خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍ جولائی 2024ء
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلام کو رواج دینے کے لیے تم چاہے کسی کو جانتے ہو یا نہیں جانتے اس کو سلام کرو
حدیقة المہدی میں ایک عارضی شہر بنایا گیا ہے تا کہ جلسہ سالانہ کے ماحول میں رہ کر ہم دنیاوی جھمیلوں سے علیحدہ ہو کر اپنی دینی، روحانی، اخلاقی حالتوں کو بہتر کرنے کی کوشش کریں
جلسے پر آنے والوں کو کسی بھی قسم کی سہولت میسر آنے سے زیادہ اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ کس طرح ہم اس ماحول سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں
مَیں تمام کارکنان کو اس طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ جو بھی ڈیوٹیاں ان کے سپرد ہیں وہ انہیں اچھے رنگ میں انجام دینے کی کوشش کریں ۔ بہترین رنگ میں انجام دینے کی کوشش کریں۔ جلسہ کے مہمانوں کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان سمجھ کر خدمت کریں ۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی خاطر نیک مقصد کے لیے آنے والے مہمان سمجھ کر خدمت کریں۔ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ مہمان کی طرف سے آپ کے خیال میں اگر کوئی زیادتی بھی ہو جاتی ہے تو اس سے صرفِ نظر کریں ۔ یہی ہماری روایت ہے۔ یہی اعلیٰ اخلاق ہیں۔ یہی خدا اور اس کے رسولؐ کا حکم ہے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہم سے چاہتے ہیں ۔ اب یہ مہمان نوازی اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کا ہر ملک میں ایک خاص وصف بن چکا ہے
ہر شعبہ کے کارکنان کو اپنے مہمانوں کا اچھی طرح خیال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، چاہے وہ ٹریفک کی ڈیوٹی ہے یا پارکنگ کی ڈیوٹی ہے یا کھانا کھلانے کی ڈیوٹی ہے یا ڈسپلن کی ڈیوٹی ہے یا گیٹ پر چیکنگ کی ڈیوٹی ہے یا hygiene اور صفائی کی ڈیوٹی ہے یا پانی سپلائی کی ڈیوٹی ہے کوئی بھی ڈیوٹی ہے، کوشش کریں کہ حتی الوسع مہمان کی سہولت کا انتظام ہو اور اس کو کسی طرح تکلیف نہ پہنچے
جو للّٰہی سفر اختیار کرنے والے ہوتے ہیں ان کی ان دنیاوی ضروریات اور آراموں کی طرف بہت کم توجہ ہوتی ہے اور یہی ان کا بنیادی مقصد ہوتا ہے کہ یہاں رہ کر زیادہ سے زیادہ روحانی مائدے سے فائدہ اٹھائیں
حقیقی مومن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ غصہ کو دبانے والے ہوتے ہیں اور زیادتی کرنے والے یا جن پر زیادتی ہو رہی ہو دونوں کو میں یہ کہتا ہوں کہ جلسہ کے ماحول کے تقدس کو سامنے رکھیں اور مہمان بھی صَرفِ نظر سے اور عفو سے اور درگزر سے کام لیں
یہاں آنے والے ایک دوسرے کو سلام کرنے کا بھی رواج دیں… اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو یہ پاکیزہ اور بابرکت دعا سکھائی ہے اس کی طرف ان دنوں میں بہت توجہ دیں تا کہ ہم ہر طرف سلامتی اور پیار اور محبت پھیلانے والے بن جائیں اور یہ ماحول خالصةً للہ پیار اور محبت اور بھائی چارے کا ماحول بن جائے
جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر میزبانوں اور مہمانوں کو زرّیں نصائح نیز ارشادِ نبویؐ کی روشنی میں سلام کو رواج دینے کی تلقین
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍جولائی 2024ء بمطابق 26؍وفا 1403 ہجری شمسی بمقام حدیقۃالمہدی،آلٹن (ہمپشئر)،یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
اللہ تعالیٰ کے فضل سے
آج جلسہ سالانہ برطانیہ شروع ہو رہا ہے
اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں لوگ یہاں دینی اور روحانی ماحول سے فائدہ اٹھانے کے لیے آئے ہیں۔ ان دنوں میں یہاں حدیقة المہدی میں ایک عارضی شہر بنایا گیا ہے تا کہ
اس ماحول میں رہ کر ہم دنیاوی جھمیلوں سے علیحدہ ہو کر
اپنی دینی، روحانی، اخلاقی حالتوں کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔
پس ایسے حالات میں
آنے والوں کو کسی بھی قسم کی سہولت میسر آنے سے زیادہ اس بات کی فکرہونی چاہیے کہ کس طرح ہم اس ماحول سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں
لیکن بہرحال انسان کے ساتھ بشری ضروریات اور تقاضے بھی لگے ہوئے ہیں۔ اس لیے انتظامیہ یہ کوشش کرتی ہے کہ ان ضروریات کو پورا کرنے اور آنے والوں کو جس حد تک ممکن ہو آرام پہنچانے کے لیے انتظام ہو سکتے ہیں وہ کریں۔ اس کے لیے مختلف شعبہ جات جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہمارے نظام میں قائم کیے جاتے ہیں اور ہزاروں کارکنان رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لیے پیش کرتے ہیں۔
پس اس حوالے سے پہلے تو
مَیں تمام کارکنان کو اس طرف توجّہ دلانی چاہتا ہوں کہ جو بھی ڈیوٹیاں ان کے سپرد ہیں وہ انہیں اچھے رنگ میں انجام دینے کی کوشش کریں ۔ بہترین رنگ میں انجام دینے کی کوشش کریں ۔ جلسہ کے مہمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان سمجھ کر خدمت کریں ۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی خاطر نیک مقصد کے لیے آنے والے مہمان سمجھ کر خدمت کریں ۔ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ مہمان کی طرف سے آپ کے خیال میں اگر کوئی زیادتی بھی ہو جاتی ہے تو اس سے صَرفِ نظر کریں ۔ یہی ہماری روایت ہے۔ یہی اعلیٰ اخلاق ہیں۔ یہی خدا اور اس کے رسولؐ کا حکم ہے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہم سے چاہتے ہیں ۔ اب یہ مہمان نوازی اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کا ہر ملک میں ایک خاص وَصف بن چکا ہے۔
جلسہ کے دنوں میں خاص طور پر اس طرف بہت توجہ دی جاتی ہے۔ پس یہاں بھی ہمیشہ کی طرح سب کارکنان ان اعلیٰ اوصاف کا مظاہرہ کریں جو اسلامی تعلیم کا خاصّہ ہیں ۔ مجھے علم ہے کہ سب کارکنان اس جذبے سے کام کرتے ہیں اور اب بھی کریں گے۔ کل میں نے کارکنان سے جو مختصر سا خطاب تھا جسے کارکنان سے خطاب کہتے ہیں اس میں بھی یہی کہا تھا لیکن یاددہانی اور کئی نئے آنے والوں کی تربیت کے لیے یہ میں باتیں کہہ رہا ہوں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرمایا کرتے تھے کہ مہمان کا دل تو آئینہ کی طرح ہوتا ہے، جذباتی ہوتے ہیں ۔ ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ ذرا سی بات پر ہلکی سی ٹھوکر سے وہ شیشے کی طرح ٹوٹ جاتا ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 406 ایڈیشن 1984ء)
مہمان کا دل بڑا نازک ہوتا ہے اور پھر اس شخص کے لیے بعض دفعہ ٹھوکر کا باعث بن جاتا ہے۔ بعض صحیح طرح سوچتے نہیں کہ یہ تو صرف اس کارکن کی غلطی تھی۔ جماعتی تعلیم کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے لیکن بعضوں کو بہرحال ٹھوکر لگ جاتی ہے۔ پس بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال یہ باتیں ان لوگوں کے متعلق ہیں جو نئے آنے والے ہیں جن کی صحیح تربیت نہیں ہوئی یا جماعت میں ابھی تک شامل نہیں ہوئے ہوتے لیکن یہاں آنے والے اکثر اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہیں یہ بات سمجھ کر آتے ہیں کہ یہاں تکالیف برداشت کرنی پڑیں گی لیکن بہرحال جیسا کہ میں نے کہا کچھ مہمان باہر کے بھی ہوتے ہیں جن کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے جو ابھی تک جماعت میں شامل نہیں ہوئے یا جن کی صحیح تربیت نہیں ہوئی۔ پس اس کے لیے جو کارکنان ہیں سب کارکنان،,
ہر شعبہ کے جو کارکنان ہیں ان کو اپنے مہمانوں کا اچھی طرح خیال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، چاہے وہ ٹریفک کی ڈیوٹی ہے یا پارکنگ کی ڈیوٹی ہے یا کھانا کھلانے کی ڈیوٹی ہے یا ڈسپلن کی ڈیوٹی ہے یا گیٹ پر چیکنگ کی ڈیوٹی ہے یا ہائی جین اور صفائی کی ڈیوٹی ہے یا پانی سپلائی کی ڈیوٹی ہے کوئی بھی ڈیوٹی ہے کوشش کریں کہ حتی الوسع مہمان کی سہولت کا انتظام ہو اور اس کو کسی طرح تکلیف نہ پہنچے۔
بعض باتیں اس کے بعد میں مہمانوں کو بھی کہنی چاہوں گا۔ اسی طرح کچھ انتظامی باتیں بھی ہیں جو میں عرض کروں گا۔
مہمانوں کے لیے
تو سب سے پہلے میں یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ آپ لوگ ایک نیک مقصد کے لیے یہاں آئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمان بن کر یہاں آئے ہیں ۔ دنیاوی اعزاز اور دنیاوی خدمت کے بجائے ان اعلیٰ اخلاق میں مزید ترقی کرنے کو اپنے پیش نظر رکھیں جو ایک حقیقی مسلمان کا طرۂ امتیاز ہے اور جس کو حاصل کرنے کے لیے آپ لوگ یہاں آئے ہیں اور اسی مقصد کے لیے آنا چاہیے۔ بےشک نظامِ جماعت کے تحت جیسا کہ مَیں نے کہا اس پاک اور بابرکت اور بامقصد سفر کرنے والے مسافروں اور مہمانوں کے لیے خدمت کا نظام موجود ہے اور ضروریات کے لیے جو ضروریات میسر ہو سکتی ہیں وہ مہیا کرنے کی کوشش انتظامیہ کرتی ہے۔ لیکن
جو للّٰہی سفر اختیار کرنے والے ہوتے ہیں اُن کو اِن دنیاوی ضروریات اور آراموں کی طرف بہت کم توجہ ہوتی ہے اور یہی ان کا بنیادی مقصد ہوتا ہے کہ یہاں رہ کر زیادہ سے زیادہ روحانی مائدے سے فائدہ اٹھائیں ۔
پس آپ اپنے آپ کو کبھی دنیاوی مسافروں اور مہمانوں کے زُمرے میں لانے کی کوشش نہ کریں ۔ اگر اس بات کو آپ سمجھ جائیں گے تو میزبانوں کی کمزوریوں اور کمیوں سے بھی آپ صَرف نظر کرتے رہیں گے ورنہ بعض دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ شکوہ پیدا ہو جاتا ہے کہ فلاں جگہ کے لوگوں کا بہتر انتظام تھا۔ فلاں لوگوں کو زیادہ سہولت میسر کی گئی تھی۔ فلاں کے ساتھ بہتر سلوک ہوا۔ فلاں کے ساتھ کم سلوک ہوا۔ تو اس طرح پھر اس قسم کے شکوے پیدا نہیں ہوں گے۔
بعض دفعہ اندازے کی غلطی سے بعض کمزوریاں رہ جاتی ہیں تو ان کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ اگر ہر ایک کے دل میں یہ خیال ہو، ہر آنے والے احمدی مسلمان کے دل میں یہ خیال ہو کہ ہمارا مقصد صرف اور صرف روحانی مائدہ حاصل کرنا ہے نہ کہ کسی بھی قسم کی دنیاوی سہولتوں کو حاصل کرنا ہے تو پھر دونوں میزبان اور مہمان محبت اور پیار سے یہ دن گزاریں گے۔ بہرحال یہ بھی میں بتا دوں کہ انتظامیہ کی طرف سے پوری کوشش ہوتی ہے کہ سب مہمانوں کے ساتھ ایک طرح سے سلوک کیا جائے لیکن پھر بھی بعض دفعہ جیسا کہ میں نے کہا کمی بیشی ہو جاتی ہے اور اس سے پھر مہمانوں کو صَرفِ نظر کرنا چاہیے۔ یہی ہماری تعلیم ہے۔ جہاں ہمیں یہ حکم ہے کہ مہمان کی عزت کرو اور تکریم کرو اور خیال رکھو وہاں مہمانوں کو بھی یہی کہا گیا ہے کہ تم لوگ بھی میزبان کی سہولت کا خیال کرو۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام مہمانوں کی بہت عزت و تکریم فرماتے تھے اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اپنی ضروریات بے تکلفی سے بیان کر دیا کرو۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 112 ایڈیشن 1984ء)لیکن یہ عام حالات کی بات ہے۔ جلسہ کے جو مہمان تھے ان کے لیے آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہی انتظام ہو۔ ہر مہمان کی اسی طرح مہمان نوازی کی جائے جو ایک انتظام کے تحت ہے اور حتی الوسع ایک طرح کی ہو۔
(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ حصہ سوم صفحہ 395-396)
جلسہ کے دنوں میں مہمان نوازی کا نظام عام حالات سے مختلف ہو جاتا ہے اور یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہزاروں لوگ جو یہاں آئے ہوئے ہیں ان کو ایک ہی طرح سے جس حد تک ممکن ہو سہولتیں مہیا کرنے کی کوشش کی جائے سوائے جو غیر مہمان آتے ہیں یا غیر ملکی مہمان آتے ہیں ان کی بعض مجبوریوں کی وجہ سے مختلف انتظام بھی کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس تکریم اور عزت کے باوجود جو آپؑ مہمانوں کی کرتے تھے عام حالات میں بھی مہمان کے دل میں یہ بات راسخ فرماتے تھے کہ تمہارے یہاں آنے کی اصل غرض دین سیکھنا ہے اور اپنے دل و دماغ کو پاک کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی منازل کو طے کرنا ہے۔ پس یہی غرض ہے جس کے حصول کے لیے ہر سال آپ لوگ یہاں مہمان بن کر آتے ہیں، جمع ہوتے ہیں اور اسی غرض کو حاصل کرنے کے لیے جلسہ پر آنے والے مہمانوں کو آنا چاہیے۔ ان دنوں میں جلسہ میں بیٹھ کر جلسہ گاہ میں ہونے والے پروگرام اور تقاریر کو غور سے سنیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں ۔
مہمانوں کے لیے چند عمومی باتیں
اَور بھی پیش کرتا ہوں ۔ مو من کے لیے اپنے وقت کا صحیح استعمال انتہائی ضروری ہے۔ جب ایسے اجتماعی موقعوں پر سب جمع ہوتے ہیں تو دُور دُور سے آئے ہوئے عزیزوں اور واقف کاروں کی ایک دوسرے سے ملاقاتوں اور مل بیٹھنے کی خواہش بھی ہوتی ہے۔ اب جبکہ صرف ایک ملک کے رہنے والے واقف کار اور عزیز نہیں بلکہ دوسرے ملکوں کے رہنے والے واقف کاروں اور عزیزوں سے بھی ملاقات کے سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ جماعت عطا فرمائی ہے جس نے ملکوں اور قوموں کی سرحدوں کو اور فرقوں کو ختم کر دیا ہے اور ایک عظیم بھائی چارے کی بنیاد پڑ چکی ہے۔ آپؑ نے جلسہ میں شامل ہونے والوں کا ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں۔(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394)ان میں مضبوطی پیدا ہوتی چلی جائے۔ ہم ایک قوم بن جائیں اور اس کے لیے ظاہر ہے مل بیٹھنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ آپس میں ایک دوسرے سے میل ملاقات بھی ہوتی ہے اور یہ ضروری چیز ہے۔ ایک دوسرے سے واقفیت بڑھانے اور تعلق بڑھانے کے لیے ضروری چیز ہے لیکن سارا دن جلسہ کا جو پروگرام ہو رہا ہوتا ہے اس کو بہرحال سننے میں وقت گزارنا چاہیے اور اس کے بعد ہی جو موقع میسر آئے اس میں پھر آپس میں مل بیٹھیں اور باتیں کریں اور تعلقات بڑھائیں ۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض دفعہ بعض پرانے واقف کاروں کا یہ مل بیٹھنا اتنا لمبا ہو جاتا ہے جو دیر بعد ملتے ہیں تو یہ اتنی لمبی ملاقاتیں ہو جاتی ہیں کہ خوش گپیوں میں ساری ساری رات ضائع ہو جاتی ہے اور پھر نماز فجر کے وقت تہجد تو خیر علیحدہ رہی فجر کے وقت بھی مشکل سے ان کی آنکھ کھلتی ہے۔
پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ انتظامیہ کو بھی اس سے دقّت پیش آتی ہے کہ کھانے کی مارکی میں باتوں میں لگے اور کھانا کھاتے ہوئے لوگ لمبی باتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اتنا وقت گزارتے ہیں کہ کارکنوں کو پھر یاددہانی کروانی پڑتی ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے یا بہت زیادہ وقت ہو گیا ہے۔ بہرحال اسی طرح گھروں میں ٹھہرنے والوں کو بھی ہو سکتا ہے دقتیں پیش آتی ہوں تو اعتدال سے کام لینا چاہیے۔ مہمانوں کو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ میزبانوں نے بھی اپنے کام سمیٹنے ہیں اور اگلے وقت کی تیاری کرنی ہوتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہوئے مہمانوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کا یہی حکم تھا کہ بیٹھ کے باتوں میں وقت ضائع نہ کیا کرو۔ جب کھانا پینا ہو جائے تو اٹھ کے چلے جایا کرو۔ (الاحزاب:54) پس خاص طور پر کھانے کی مارکی میں جب زیادہ رَش ہو جائے تو بعض دفعہ کھانا شفٹوں میں کھلانا پڑتا ہے۔ اس لیے فوری طور پر کھانا کھا کے اٹھ جانا چاہیے تا کہ دوسرے لوگ بھی آ سکیں اور آرام سے کھانا کھا سکیں ۔ پس یہ باتیں اگر ہوں گی تو پھر کسی قسم کے شکوے بھی پیدا نہیں ہوں گے اور اس خوشگوار ماحول میں سب کام ہوتے رہیں گے۔
پھر اسی طرح جب بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوں تو بعض دفعہ بدمزگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ کبھی انتظامیہ سے شکوے کی وجہ سے مہمان نے کسی کارکن کو برا بھلا کہہ دیا، کارکن نے بھی آگے سے جواب دے دیا تو پھر بات مزید آگے بڑھتی چلی جاتی ہے اور اس طرح رنجشوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ اِکا دُکا واقعات ہو رہے ہوں لیکن ماحول اس سے کشیدہ ہو جاتا ہے۔ دوسرے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ اگر تو شکوے کرنے والے یا غلط بات کہنے والے یہاں کے رہنے والے ہیں یعنی یوکے میں رہنے والے ہیں تو پھر یہ سلسلہ اَور بھی لمبا ہو جاتا ہے اور پھر دوسرے موقعوں پر بھی اس کا اظہار ہو جاتا ہے اور صرف یہیں نہیں باقی ملکوں میں بھی یہی چیز سامنے دیکھنے میں آئی ہے۔
حقیقی مومن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ غصّہ کو دبانے والے ہوتے ہیں اور زیادتی کرنے والے یا جن پر زیادتی ہو رہی ہو دونوں کو میں یہ کہتا ہوں کہ جلسہ کے ماحول کے تقدّس کو سامنے رکھیں اور مہمان بھی صَرفِ نظر سے اور عفو سے اور درگزر سے کام لیں۔
اگر ان کے خیال میں زیادتی ہو بھی جائے تب بھی صبر اور حوصلے سے کام لیں ۔ صبر اور حوصلہ دکھائیں اور کارکن بھی اپنے غصہ کو مہمان کی طرف سے زیادتی ہونے کے باوجود اگر وہ سمجھتے ہیں کہ زیادتی ہو رہی ہے پھر بھی دبا جائیں ا ور غصہ پی جائیں ۔
اسی طرح کارڈز کی چیکنگ ہے اور سیکیورٹی ہے کیونکہ سیکیورٹی چیک بھی آج کل کے حالات میں بہت ضروری ہے، بڑی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ اس کے مختلف مرحلوں سے گزرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو تکلیف بھی ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ دیر بھی لگ جائے اور خاص طور پر عورتوں میں یہ زیادہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ ان کے بچے بھی ہوتے ہیں اور ان کے سامان بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔ عورتوں نے بعض دفعہ بےشمار بیگ اٹھائے ہوتے ہیں اور ہر بیگ کو چیک کرنے میں پھر وقت بھی لگ جاتا ہے۔ اس لیے ایک تو عورتوں کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ آج تو اگر کوئی زیادہ سامان لے آئی ہیں تو ٹھیک ہے لیکن باہر سے آنے والے لوگ جو جلسہ گاہ میں نہیں ٹھہرے ہوئے اکثر تو باہر سے ہی آرہے ہوتے ہیں وہ آئندہ دو دنوں میں کم سے کم اپنا سامان لائیں تا کہ چیکنگ میں کم سے کم وقت خرچ ہو۔ جو بچے والیاں ہیں وہ بھی صرف بچوں کی ضرورت کی چیزیں لائیں۔ غیرضروری چیزیں ساتھ نہ لائیں ۔ اس سے بلا وجہ دیر ہوتی ہے۔ وقت ضائع ہوتا ہے۔ انتظامیہ کا بھی وقت ضائع ہوتا ہے اور لوگوں کا بھی وقت ضائع ہوتا ہے۔ لوگوں کو لائن میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑتا ہے پھر وہ انتظامیہ کو الزام دیتے ہیں حالانکہ قصور بعض دفعہ جلسہ میں شامل ہونے والوں کا ہوتا ہے کیونکہ لوگوں کی چیزیں اور سامان اتنا زیادہ ہوتا ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ چیکنگ میں دیر لگ جاتی ہے۔
پھر ایک مومن کو ایک حکم اور ارشاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ تم لوگ قطع تعلق کرنے والے سے بھی تعلق قائم رکھو۔ جو تمہیں نہیں دیتا اسے بھی دو۔ یہ نہیں ہے کہ ضرورت کے وقت تمہارے کام نہیں آیا تو اس کو ضرورت پڑنے پر بدلہ لیتے ہوئے تم بھی اس کی مدد نہ کرو۔ فرمایا کہ جو تمہیں برا بھلا کہتا ہے اس سےبھی درگذر کرو۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 373 حدیث 15703 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پس یہاں تو برا بھلا کہنے کا سوال نہیں ہے یہاں تو ایک فرض کی ادائیگی ہے جو کارکنان کے ذمہ لگائی گئی ہے۔ یہاں اگر انجانے میں کسی کارکن سے کوئی غلطی ہو جائے یا چیکنگ کے دوران دیر لگ جائے یا کسی کے کارڈ پر کوئی اعتراض پیدا ہو جائے تو برا منانے کی بجائے حوصلہ دکھانا چاہیے۔ یہ باتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہیں یہ وسعتِ حوصلہ کی طرف راہنمائی کرتی ہیں ۔
اگر وسعتِ حوصلہ پیدا ہو جائے تو تمام بدمزگیاں اور جھگڑے ختم ہوجائیں۔
پس مہمانوں اور ڈیوٹی دینے والوں، دونوں کو کہتا ہوں کہ ان کا فرض ہے کہ وسعتِ حوصلہ دکھائیں۔ چیکنگ کرنے والوں کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ آنے والے مہمانوں کے لیے جس حد تک سہولت مہیا کر سکتے ہیں وہ مہیا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے اگر انتظامیہ کو زیادہ کارکن بھی لگانے پڑیں تو لگانے چاہئیں خاص طور پر رش کے وقتوں میں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خواہش کے مطابق کوشش یہ کرنی چاہیے کہ باہم محبت و اخوت کی مثال بن جائیں۔(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394) اور یہی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے بارے میں فرمایا ہے۔ پس چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھنے کی بجائے کوشش یہ کریں کہ ہم نے اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ جو رکوع اور سجود اور عبادتوں سے حاصل ہوتا ہے اور ذکر الٰہی سے حاصل ہوتا ہے۔ ہر مہمان جو یہاں آیا ہے اپنے سفر کو خالصةً للہ بنانے کی کوشش کرے۔ کارکن بھی یاد رکھیں اور مہمان بھی یاد رکھیں کہ بعض غیر از جماعت بھی یہاں آئے ہوتے ہیں، غیر مسلم بھی یہاں آئے ہوتے ہیں۔ ہر شخص مہمان بھی اور میزبان بھی اگر اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کر رہے ہوں گے تو یہ خاموش تبلیغ کر رہے ہوں گے اور اس سے پھر غیروں پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے اور پھر ان کو اسلام کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور اسلامی تعلیم کی خوبیوں سے وہ متاثر ہوتے ہیں۔
پھر ایک ضروری چیز یہ ہے کہ
یہاں آنے والے ایک دوسرے کو سلام کرنے کو بھی رواج دیں۔
اس طرف بھی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں ۔ بڑی برکت والی اور پاکیزہ دعا ہے جو ہمیں سکھائی گئی ہے۔ جب میزبان اور مہمان ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں تو جہاں وہ ہر ایک قسم کے خوف اور فکر سے آزاد ہوتے ہیں وہاں ایک ایسی دعا جو ایک دوسرے کو فیضیاب کرنے والی ہوتی ہے وہ دے رہے ہوتے ہیں ۔ پس
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو یہ پاکیزہ اور بابرکت دعا سکھائی ہے اس کی طرف ان دنوں میں بہت توجہ دیں تا کہ ہم ہر طرف سلامتی اور پیار اور محبت پھیلانے والے بن جائیں اور یہ ماحول خالصةً للہ پیار اور محبت اور بھائی چارے کا ماحول بن جائے
اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہر قسم کی نفسانی اغراض سے اپنے آپ کو پاک کریں اور ان دنوں میں ایک انقلاب اپنی زندگیوں میں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہوں ۔ ہمارے لیے ہر معاملے میں صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے۔ مہمانوں کے اعلیٰ اخلاق کا تو یہ حال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی کی وجہ سے یہ کوشش کرتے تھے کہ قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور جیسا کہ قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ اگر کوئی مہمان کسی کے گھر میں جائے اور گھر والا کہے کہ واپس چلے جاؤ۔ اس وقت مَیں فارغ نہیں تو خوشی سے وہ واپس چلا جائے۔وسعتِ حوصلہ دکھائے۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں کوشش کرتا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو بھی پورا کرنے والا بن جاؤں اور چاہتا تھا کہ کسی کے گھر جاؤں اور گھر والا مجھے کہے کہ واپس چلے جاؤ۔ ابھی وقت نہیں ہے میرے پاس اور میں خوشی سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے وہاں سے واپس آ جاؤں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے و الا بن جاؤں لیکن کہتے ہیں مجھے باوجود کوشش کے کبھی یہ موقع میسر نہیں آیا کہ کسی نے مجھے گھر سے لوٹایا ہو۔
(ماخوذ از تفسیر درمنثور جلد 5 (مترجم) صفحہ 116 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور 2006ء )
پس یہ وہ اعلیٰ اخلاق تھے جو میزبانوں کے بھی تھے، جو گھر والوں کے بھی تھے اور جو کسی کے گھر جانے والے جو مہمان تھے ان کے بھی تھے۔ پس یہ وسعتِ حوصلہ ہونی چاہیے۔ انسان میں جب یہ وسعتِ حوصلہ ہو تو پھر چھوٹی چھوٹی باتیں جو ہیں ان کو انسان ویسے ہی نظر انداز کر دیتا ہے۔
میں نے ایک دوسرے کو سلام کرنے کے بارے میں بات کی۔ اس بارے میں ایک اَور بات یہ بھی یاد رکھیں کہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلام کو رواج دینے کے لیے تم چاہے کسی کو جانتے ہو یا نہیں جانتے اس کو سلام کرو۔
(صحیح بخاری کتاب الایمان باب (افشاء) السلام من الاسلام حدیث 28)
سلام کو رواج دینے کے لیے اس حد تک جاؤ کہ چاہے تم کسی کو جانتے ہو یا نہیں جانتے تم اسے سلام کرو۔ پس جب یہ سلامتی کا رواج پیدا ہو گا تو مہمان جو غیر از جماعت ہیں اور جو نومبائعین ہیں ان کے دلوں پر ایک اچھا اثر قائم ہو گا اور اس پاک ماحول سے وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کی تعریف کرنے والے بن جائیں گے۔ اور جو نومبائعین اس پر عمل کرنے والے ہوں گے وہ زیادہ احسن رنگ میں نظام میں جذب ہونے والے بن جائیں گے۔ ان کو شکوہ ہوتا ہے کہ بعض جگہ ہمیں جذب نہیں کیا جاتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔ جب جنگِ مقدس کی تقریب تھی جو کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں مباحثہ ہوا تھا۔ اس دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام جہاں ٹھہرے ہوئے تھے وہاں ایک دفعہ آپؑ کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ کارکنان کہتے ہیں کہ ایک دن مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے منتظمین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے کھانا رکھنا بھول گئے یا پیش کرنا بھول گئے اور رات کا ایک حصہ گزر گیا آپؑ کو کھانا نہیں دیا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے انتظار کے بعد جب کھانے کے بارے میں پوچھا تو سب جو انتظام کرنےو الے تھے وہ تو بڑے پریشان ہو گئے۔ سب کے ہاتھ پیر پھول گئے کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ کھانا رکھا ہو ا نہیں ہے۔ بازار بھی اب بند ہو چکے ہیں۔ بہت دیر ہو گئی ہے وہاں سے لا نہیں سکتے۔ بہرحال جب یہ صورتحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم میں آئی، جب آپؑ کو پتہ لگا تو آپؑ نے فرمایا کہ اس طرح گھبراہٹ اور تکلیف کی ضرورت کیا ہے۔ دستر خوان پہ دیکھو، جہاں کھانا کھایا ہوا ہے وہاں دیکھو! لوگوں کا کچھ بچا کھچا پڑا ہو گا وہی کافی ہے۔ جو پڑا ہے وہی لے آؤ۔ دستر خوان جب دیکھا گیا تو وہاں سوائے روٹیوں کے چند ٹکڑوں کے کچھ بھی نہیں تھا۔ سالن وغیرہ بھی نہیں تھا۔ آپؑ نے فرمایا کہ ہمارے لیے یہی کافی ہے اور آپؑ نے وہی کھا لیا۔
(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ حصہ سوم صفحہ 322 )
تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق اور آپؐ کی سنت پر عمل کرنے و الے تھے یہ ان کا نمونہ تھا۔ پس ہمیں بھی جو آپؑ کی جماعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں صبر اور حوصلہ اور شکرگزاری کے یہ جذبات ہر وقت دکھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ان تین دنوں میں کسی کی مہمان نوازی میں کوئی کمی بھی رہ گئی ہو تو اس سے درگزر کریں اور انتظامیہ کو زیادہ مورد الزام نہ ٹھہرائیں۔
کوشش تو انتظامیہ کی یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ بہتری پیدا کی جائے لیکن مہمانوں کی طرف سے بھی کسی قسم کی ناراضگی اور شکوہ نہیں ہونا چاہیے۔
اگر نیک نیت سے اصلاح کی خاطر توجہ دلانی چاہتے ہیں اور جو مشورے دینا چاہتے ہیں تو بعد میں وہ اپنے مشورے بھیج سکتے ہیں تا کہ آئندہ سالوں میں بہتری پیدا ہو اور نئے آنے والوں کے لیے بھی زیادہ سہولتوں کا انتظام ہو۔
اس کے علاوہ میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ ان دنوں میں مختلف قسم کی نمائشیں لگی ہوئی ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یورپ اور یوکے کے دورے پر اس سال سو سال پورے ہو رہے ہیں۔اس کے لیے یوکے کی جماعت نے مرکزی آرکائیوز کے ساتھ مل کر ایک نمائش لگائی ہے۔ مختلف تصاویر کی نمائش ہے۔ اس کو ضرور دیکھیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یوکے کی سو سال کی تاریخ ہے۔ اسی طرح ریویو آف ریلیجنز کی نمائش ہے۔ آرکائیوز اور تبلیغ کے شعبہ کی نمائش ہے۔ مخزنِ تصاویر کی نمائش ہے۔ یہ ساری نمائشیں دیکھنے والی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اچھی طرح انہوں نے سیٹ کی ہوں گی۔ جو فارغ اوقات ہیں ان میں اِدھر اُدھر وقت ضائع کرنے کی بجائے ان نمائشوں کو دیکھنے کی کوشش کریں۔
اسی طرح انتظامیہ کو یہ بھی ہدایت دی گئی ہے کہ دنیا میں اب بعض جگہوں پر کووِڈ کے مریض زیادہ نظر آنے لگ گئے ہیں یہاں بھی بعض جگہوں پہ مریضوں میں اضافہ ہوا ہے تو یہاں مختلف جگہوں سے لوگ آئے ہوئے ہیں اور ہو سکتا ہے کوئی کووِڈ کے جراثیم بھی لے کر آیا ہو۔ اس لیے گیٹس پر، داخلی رستوںپہ ہومیو پیتھک دوائی جو حفظ ماتقدّم کے لیے ہے، preventiveہے اس کو دینے کا انتظام کیا گیا ہے۔ کوشش کریں کہ ہر شخص جو گیٹ سے اندر داخل ہو اگر انتظامیہ ان کو وہ دوائی دے تو وہ آرام سے لے لیں بلکہ خود مانگ کے لیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ ہر شر سے بھی محفوظ رکھے۔
اسی طرح سیکیورٹی کا انتظام ہے پہلے بھی میں نے کہا۔ سیکیورٹی کے انتظام میں ہر سال میں کہتا رہتا ہوں کہ
سب سے بڑھ کر سیکیورٹی ہماری یہی ہے کہ اپنے دائیں بائیں نظر رکھیں اور کوشش کریں کہ ہر ایک دوسرے کو دیکھ رہا ہے۔یہ سب سے بڑی سیکیورٹی ہوتی ہے۔ اگر یہ ہو جائے تو پھر کسی مخالف کو، دشمن کو کسی بھی قسم کا شر پھیلانے کا موقع نہیں ملتا۔
اسی طرح غیر ضروری سامان بیگ وغیرہ کہیں پڑا ہوا دیکھیں تو انتظامیہ کو اطلاع دے دیں اور اگر کسی شخص کی کوئی مشکوک حرکات دیکھیں تب بھی انتظامیہ کو بتا دیں ۔ بہرحال ان دنوں میں سیکیورٹی کی طرف خاص توجہ دیں لیکن
سب سے بڑا ہتھیار ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی پناہ ہے اور اس پناہ کو حاصل کرنے کے لیے دعاؤں اور ذکرِ الٰہی کی طرف ہمیں زور دینا چاہیے۔ اس طرف خاص طور پر ان تین دنوں میں زور دیں ۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ اس پر عمل کرنےو الے ہوں اور یہ جلسہ ہر لحاظ سے ہر ایک کے لیے بابرکت ہو۔
٭…٭…٭
الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍ اگست ۲۰۲۴ء