جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا۔ ایک بابرکت تحفہ
شکر گزاری کی عادت انسان کے اخلاق حسنہ میں ایک نہایت عمدہ عادت ہے۔ اگر شکر گزاری اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے ہو تو ہم اس ذریعہ سے اپنے ربّ کو راضی کرتے ہیں اور اگر انسانوں کے حوالہ سے ہو تو اس ذریعہ سے دل دلوں کے قریب ہوتے ہیں،قربتیں بڑھتی ہیں اور تعاون کا جذبہ فروغ پاتاہے۔ ہمارے ہادی وآقاﷺ اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ شکر گزار بندے تھے۔ آپﷺ انسانوں کی شکرگزاری کا بھی خاص خیال فرمایا کرتے۔ روایات میں آتا ہے کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بہت شکر ادا کرتے اور فرماتے کہ تمام حمد اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے مجھ پر فضل واحسان کیا، مجھے عطا فرمایا، مجھے بہت دیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 495، مسند عبداللہ بن عمر حدیث:5983، دارالعلمیہ بیروت 1998ء)
رسول کریمﷺکا ارشادِ مبارک ہے :لَا یَشْکُرُ اللّٰہَ مَنْ لَا یَشْکُرُالنَّاسَ (سنن ابوداؤد کِتَابُ الْأَدَبِ بَاب فِی شُکْرِ الْمَعْرُوْفِ حدیث:4811) جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔ آنحضرتﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے : جو شخص اللہ کے واسطے سے پناہ مانگے اس کو امان دو اور جو شخص اللہ کے نام سے سوال کرے اس کو دو اور جو تمہاری دعوت کرے اس کی دعوت قبول کرو اور جو تمہارے ساتھ احسان کرے اس کا بدلہ دو۔ اگر بدلہ دینے کے لیے کوئی چیز نہ پاؤ تو اس کے حق میں دعا کرو یہاں تک کہ تم سمجھ لو کہ اس کے احسان کا بدلہ دے دیا ہے۔(سنن ابوداؤد کتاب الزکٰوۃ ب۔اب عَطِیَّۃِ مَنْ سَأَلَ بِاللّٰہِ حدیث:1672)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شکر گزاری کے مختلف طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’شکر گزاری کے بھی کئی طریقے ہیں۔ اُن طریقوں کو ہمیشہ روزانہ اپنی زندگی میں تلاش کرتار ہے۔ ایک احمدی جو ہے، حقیقی مومن جو ہے وہ شکر گزاری کے ان طریقوں کو تلاش کرتا ہے تو پھر دل میں بھی شکر گزاری کرتا ہے۔ پھر شکر گزاری زبان سے شکریہ ادا کرکے بھی کی جاتی ہے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے یا کسی دوسرے کی شکرگزاری بھی کرتا ہے تو زبان سے شکر گزاری ہے۔ اور پھر اپنے عمل اور حرکت وسکون سے بھی شکر گزاری کی جاتی ہے۔ گویا جب انسان شکر گزاری کرنا چاہے تو اُس کے تمام اعضاء بھی اس شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں یا انسان کے تمام جسم پر اُس شکر گزاری کا اظہار ہونا چاہئے۔ ‘‘(ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل 3تا9؍اگست 2012ء صفحہ 6)
رسول اللہﷺ نے مخلوق خدا کے ساتھ نرمی اور محبت کا سلوک کرنے والوں کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ ہر آسانی پیدا کرنے والا، نرم خُو، نرم دل اور لوگوں کے قریب رہنے والا اہل جنت میں شامل ہے۔ (المعجم الصغیر طبرانی جلد 1صفحہ 72 حدیث:89 مکتب اسلامی بیروت 1985ء طبع اوّل)
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے رسولﷺ نے زندگی کے ہر معاملے میں راہنمائی فرماکر ہمیں نیکیوں اور تقویٰ میں ترقی کرنے کےاَن گنت مواقع مہیا فرمادیے ہیں۔یوں تو ہر مہذب معاشر ےمیں میل ملاقات اور شکر گزاری کےلیے کچھ الفاظ مخصوص ہیں لیکن یہ اسلام کا طرۂ امتیاز ہے کہ اُس نے اپنے ماننے والوں کو جوطریق سکھلائے ہیں وہ ہر لحاظ سے مکمل، جامع اور بہت وسیع مفہوم کے حامل ہیں۔یہ الفاظ ناصرف اپنی ظاہری صورت میں دلکش و دلربا ہیں بلکہ ان کے اندر لطیف مضامین پنہاں ہیں اور دعائیہ رنگ غالب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے :ھَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ (الرَّحْمٰنِ:61) کیا احسان کی جزا احسان کے سوا بھی ہوسکتی ہے ؟ اسی لیے نبی کریمﷺ نے اپنے ماننے والوں کو شکرگزاری کے طور پر جو کلمات سکھلائے ہیں وہ قرآن کریم کے اسی منشا کے مطابق ہیں۔چنانچہ احادیث سے پتہ چلتا ہےنبی کریمﷺ اور صحابہ کرام ؓکثرت سے ان کلمات کو ادا فرمایا کرتے تاکہ شکرگزاری کا حق ادا ہوسکے۔ رسول اللہﷺ کا ارشادِ مبارک ہے :مَنْ صُنِعَ اِلَیْہِ مَعْرُوْفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِہِ جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا فَقَدْ اَبْلَغَ فِی الثَّنَآءِ (الجمامع الکبیر للترمذی اَبَوْابُ الْبِرِّ وَالصِّلَۃِ بَابُ مَاجَآءَ فِی الثَّنَاءِ بِالْمَعْرُوْفِ حدیث:2035)جس کے ساتھ نیک سلوک کیا گیا اور اس نے نیکی کرنے والے سے جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا (اللہ تعالیٰ تجھے بہترین بدلہ عطا فرمائے ) کہا، تو اس نے شکرگزاری کا حق ادا کردیا۔انسان ایک کمزور اور ناتواں ہستی ہے اس لیے وہ اکثراوقات اپنے محسن کے احسانات کا بدلہ اُتار نہیں پاتا لیکن جب وہ اپنا معاملہ کائنات کے مالک کے سپرد کردیتا ہے تووہ قادرِمطلق مناسب حال بدلہ دینے پر قادر ہے۔
جزاک اللّٰہ خیرًا کہنے کا ایک موقع ایک سفر کے دوران پیش آیا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ ایک سفر کے موقع پر حضرت عائشہؓ نے حضرت اسماءؓ سے گلے کا ہار عاریۃً لیا وہ (ہار) گم ہوگیا تو رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو بھیجا اور اس نے وہ ڈھونڈ لیا۔ اسی اثنا میں ان کو نماز کا وقت بھی آگیا اور ان کے ساتھ پانی نہ تھا۔ انہوں نے نماز پڑھ لی اور رسول اللہﷺ کے پاس اس کی شکایت کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمّم کی آیت نازل فرمائی۔ اس پرحضرت اُسید بن حضیرؓ نے حضرت عائشہؓ سے کہا : جَزَاکِ اللّٰہُ خَیْرًا اللہ آپ کو بہتر بدلہ دے۔ بخدا آپ کے ساتھ کوئی وقوعہ بھی ایسا نہیں ہوا، جسے آپ نے برا منایا ہواور اللہ تعالیٰ نے اس میں آپؐ کے لیے اور مسلمانوں کے لیے بھلائی نہ رکھی ہو۔(صحیح البخاری کتاب التیمّم بَاب اِذَا لَمْ یَجِدْ مَاءً وَلَا تُرَابًا حدیث:336)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب میرے والد پر حملہ ہوا تو میں ان کے پاس موجود تھا۔ لوگوں نے ان کی تعریف کی اور کہا :جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ دے۔ آپؓ نے فرمایا: (میں ) رغبت رکھنے والا (بھی ہوں) اور ڈرنے والا (بھی ہوں)۔(صحیح مسلم کتاب الامارۃ بَاب الْاِسْتِخْلَافِ وَتَرْکِہِ حدیث: 3385)
ایک مرتبہ نبی کریمﷺ نے انصار کے کچھ گھرانوں میں اناج تقسیم فرمایا تو اس قبیلے کے سردار حضرت اُسید بن حُضیر رضی اللہ عنہ نےنبی کریمﷺ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کی :جَزَاکَ اللّٰہُ یا نَبِیَّ اللّٰہِ عَنَّا أَطْیَبَ الْجَزَاءِ۔أو قال:خیراً۔اے اللہ کے نبی ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سے پاکیزہ ترین جزا عطا فرمائے یا یہ کہا: سب سے بہترین جزا عطا فرمائے۔ تواس کے جواب میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: وَأنْتُمْ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ فَجَزَاکُمُ اللّٰہُ أَطْیَبَ الْجَزَاءِ۔ أو قَالَ: خَیْراً۔اے انصار کے گروہ ! اللہ تعالیٰ تمہیں بھی پاکیزہ ترین جزا عطا فرمائے یا فرمایا: سب سے بہترین جزا عطا فرمائے۔ نیز فرمایا: مجھے تمہارے بارے میں علم ہے کہ تم مانگنے سے بچتے ہو اور صبر سے کام لیتے ہو۔ (صحیح ابن حبّان کِتَابُ الْمَنَاقِبِ بَاب ذِکْرُ وَصْفِ الْاَثَرَۃِ الَّتِیْ اَمَرَ الْمُصْطَفٰیﷺ لِلْاَنْصَاربِالصَّبْرِ…حدیث:7277)
ایک اور روایت کے مطابق رسول اللہﷺ نے حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اگر اللہ نے ہمیں دوبارہ فتوحات دیں تو ہم انہیں عطیات دیں گے۔ اس پر انہوں نے عرض کی :جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے یارسول اللہ۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:فَجَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا اللہ تعالیٰ تم لوگوںکو بھی جزائے خیر دے۔ (صحیح ابن حبّان کِتَابُ الْمَنَاقِبِ بَاب ذِکْرُ شَھَادَۃِ الْمُصْطَفٰیﷺ لِلْاَنْصَارِبِالْعِفَّۃِ بِالصَّبْرِ…حدیث:7279)
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت جابرؓ کے ہاتھ نبی کریمﷺ کی خدمت میں بکری کا گوشت بھجوایا تو رسول اللہﷺنے انہیں دعائے خیر دیتے ہوئے فرمایا:جَزَی اللّٰہُ الْاَنْصَارَ عَنَّا خَیْراً، وَلَا سِیَّمَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ، وَسَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ (صحیح ابن حبان کِتَابُ الْمَنَاقِبِ ذِکْرُ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِوبْنِ حَرَامٍ حدیث:7020) اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے انصار کو جزائے خیر عطا فرمائے بطور خاص عبداللہ بن عمرو بن حرام اور سعد بن عبادہ کو۔
ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول کریمﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کسی کا شکریہ اداکرتے وقت یہ بابرکت کلمات تحفے کے طور پر پیش کرتے اوراپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیتے تاکہ وہ مناسب حال جزا عطا فرمادے۔ اگر کسی مرد کا شکریہ اداکرنا چاہتے ہوں تواس کو جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا کہنا چاہئے۔ کسی عورت کا شکریہ ادا کرتے وقت جَزَاکِ اللّٰہُ خَیْرًا کے الفاظ استعمال کرنے چاہئیں۔ اگر زیادہ لوگوں کا شکریہ ادا کرنامقصود ہوتو جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًاکے الفاظ کہے جائیں۔جَزَاکَ اللّٰہُ یا جَزَاکِ اللّٰہُ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن بہتر یہی ہے کہ کوئی دعائیہ کلمہ بھی ساتھ شامل کرلیا جائے۔چنانچہ مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جَزَاکَ اللّٰہُ کے ساتھ خَیْرًاکے علاوہ دیگر دعائیہ کلمات بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ نے انصار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے أَطْیَبَ الْجَزَاءِ کے الفاظ بھی استعمال فرمائے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقاﷺ کی سنت کی پیروی میں اپنے مکتوبات میں مختلف احباب کے نام خطوط میں اُن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جو بابرکت کلمات تحریر فرمائے ہیں اُن میں سے کچھ دعائیہ کلمات ذیل میں تحریر کیے جارہے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے ایک مکتوب میں جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا (مکتوبات احمد جلد 2صفحہ 18)کے الفاظ کے ساتھ شکریہ ادا کیا۔ اسی طرح مختلف خطوط میں جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں وہ ذیل میں درج کیے جارہے ہیں۔جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَالْجَزَاءِ وَاَحْسَنَ اِلَیْکُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْعُقْبٰی وَأَذْھَبَ عَنْکُمُ الْحَزْنَ وَرَضِیَ عَنْکُمْ وَأَرْضٰی۔ آمین (مکتوبات احمد جلد 2صفحہ 32۔مطبوعہ اپریل 2008ء) ایک خط میں دو بار جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا تحریر فرمایا ہے۔(مکتوبات احمد جلد 2صفحہ 38) جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًالْجَزَاءِ (مکتوبات احمد جلد 2صفحہ 124) جَزَاکُمُ اللّٰہُ کَمَا عَلِمْتُمْ(مکتوبات احمد جلد 2صفحہ 128) جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَالْجَزَاءِ وَاَحْسَنَ اِلَیْکُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْعُقْبٰی(مکتوبات احمد جلد 2صفحہ 338) جَزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ(مکتوبات احمد جلد 2صفحہ 372) جَزَاکُمُ اللّٰہُ (مکتوبات احمد جلد 2صفحہ 565) جَزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ وَاَحْسَنَ اِلَیْکُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔ (مکتوبات احمد جلد 3صفحہ42) جَزَکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ(مکتوبات احمد جلد سوم صفحہ42) جَزَکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِوَاَعْطٰکُمْ دَقَائِقَ الْھُدٰی وَالنُّھٰی (مکتوبات احمد جلد سوم صفحہ292) جَزَاہُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ فِی الدُّنْیَا وَالْعُقْبٰی(مکتوبات احمد جلد سوم صفحہ325۔ کمپوزڈ ایڈیشن 2013ء)
پس ان کلمات کو اپنی زندگیوں میں رواج دینا اور ان کا بار بار استعمال بہت ضروری ہے تاکہ ہماری زبانوں پر خیروبرکت کے کلمات جاری رہیں اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظریں ہمارے اوپر پڑتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس کلمہ ٔخیر کو زیادہ سےزیادہ رواج دینے اور اس کی برکات سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آمین