقوام متحدہ میں ترجمہ کرنے والے لوگ بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں۔
الغرض جلسہ سالانہ کے نظام ترجمانی سے نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشابہت حضرت مسیح ناصری سے ثابت ہوتی ہے بلکہ یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کوپورا ہوتا ہوا آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ واقعتاً عید پنتکسٹ پر یہ واقعہ ہواتھا یا نہیں۔ اور اگر ہوا تھا تو اس کی نوعیت کیا تھی۔ لیکن آج امام الزمان اور مسیح وقتؑ کے زمانہ میں یہ نظارہ دنیا کا ہر انسان دیکھ سکتا ہے۔ یہ جلسے اور یہ نظارے نہ صرف حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا ثبوت ہیں بلکہ ہمارے ایمانوں کو بھی مزید بڑھانے والے اور ہر عقل رکھنے والے کو سوچنے پر مجبور کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔