اپنی ہمت اور کوشش پر ناز مت کرو اور مت سمجھو
انسان غفلت میں پڑا ہوا ہے۔جب وہ بیعت کرتا ہے اور ایسے کے ہاتھ پر جسے اللہ تعالیٰ نے وہ تبدیلی بخشی ہو۔ تو جیسے درخت میں پیوند لگانے سے خاصیت بدل جاتی ہے۔اسی طرح سے اس پیوند سے بھی اس میں وہ فیوض اور انوار آنے لگتے ہیں (جو اس تبدیلی یافتہ انسان میں ہوتے ہیں)بشرطیکہ اس کے ساتھ سچا تعلق ہو۔خشک شاخ کی طرح نہ ہو۔اس کی شاخ ہو کرپیوند ہوجاوے۔جس قدر یہ نسبت ہو گی۔ اسی قدر فائدہ ہو گا۔
بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی۔ایسی بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہوتا ہے۔اسی وقت حصہ دار ہو گا جب اپنے وجود کو ترک کر کے بالکل محبت اور اخلاص کے ساتھ اس کے ساتھ ہو جاوے۔منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ سچا تعلق نہ ہونے کی وجہ سے آخر بے ایمان رہے۔ ان کو سچی محبت اور اخلاص پیدا نہ ہوا۔اس لیے ظاہری لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ان کے کام نہ آیا۔ تو ان تعلقات کو بڑھانا بڑا ضروری امر ہے۔اگر ان تعلقات کو وہ (طالب ) نہیں بڑھاتا اور کوشش نہیں کرتا۔ تو اس کا شکوہ اور افسوس بے فائدہ ہے۔محبت و اخلاص کا تعلق بڑھانا چاہئے۔جہاں تک ممکن ہو اس انسان (مُرشد)کے ہمرنگ ہو۔طریقوں میں اور اعتقاد میں۔نفس لمبی عمر کے وعدے دیتا ہے۔یہ دھوکا ہے۔عمر کا اعتبار نہیں ہے۔جلدی راستبازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہیےاور صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہیئے۔
(ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۵، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
اپنی ہمت اور کوشش پر نازمت کرواور مت سمجھو کہ یہ کامیابی ہماری کسی قابلیت اور محنت کا نتیجہ ہے،بلکہ یہ سوچوکہ اس رحیم خدا نے جوکبھی کسی کی سچی محنت کو ضائع نہیں کرتا ہے۔ہماری محنت کو بارورکیا ورنہ کیا تم نہیںدیکھتے کہ صدہاطالب علم آئے دن امتحانوں میں فیل ہوتے ہیں۔کیا وہ سب کے سب محنت نہ کرنے والے اور بالکل غبی اور بلیدہی ہوتے ہیں؟نہیںبلکہ بعض ایسے ذکی اور ہوشیار ہوتے ہیںکہ پاس ہونے والوں میںسے اکثر کے مقابلہ میں ہوشیارہوتے ہیں۔اس لیے واجب اور ضروری ہے کہ ہر کامیابی پر مومن خداتعالیٰ کے حضور سجدات شکر بجالائے کہ اس نے محنت کو اکارت تو نہیںجانے دیا۔اس شکر کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت بڑھے گی اور ایمان میںترقی ہوگی اور نہ صرف یہی بلکہ اور بھی کامیابیاںملیں گی،کیونکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کا شکر کرو گے،تو البتہ میں نعمتوں کو زیادہ کروں گا۔اوراگرکفران نعمت کرو گے،تو یادرکھو،عذاب سخت میں گرفتار ہوگے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۹۸،ایڈیشن ۱۹۸۸ء)