مرد کی تخلیق کا مقصد (حصہ اول)
ایک معروف حدیث کے حوالہ سے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں گھر کےہر فرد کے راعی ہونے سے متعلق اہم نصائح فرمائیں۔ چنانچہ مردوں کے گھر میں سربراہ ہونے کی حیثیت سے دیگر افرادِ خانہ کی نگرانی سے متعلق حضور انور نے ارشاد فرمایا:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ امام نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گااور مرد اپنے اہل پر نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ خادم اپنے آقاکے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاتھا کہ مرد اپنے والد کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گااور فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری کتاب الجمعۃ۔ باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن)
اسلام میں مرد کا تصور
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَافَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ (النساء:۳۵)ترجمہ: مرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال (ان پر) خرچ کرتے ہیں۔
یہ مرد ہی کی ذمہ دار ی ہے کہ وہ ’’خرچ‘‘ کرنے کے لیے ’’اموال‘‘ کمائے۔ یعنی رزقِ حلال کا انتظام کرے چاہے اُسے کسی درجہ کا بھی کام کرنا پڑے، اُس کا فرض ہے کہ اپنے اہل و عیال کےلیے؛ گھر، کھانے پینے اور پہننے کے لیے مناسب انتظام کرے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مرد کو اپنے والد کے ترکہ میں اپنی بہن کے مقابلہ میں دو گنا ترکہ ملتا ہے۔کیونکہ اُس نے اپنی بیوی کی نگہداشت کرنا ہوتی ہے جبکہ اُس کی بہن کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنے شوہر یا بچوں کے اخراجات پورے کرے۔ چنانچہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ بنیادی طورپر مرد کے لیے شادی ایک نہایت اہم ذمہ داری ہے۔
ہمارے مذہب میں مَرد و عورت میں بحیثیت انسان کوئی فرق نہیں۔ دونوں کا مقام اور مرتبہ ایک جیسا ہے۔ تاہم، جسمانی ساخت کی بنیاد پر دونوں کے فرائض الگ الگ ہیں۔ اسلام میں اذان ، امامت اور مساجد میں خطبات وغیرہ کی ذمہ داری مَردوں کو سونپی گئی ہے۔ مساجد ہماری اجتماعی عبادات کا ایک مرکز ہیں۔ مساجد ہی وہ بہترین جگہیں ہیں، جہاں مسلمان ایک دوسرے سے میل ملاپ کے ذریعے نہ صرف دینی، بلکہ دُنیاوی مسائل کا بھی حل تلاش کرتے ہیں۔
معاشرہ میں مرد کا کردار
خالقِ کائنات نے مَردو زن کو الگ الگ جسمانی ساخت اور ظاہری خُوبیوں سے نواز کر کارِ جہاں میں ایک دوسرے کا دستِ راست بنادیا۔ جس طرح مَرد کے بغیر عورت اور عورت کے بغیر مَرد کی زندگی نامکمل اور ادھوری تصوّر کی جاتی ہے بالکل اسی طرح انسانی معاشرے کی تکمیل اور خوش حال خاندان کا تصوّر بھی ان دونوں ہی کے باہمی تعاون اور اشتراک سے مشروط ہے۔
ہر معاشرے اور خاندان میں مَرد کا سب سے اہم کردار محافظ کا ہے۔ مَردوں کے طاقتوراعصاب، مضبوط جسمانی ساخت کی بنیاد پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ خواتین کی نسبت خطرات سے نمٹنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ زمانۂ قدیم میں بھی جنگ و جدل، شکار برائے خوراک اور مُہلک جنگلی جانوروں سے قبیلوں اور خاندانوں کو بچانے جیسے مشکل کام مَردوں ہی کے سپرد تھے۔
آج بھی باپ، بھائی یا شوہر کی موجودگی گھر کے اندر اور باہر خواتین کو تحفّظ کا احساس دلاتی ہے۔ مَرد صرف جان و مال ہی کے محافظ نہیں ہوتے، بلکہ خاندان کی عزّت و آبرو کی حفاظت بھی ان کی ذمّے داری ہے، لیکن یہ فریضہ نبھانے کے لیے ضروری ہے کہ سرپرستِ اعلیٰ کو رشتے نبھانے آتے ہوں۔
…اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ (النساء:۳۵) کہہ کر مردوں کو تو جہ دلائی گئی ہے کہ تمہیں جو اللہ تعالیٰ نے معاشرے کی بھلائی کا کام سپرد کیا ہے تم نے اس فرض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا۔ اس لیے اگر عورتوں میں بعض برائیاں پیدا ہوئی ہیں تو تمہاری نا اہلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ پھر عورتیں بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں، اب بھی، اس مغربی معاشرے میں بھی، اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ عورتوں میں بھی، کہ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے۔ تو خود تو کہہ دیتے ہیں کہ عورتیں نازک ہیں۔ عورتیں خود بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض اعضاء جو ہیں، بعض قویٰ جو ہیں مردوں سے کمزور ہوتے ہیں، مردکا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس معاشرے میں بھی کھیلوں میں عورتوں مردوں کی علیحدہ علیحدہ ٹیمیں بنائی جاتی ہیں۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ میں تخلیق کرنے والا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ میں نے کیا بناوٹ بنائی ہوئی ہے مرد اور عورت کی اور اس فرق کی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ مرد کو عورت پر فضیلت ہے تو تمہیں اعتراض ہو جاتاہے کہ دیکھو جی اسلام نے مرد کو عورت پر فضیلت دے دی۔ عورتوں کو تو خوش ہو نا چاہئے کہ یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مرد پر زیادہ ذمہ داری ڈال دی ہے اس لحاظ سے بھی کہ اگر گھریلو چھوٹے چھوٹے معاملات میں عورت اور مرد کی چھوٹی چھوٹی چپقلشیں ہوجاتی ہے، ناچاقیاں ہو جاتی ہیں تو مرد کو کہا کہ کیونکہ تمہارے قویٰ مضبوط ہیں، تم قوّام ہو، تمہارے اعصاب مضبوط ہیں اس لیے تم زیادہ حوصلہ دکھاؤاور معاملے کوحوصلے سے اس طرح حل کر و کہ یہ ناچاقی بڑھتے بڑھتے کسی بڑی لڑائی تک نہ پہنچ جائےاور پھر طلاقوں اور عدالتوں تک نوبت نہ آجائے۔ پھر گھر کے اخراجات کی ذمہ داری بھی مرد پر ڈالی گئی ہے‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ ۳۱؍جولائی ۲۰۰۴ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍اپریل ۲۰۱۵ء)
مرد بحیثیت بیٹا
جہاں اسلام باپ کو یہ کہتا ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دو اور ان کے لیے دعائیں کرو وہاں بچوں کو بھی حکم دیتا ہے کہ تمہارا بھی کچھ فرض ہے۔ جب تم بالغ ہو جاؤ تو ماں باپ کے بھی تم پر کچھ حقوق ہیں۔ ان کو تم نے ادا کرنا ہے۔ یہ رشتوں کے حقوق کی کڑیاں ہی ہیں جو ایک دوسرے سے جڑنے سے پُرامن معاشرہ پیدا کرتی ہیں۔ ماں باپ کے حق ادا کرنے کی کتنی بڑی ذمہ داری ہے اور اس کی کتنی اہمیت ہے۔ اس بات کا اِدراک ہر مومن کو ہونا چاہیے۔
ایک لڑکا جب بالغ ہوتا ہے تو اس نے کس طرح ماں باپ کا حق ادا کرنا ہے اِس بات کو سمجھاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا۔ عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں۔ فرمایا: کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہا ہاں زندہ ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ ان دونوں کی خدمت کرو یہی تمہارا جہاد ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب الجہاد باذن الابوین حدیث 3004)
پس والدین کی خدمت کی اہمیت کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے، پھر یہی نہیں بلکہ آپس میں محبت اور پیار کو پھیلانے کے لیے والد کے دوستوں سے بھی حسنِ سلوک کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ چنانچہ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ انسان کی بہترین نیکی یہ ہے کہ اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرے جبکہ اس کا والد فوت ہو چکا ہو۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی برالوالدین حدیث 5143)
اس بات کو مزید کھول کر ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا روایت میں یوں ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابو اسید الساعدیؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرتھے کہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے لیے کر سکوں۔ آپ نے فرمایا: ہاں کیوں نہیں۔ تم ان کے لیے دعائیں کرو۔ ان کے لیے بخشش طلب کرو۔ انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو۔ ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام کے ساتھ پیش آؤ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی بر الوالدین حدیث 5142)
ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اس کا رزق بڑھا دیا جائے تو اس کو چاہیے کہ اپنے والدین سے حسن سلوک کرے اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے۔ (الجامع لشعب الایمان جلد ۱۰ صفحہ ۲۶۴-۲۶۵ باب بر الوالدین حدیث ۷۴۷۱ مکتبۃ الرشدناشرون الریاض۲۰۰۴ء)
(باقی آئندہ بدھ کو انشاء اللہ)