اعتراض سے پہلے انسان کو چاہیئے کہ حُسنِ ظن سے کام لے
جو لوگ حسن ظنی سے کام نہیں لیتے یا اسرار شریعت سے ناواقف ہوتے ہیں، بعض وقت ان کو ابتلاء آجاتا ہے اوروہ کچھ کا کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کہانیاں سنا رہے ہیں۔ اس وقت اگر کوئی نادان اور نا اہل آپؐ کو دیکھے اور آپؐ کے اغراض کو مد نظر نہ رکھے تو اس نے ٹھوکر ہی کھانی ہے۔ یا ایک مرتبہ آپؐ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے اور دوسری بیوی نے آپؐ کے لئے شوربے کا پیالہ بھیجا تو حضرت عائشہؓ نے اس پیالہ کو گِرا کر پھوڑ دیا۔ اب ایک نا واقف حضرت عائشہؓ کے اس فعل پر اعتراض کرنے کی جراٴت کرتا ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دوسرے افعال پر نظر نہیں کرتا۔ ایسے امور پیش آتے ہیں جو دوسرے علم نہ رکھنے کی وجہ سے ان پر اعتراض کر بیٹھتے ہیں۔ اعتراض سے پہلے انسان کو چاہیئے کہ حسنِ ظن سے کام لے اور چند روز تک صبر سے دیکھے۔ پھر خود بخود حقیقت کھل جاتی ہے۔ کچھ عرصہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت مہمان آئی اور ان دنوں میں کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ چند بی بیوں سے نماز ساقط ہوگئی تھی۔ اس نے کہا کہ یہاں کیا آنا ہے کوئی نماز ہی نہیں پڑھتا۔ حالانکہ وہ معذور تھیں اور عنداللہ ان پر کوئی موٴاخذہ نہ تھا۔ مگر اس نے بغیر دریافت کئے اورسوچے ایسا کہہ دیا۔
(ملفوظات جلد ۴صفحہ ۵۰-۵۱، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنونِ فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے۔ اگر نیک ظنّ کرے تو پھر کچھ دینے کی توفیق بھی مل جاتی ہے۔ جب پہلی ہی منزل پر خطاکی تو پھر منزلِ مقصود پر پہنچنا مشکل ہے۔ بدظنی بہت بُری چیز ہے انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کردیتی ہے۔ اور پھر بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بدظنّی شروع کر دیتا ہے۔
اگر بد ظنی کا مرض نہ بڑھ گیا ہوتا تو بتلاوٴ کہ ان مولویوں کو جنہوں نے میری تکفیر اور ایذادہی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا اور کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ کونسی وجوہ کفر کی اور میری تکذیب کی نظر آئی تھی۔ میں نے پُکار پُکار کر اور خدا کی قسمیں کھا کھا کر کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ قرآن کریم کو خاتم الکتب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتا ہوں۔ اور اسلام کو ایک زندہ مذہب اور حقیقی نجات کا ذریعہ قرار دیتا ہوں۔ خدا تعالیٰ کی مقادیر اور قیامت کے دن پر ایمان لاتا ہوں۔ اسی قبلہ کی طرف منہ کرکےنماز پڑھتا ہوں۔اتنی ہی نمازیں پڑھتا ہوں۔ رمضان کے پورے روزے رکھتا ہوں پھر وہ کونسی نرالی بات تھی جو انہوں نے میرے کفر کے لئے ضروری سمجھی۔
(ملفوظات جلد ۲صفحہ ۱۰۷-۱۰۸، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
گمانِ بد شیاطیں کا ہے پیشہ
نہ اہلِ عِفّت و دیں کا ہے پیشہ
وُہی کرتا ہے ظنِّ بد بِلا رَیب
کہ جو رکھتا ہے پَردہ میں وہی عیب
(درثمین صفحہ ۱۸۰)