حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اسلام میں عدل کا حکم

یہ ساری چیزیں اور طاقتیں جو اللہ تعالیٰ نے دی ہیں۔ عدل کروگے، انصاف کروگے، احسان کرو گے، یہ سب چیزیں اگر عقل کے بغیر استعمال ہورہی ہیں، موقع و محل کے حساب سے استعمال نہیں ہو رہیں تو یہ کوئی اچھے اخلاق نہیں ہیں۔ تو یہ قرآن کریم کی پُر حکمت تعلیم ہے جو معاشرے میں قیام عدل کے لئے مزید راستے دکھاتی ہے۔ اگر ایک عادی چور کو جس کے معاملے میں سختی کا حکم ہے اگرچھوڑ دیں گے تویہ عدل نہیں ہے۔ لیکن ایک بھوکے کے لئے جو اپنی بھوک مٹانے کے لئے روٹی چُراتا ہے سزاکی بجائے روٹی کاانتظام ضروری ہے، یہ عدل ہے تاکہ اس کا اور ا س کے بیوی بچوں کا پیٹ بھرے اور یہ احسان کرنے سے پھرعدل قائم ہوگا۔ لیکن اگر یہی روٹی چرانے والا ایک عادی چور بن جاتاہے تو پھر اس کو سزا دینا عدل ہے۔ تو ہر موقع کے لحاظ سے جو عمل ہوگا وہ اصل میں عدل ہے۔

قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ توحید کا قیام اور حقوق العباد کی ادائیگی ہے اور اس کے لئے جو انسانی سوچ ہے اس میں عدل کا عنصر پیدا کرنا ضرور ی ہے۔ اس بات کو ذہن میں بٹھانے کے لئے اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتاہےیٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ (المائدۃ آیت 9)کہ اے وے لوگو جو ایمان لائے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تم کو ہرگز کسی بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتاہے جو تم کرتے ہو۔

تو یہ ہے عدل اور انصاف کی خوبصورت اور پُرحکمت تعلیم۔ پہلی بات یہ بتائی کہ اگر ایمان کا دعویٰ ہے، مومن کہلاتے ہو تو مومن تو ہمیشہ انصاف کی تائید میں کھڑا ہوتاہے۔ اس کا کام تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں عدل کا قیام ہے۔ اگر یہ سوچ رکھنے والے ہو تو مومن ہو کیونکہ اس کے بغیر ایمان ناقص ہے۔ پھر فرمایا کہ جب یہ سوچ بن جائے گی تو پھر عدل و انصاف تمہارے اندر سے پھوٹے گا اور جب دل کی آواز اللہ تعالیٰ کی رضا بن جائے، ا س کی تعلیم پر عمل کرنے والی بن جائے تو پھر کسی قسم کی دشمنی انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے ایک مومن کو کبھی نہیں روکے گی۔ پس مومن کاکام ہے کہ تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے ہمیشہ انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ اللہ تعالیٰ اسی ضمن میں فرماتاہے کہ اگر تم تقویٰ سے کام نہیں لوگے تو یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات بھی چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ایسا شخص جو اس عظیم تعلیم کوپاکربھی اس پر عمل نہیں کرتا، حقیقی مومن نہیں کہلاسکتا۔ پس یہ عدل قائم کرنے کی ایسی خوبصورت تعلیم ہے جو صرف قرآن کریم کا ہی خاصّہ ہے۔

(خطبہ جمعہ ۱۸؍جنوری ۲۰۰۸ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۸؍فروری۲۰۰۸ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button