حضرت مسیح موعودؑ کا عفو و درگزر
محمود اور فوزان کا کھیلتے کھیلتے جھگڑا ہوا تھااور وہ منہ بسورے بیٹھے تھے۔ دادی جان کو ان کی آواز پہنچی تو وہ معاملہ سلجھانے آ ئیں۔
محمود بیٹا آپ بتائیں کیا ہوا ہے؟ دادی جان محمود کو پاس بٹھاتے ہوئے بولیں۔
محمود: دادی جان میں فوزان کے ساتھ دوبارہ نہیں کھیلوں گا۔ یہ میری باری نہیں دیتا اور آؤٹ ہو جائے تو مانتا بھی نہیں ہے۔
فوزان فوراً بولا: نہیں دادی جان! میں آؤٹ نہیں ہوا۔ لیکن میں اسے باری دیتا ہوں بلکہ ابھی تو اس کی باری ہوگئی ہے یہ میری باری نہیں دے رہا۔ پھر محمود ہی مجھ سے جھگڑنے اورضد کرنے لگا۔ اور میں نے تو سوری بھی کہا تھا۔
محمود: دادی جان میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گا۔
دادی جان: مجھے لگ رہا ہے کہ یہ لڑائی بلاوجہ ہی ہوئی ہے۔ محمود آپ فوزان کی باری پوری کریں۔ پھر میرے پاس آئیں میں نے آپ دونوں سے بات کرنی ہے۔
محمود نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھا او فوزان کو بالنگ کروانے لگا۔
دادی جان ان دونوں کا میچ دیکھنے لگیں۔ کھیل ختم کر کے وہ دونوں دادی جان کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔
دادی جان نے انہیں پانی ڈال کر دیا اور کہا کہ محمود آپ کو تو بہت پریکٹس کی ضرورت ہے۔ فوزان کی گیم تو اچھی ہے۔
محمود: جی ٹھیک ہے دادی جان۔ گڑیا آپی اور احمد بھائی کب تک واپس آئیں گے؟
دادی جان: وہ تو لگتا ہے شام کو ہی آئیں گے۔ میں نے آپ دونوں کو اس لیے بلایا ہے کہ آپ کو بتاؤں کہ تحمل اور عفو و درگزرکیا ہوتاہے۔
محمود: دادی جان تحمل کا تو مجھےنہیں معلوم لیکن عفوودرگزر کے بارے میں آپ نے پہلے بتایا تھا۔
دادی جان: جی بالکل تحمل کہتے ہیں صبر اور برداشت کرنے کو۔ اور عفو و درگزر کے معنی ہیں معاف کر دینا،بخش دینا،درگزر کرنا،بدلہ لینے کی طاقت ہونے کے باوجود معاف کر دینا۔میں اس بارے میں ایک واقعہ سناؤں؟
فوزان: جی دادی جان! مجھے محمود اور احمد بتاتے ہیں کہ آپ انہیں مزے مزے کے واقعات اور کہانیاں سناتی ہیں۔
دادی جان: چلیں میں سناتی ہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی اکبر خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پر حضرت اقدسؑ کے مکان تک جانے کے لیے ایک اور رستہ ہوتاتھا۔ ایک دفعہ وہ لالٹین اٹھا کر حضرت اقدسؑ کو راستہ دکھانے لگے۔ اتفاق سے لالٹین ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور لکڑی پر تیل پڑا اور اوپر نیچے سے آگ لگ گئی۔ وہ بہت پریشان ہوئے۔ بعض لوگ بھی باتیں سنانے لگے۔ لیکن حضور نے فرمایا کہ خیر ایسے واقعات ہو ہی جاتے ہیں۔ مکان بچ گیا ۔ اور آپ ؑ نے ان کو کچھ نہ کہا۔(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ جلد اول صفحہ 104)
کیا سمجھ لگی محمود کو؟ دادی جان نے پوچھا
محمود: یہ کہ کسی سے غلطی ہو جائے تو کچھ نہیں کہنا چاہیے۔
دادی جان: جی بالکل۔ اسی طرح ایک اور واقعہ خان اکبر صاحب کا ہی ہے کہ جب وہ اپنا وطن چھوڑ کر قادیان آ گئے تو انہیںحضرت اقدسؑ نے اپنے مکان میں ٹھہرایا۔ حضورؑ کا قاعدہ یہ تھا کہ رات کو عموماً موم بتی جلا لیا کرتے تھے۔ اور بہت سی موم بتیاں اکٹھی روشن کر دیا کرتے تھے۔ ان دنوں ان کی بیٹی بہت چھوٹی تھی ایک د فعہ حضرت اقدسؑ کے کمرے میں بتی جلا کر رکھ آئی، اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بتی گر پڑی۔ اور حضورؑ کی کتابوں کے بہت سارے مسودات اور چند اور چیزیں جل گئیں اور نقصان ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوا کہ بہت سارا نقصان ہو گیا ہے۔ سب کو بہت سخت پریشانی اور گھبراہٹ شروع ہو گئی۔ وہ اور ان کی بیوی اور بیٹی بھی بہت پریشان تھی کہ حضورؑ اپنی کتابوں کے مسودات بڑی احتیاط سے رکھا کرتے تھے وہ سارے جل گئے لیکن جب حضورؑ کو اس بات کا علم ہوا تو کچھ نہیں فرمایا ۔سوائے اس کے کہ خداتعالیٰ کا بہت شکر ادا کرنا چاہئے کہ کوئی اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 103)
تو فوزان کو اس سے کیا سمجھ لگی؟
فوزان: مجھے بھی یہ سمجھ لگی کہ اگر بچوں سے کوئی غلطی سے نقصان ہوجائے تو بچوں کو کچھ نہیں کہنا چاہیے۔ دادی جان اور کوئی واقعہ بھی سنائیں۔
دادی جان: شاباش! ایک اور واقعہ بھی ہے۔ ایک عورت نے ایک بار حضرت مسیح موعودؑ کے گھر سے کچھ چاول چرائے۔ کسی نے دیکھ لیا جو وہاں موجود تھا اور شور پڑ گیا۔ اس کی بغل میں سے کوئی پندرہ سیر کے قریب چاولوں کی گٹھڑی نکلی۔ لوگ اس عورت کو ملامت کرنے لگے اور ڈانٹنا شروع ہو گئے۔ حضرت مسیح موعودؑ بھی کسی وجہ سے ادھر تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ کیا واقعہ ہے؟ تو لوگوں نے تفصیل عرض کی۔ تو فرمایا کہ یہ محتاج ہے کچھ تھوڑے سے اسے دے دو اور فضیحت نہ کرو یعنی بلاوجہ اس کو کچھ نہ کہو۔ اور خداتعالیٰ کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو۔ (سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 105-106)
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے معاف کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی طرح پردہ پوشی کرنی چاہیے۔ کچھ احسان بھی کرنا چاہیے۔
محمود: دادی جان یہ احسان کیا ہوتا ہے؟
دادی جان: احسان سے مراد یہ ہے کہ نہ صرف معاف کرنا چاہیے بلکہ کچھ اضافی نیکی یا حسنِ سلوک بھی کرنا چاہیے اور آپ نے اجتماع میں یہ نظم سنی ہوئی ہے ناں! اور جلسے پر بھی پڑھی گئی ہے
میں اپنے پیاروں کی نسبت
ہرگز نہ کروں گا پسند کبھی
وہ چھوٹے درجہ پہ راضی ہوں
اور اُن کی نگاہ رہے نیچی
فوزان فوراً بولا:
وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر
شیروں کی طرح غراتے ہوں
ادنیٰ سا قصور اگر دیکھیں
تو منہ میں کف بھر لاتے ہوں
محمود: دادی جان! مجھے سمجھ لگ گئی ہے۔ میں فوزان سے سوری کرتا ہوں کہ اس سے بلاوجہ جھگڑا کیا۔
فوزان: اور میں بھی محمود سے معذرت کرتا ہوں کہ میں نے بھی جھگڑا کیا۔
محمود: اور دادی جان میں سوچ رہا ہوں کہ فوزان کو جوس بھی پلایاجائے۔ کیا آپ جوس بنادیں گی۔
دادی جان: کیوں نہیں۔ چلیں اندر چلتے ہیں!
٭… ٭… ٭… ٭… ٭