حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ تعالیٰ کے قُرب کی حقیقت (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲؍مئی ۲۰۱۴ء)

استغفار کی دو قسموں کا ذکر فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ’’استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن شریف میں دو معنے پر آیا ہے۔ ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کو جو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں خداتعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیوست ہوکر اس سے مدد چاہنا یہ استغفار تو مقربوں کا ہے…‘‘ ہر وقت استغفار اس لئے چاہنا کہ ایک دل میں خدا ہی ہر وقت یاد رہے اور انسان اللہ تعالیٰ کی محبت میں مضبوط ہوتا جائے۔ یہ استغفار تو مقربوں کا ہے۔ ’’…جو ایک طرفۃ العین خدا سے علیحد ہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں … یعنی ایک لمحہ کے لئے بھی خدا سے علیحدہ ہونا سمجھتے ہیں کہ ہماری تباہی ہو جائے گی۔ …اس لئے استغفار کرتے ہیں تا خدا اپنی محبت میں تھامے رکھے۔ اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے ایسا ہی دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے تا پاک نشوونما پاکر گناہ کی خشکی اور زوال سے بچ جائے اور ان دونوں صورتوں کا نام استغفار رکھا گیاہے۔‘‘ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد12 صفحہ346۔347)

اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی پہچان کے کئی مرتبے ہیں۔ مگر سب سے اعلیٰ مرتبہ قرب الٰہی کا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی صحیح رنگ میں پہچان ہوتی ہے۔ اس لئے صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ میں نے سچی خوابیں دیکھ لی ہیں یا کوئی کشف مجھے ہو گیا یا الہام ہو گیا۔ الہام تو بلعم کو بھی ہو گیا تھا لیکن اس نے اس کے باوجود ٹھوکر کھائی۔ اس لئے قرب کی تلاش کرو اور قرب خدا تعالیٰ کے برگزیدہ سے جڑ کر ہی ملتا ہے جس سے مسلسل اللہ تعالیٰ اس کو اپنے نور سے فیضیاب فرماتا رہتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی رضا بندے کا مقصود ہو جاتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ’’خدا نور ہے جیسا کہ اس نے فرمایا اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (النور: 36)۔ پس وہ شخص جو صرف اس نور کے لوازم کو دیکھتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو دور سے ایک دھوا ں دیکھتا ہے مگر آگ کی روشنی نہیں دیکھتا اِس لئے وہ روشنی کے فوائد سے محروم ہے…‘‘ (روشنی کے فوائد تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا میں ڈوب جانے سے ملتے ہیں)۔ فرمایا کہ ’’…اور نیز اس کی گرمی سے بھی جو بشریّت کی آلودگی کو جلاتی ہے۔ …‘‘ فوائد سے بھی محروم ہے اور نیز اس کی گرمی سے بھی جو بشریت کی آلودگی کو جلاتی ہے۔ انسان کے بشری تقاضے ہونے کے جو بعض گند ہیں جنہوں نے اس کو گھیرا ہوا ہے، اس گرمی سے بھی محروم رہتا ہے، اس آگ سے محروم رہتا ہے جو ان گندوں کو جلاتی ہے۔ فرمایا کہ ’’…پس وہ لوگ جو صرف منقولی یا معقولی دلائل یا ظنّی الہامات سے خدا تعالیٰ کے وجود پر دلیل پکڑتے ہیں جیسے علماء ظاہری یا جیسے فلسفی لوگ اور یا ایسے لوگ جو صرف اپنے روحانی قویٰ سے جو استعداد کشوف اور رؤیا ہے خدا تعالیٰ کی ہستی کو مانتے ہیں مگر خدا کے قرب کی روشنی سے بے نصیب ہیں …‘‘ (اب اس میں یہ فرمایا کہ ان کے پاس منقولی اور عقلی دلائل بھی ہیں۔ الہامات پر یا بعض دفعہ خوابوں پر ظن کرتے ہوئے ان کو خدا تعالیٰ کی ہستی پر اور وجود پر یقین بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے۔ علماء ظاہری اسی چیز کی وجہ سے خدا کو مانتے ہیں یا ایسے فلسفی یا وہ لوگ جن کی روحانیت اس حد تک ہے کہ ان میں بعض کشف اور رؤیا صالحہ کی استعدادیں بھی موجود ہوتی ہیں اور اس وجہ سے خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں مگر ان سب چیزوں کے باوجود وہ خدا تعالیٰ کے قرب کی روشنی سے بے نصیب ہیں۔ فرمایا کہ) ’’…وہ اس انسان کی مانند ہیں جو دُور سے آگ کا دھواں دیکھتا ہے مگر آگ کی روشنی کو نہیں دیکھتا اور صرف دھوئیں پر غور کرنے سے آگ کے وجود پر یقین کر لیتا ہے‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 14)

پھر قرب کے مدارج کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے فرمایا کہ’’چونکہ مدارج قرب اور تعلق حضرت احدیت کے مختلف ہیں …‘‘اللہ تعالیٰ سے ملنے کے جو قرب اور تعلق کے درجے ہیں وہ مختلف ہیں۔ ’’…اس لئے ایک شخص باوجود خدا کا مقرب ہونے کے جب ایسے شخص سے مقابلہ کرتا ہے جو قرب اور محبت کے مقام میں اس سے بہت بڑھ کر ہے تو آخر نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص جو ادنیٰ درجہ کا قرب الٰہی رکھتا ہے نہ صرف ہلاک ہوتا ہے بلکہ بے ایمان ہوکر مرتا ہے جیسا کہ موسیٰ کے مقابل پر بلعم باعور کاحال ہوا۔ …‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 349) اور آپؑ نے فرمایا کہ اس قرب کے مقام کا جو سب سے اعلیٰ درجہ ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اور اتباع کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ مقام دیا ہے۔ آج اس زمانے میں اب جو آپ علیہ السلام سے علیحدہ ہو کر اس قرب کی تلاش کرے گا اس کا انجام پھر بلعم جیسا ہی ہو گا۔

پھر آپؑ نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب قرآن کریم کی پیروی سے ملتا ہے اور ایسا قرب پانے والے کے لئے خد اتعالیٰ پھر نشانات دکھاتا ہے۔ زبانی جمع خرچ نہیں ہوتا۔

فرمایا کہ ’’ہر ایک جو اُس شخص سے مقابلہ کرے جو قرآن شریف کا سچا پیرو ہے خدا اپنے ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اس پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ اس بندہ کے ساتھ ہے جو اس کے کلام کی پیروی کرتا ہے جیسا کہ اُس نے لیکھرام پر ظاہر کیا اور اس کی موت ایسی حالت میں ہوئی کہ وہ خوب سمجھتا تھا کہ خدا نے اُس کی موت سے اسلام کی سچائی پر مہر لگا دی۔ غرض اس طرح پر خدا اپنے زندہ تصرفات سے قرآن شریف کی پیروی کرنے والے کو کھینچتا کھینچتا قرب کے بلند مینار تک پہنچا دیتا ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 309)…. پھر قرب الٰہی کے حصول کے لئے عمومی طور پر اعمال صالحہ بجا لانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ’’عمل صالح بڑی ہی نعمت ہے۔ خداوند کریم عمل صالح سے راضی ہو جاتا ہے اور قرب حضرت احدیّت حاصل ہوتا ہے…‘‘(اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔) ’’… مگر جس طرح شراب کے آخری گھونٹ میں نشہ ہوتا ہے اسی طرح عمل صالح کے برکات اُس کی آخری خیر میں مخفی ہوتے ہیں۔ جو شخص آخر تک پہنچتا ہے اور عمل صالح کو اپنے کمال تک پہنچاتا ہے وہ ان برکات سے متمتع ہوجاتا ہے لیکن جو شخص درمیان سے ہر عمل صالح کو چھوڑ دیتا ہے اور اس کو اپنے کمال مطلوب تک نہیں پہنچاتا، وہ ان برکات سے محروم رہ جاتا ہے۔‘‘(مکتوبات احمد جلد 1صفحہ 600۔ مکتوب بنام میر عباس علی صاحب مکتوب نمبر 45)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button