جلسہ سالانہ یوکے کی یادیں
ربوہ میں ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات ماہ اکتوبر میں ہوا کرتے تھے۔ ان اجتماعات کے انعقاد کے بعد اہل ربوہ جلسہ سالانہ کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے۔ اب جب کہ وطن عزیز پاکستان میں اجتماعات اور جلسوں پر پابندی ہے اور خدائی تقدیر کے تحت خلافت احمدیہ ہجرت کر کے مغربی دنیا میں اسلام کی سربلندی کا پرچم تھامے ہوئے ہے تو مغرب بھی ربوہ اور قادیان کے روحانی ماحول سے روشناس ہو رہا ہے۔قابل رشک تقویٰ کی باریک راہیں جن کا خمیر مکہ اور مدینہ کے بعد قادیان اور ربوہ کی گمنام بستیوں سے اٹھا اب مغربی دنیا ہر سال پہلے سے بڑھ کر ان سے متعارف ہو رہی ہے جس کا عملی مظاہرہ ہم جلسہ سالانہ کی صورت میں بھی دیکھتے ہیں۔میں نے برطانیہ میں پہلا جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء کا دیکھا تھا اور خلافت کے ہجرت کرنے سے پہلے متعدد جلسہ ہائے سالانہ برطانیہ میں شمولیت کا موقع ملا۔اسلام آباد کا پہلا جلسہ سالانہ جو اپریل ۱۹۸۵ء کے سرد موسم میں ہوا اس میں اور اس کے بعد تمام جلسہ ہائے سالانہ برطانیہ میں شرکت کی خدا نے توفیق دی۔قطرہ کو دریا میں تبدیل ہوتے دیکھنے والے شاہدین میں ایک خاکسار بھی شامل ہے۔
اِک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا
میں خاک تھا اسی نے ثریا بنا دیا
۲۳؍جولائی کی شام برطانیہ کے اٹھاونویں جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے لندن ہیتھرو ایئرپورٹ کے ٹرمینل دو سے باہر آیا تو سامنے ایک بچہ جلسہ سالانہ برطانیہ کا پلے کارڈ لے کر کھڑا تھاجس نے جلسہ سالانہ ربوہ کی یاد کو تازہ کر دیا۔میرے السلام علیکم کہنے پر وہ میری طرف لپکا۔ ایسا انتظام ہیتھرو اورGatwick ایئرپورٹس کے تمام ٹرمینلز پر موجود تھا۔مہمانوں کو ہاتھوں ہاتھ لے کر پہلے سے مخصوص جگہ بٹھایا جا رہا تھا اور ضرورت کے مطابق مہمان نوازی کی جارہی تھی۔ڈیوٹی پر موجود نوجوانوں کے آپس کے ٹیلی فونک رابطے ہیتھرو ایئرپورٹس کے پانچوں ٹرمینلز پر اترنے والے مہمانوں سے آگاہی دے رہے تھے۔جونہی ایک بڑی ویگن کے مسافر جمع ہو جاتے خدام مہمانوں کو مع ان کے سامان کے ویگن کی روانگی کے مقام تک لے کر جاتے ۔ہیتھرو ایئرپورٹ سے سواریاں تین اطراف یعنی حدیقۃ المہدی، جامعہ احمدیہ اور بیت الفتوح کے لیے روانہ کی جا رہی تھیں۔ مسجدبیت الفتوح جانے والی ویگن جس میں محترم امیر صاحب گیمبیا اور ان کے ساتھ آنے والا وفد سفر کے لیے تیار تھا میں بھی ان کا ہم رکاب بن گیا۔ بیت الفتوح پہنچے تو ربوہ اور جلسہ سالانہ کا اصل ماحول دیکھنے کو ملا۔ نعرہ ٔتکبیر سے مہمانوں کا استقبال۔کچھ مہمان ویگنوں سے اتر رہے ہیں، اسلام آباد اور حدیقۃ المہدی جانے والے ویگنوں میں سوار ہو رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو پہچان کر گلے ملنے کے مناظر۔ شعبہ رہائش۔دفتر معلومات۔ٹرانسپورٹ۔امانت کے شعبوں کے دفاتر کے سامنے مہمانوں کا ہجوم روشن دین صاحب تنویر مرحوم کا مصرع یاد دلارہا تھا۔
کوئی دیوانہ آ پہنچا، کوئی دیوانہ آتا ہے
مسجد بیت الفتوح پہنچنے والے مہمانوں کو وہاں کے ناظم مکرم نفیس احمد دیال گڑھی خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ابھی سنبھل نہ پائے تھے کہ نعروں کا شور ایک بار پھر بلند ہوا۔ پتا لگا ڈنمارک سے دس سائیکل سواروں کا قافلہ منزل مقصود پر آن پہنچا ہے۔ان کے استقبال کے لیے برطانیہ کے امیر صاحب بذات خود موجود تھے۔ ان کے اعزاز میں ایک مختصر استقبالیہ تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ یہی منظر اگلے روز بدھ کو دیکھنے کو ملا۔بدھ کا سورج طلوع ہوا تو ہر کوئی اسلام آباد جانے کے لیے بےتاب تھا۔انتظامیہ نے وقفہ وقفہ سے ٹرانسپورٹ کا انتظام کر رکھا تھا لیکن جم غفیر کی بے تابی بے چینی میں بدل رہی تھی۔ اسی دوران ڈنمارک والے سائیکلوں پر اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ابھی بسوں میں لوگوں کو بٹھایا جا رہا تھا کہ جرمنی سے آنے والے سائیکل سواروں کا قافلہ امیر مُلک عبداللہ واگس ہاؤزر کی قیادت میں بیت الفتوح میں داخل ہوا۔ ہر طرف سے نعروں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے پورے قافلہ کو خوش آمدید کہا۔ہر سائیکل سوار کے گلے میں میڈل ڈالا ۔محترم امیر صاحب نے چودہ سالہ سائیکلسٹ عزیزم سفیر احمد محمد اور سترہ سالہ عدنان مرزا کو بطور خاص شاباش دی اور ان کے ساتھ علیحدہ علیحدہ تصویر بنائی۔ ان کے لیے بھی استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی۔ یاد رہے کہ جرمنی سے ۲۹؍افراد سائیکلوں پر جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے پہنچے۔ جن میں سےسات کا تعلق جماعت کینیڈا سے ہے جو پہلے کینیڈا سے فرینکفرٹ بذریعہ جہاز آئے اور یہاں سے قافلہ میں شامل ہوئے۔
جلسہ کے ایام قریب آتے ہی ہر دن اسلام آباد کی رونق میں اضافہ ہو رہا تھا۔ بدھ کے روز جماعتی انتظام کے علاوہ لوگ اپنی پرائیویٹ کاروں میں بھی اسلام آباد کی طرف محو ِسفر تھے۔ مسجد مبارک کے دروازے عام دنوں میں نماز سے آدھا گھنٹہ قبل کھولے جاتے ہیں بدھ کے روز ایک گھنٹہ قبل کھول دیے گئے تو مسجد نمازیوں سے بھر گئی۔جب نماز کا وقت ہوا تب مسرور ہال، اس کے سامنے کی جگہ اور مسجد کو آنے والے راستے نمازیوں سے پُر تھے۔ اسلام آباد آنے والے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے مزار مبارک پر دعا بھی کرتے۔اس احاطہ کو کبھی میں نے خالی نہ دیکھا۔نمازوں کی ادائیگی کے بعد مکرم عبدالماجد طاہرصاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر انتظامات کے جائزہ کے لیے جامعہ احمدیہ تشریف لے گئے۔جامعہ میں مرکزی مبلغین اور بعض مرکزی مہمانوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ جمعرات کے روز مہمانوں کی بڑی تعداد کو جامعہ اور بیت الفتوح سے جلسہ گاہ حدیقۃ المہدی روانہ ہونا تھا۔بیت الفتوح کے مہمان سات بسوں میں وہاں سے روانہ ہوئے تو وہ جذباتی منظر بھی قابل دید تھا۔جمعرات کے دن حدیقۃ المہدی میں موسم ابر آلود اور وقفہ وقفہ سے ہلکی ہلکی بارش کی وجہ سے موسم میں ٹھنڈک کا احساس نمایاں تھا۔گرم ممالک سے آنے والے سویٹر اور جیکٹس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ عموماً جلسہ سے قبل اتوار کے روز عام طور پر انتظامی تفصیلی معائنہ کے بعد حضور کا کارکنان سے خطاب اور دعا ہوتی ہے جس کے بعد کارکنان کو حضور کے ساتھ کھانا کھانے کے سعادت حاصل ہوا کرتی ہے۔ امسال یہ تقریب جمعرات آٹھ بجے شب منعقد ہوئی اور کارکنان کو آٹھ بجے سے پہلے کھانا کھا لینے کی ہدایت تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تشریف لانے کے بعد لنگر، روٹی پلانٹ اور مزید ایک دو انتظامی یونٹس کا معائنہ فرمایا اور بعد ازاں سٹیج پر رونق افروز ہو کر نصیحت آمیز خطاب کے بعد دعا کروائی۔
جلسہ سالانہ کی کارروائی تینوں روز براہ راست نشر ہوتی رہی ہے ۔جلسہ کا انتظام ہر سال وسعت پذیر ہوتا جا رہا ہے۔انتظامی یونٹس میں اضافہ کی وجہ سے ناظمین کی تعداد اب سینکڑوں میں اور کارکنان کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی ہے۔امسال ۴۳۰؍ خدام کینیڈا سے اور ۵۰؍ خدام ماریشس سے جلسہ پر ڈیوٹی دینے کے لیے آئے۔بلاشبہ پارکنگ کا شعبہ اتنا وسعت پذیر ہو چکا ہے کہ اس شعبہ میں کام کرنے والے کارکنان کی تعداد ۱۹۸۵ء کے جلسہ سالانہ کے کل کارکنان کی تعداد سے زیادہ ہوگی۔ ۱۹۸۵ء کے جلسہ سالانہ کے بعد مکرم چودھری حمیداللہ صاحب نے افسر جلسہ سالانہ مکرم ہدایت اللہ بنگوی صاحب مرحوم اور نائب افسر مکرم عبدالباقی ارشد کو ملاقات کے لیے بلایا۔ مکرم چودھری حمیداللہ صاحب گیسٹ ہاؤس میں رہائش رکھتے تھے اور وہاں ہی ان کا عارضی دفتر تھا۔جب دونوں حضرات ملاقات کے لیے تشریف لائے تو خاکسار وہاں پہلے سے موجود تھا۔اس میٹنگ میں مکرم چودھری صاحب مرحوم نے دونوں افسران کو بتایا کہ حضور (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ) کی ہدایت ہے کہ جلسہ سالانہ کی انتظامی کمیٹی ربوہ کے جلسہ سالانہ کے مطابق ہوگی میں آپ کو بتاتا جاتا ہوں آپ نوٹ کرتے جائیں۔چنانچہ چودھری حمیداللہ صاحب نے جلسہ سالانہ ربوہ کی تمام نظامتیں ان کو نوٹ کروائیں اس ہدایت کے ساتھ کہ اگر آپ کسی نظامت کا اضافہ چاہتے ہیں تو اس کی وجوہات لکھ کر حضور سے منظوری لیں گے۔
اس واقعہ کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس درخت کو اس قدر پھل لگائے ہیں کہ جن کا شمار ممکن نہیں۔ ہر سال نئے شعبہ جات قائم کرنا مجبوری اور اس سے شاملین جلسہ کو سہولت پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔ امسال حدیقۃ المہدی میں داخلے اور کاروں کے اخراج کے لیے نئے راستے بنائے گئے تھے جن پر میٹل روڈز بنائی گئی تھیں۔ یہ تجربہ بہت کامیاب اور سہولت آمیز رہا۔ لوگ ایک ساتھ کار پارکنگ سے نکلنے میں انتظار کی زحمت سے بچے رہے۔مین مارکی کے علاوہ ایک اور بڑی مارکی مردانہ جلسہ گاہ میں لگائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ کھلے میدان میں کارپٹ بچھا کر آواز کا بہترین انتظام کیا گیا تھا جس سے لوگوں نے استفادہ کیا۔اس بار جلسہ میں ایک نیا تجربہ سب نمائشوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دینا تھا مخزن تصاویر جنہوں نے ۱۷۰۰ تصاویر نمائش میں پیش کی تھیں ،نے اپنا علیحدہ تشخص برقرار رکھا۔IAAAE، ہیومینٹی فرسٹ، الفضل انٹرنیشنل، تحریک وقف نو، شعبہ تاریخ جماعت احمدیہ برطانیہ، ایم ٹی اے، ریویو آف ریلیجنز، جامعہ احمدیہ یوکے اور شعبہ امور خارجہ سب نے نمائش میں حصہ لیا۔تاریخ احمدیت برطانیہ نے اپنی نمائش میں مکرم فتح محمد سیال صاحب کی دوبارہ انگلستان میں بطور مبلغ تقرری، اگست ۱۹۲۰ء میں ایک ایکڑ زمین خریدنے ۱۹؍اکتوبر۱۹۲۴ء کو مسجد فضل کا سنگ بنیاد، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے سفر یورپ ۱۹۲۴ء میں جو گیارہ اصحاب حضور کے ساتھ تشریف لائے ان کے اسماء تو نمائش میں موجود تھے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا ان کی تصاویر کو بھی نمائش کا حصہ بنا دیا جاتا۔حضور کا رہائش گاہ سے مردانہ جلسہ گاہ کے سٹیج تک کا راستہ مخصوص تھا جس پر حضور کی آمد و رفت ہوتی۔ جمعہ کی شام سات بجے حضور کے قافلے کی موٹر کاریں رہائش گاہ سے ایک اور راستہ سے جلسہ گاہ کی طرف بڑھنا شروع ہوئیں تو لوگوں میں تجسس پیدا ہوا اور لوگوں نے کاروں کے ساتھ ساتھ بھاگنا شروع کر دیا۔ہر طرف نعرہ تکبیر بلند ہونا شروع ہوئے کسی کو علم نہ تھا کہ قافلہ نے کہاںجا کر رکنا ہے۔ بےتابی اور تجسس کے لمحات میں لوگ اپنے جذبات کا اظہار نعروں میں کر رہے تھے بالآخر حضور کا قافلہ نمائش کے پنڈال کے سامنے آ کر ٹھہر گیا۔ حضور نے کار سے نکل کر لوگوں کی طرف ہاتھ ہلا کر سلام کا جواب دیا اور پہلے نمائش میں لگائی جانے والی IAAAE، الفضل انٹرنیشنل، شعبہ تاریخ جماعت یوکے، ریویو آف ریلیجنزاور شعبہ تبلیغ کی نمانشوں میں رونق افروز ہو کر انہیں برکت بخشی اور پھر مخزن تصاویر کی نمائش کو دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے۔ حضور نے کم وبیش ۴۵ منٹ تک تمام نمائشوں کا گہری نظر سے جائزہ لیا اور تفاصیل معلوم کیں۔ اس دوران جلسہ گاہ میں موجوداحباب نمائش کے علاقہ میں جمع ہو کر اسلامی نعرے لگا کر حضور سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے رہے۔
وکالت تبشیر نے دوسرے ممالک سے آنے والے معزز مہمانان کی مہمانداری کے لیے خصوصی مارکی امسال بھی لگائی تھی۔ جس میں ایک بہت بڑا جہازی سائز کا بینر( معہ انگریزی ترجمہ کے) مارکی کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا تھا۔
وَاَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ
ان مہمانوں میں تائیوان سے آنے والا ایک جوڑا بھی تھا جن کی یہ ادا مجھے بہت بھائی۔نمازوں کے اوقات میں وہ جلسہ گاہ مارکی میں موجود رہتے اور جب نماز پڑھی جا رہی ہوتی وہ خاتون دونوں ہاتھ ملا کراوپرپیشانی کی طرف لے جاتی اور نماز کے وقت اپنی اس حالت کو قائم رکھتی گویا وہ خود ہی کسی عبادت میں مشغول تھیں۔
جلسہ کے اگلے روز سوموار کو اسلام آباد میں نماز ظہروعصر پر نمازیوں کی اتنی بڑی تعداد موجود تھی کہ اسلام آباد کے میدانوں میں بھی نماز ادا کی گئی۔ سوموار کے روز ہونے والے نکاح بھی گویا اب جلسہ کے پروگرام کا حصہ بن چکے ہیں اس روز مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نے ۲۸؍ نکاحوں کا اعلان حضور انور کی موجودگی میں کیا جس کے بعد حضور ایدہ اللہ نے دعا کروائی۔ نمازوں کے بعد محسوس کیا گیا کہ بہت سارے لوگ اسلام آباد سے دوسرے ملکوں میں گھروں کو جانے کے لیے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں۔الوداعی معانقوں کا سلسلہ چل نکلا ہے اور چند روز میں اسلام آباد اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آئے گا۔
جلسہ سالانہ کے مقررین
جلسہ کے اجلاسات بروقت شروع ہوتے رہے۔ہفتہ کے روز سیرالیون کے امیر جماعت احمدیہ اور اتوار کو امیر جماعت احمدیہ امریکہ نے اجلاسات کی صدارت کی۔مقامی مقررین میں ڈاکٹر عزیز حفیظ صاحب کو تقریر کرنے کا پہلی بار موقع ملا اور بیرونی ممالک سے مولانا مبارک احمد تنویرصاحب مہمان مقرر تھے۔مکرم فرید احمد نوید صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ گھانا، مولانا عبدالسمیع خان صاحب آف کینیڈا اور مکرم ایاز محمود خان مربی سلسلہ اس سے قبل بھی جلسہ سالانہ برطانیہ سے خطاب کر چکے ہیں۔جلسہ سالانہ کے مہمان مقررین میں جکارتہ اسلامک یونیورسٹی کے Prof. Ismatu Ropi کی تقریر اس اعتبار سے اہم تھی کہ انڈونیشیا میں جماعت کے قیام پر سوسال پورے ہو رہے ہیں اور وہاں ایک عرصہ سے مخالفت کی وجہ سے احمدی مشکلات کا شکار ہیں۔پروفیسر اسمارٹو روپی کی تقریر امید کی ایک کرن تھی انہوں نے کہا کہ میں گواہ ہوں کہ انڈونیشیا کے ایک خود مختار قوم بننے کے بعد سے جماعت احمدیہ نے انڈونیشیا کے ثقافتی، تعلیمی اور سماجی منظرنامے کو تشکیل دینے میں انتہائی اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ اسلامی تعلیمات کو اپناتے ہوئے احمدی مسلمان بین المذاہب مکالمے اور ہم آہنگی کے بھرپور حامی رہے ہیں اور احمدیوں نے انڈونیشیا کی قومی شناخت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس جماعت کو ایک عرصہ سے عدم مساوات اور امتیازی سلوک کا سامنا رہا ہے۔ پچھلے چند سالوں سے حالات بہتری کی طرف جانے لگے ہیں اب جب کہ جماعت احمدیہ کے انڈونیشیا میں قیام پر سو سال مکمل ہو رہے ہیں ہم پراُمید ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح بنفس نفیس انڈونیشیا تشریف لائیں گے۔ تائیوان سے تشریف لانے والے مہمان Dr. Chrutie Chang نے بھی جلسہ سالانہ کے بارے میں حیران کن مثبت رائے کا اظہار کیا۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے روح پرور خطابات
جلسہ سالانہ میں آنے والوں کے لیے سب سے زیادہ کشش حضور انور کے خطابات کو لائیو سننا ہے اس لیے دوران خطابات مارکی نہ صرف خلافت کے پروانوں سے پُر ہوتی ہے بلکہ مارکی کے باہر بھی عوام کا ہجوم حضور کے ارشادات سے مستفیض ہو رہا ہوتا ہے۔ حضور کے خطابات کا آغاز جمعرات کی شام کارکنان سے خطاب سے ہوا۔ جس میں حضور نے نصیحت فرمائی کہ جلسہ کے مہمانوں کو حضرت مسیح موعودؑ کے مہمان سمجھ کر خدمت کریں اور ساتھ ساتھ مہمانوں کو بھی فرمایا کہ آپ لوگ ایک نیک مقصد کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کے مہمان بن کر یہاں آئے ہیں۔ دنیاوی اعزاز اور دنیاوی خدمت کی بجائے ان اعلی اخلاق میں مزید ترقی کرنے کو اپنے پیش نظر رکھیں جو ایک حقیقی مسلمان کا طرہ امتیاز ہے۔ اگلے روز خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ کی یاد دہانی کروائی کہ آپ کے یہاں آنے کی اصل غرض دین سیکھنا اور اپنے دل و دماغ کو پاک کرنا اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی منازل طے کرنے کی کوشش کرنا ہے۔خواتین کے خطاب میں حضور انور نے علاوہ دیگر باتوں کے اپنی نمازوں کی حفاظت اور بچوں کے سامنے نیک نمونے پیش کرنے کی ہدایت کی۔ دوسرے روز کے اہم خطاب میں اللہ تعالیٰ کے بے انتہا افضال کے ذکر میں یہ بھی بتایا کہ امسال دو لاکھ ۳۸ ہزار ۵۶۱؍ افراد جماعت میں شامل ہوئے ہیں۔ تیسرے روز عالمی بیعت کی روح پرور تقریب منعقد ہوئی ۔جلسہ سالانہ کے اختتامی خطاب میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے بےمثل عشق رسول ﷺکے بارے میں ایمان افروز تحریرات پیش کیں اور پرسوز اختتامی دعا کروائی۔