ایڈیٹر کے نام خط
م م محمود صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مورخہ12؍جولائی ۲۰۲۴ء کے الفضل میں مکرم محترم مولانا عطاء المجیب صاحب راشدامام مسجد فضل لندن کے قلم سے مرقوم نہایت ایمان افروز’’مکرم داؤد ڈگلس سمرز صاحب کا ذکرِ خیر‘‘پڑھا۔جس میں ذکرِ الٰہی، انفاق فی سبیل اللہ اور قرآنِ کریم سے محبت کے پہلو نمایاں تھے۔25؍ستمبر1957ء کے روزنامہ الفضل میں مکرم مولانا مبارک احمد ساقی صاحب مرحوم کا ڈگلس سمرز صاحب کے بارےمیں ایک مضمون شائع ہوا جبکہ موصوف مولانا ساقی صاحب مرحوم سے رابطہ میں تھے۔مذکورہ مضمون اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مکرم ڈگلس صاحب کی سعیدفطرت کو قرآن کریم سے محبت ورغبت اس وقت پیدا ہوچکی تھی جبکہ ڈگلس صاحب نے ابھی اسلام قبول نہ کیا تھا۔
قارئین کے استفادہ کی خاطر مذکورہ مضمون ارسال ہے۔اللہ تعالیٰ مرحوم و مغفور ڈگلس سمرز صاحب کے درجات بلند فرمائےاورمولانا مبارک احمد ساقی صاحب مرحوم کی روح کو بھی اس نیکی کااجر عطا فرمائے کہ انہوں نے ڈگلس صاحب کی قبل از اسلام سیرت کے اس پہلو کو تاریخ احمدیت کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔
’’ہمارے ایک غیر مسلم دوست مسٹر ڈگلس سمرس جو ان دنوں اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔گزشتہ دنوں بعض سوالات پوچھنے کے لیے مشن ہاؤس آئے۔گفتگو کے دوران انہوں نے اپنے جو حالات بیان کئے ہیں وہ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔آپ نے بتایا کہ میں ابتداءً چرچ آف انگلینڈ کا ممبر تھا اور میرے والدین کا خیال تھا کہ مجھے پادری بنایا جائے لیکن مجھے چھوٹی عمر میں ہی چرچ کی تعلیمات سے کچھ نفرت سی ہو گئی اور میں نے چرچ آف انگلینڈ کی بجائے رومن کیتھولک فرقہ میں شمولیت اختیار کی۔وہاں بھی اطمینانِ قلب نصیب نہ ہوا اور آئے دن عیسائیت کی بنیادی تعلیمات میں بھی شبہ پیدا ہونا شروع ہوا۔کہنے لگے جب میں نے بائبل میں پڑھا کہ مسیح نے مصیبت کے وقت میں نے رو رو کر دعائیں کیں کہ وہ اس سے موت کا پیالہ کو ٹال دے تو میرے دل سے مسیح کی الوہیت بالکل محو ہو گئی۔
اس کے بعد میں نے بدھ مذہب کا مطالعہ شروع کیا وہاں بھی چین نہ پایا اور فیصلہ کیا کہ اس مذہبی کشمکش سے بالکل علیحدگی اختیار کر لوں۔چنانچہ میں کافی عرصہ تک لا مذہب رہا اور نہ ہی کسی مذہب کی تعلیمات میرے لیے باعثِ کشش رہیں۔
لامذہبیت مجھ پر تقریباً ایک سال تک چھائی رہی۔اس کے بعدمیں نے اسلام کا مطالعہ شروع کیا۔ابھی میں نے چند ابتدائی کتب ہی پڑھی تھیں کہ ایک حادثہ میں میری بیوی کا انتقال ہو گیا۔ا س وقت میرا بچہ بہت ہی چھوٹا تھا۔اس کی دیکھ بھال تمام تر مجھے ہی کرنی پڑتی تھی اور گھر میں کوئی اور رشتہ دار بھی نہ تھا جو میرا ہاتھ بٹا سکے۔
انہی دنوں لیبارٹری میں جہاں میں کام کر رہا تھا، ہم ایک ایسا کمپاؤنڈ تیار کر رہے تھے کہ جسے بناتے وقت لیبارٹری میں کسی شخص کو بھی بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔کیونکہ اس میں بعض زہریلے ذرات تھے جن کا منہ کے ذریعہ پیٹ میں داخل ہونے کا ڈر تھا۔
جب میں صبح کام کے لیے جاتا تو تمام لوگ اپنا اپنا اخبار پڑھنے میں مصروف ہوتے۔جب شام کو واپس لوٹتے وقت بس پر سوار ہوتا تو لوگ شام کااخبار پڑھ رہے ہوتے۔لیبارٹری میں بھی کسی کو کلام کرنے کی اجازت نہ تھی۔گھر میں بچہ اس قدر چھوٹا تھا کہ اس سے بات چیت نہ ہو سکتی اور اس طرح میرے چوبیس گھنٹے ہی خاموش گزرتے۔یہ صورت حال تقریباً تین سال تک جاری رہی اور یہ زمین تمام فراخی کے باوجود مجھ پر تنگ ہو گئی۔
آپ نے کہا ان دنوں میں نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا۔میں سنا کرتا تھا کہ کتاب انسان کا بہترین ساتھی ہے لیکن مجھے کبھی ا س بات پر یقین نہ آیا تھالیکن قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات مجھ پر عیاں ہو گئی۔چنانچہ میں نےاس عرصہ میں قرآن مجیدکوشروع سے لے کر آخیر تک چھ دفعہ پڑھا اور قرآن کے جس قدر انگریزی تراجم دستیاب ہو سکتے تھے،سب کو لفظاً لفظاً پڑھا۔اس مطالعہ سے مجھے خداتعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین ہوا اور بہت سے دیگر نکات کا بھی مجھے پتہ چلا اور مجھے قرآن سے اس قدر محبت ہوئی کہ جب میں ایک دفعہ ختم کرتا تھا تو تسلی نہ ہو تی تھی اور پھر ازسرِ نو مطالعہ شروع کر دیتا تھا۔غرضیکہ ہر صبح و شام اس کی تلاوت میں مصروف رہتا۔میں نے اس تین سال کے عرصہ میں قرآن مجید کو اپنا سب سے بڑا ہمدرد اور مددگار پایااور اب میں اپنے دل کی گہرائیوں سے کہتا ہوں کہ قرآن مجید میرا بہترین دوست ہے۔
اب ہمارے دوست مسٹر ڈگلس سمرس احمدیت کے لٹریچر کا مطالعہ کر رہے ہیں۔احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلد از جلد ہدایت نصیب کرے۔آمین‘‘(روزنامہ الفضل25ستمبر1957ء صفحہ3)