سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

براہین احمدیہ کی مالی معاونت کرنے والےخوش بخت

(گذشتہ سے پیوستہ)اوراس اشتہارمیں جن نوابوں اوررؤساء کے نام نامی درج فرمائے وہ یہ تھے:

۱۔جناب نواب شاہ جہان بیگم صاحبہ بالقابہ فرمان فرمائے بھوپال

۲۔جناب نواب علاؤالدین احمد خان بہادر والی لوہارو

۳۔جناب مولوی محمد چراغ علی خان صاحب نائب معتمد مدار المہام دولت آصفیہ حیدر آباد دکن

۴۔جناب غلام قادر خان صاحب وزیر ریاست نالہ گڈھ پنجاب

۵۔جناب نواب مکرم الدولہ بہادر حیدر آباد

۶۔جناب نواب نظیر الدولہ بہادر بھوپال

۷۔جناب نواب سلطان الدولہ بہادر بھوپال

۸۔جناب نواب علی محمد خان صاحب بہادر لودھیانہ پنجاب

۹۔جناب نواب غلام محبوب سبحانی خان صاحب بہادر رئیس اعظم لاہور

۱۰۔ جناب سردار غلام محمد خان صاحب رئیس واہ

۱۱۔جناب مرزا سعیدالدین احمد خان صاحب بہادر اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر فیروزپور(براہین احمدیہ حصہ اوّل،روحانی خزائن جلداول صفحہ3)

ان میں سے بعض ایسے رئیس بھی تھے کہ وہ ایک ایک لاکھ روپے اس کارِ خیر کے لیے دے سکتے تھے۔لیکن سوائے چند ایک کے کسی کو توفیق نہ ہوسکی کہ وہ اس کارِخیر میں حصہ لے سکتااوراس عظیم الشان جہاد میں وہ شامل ہوسکتا۔ آپؑ نے ہرطرح سے ان لوگوں کو توجہ دلائی ،شرم اورغیرت بھی دلائی، دین کے نام پر، خداکے نام پر، خداکے رسول ﷺ کے نام پر لیکن یہ دولت مند اوررئیس اورنواب غریب غرباء بن گئے۔آپؑ نے انہیں دوسری قوموں کی دینی خدمت اوراعانت کے جذبہ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا:

’’یا اللّٰہ

مسلمانوں کی حالت اور اسلام کی غربت اور نیزبعض ضروری امور سے اطلاع

آج کل غربت اسلام کی علامتیں اور دین متین محمدؐی پر مصیبتیں ایسی ظاہر ہورہی ہیں کہ جہاں تک زمانہ بعثت حضرتِ نبویؐ کے بعد میں ہم دیکھتے ہیں کسی قرن میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔ اس سے زیادہ تر اور کیا مصیبت ہوگی کہ مسلمان لوگ دینی غمخواری میں بغایت درجہ سست اور مخالف لوگ اپنے اعتقادوں کی ترویج اور اشاعت میں چاروں طرف سے کمربستہ اور چست نظر آتے ہیں۔ جس سے دن بدن ارتداد اور بدعقیدگی کا دروازہ کھلتا جاتا ہے۔ اور لوگ فوج در فوج مرتد ہوکر ناپاک عقائد اختیار کرتے جاتے ہیں۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے مخالف جن کے عقائد فاسدہ بدیہی البطلان ہیں۔ دن رات اپنے اپنے دین کی حمایت میں سرگرم ہیں بحدیکہ یورپ اور امریکہ میں عیسائی دین کے پھیلانے کے لئے بیوہ عورتیں بھی چندہ دیتی ہیں۔ اور اکثر لوگ مرتے وقت وصیت کرجاتے ہیں کہ اس قدر ترکہ ہمارا خالص مسیحی مذہب کے رواج دینے میں خرچ ہو۔ مگر مسلمانوں کا حال کیا کہیں اور کیا لکھیں کہ ان کی غفلت اس حد تک پہنچ گئی ہےکہ نہ وہ آپ دین کی کچھ غمخواری کرتے ہیں اور نہ کسی غمخوار کو نیک ظنی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ خیال کرنا چاہیے کہ غمخواریٴ دینی کا کیسا موقعہ تھا۔ اور خدمت گزاری کا کیا ضروری محل تھا کہ کتاب براہین احمدیہ کہ جس میں تین سو مضبوط دلیل سے حقیت اسلام ثابت کی گئی ہے اور ہرایک مخالف کے عقائد باطلہ کا ایسا استیصال کیا گیا ہے کہ گویا اس مذہب کو ذبح کیا گیا کہ پھر زندہ نہیں ہوگا۔ اس کتاب کے بارے میں بجز چند عالی ہمت مسلمانوں کے جن کی توجہ سے دو حصے اور کچھ تیسرا حصہ چھپ گیا۔ جو کچھ اور لوگوں نے اعانت کی وہ ایسی ہے کہ اگر بجائے تصریح کے صرف اسی پر قناعت کریں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن تو مناسب ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 2،روحانی خزائن جلداول صفحہ134)

پھرفرماتے ہیں :’’دوسری قومیں کہ جن کی الہامی کتابوں میں اس بارے میں کچھ تاکید بھی نہیں تھی وہ اپنی دلی تدبیر سے اپنے دین کی اشاعت کے شوق سے مضمون تعاونوا پر عمل کرتی جاتی ہیں اور خیالاتِ مذہبی ان کے بباعث قومی تعاون کے روزبروز زیادہ سے زیادہ پھیلتے چلے جاتے ہیں آج کل عیسائیوں کی قوم کو ہی دیکھو جو اپنے دین کے پھیلانے میں کس قدر دلی جوش رکھتے ہیں اور کیا کچھ محنت اور جانفشانی کررہے ہیں لاکھ ہا روپیہ بلکہ کروڑہا ان کا صرف تالیفات جدیدہ کے چھپوانے اور شائع کرنے کی غرض سے جمع رہتا ہے ایک متوسط دولت مند یورپ یا امریکہ کا اشاعت تعلیم انجیل کے لئے اس قدر روپیہ اپنی گرہ سے خرچ کردیتا ہے جو اہل اسلام کے اعلیٰ سے اعلیٰ دولت مند من حیث المجموع بھی اس کی برابری نہیں کرسکتے یوں تو مسلمانوں کا اس ملک ہندوستان میں ایک بڑا گروہ ہے اوربعض بعض متمول اور صاحب توفیق بھی ہیں مگر امور خیر کی بجاآوری میں (باستثنائے ایک جماعت قلیل اُمراء اور وُزراء اور عہدہ داروں کے) اکثر لوگ نہایت درجہ کے پست ہمت اور منقبض الخاطر اور تنگ دل ہیں کہ جن کے خیالات محض نفسانی خواہشوں میں محدود ہیں اور جن کے دماغ استغنا کے موادردیّہ سے متعفن ہورہے ہیں یہ لوگ دین اور ضروریات دین کو تو کچھ چیز ہی نہیں سمجھتے۔ ہاں ننگ و نام کے موقعہ پر سارا گھر بار لٹانے کو بھی حاضر ہیں۔ خالصاً دین کے لئے عالی ہمت مسلمان (جیسے ایک سیدنا ومخدومنا حضرت خلیفہ سید محمدحسن خان صاحب بہادر وزیراعظم پٹیالہ) اس قدر تھوڑے ہیں کہ جن کو انگلیوں پر بھی شمار کرنے کی حاجت نہیں۔

ماسوا اس کے بعض لوگ اگر کچھ تھوڑا بہت دین کے معاملہ میں خرچ بھی کرتے ہیں تو ایک رسم کے پیرایہ میں نہ واقعی ضرورت کے انجام دینے کی نیت سے جیسے ایک کو مسجد بنواتے دیکھ کر دوسرا بھی جو اس کا حریف ہے خواہ نخواہ اس کے مقابلہ پر مسجد بنواتا ہے اور خواہ واقعی ضرورت ہو یا نہ ہو مگر ہزارہا روپیہ خرچ کرڈالتا ہے کسی کو یہ خیال پیدا نہیں ہوتا جو اس زمانہ میں سب سے مقدم اشاعت علم دین ہے اور نہیں سمجھتے کہ اگر لوگ دیندار ہی نہیں رہیں گے تو پھر ان مسجدوں میں کون نماز پڑھے گا صرف پتھروں کے مضبوط اور بلند میناروں سے دین کی مضبوطی اور بلندی چاہتے ہیں اور فقط سنگ مرمر کے خوبصورت قطعات سے دین کی خوبصورتی کے خواہاں ہیں لیکن جس روحانی مضبوطی اور بلندی اور خوبصورتی کو قرآن شریف پیش کرتا ہے اور جو اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَفَرْعُھَا فی السَّمَاء کا مصداق ہے اس کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور اس شجرہ طیبہ کے ظل ظلیل دکھلانے کی طرف ذرا متوجہ نہیں ہوتے۔ اور یہود کی طرح صرف ظواہر پرست بن رہے ہیں۔ نہ دینی فرائض کو اپنے محل پر ادا کرتے ہیں اور نہ ادا کرنا جانتے ہیں اور نہ جاننے کی کچھ پروا رکھتے ہیں۔

اگرچہ یہ بات قابل تسلیم ہے جو ہر سال میں ہماری قوم کے ہاتھ سے بے شمار روپیہ بنام نہاد خیرات و صدقات کے نکل جاتا ہے مگر افسوس جو اکثر لوگ ان میں سے نہیں جانتے کہ حقیقی نیکی کیا چیز ہے اور بذل اموال میں اصلح اور انسب طریقوں کو مدنظر نہیں رکھتے اور آنکھ بند کرکے بے موقع خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر جب ساراشوقِ دِلی اسی بے موقع خرچ کرنے میں تمام ہوجاتا ہے تو موقعہ پر آکر اصلی فرض کے ادا کرنے سے بالکل قاصر رہ جاتے ہیں اور اپنے پہلے اسراف اور افراط کا تدارک بطور تفریط اور ترک ماوجب کے کرنا چاہتے ہیں یہ ان لوگوں کی سیرت ہے کہ جن میں روح کی سچائی سے قوت فیاضی اور نفع رسانی کی جوش نہیں مارتی بلکہ صرف اپنی ہی طمع خاص سے مثلاً بوڑھے ہوکر پیرانہ سالی کے وقت میں آخرت کی تن آسانی کا ایک حیلہ سوچ کر مسجد بنوانے اور بہشت میں بنا بنایا گھر لینے کا لالچ پیدا ہوجاتا ہے اور حقیقی نیکی پر ان کی ہمدردی کا یہ حال ہے کہ اگر کشتی دین کی ان کی نظر کے سامنے ساری کی ساری ڈوب جائے یا تمام دین ایک دفعہ ہی تباہ ہوجائے تب بھی ان کے دل کو ذرا لرزہ نہیں آتا اور دین کے رہنے یا جانے کی کچھ بھی پروا نہیں رکھتے اگر درد ہے تو دنیا کا اگر فکر ہے تو دنیا کا اگر عشق ہے تو دنیا کا اگر سودا ہے تو دنیا کا اور پھر دنیا بھی جیسا کہ دوسری قوموں کو حاصل ہے حاصل نہیں ہریک شخص جو قوم کی اصلاح کے لئے کوشش کررہا ہے وہ ان لوگوں کی لاپروائی سے نالاں اور گریاں ہی نظر آتا ہے اور ہر یک طرف سے یاحسرتًا علی القوم کی ہی آواز آتی ہے اوروں کی کیا کہیں ہم آپ ہی سناتے ہیں۔ہم نے صدہا طرح کا فتور اور فساد دیکھ کر کتاب براھین احمدیہ کو تالیف کیا تھا اور کتاب موصوف میں تین سو مضبوط اور محکم عقلی دلیل سے صداقت اسلام کو فی الحقیقت آفتاب سے بھی زیادہ تر روشن دکھلایا گیا چونکہ یہ مخالفین پر فتح عظیم اور مومنین کے دل و جان کی مراد تھی اس لئے اُمراء اسلام کی عالی ہمتی پر بڑا بھروسا تھا جو وہ ایسی کتاب لاجواب کی بڑی قدر کریں گے اور جو مشکلات اس کی طبع میں پیش آرہی ہیں۔ ان کے دُور کرنے میں بدل و جان متوجہ ہوجائیں گے مگر کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کیا تحریر میں لاویں اللّٰہ المستعان واللّٰہ خیر و ابقی!! ‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلداول صفحہ60تا62) اور تو اور حضرت اقدس علیہ السلام نے ان رئیسوں کو اپنے ہاتھ سے کتابیں پیک کرکے رجسٹری کرکے بھیجیں کہ دیکھیں کتنی عظیم الشان دینی مہم شروع ہے آپ اس دینی مہم کے کارِ خیر میں حصہ لیں یا کم ازکم خریداربنتے ہوئے پانچ روپے ہی بھیج دیں۔لیکن ان کی بدنصیبی نہ جانے کتنی پشتوں کی تھی کہ انہیں یہ توفیق نہ ملی اورسردمہری کا حال یہ تھا کہ حضورعلیہ السلام نے فرمایا کہ کم ازکم میری کتابیں تو واپس کردو۔

آپؑ فرماتے ہیں :’’بعض صاحبوں نے قطع نظر اعانت سے ہم کو سخت تفکر اور تردد میں ڈال دیا ہے ہم نے پہلا حصہ جو چھپ چکا تھا اس میں سے قریب ایک سو پچاس جلد کے بڑے بڑے امیروں اور دولت مندوں اور رئیسوں کی خدمت میں بھیجی تھیں اور یہ امید کی گئی تھی جو امراء عالی قدر خریداری کتاب کی منظور فرما کر قیمت کتاب جو ایک ادنیٰ رقم ہے بطور پیشگی بھیج دیں گے اور ان کی اس طور کی اعانت سے دینی کام بآسانی پورا ہوجائے گااور ہزارہا بندگانِ خدا کو فائدہ پہنچے گا۔ اسی امید پر ہم نے قریب ڈیڑھ سو کے خطوط اور عرائض بھی لکھے اور بہ انکسار تمام حقیقت حال سے مطلع کیا مگر باستثناء دو تین عالی ہمتوں کے سب کی طرف سے خاموشی رہی نہ خطوط کا جواب آیا نہ کتابیں واپس آئیں مصارف ڈاک تو سب ضائع ہوئے لیکن اگر خدانخواستہ کتابیں بھی واپس نہ ملیں تو سخت دقت پیش آئے گی اور بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا افسوس جو ہم کو اپنے معزز بھائیوں سے بجائے اعانت کے تکلیف پہنچ گئی اگر یہی حمایت اسلام ہے تو کار دین تمام ہے ہم بکمال غربت عرض کرتے ہیں کہ اگر قیمت پیشگی کتابوں کا بھیجنا منظور نہیں تو کتابوں کو بذریعہ ڈاک واپس بھیج دیں ہم اسی کو عطیہ عظمیٰ سمجھیں گے اور احسان عظیم خیال کریں گے ورنہ ہمارا بڑا حرج ہوگا اور گم شدہ حصوں کو دوبارہ چھپوانا پڑے گا کیونکہ یہ پرچہ اخبار نہیں کہ جس کے ضائع ہونے میں کچھ مضائقہ نہ ہو ہریک حصہ کتاب کا ایک ایسا ضروری ہے کہ جس کے تلف ہونے سے ساری کتاب ناقص رہ جاتی ہے برائے خدا ہمارے معزز اخوان سردمہری اور لاپروائی کو کام میں نہ لائیں اور دنیوی استغناء کو دین میں استعمال نہ کریں۔ اور ہماری اس مشکل کو سوچ لیں کہ اگر ہمارے پاس اجزا کتاب کے ہی نہیں ہوں گے تو ہم خریداروں کو کیا دیں گے اور ان سے پیشگی روپیہ کہ جس پر چھپنا کتاب کا موقوف ہے کیونکر لیں گے۔ کام ابتر پڑ جائے گا اور دین کے امر میں جو سب کا مشترک ہے ناحق کی دقت پیش آجائے گی۔‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد اول صفحہ6۳،6۲)

(باقی آئندہ ہفتہ کو انشاء اللہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button