متفرق مضامین

کہاں کہاں نہ گیا میرِ کارواں اپنا

صدی سے امن کا پرچم بلند تر کر کے

محبتوں کے قصائد سنا رہے ہیں ہم

خلافت ایک کنایہ ہے مہرِ یزداں کا

اسی پہ اپنا سبھی کچھ لٹا رہے ہیں ہم

کہاں کہاں نہ گیا میرِ کارواں اپنا

کسے کسے نہ کہا یہ کہ باز آ جاؤ

فضائے امن کو برباد نہ کرو ایسے

خدارا جنگ سے دنیا کو تم بچا جاؤ

خدا کے واسطے خود کو بچا لو نفرت سے

خدا کے واسطے دل اور زبان اک کر لو

خدا کے واسطے انصاف سے کرو جو کرو

خدا کے واسطے خوشیوں سے دو جہاں بھر دو

خرد کو چاہیے اک فیصلہ کرے پہلے

کہ پچھلی جنگوں سے کیا فائدہ ہوا سب کو

سو اب بھی کچھ نہیں ہاتھ آئے گا کسی کے بھی

قسم ہے امن کی جس کا ہے فائدہ سب کو

وہ ایک عرصے سے پھیلا رہا ہے امن و اماں

تم اپنی ضد پہ اڑے ہو کہ ہم نہ سدھریں گے

سو اس کا کام تھا تنبیہ کرنا پیش از وقت

پر اب تو کتنے اسی آگ میں سے گزریں گے

خدا کی دوسری قدرت کا پانچواں مظہر

جسے خدا نے عطا کی ہے بادشاہی نصیب

جو کان دھر لے گا اس کی پکار پر اب بھی

اسے اس آگ سے بےشک نجات ہوگی نصیب

(م۔ الف۔ قاہرؔ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button