جنگِ مریسیع کےحالات و واقعات کابیان نیز بنگلہ دیش اور پاکستان کے احمدیوں نیز فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعاؤں کی تحریک: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍ اگست ۲۰۲۴ء
٭… قريب تھا کہ کمزور مسلمانوں ميں خانہ جنگي تک نوبت پہنچ جاتي۔ مگر آنحضرتﷺ کي موقع شناسي اور مقناطيسي اثر نے اس کے خطرناک نتائج سے مسلمانوں کو بچا ليا
٭… عبداللہ بن ابي کے بيٹے نے آنحضورﷺ سے عرض کيا کہ يا رسول اللہﷺ !آپ مجھے حکم ديں تو مَيں في الفور عبداللہ بن ابي کا سر آپ کي خدمت ميں پيش کردوں
آنحضورﷺ نے فرمايا کہ نہ مَيں نے اس کے قتل کا ارادہ کيا ہے اور نہ کسي کو ايسا حکم ديا ہے۔ ہم ضرور اس کے ساتھ حسنِ سُلوک کريں گے
٭…بنگلہ دیش اور پاکستان کے احمدیوں نیز فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعاؤں کی تحریک
٭… احمديوں کو بنگلہ دیش کے اُس علاقے ميں جلسے کے دوران دو دفعہ نقصان اٹھانا پڑا ہے ليکن اُن کے ايمان ميں کوئي لغزش نہيں آئي۔ اللہ تعاليٰ کے فضل سے ايمان ميں مضبوط ہيں اور انہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعاليٰ کي خاطر ہم يہ سب برداشت کريں گے
٭… مکرم ڈاکٹر ذکاء الرحمٰن صاحب شہيد ابن چودھری عبدالرحمٰن صاحب آف لالہ موسيٰ ضلع گجرات اور محترمہ سعيدہ بشير صاحبہ اہليہ ملک بشير احمد صاحب کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۹؍اگست ۲۰۲۴ء بمطابق۹؍ظہور ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۹؍اگست۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت دانیال تصور صاحب (مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جلسے سے پہلے کے خطبات میں
جنگِ مریسیع کے حوالے سے ذکر ہورہا تھا۔
یہ بھی ذکر ہوا تھا کہ عبداللہ بن ابی نے آنحضرتﷺ کے متعلق غلط باتیں کیں اور منافقانہ رویّہ اختیار کیا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں اس واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جنگ کے اختتام کے بعد آنحضرتﷺ نے چند دن تک مریسیع میں قیام فرمایا مگر اس قیام کے دوران منافقین کی طرف سے ایسا ناگوار واقعہ پیش آیا جس سے قریب تھا کہ کمزور مسلمانوں میں خانہ جنگی تک نوبت پہنچ جاتی۔ مگر
آنحضرتﷺ کی موقع شناسی اور مقناطیسی اثر نے اس کے خطرناک نتائج سے مسلمانوں کو بچا لیا۔
واقعہ یوں ہوا کہ حضرت عمرؓ کا ایک نوکر جہجاہ نامی مریسیع کے ایک چشمے پر پانی لینے گیا تو اتفاقاً اسی وقت ایک دوسرا شخص سنان نامی بھی، جو انصار کے حلیفوں میں سے تھا وہاں پانی لینے پہنچا۔ یہ دونوں شخص جاہل اور عامی لوگوں میں سے تھے۔ چشمے پر یہ دونوں شخص آپس میں لڑ پڑے۔ جہجاہ نے سنان کو ایک ضرب لگا دی، سنان نے زور زور سے چِلّانا شروع کردیا کہ اے انصار کے گروہ! میری مدد کے لیے آؤ۔ جب جہجاہ نے یہ دیکھا تو اس نے بھی مہاجرین کو اپنی مدد کے لیے بلایا۔ جن انصار و مہاجرین کے کانوں میں یہ آواز پہنچی وہ تلواریں لے کر چشمے کی جانب لپکے اور دیکھتے دیکھتے وہاں اچھا خاصا مجمع ہوگیا۔ قریب تھا کہ دونوں گروہ ایک دوسرے پر حملہ آور ہوجاتے ایسے میں
بعض سمجھدار لوگوں نے مہاجرین اور انصار کو الگ الگ کرواکر صلح صفائی کروادی۔ آنحضورﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ نے اسے جاہلیت کا مظاہرہ قرار دیا اور ناراضی کا اظہار فرمایا۔
جب منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی بن سُلول کو اس واقعے کی اطلاع پہنچی تو اس نے اس فتنے کو پھر جگانا چاہا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو آنحضورﷺ اور مسلمانوں کے خلاف خوب اُکسایا اور یہاں تک کہہ دیا کہ جب ہم مدینے جائیں گے تو عزت والا شخص یا گروہ ذلیل شخص یا گروہ کو شہر سے باہر نکال دے گا۔ اُس وقت ایک مخلص مسلمان بچہ زید بن ارقمؓ وہاں موجود تھا اس نے یہ الفاظ سنے تو فوراً اپنے چچا کے ذریعے اس بات کی اطلاع آنحضورﷺ کو پہنچائی۔ حضرت عمرؓ نے یہ الفاظ سنے تو غصّے سے بھر گئے اور رسول اللہﷺ سے عبداللہ بن ابی کے قتل کی اجازت چاہی۔ مگر
حضورِ اکرمﷺ نے نرمی کا ارشاد فرمایا
اور عبداللہ اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا۔ انہوں نے قسم کھائی کہ ہم نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ آنحضورﷺ نے اُسی وقت کُوچ کا حکم دیا اور مسلمان لشکر روانہ ہوگیا۔ اس موقعے پر اُسید بن حضیرؓ نے آنحضورﷺ سے فوری بے وقت کُوچ کے متعلق دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ تم نے عبداللہ بن ابی کے الفاظ نہیں سنے۔ اُسید نے کہا کہ ہاں یا رسول اللہﷺ !آپ چاہیں تو مدینے پہنچ کر عبداللہ بن ابی کو شہر بدر کرسکتے ہیں۔
جب عبداللہ بن ابی کے بیٹے کو علم ہوا تو انہوں نے آنحضورﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ !آپ مجھے حکم دیں تو مَیں فی الفور عبداللہ بن ابی کا سر آپ کی خدمت میں پیش کردوں۔
آنحضورﷺ نے فرمایا کہ نہ مَیں نے اس کے قتل کا ارادہ کیا ہے اور نہ کسی کو ایسا حکم دیا ہے۔ ہم ضرور اس کے ساتھ حسنِ سُلوک کریں گے۔
اس سفر کے دوران رسول اللہﷺ پر وحی نازل ہوئی جس میں زید بن ارقمؓ کے بیان کی تصدیق ہوگئی۔
حضرت مصلح موعودؓ یہ سارا واقعہ بیان کرکے فرماتے ہیں کہ جب لشکرِ اسلامی مدینے کے قریب پہنچا تو عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے آگے بڑھ کر اپنے باپ کا رستہ روک لیا اور کہا کہ مَیں تمہیں مدینے کے اندر داخل نہیں ہونے دوں گا تاوقتیکہ تم وہ الفاظ واپس نہ لو جو تم نے آنحضرتﷺ کے خلاف استعمال کیے ہیں۔ جس منہ سے یہ بات نکلی ہے کہ خدا کا نبی ذلیل ہے اور تم معزز ہو اسی منہ سے تمہیں یہ بات کہنی ہوگی کہ خدا کا نبی معزز ہے اور تم ذلیل ہو۔ عبداللہ بن ابی بن سُلول حیران اور خوف زدہ ہوگیا اور کہنے لگا
اے میرے بیٹے! مَیں تمہارے ساتھ اتفاق کرتا ہوں محمد(ﷺ) معزز ہیں اور مَیں ذلیل ہوں۔ نَوجوان عبداللہ نے اس بات پر اپنے باپ کو چھوڑ دیا۔
اس سفر کے دوران حضورﷺ کی اونٹنی بھی گُم گئی تھی۔ منافقین میں سے ایک شخص اس پر خوشیاں منانے لگا اور ایک مجلس میں کہا کہ رسول اللہﷺ کو تو غیب کی بڑی بڑی خبریں مل جاتی ہیں تو کیا اِس اونٹنی کا علم نہیں ہوسکتا۔ مجلس میں موجود لوگوں نے اس کی منافقانہ باتیں سنیں تو اسے خود سے الگ کردیا۔ وہ شخص رسول اللہﷺ کی مجلس میں پہنچا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس واقعے پر ایک شخص خوشیاں منارہا ہے،
غیب کا علم صرف خدا تعالیٰ کو ہے اور اس نے مجھے اس اونٹنی کے متعلق بتا دیا ہے وہ سامنے اس گھاٹی میں ہے۔
اس پر وہ منافق شخص حیران اور ششدر رہ گیااور بہت نادم ہوا اس نے اپنے ساتھیوں کی مجلس میں کہا کہ مجھے رسول اللہﷺ کے معاملے میں شک تھا مگر آج سارے شک دُور ہوگئے اور گویا مَیں آج ہی مسلمان ہوا ہوں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اس کی مزید تفصیل اور واقعات ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوں گے۔
فرمایا اِ س وقت
مَیں بنگلہ دیش کے حالات کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
حکومت کے خلاف وہاں فساد ہوا تھا، حکومت تو ختم ہوگئی مگر فساد جاری ہے، کل سے تھوڑی سی بہتری آئی ہے۔ ان حالات سے جماعت مخالف گروہ نے فائدہ اٹھاکر احمدیوں کو نقصان پہنچانا شروع کردیا ہے۔ ہماری بعض مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی، اور انہیں جلایا گیا۔ جامعہ احمدیہ اور جماعتی عمارات کو نقصان پہنچایا گیا۔ وہاں توڑ پھوڑ کی گئی ہے اور سامان جلایا گیا ہے۔ کئی احمدی زخمی ہوئے ہیں ان کے گھروں کو جلایا گیا ہے، نقصان پہنچایا گیا ہے۔ بعض گھروں کو مکمل جلادینے کی اطلاعات ہیں۔ بالکل لاقانونیت ہے۔
احمدیوں کو اُس علاقے میں جلسے کے دوران دو دفعہ نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن اُن کے ایمان میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان میں مضبوط ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہم یہ سب برداشت کریں گے۔
اللہ تعالیٰ رحم اور فضل فرمائے اور احمدیوں کو اپنی امان میں رکھے۔ مخالفین کی پکڑ فرمائے۔
اسی طرح پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں وہاں بھی پھر سخت حالات پیدا ہوگئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہر شر سے محفوظ رکھے۔ آج کل ملاں اور مفاد پرست لوگ احمدیوں کے خلاف مزید سرگرم ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کے نام پر یہ لوگ ظلم کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کے بھی جلد سامان فرمائے۔
فلسطین کے مسلمانوں کے لیے بھی دعاکریں اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کی پکڑ کرے اور یہ ظلم ختم ہو۔
عمومی طور پر مسلمان دنیا کے لیے دعا کریں۔ یہ آپس میں جو ظلم کر رہے ہیں یہ ختم ہوں اور یہ اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق پیدا کرنے والے ہوں۔ زمانے کے امام کو ماننے والے ہوں۔ یہی ان کی بقا اور نجات کا رستہ ہے۔
خطبے کے آخری حصے میں حضورِ انور نے درج ذیل دو مرحومین کا ذکرِ خیر فرمایااور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا:
۱۔مکرم ڈاکٹر ذکاء الرحمٰن صاحب شہید ابن چودھری عبدالرحمٰن صاحب لالہ موسیٰ ضلع گجرات۔ مرحوم کو گذشتہ دنوں جلسے کے ایام میں 53؍برس کی عمر میں شہید کردیا گیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔مرحوم مالی قربانیوں میں پیش پیش، خدمتِ خلق کا جذبہ رکھنے والے، غریب مریضوں کا مفت علاج کرنے والے تھے۔ مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔
۲۔محترمہ سعیدہ بشیر صاحبہ اہلیہ ملک بشیر احمد صاحب۔ مرحومہ گذشتہ دنوں ۸۳؍برس کی عمر میں وفات پاگئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔مرحومہ ملک غلام احمد صاحب مربی سلسلہ گھانا کی والدہ تھیں جو میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنی والدہ کے جنازے اور تدفین میں شامل نہیں ہوسکے۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔پسماندگان میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ مرحومہ تہجد گزار، پنجوقتہ نماز کی پابند، خلافت سے اخلاص و وفا کا تعلق رکھنے والی،دعا گو، اللہ کی رضا پر راضی رہنے والی، نیک اور بزرگ خاتون تھیں۔
حضورِانور نے مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعاکی۔
٭…٭…٭