محترم مولانا محمد عثمان چینی صاحب کی سیرت کے چند پہلو اور قبولیتِ دُعا
محترم مولانا محمد عثمان چینی صاحب ایک خدا رسیدہ، پاک خُو، نیک فطرت، صاحبِ رئویا و کشوف بزرگ اور ولی اللہ انسان تھے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ آپ کا ایک زندہ تعلق تھا۔ آپ کے ایمان افروز واقعات زبان زد عام ہیں۔
آپ ۱۹۷۱ تا ۱۹۸۳ء بطور مربی سلسلہ کراچی میں خدمات بجا لاتے رہے۔ آپ کی تعیناتی اور رہائش حلقہ ڈرگ روڈ کی احمدیہ مسجد مبارک میں تھی۔ اس کے علاوہ حلقہ ڈرگ کالونی بھی بطور مربی سلسلہ آپ کی زیر نگرانی تھا۔اس لیے آپ اکثر جماعتی اجلاسات اور دیگر پروگراموں میں شرکت کے لیے مسجد بیت الانوار ڈرگ کالونی تشریف لایا کرتے تھے۔ہم نے اپنے اطفال الاحمدیہ کے دَور میں آپ سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ آپ انتہائی پیار و محبت اورپرخلوص طریق پر ہم بچوں کو مختلف تعلیمی و تربیتی امور سکھاتے۔ ہمیں اطفال کا نصاب یاد کرواتے۔ نہ صرف دینی اسباق پڑھاتے بلکہ اکثر چینی طریق پر ہمیں صبح کی ورزش بھی کرواتے اور سکھاتے تھے۔ہم اس وقت چھوٹے بچے تھے، بعض دفعہ ہمیں آپ کی بات ٹھیک طرح سے سمجھ نہ آتی تو ہم دبے دبےہنستے تو آپ کبھی بھی برا نہ مناتے بلکہ ہمارے ساتھ آپ بھی مسکرانے لگتے تھے۔ آپ عام طور پر کالی شیروانی، سفید شلوار اور تُرکی ٹوپی استعمال کرتے تھے۔ اُس دور میں کار وغیرہ کا تصور نہیں ہوتا تھا، اكثر لوگ بسوں، رکشوں یا ٹیکسیوں پر سفر کیا کرتے تھے۔محترم مربی صاحب پہلے ڈرگ روڈ مسجد سے پیدل چل کر ڈرگ روڈ کے پُل پر پہنچتے اور وہاں سے بس کے ذریعے کالونی گیٹ کے سٹاپ پر اتر کر پھر پیدل چلتے اور مسجد بیت الانوار میں تشریف لاتے اور پھر اسی طرح سے آپ واپس ڈرگ روڈ جاتے۔فجزاھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء
مجھے اس وقت بچپن کا ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ یاد آرہا ہے۔ یہ ستّر کی دہائی کے شروع کی بات ہے میری عمر اس وقت شایدسات سال ہوگی۔ محترم مولوی چینی صاحب کی والدہ ماجدہ آپ سے ملنے کے لیے پاکستان آئی ہوئی تھیں۔ میرے والد مکرم منظور احمد شاد صاحب اُس وقت قائد ضلع كراچی ہونے كے ساتھ ساتھ جماعت ڈرگ کالونی کراچی کے صدر کے طور پر بھی خدمات بجا لا رہے تھے اور محترم مولانا عثمان چینی صاحب ہمارے علاقے میں بطور مربی تعینات تھے۔ اس لیے ان دونوں بزرگوں کا آپس میں بہت پُر خلوص اور گہرا تعلق تھا۔ جب آپ کی والدہ صاحبہ کراچی تشریف لائیں تو ہمارے والدین نے آپ کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا۔ جب آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں تو آپ نے کالے رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ میری والدہ کو آپ کی زبان نہیں آتی تھی اور محترم مولوی چینی صاحب کی والدہ ماجدہ کو اردو یا پنجابی نہ آتی تھی، بہر حال اشاروں سے ہی دونوں نے کام چلایا۔ میری والدہ نے مجھے کہاکہ مولوی صاحب کی والدہ ایک بہت ہی بزرگ اور نیك خاتون ہیں، آپ ہمارے ہاں آتے ہوئے تھک گئی ہوں گی،تم ان کے پاؤں دباؤ۔ چنانچہ مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے پاؤں دبانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اور آپ اپنی زبان میں مجھے دُعاؤں سے نوازتی رہیں، فجزاھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء
آپ کی والدہ صاحبہ کا ایک خواب
آپ کی والدہ صاحبہ بھی ایک بزرگ، نیک اور صاحب رئویا و کشوف خاتون تھیں۔ محترم والد صاحب نے آپ کے ایک رئویائے صادقہ کا ذکر اپنی سوانح حیات ’’کرم خاکی‘‘ میں کچھ اس طرح سے کیا ہے کہ کراچی کےقیام کے دوران محترم مولوی محمد عثمان چینی صاحب کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ محترم امیر صاحب کراچی محترم چودھری احمد مختار صاحب کا عقدِ ثانی ہوا ہے۔اور جس خاتون کے ساتھ عقدِ ثانی ہوا ہے اُن کی ایک نشانی بتائی گئی۔اس خواب کا ذکر محترم مولوی صاحب نے میرے والد صاحب سے بھی کیا۔اس وقت محترم امیر صاحب کی اہلیہ ماشاءاللہ صحت مند اور حیات تھیں۔لیکن چند ایک سال کے بعد جب محترم امیر صاحب کی اہلیہ وفات پاگئیں اور محترم امیر صاحب جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کے لیے لندن میں تھے تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا عقدِ ثانی ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ایک بیوہ خاتون سے کروادیا۔اور جس معزز خاتون کے ساتھ محترم امیر صاحب کا عقد ثانی ہوا اُن میں واقعہ وہ نشانی بھی پائی جاتی تھی۔ اس طرح سے یہ خواب سچا ثابت ہوا۔
اب میں چندایسے ایمان افروز واقعات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ جن کا تعلق محترم مولوی محمد عثمان چینی صاحب کی قبولیت دُعا کے ساتھ ہے، اور جن کا ذکر محترم والد صاحب نے اپنے حالاتِ زندگی میں کیا ہے۔
بد زبان کی زبان کٹ گئی
محترم والد صاحب فرماتے ہیں کہ ایک د فعہ رات کو ہم اہلِ خانہ سونے کی تیاری کررہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ جب دروازہ کھول كردیکھا تو سامنے مولوی چینی صاحب تھے۔ آپ کو دیکھ کر میں قدرے پریشان ہوگیا کیونکہ ایک تو آپ پہلےاتنی دیر سے کبھی بھی ہمارے گھرنہیں آئے تھے اور دوسرا آپ بہت گھبرائے ہوئے لگ رہے تھے۔ میں نے کہا خدا خیر کرے! آپ اندر تشریف لائے، میرے پوچھنے پر آپ نے بتایا کہ احمدیہ ہال سے واپسی پرجب مَیں صدر میں ایمپریس مارکیٹ سے ایک ٹیکسی میں سوار ہوا تو اس ٹیکسی میں دیگر سواریوں کے علاوہ ایک نوجوان لڑکا بھی تھا۔ دورانِ سفر ٹیکسی کے پاس سے ایک عورت کا گزر ہوا تو اس نوجوان نے اس عورت پر ایک نہایت ہی بیہودہ فقرہ بولا۔ اس پر محترم چینی صاحب نے اس نوجوان کو سمجھانے کی کوشش کی۔ بجائے اس کے کہ وہ ندامت کا اظہار کرتا وہ چینی صاحب کے ساتھ بد زبانی پر اتر آیا اور بد تمیزی کرنے لگا۔ آخر اس پر آپ نے تنگ آکر کہا کہ اے خدا! تُو ہی اس کی زبان بند کر۔ آپ کہتے ہیں کہ ابھی یہ فقرہ مکمل بھی نہ ہونے پایا تھا کہ ٹیکسی کو اچانک جھٹکا لگا، جیسے ٹیکسی کے نیچے کوئی پتھر آیا ہو یا کوئی کھڈا تھا کہ اسی دوران اس نوجوان کی زبان دانتوں کے درمیان آکر کٹ گئی۔ اس پر چینی صاحب بجائے اپنے سٹاپ ڈرگ روڈ کے پُل پر اترنے کے دو سٹاپ اور آگے ہمارے گھر ایئرپورٹ پولیس سٹیشن میں آگئے۔ آپ بہت فکر مند تھے کہ میری وجہ سے ایک نوجوان کی زبان کٹ گئی ہے۔ والد صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے عرض کیا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا نشان دکھایا ہے۔ آپ بالکل پریشان نہ ہوں کیونکہ آپ براہِ راست تو اس کی زبان کے کٹنے میں شامل نہیں تھے۔
اِنِّیْ مُہِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِہَانَتَكَ
محترم والد صاحب لکھتے ہیں کہ جب میں ڈی ایس پی ائیر پورٹ کے دفتر میں تھا توایک معاندِ احمدیت ہیڈ کانسٹیبل تبادلے پر ہمارے دفتر میں آگیا اور مجھے سنانے کے لیے ایک اَور شخص کو مخاطب ہوتے ہوئے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شانِ اقدس میں گستاخی كرنے لگا۔ خاكسار كو فكر ہوئی كہ اس شخص سے تو روزانہ ہی واسطہ پڑے گا، اور اگر اس كا یہی رویہ رہا تو بات لڑائی جھگڑے تک بھی پہنچ سکتی ہے، کہتے ہیں کہ میں نے فوراً محترم چینی صاحب کو معاملہ بتاتے ہوئے دُعا کی درخواست کی۔ آپ نے مجھے تسلی دیتے ہوئے وعدہ کیا کہ فکر نہ کریں مَیں دُعا کروں گا۔دوسرے ہی دن اس شخص کو ایس پی کی طرف سے نوٹس ملا کہ تم نے دو سرکاری مکانوں پر قبضہ کیا ہوا ہے، چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ایک مکان خالی کرو، ورنہ محکمانہ کارروائی ہوگی۔ دراصل اس کی ایک بیوی ایئرپورٹ تھانہ کے سرکاری مکان میں رہتی تھی جبکہ دوسری بیوی کسی اَور تھانے کے کوارٹروں میں تھی۔ چنانچہ اُس نے نہ صرف یہ کہ فوری طور پر ایئرپورٹ پولیس اسٹیشن والامکان آدھی رات کے وقت خالی کردیا بلکہ اپنی ٹرانسفر بھی ایئرپورٹ تھانے سے کسی اَور جگہ کرالی۔ اس طرح میں اس بد زبان کے شر سے محفوظ ہو گیا۔
مخالف مولوی کے بد ارادوں سے قافلے کی حفاظت
محترم والد صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کراچی سے ساٹھ بچیاں تعلیم القرآن کلاس میں شمولیت کے لیے ربوہ گئی ہوئی تھیں۔خاکسار کی ڈیوٹی لگی کہ اُن بچیوں کو ربوہ سے واپس لانا ہے۔ ہمارے اس قافلہ میں محترم مولانا محمد عثمان چینی صاحب کے علاوہ چار خدام بھی شامل تھے۔ فیصل آباد ریلوے سٹیشن سے ہماری پوری بوگی (کیبن ) بُک تھی، اسی دوران ایک مولوی آیا اور کہا کہ آپ کے پاس اتنی زیادہ جگہ خالی ہے مجھے بھی بٹھا لیں۔ ہمارے ساتھ اگر صرف مرد سواریاں ہوتیں تو ہم بٹھا بھی لیتے لیکن بچیوں کے ساتھ ہم کیسے اجازت دیتے۔ چنانچہ ہم نے انکار کردیا۔اس پر وہ غصے میں بڑبڑاتے ہوئے اگلے کیبن کی طرف چلا گیا۔ جب ہم سب نے مغرب کی نماز باجماعت ادا کی تو اس کو پتا چل گیا کہ ہم تو احمدی ہیں۔پھر کیا تھا، اس نے ساتھ والی بوگی میں ہمارے خلاف تقریر شروع کردی اور آسمان سر پر اٹھا لیا اور کہا کہ ملتان سٹیشن پر جاکر میں ان لوگوں سے نمٹ لوں گا۔ (اس زمانہ میں ملتان مولویوں كا گڑھ ہوا کرتا تھا )۔ اس پر ہم سب کو بچیوں کی وجہ سے بہت پریشانی ہوئی۔ میں نے چاروں خدام کی ڈیوٹی بوگی کے چاروں دروازوں پر لگادی اور اُنہیں ہدایت دی کہ ہم نے حتی الامکان لڑائی جھگڑے سے بچنا ہے اور اگر بچیوں كی عزت پر كوئی انگلی بھی اٹھے تو پھر ان بچیوں کی حفاظت کی خاطر اگر جان بھی جائے تو ہر گز پروا نہیں کرنی۔ چنانچہ چاروں خدام بڑی مستعدی کے ساتھ اپنی اپنی ڈیوٹی پر ڈَٹ گئے۔
اس پر محترم چینی صاحب نے فرمایا امیر صاحب (مراد امیر قافلہ )میری بھی کہیں پر ڈیوٹی لگادی جائے۔ میں نے کہا کہ آپ کی بھی ڈیوٹی لگے گی۔ چنانچہ اُوپر ایک برتھ پر بستر لگادیا گیا اور آپ سے کہا کہ آپ اُوپر چلے جائیں اور دُعائیں شروع کردیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس آزمائش سے بچالے، بس آپ کی یہ ہی ڈیوٹی ہے۔ چنانچہ آپ اوپر برتھ پر بیٹھ گئے اور دُعاؤں میں مشغول ہوگئے۔ کچھ دیر کے بعد مَیں نے ایک خادم کو ساتھ والی بوگی میں حالات کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا کہ معلوم کر کے آئے کہ کیا حالات ہیں۔اس خادم نے آکر بتایا کہ لوگوں نے اس مولوی کو اوپر برتھ پر جگہ دی تھی اور وہ وہاں جاکر سوگیا، اور پھر ایسا سویا کہ ملتان گزر گیا اور کسی نے ڈر کے مارے اسے جگایا ہی نہیں۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو مولوی اپنی منزل سے بہت آگے نکل چکا تھا۔ بہت پریشان ہوا، آخر ہڑبڑا کر اگلے سٹیشن پر اترا اور پھر یقیناً وہاں سے واپسی کا ٹکٹ بھی لیا ہوگا۔
دُعا سے دوبارہ بحالی
محترم والد صاحب لکھتے ہیں کہ ۱۹۷۴ء کے پُر آشوب دَور میں جب آپ بطور قائد ضلع خدمات بجا لا رہے تھے،کراچی میں ہنگامی امور کے پیش نظر دو کمیٹیاں تشکیل پائیں جن میں سے ایک اعلیٰ سطحی اختیاراتی کمیٹی تھی جبکہ دوسری ایک بڑی کمیٹی تھی جس میں تمام صدرانِ جماعت، قائدینِ مجالس اور دیگر سرکردہ احباب شامل تھے۔ آپ کہتے ہیں کہ خاکسار ان دونوں کمیٹیوں کا سیکرٹری تھا۔
ایك دفعہ محترم میجر شمیم احمد صاحب نائب امیر کراچی کے گھر پر اعلیٰ سطحی کمیٹی کا اجلاس جاری تھا۔ کراچی میں مختلف گھروں میں خدام کی ڈیوٹی ہوتی تھی تاکہ بوقتِ ضرورت اطلاعات وغیرہ کے لیے انہیں کہا جاسکے، چونکہ اب حالات کافی حدتک معمول پر آچکے تھے اس لیے میں نے محترم امیر صاحب کی خدمت میں اس ڈیوٹی کو ختم کرنے کے لیے تجویز پیش کی۔ محترم امیر صاحب نے سمجھا کہ میں نے کہا ہے کہ ڈیوٹیاں ختم کر دی گئی ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ تم نے مجھ سے پوچھے بغیر کیسے ڈیوٹی ختم کردی، اور انگریزی میں فرمایا کہ
You are no more secretary, hand over the charge to Molana Sultan Mahmood Anwar Sahib.
یعنی تم اب سیكرٹری نہیں رہے، اور چارج مولانا سلطان محمود انور صاحب كے سپرد كردو۔ میں اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتا تھا کہ میرے پیچھے بیٹھے ہوئے مکرم صاحبزادہ کرنل مرزا داؤد احمد صاحب ( ابن حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ )نے میری قمیض پكڑ كر كہا كہ ہمیں پتا ہے كہ تم نے كیا كہا ہے اور محترم امیر صاحب كیا سمجھے ہیں۔ لیكن اِس وقت بیٹھ جاؤ۔ چنانچہ میں نے فائل مولانا سلطان محمود انور صاحب کو دے دی۔ میں بہت پریشان ہوا۔ گھر آکر میں نے ایک رقعہ لکھ کر محترم مولانا عثمان چینی صاحب کی خدمت میں بھیجا کہ آج میرا امیر مجھ سے ناراض ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں كہ میرا خدا بھی مجھ سے ناراض ہے، میرے لیے دُعا کریں۔ اور میں خود بھی استغفار کرنے لگا۔محترم چینی صاحب نے کہا کہ فکر نہ کریں مَیں دُعا کروں گا۔ اگلے ہی دن دوسری بڑی کمیٹی کا اجلاس تھا۔دُعا کے فوراً بعد محترم امیر صاحب نے فرمایا کہ شاد صاحب فائل واپس لے لیں اور کارروائی نوٹ کریں یعنی محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور محترم مولانا چینی صاحب کی دُعا سے مَیں بحال ہوچکا تھا۔ الحمدللہ۔
محترم مولوی عثمان چینی صاحب ویسے تو ہمارے ہاں تشریف لایا كرتے تھے، لیكن ایك دفعہ مجھے یاد ہے كہ جب آپ اپنی اہلیہ محترمہ اور بڑی بیٹی عزیزہ قرۃ العین کے ساتھ ہمارے گھر ایئر پورٹ پولیس سٹیشن کراچی تشریف لائے تھے۔ اس وقت آپ کی صاحبزادی بہت چھوٹی تھیں۔ اور مجھے یاد ہے کہ میں آپ کو ڈرگ کالونی گیٹ کے سٹاپ سے لینے اور پھر چھوڑنے بھی گیا تھا۔
۱۹۹۶ء میں جب آپ اہلیہ اور بچیوں کے ہمراہ جرمنی تشریف لے گئے تو آپ ازراہِ شفقت ہمارے ہاں بھی تشریف لائے۔ اس وقت ہم جرمنی کے شہر مائنز میں رہائش پذیر تھے۔ والد صاحب اس وقت ریجنل امیر تھے۔ والد صاحب نے اپنے ریجن میں ایک قریبی سیاحتی شہر روڈس ہائم کے مقامی صدر سے ر ابطہ کرکے چند ایک خوبصورت جگہوں کی سیر کا پروگرام بنایا۔ شہر روڈس ہائم جرمنی کے مشہور دریا رائین کے کنارے آباد ہے اور بہت ہی خوبصورت پہاڑیوں میں گھرا ہوا ہے۔ سال بھر لاکھوں سیاح ان علاقوں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اس پروگرام میں محترم چینی صاحب كے اہل خانہ، میرے والدین اور بہنیں بھی ساتھ تھیں۔ محترم چینی صاحب اور آپ كے اہل خانہ کو سیر کا یہ پروگرام بہت پسند آیا، الحمدللہ
اسی طرح ہم تقریباً ہر سال ہی جرمنی سے جلسہ سالانہ یو کے میں شرکت کے لیے لندن آیا کرتے تھے۔ اس وقت جلسہ سالانہ اسلام آباد میں ہوا کرتا تھا اور محترم چینی صاحب کی رہائش بھی اسلام آباد میں تھی۔ آپ ازراہِ شفقت ہر دفعہ ہی ہمیں اپنے گھر مدعو کرتے۔ آپ محترم والد صاحب کے ساتھ کراچی کے دَور کی باتیں یاد کرتے۔ آپ کی وفات سے شاید ایک سال پہلے ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ازراہِ شفقت ہمیں اپنی تین تصنیفات بطور تحفہ عطاکیں۔ فجزاھم اللّٰہ تعالیٰ احسن الجزاء
محترم والد صاحب خلیفۂ وقت کے علاوہ اگر کسی کو پوری شرح صدر کے ساتھ دُعا کے لیے کہتے تھے تو وہ محترم چینی صاحب کی ذات تھی۔ کوئی بھی معاملہ ہوتا مثلاً جب ہم بہن بھائیوں كے رشتے وغیرہ طے ہونے تھے اس وقت بھی آپ نے محترم چینی صاحب کے ساتھ مشورہ کیا اور دعا کی درخواست بھی کی۔ آپ ایک بہت پیار کرنے والے وجود تھے۔ مسکراہٹ ہمیشہ آپ کے لبوں پر رہتی تھی۔ میں جب بھی آپ سے ملتا،آپ ہمیشہ میرے والدین کا پوچھتے، بہن بھائیوں کے احوال دریافت فرماتے۔ میرے بچوں کا پوچھتےاور بہت دُعائیں دیا کرتے۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس پیارے وجود کو اپنی رضا کی جنتوں میں اعلیٰ ترین مقام سے نوازے۔ آمین