کلمہ تو ایک ہی ہے جسے کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادت کہتے ہیں
[ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں استفسار بھجوایا کہ جماعت احمدیہ شرعی طور پر کتنے کلموں پر یقین رکھتی ہے، جو کسی حدیث یا قرآن سے ثابت شدہ ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۱؍مارچ ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:]
کلمہ تو ایک ہی ہے جسے کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادت کہتے ہیں۔ کلمہ طیبہ میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضور ﷺ کی رسالت کا سادہ الفاظ میں اقرار کیا جاتا ہے اور کلمہ شہادت میں ان دونوں باتوں(اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضورﷺکی رسالت) کا شہادت یعنی گواہی کے ساتھ اقرار کیا جاتا ہے۔
اسلام کا پہلا بنیادی رکن بھی یہی کلمہ یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضورﷺ کی رسالت کا اقرار ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَ إِيْتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ۔(صحیح بخاری کتاب الایمان)یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں،نماز قائم کرنا،زکوٰۃ ادا کرنا،بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
یہی وہ کلمہ ہے جس کا اسلام میں داخل ہونے والے ہر شخص سے آنحضور ﷺ اقرار لینے کا ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضورﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو جب یمن بھجوایا تو انہیں یہی نصیحت فرمائی۔…
اپنے آقا و مطاع سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺکے نقش پا پر چلتے ہوئے آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعودو مہدی معہود علیہ السلام بھی بیعت لیتے وقت پہلے یہی کلمہ شہادت پڑھایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے بیعت لیتے وقت مجھے کلمہ شہادت پڑھایا۔(حیات قدسی صفحہ ۴۹۴)
آنحضور ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اسی سنت کی اتباع میں خلفائے احمدیت بھی بیعت لیتے وقت پہلے اسی کلمہ شہادت کا اقرار کرواتے ہیں۔ پس جماعت احمدیہ کے ہر فرد کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کلمہ پر کامل ایمان ہے اور ہم اسے اسلام کے بنیادی ارکان میں سے پہلا رکن یقین کرتے ہیں۔
باقی جہاں تک مسلمانوں میں رائج مختلف ناموں کے ساتھ چھ کلموں کا تصور پایا جاتا ہے تو وہ چھ کلمے، ان کے نام اور ان کی یہ ترتیب قرآن کریم یا احادیث نبوی ﷺ سے کہیں ثابت نہیں۔بلکہ احادیث میں مذکور مختلف دعاؤں اور تسبیحات کو آنحضور ﷺ اور خلافت راشدہ کے مبارک دور کے بہت بعد کے زمانہ میں جوڑ کر یہ کلمات بنائے گئے اور انہیں یہ نام دیے گئے۔ پس ان کلمات کی اس ترتیب اور اس اہمیت و فرضیت(جو عام مسلمانوں میں رائج ہے) کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط۵۴ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۶؍مئی ۲۰۲۳ء)