اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (دورۂ جرمنی ۲۰۱۷ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ پنجم)
ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
ایک ایمان افروز کہانی
جرمنی میں ایک شخص جسے مَیں گذشتہ چند سال سے جاننے لگا ہوں وہ چونتیس سالہ جرمن نَو مبائع حماد مارٹن ہیرٹر ہے جو اب جرمنی جماعت میں بطور نیشنل سیکرٹری تربیت نَومبائعین خدمت کی توفیق پا رہا ہے۔
اس شام مَیں نے حماد کے ساتھ کچھ وقت گزارا اَور اس نے احمدیت کے اپنے ذاتی سفر اور اپنےخاندان کے افراد پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں بتایا۔ اس کی ایک بہت ہی متاثر کن کہانی تھی جس کے مطابق اس کی بیعت کے بعد اس کے دو چھوٹے بھائیوں نے بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی۔
حماد نے مجھے بتایا کہ وہ Bavariaکے جس قصبہ میں پلا بڑھا تھاوہاں شاید ہی کوئی غیر ملکی تھا اور اس کے اپنے سکول میں صرف ایک غیر جرمن طالب علم تھا۔ تاہم اسی طالب علم نےجو کہ ایک غیر احمدی مسلمان تھا، اسے پہلی بار قرآن کریم سے متعارف کرایا، جسے اس نے بڑی دلچسپی سے پڑھنا شروع کیا اور جلد ہی اسے معلوم ہوا کہ قرآنی تعلیمات کا اس پرگہرا اَثر مرتب ہواہے۔ یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی حماد کی دلچسپی اسلام میں بڑھتی چلی گئی لیکن اس نے قرآنی تعلیمات اور جن مسلمانوں سے وہ ملا تھا کے طرز عمل میں واضح تضاد دیکھا۔
حماد نے کہا مَیں یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے میونخ چلا گیا اور وہاں میری کچھ غیر احمدی مسلمانوں سے ملاقات ہوئی لیکن مَیں حیران رہ گیا کیونکہ ان کے تصورِ اسلام اور قرآن کریم میں جو کچھ مَیں نے مطالعہ کیا تھا اس میں ایک بہت بڑی خلیج اور واضح فرق تھا۔ مجھے بہت زیادہ الجھن محسوس ہوئی اور اس لیے مَیں نے خدا سے دعا کی اور مدد طلب کی کہ آیا میری تفہیمِ قرآن درست ہے یا جو اسلام غیر احمدیوں نے اپنا یا ہوا ہے وہ درست ہے؟
حماد نے بتایا کہ کچھ دنوں کی متضرعانہ دعاؤں کے بعد مَیں اتفاقاً ایک مضمون پر جا پہنچا جس کا عنوان تھا اسلام کیا چاہتا ہے؟ مَیں نے اسلامی ریاست کے لیے آن لائن سرچ کیا تھا کیونکہ مجھے کسی اور چیز پر تحقیق کرنے کا شوق تھا لیکن بہرحال مَیں نے اس مضمون کو پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ جب مَیں نے اسے پڑھا تو مَیں حیران رہ گیا اور مجھے معلوم ہوا کہ اس میں میرے قلبی سوالات کے بہترین جواب موجود ہیں اور میری وہ تمام الجھنیں دُور ہو گئی ہیں جو مسلمانوں سے میرے رابطہ کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھیں۔ یہ میرے دل کے لیے ایک بہت بڑی سکینت اور علاج تھا۔ یہ مضمون معروف جرمن احمدی مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب نے لکھا تھا اور یوں میرا احمدیت سے پہلا تعارف ہوا۔
حماد نے مجھے بتایا کہ اس کے بعد اس نے جماعت پر تحقیق شروع کی اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جرمن ترجمہ شدہ کتب پڑھنے کے ساتھ ساتھ خلافتِ احمدیہ کے نظام کے بارے میں سیکھنا شروع کیا۔ اس نے کچھ احمدیوں سے بھی رابطہ کیا۔
تحقیقات اور مطالعہ کے اس دَور کے بارے میں بات کرتے ہوئےحماد نے کہاکہ میرے دل میں یہ گہری خواہش اور امید تھی کہ جماعت احمدیہ سچی ہوگی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات اور ان کے خلفاء کی طرف سے بیان فرمودہ اسلام کی تشریحات انتہائی خوبصورت تھیں اور جلد ہی انہوں نے میرے دل کو تسخیر کر لیا۔ میرا سب سے بڑا خوف یہ تھا یہ نہ ہو کہ مجھے پتا چلے کہ یہ جماعت سچی نہیں،تاہم الحمدللہ! جتنا مَیں مطالعہ کرتا چلا گیا، اتنا ہی میرا اِس کی سچائی پر یقین بڑھتا گیا۔ میرے تمام سوالات کے جواب مجھے مل گئے اور مَیں نے جان لیا کہ میرے لیے بیعت کرنے اور خلافت کا وفادار خادم بننے کا وقت آ گیا ہے۔چنانچہ ستمبر ۲۰۰۵ء میں مَیں نے احمدیت قبول کر لی۔
حماد نے مجھے بتایا کہ جب سے وہ احمدی ہوا ہے خلافت سے اس کی محبت کیسے بڑھتی چلی گئی اور ایسی محبت ہے جو جرمن ذہنیت سے بالکل مختلف ہے۔
حماد نے کہا یہاں جرمنی میں ہمیں اپنی قوم کی تاریخ کی وجہ سے کسی بھی راہنما کی ضرورت سے زیادہ عزت یا محبت نہ کرنے کی پرورش کی گئی ہے،جہاں جب ایک وقت میں ایک راہنما کو مکمل اختیار دیا گیا تھا تو اس کے تباہ کن نتائج بر آمد ہوئے۔ درحقیقت ہمارا پورا معاشرہ محض ایک راہنما پر یقین اور اعتماد کرنےکے خلاف ہے۔ تاہم خلافت اس سے یکسر مختلف ایک استثنائی نظام ہے اورایک ایسی قیادت ہے جو دوسروں کی طرح بدعنوانی یا استحصال نہیں کر سکتی۔اس لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ میرے دل میں حضور انورکی محبت کا جذبہ مزیدبڑھتا چلاجا رہا ہے۔ یہ میرا تجربہ ہے اور یہی حقیقت ہے۔
حماد نے بات جاری رکھتےہوئے کہا جیسا کہ مَیں نے کہا کہ حضور انورسے میری محبت بڑھتی چلی گئی اور اسی طرح کبھی کبھار جب مَیں بطورِ احمدی اپنے ابتدائی سالوں کی ریکارڈنگز سنتا ہوں، جس میں حضور انورکے سامنے مجھے بات کرنے کا موقع ملا تھا، تو مجھے شرمندگی محسوس ہوتی ہے اور سوچتا ہوں کہ حضور انورکے سامنے مَیں اتنی بےتکلفی سے بات کیسے کر سکتا تھا؟
اس کے بعد حماد نے مجھے اپنے دو بھائیوں بتیس سالہ سٹیفان اور اٹھارہ سالہ ڈینیئل کے بارے میں بھی بتایا جو کہ قبول احمدیت کی توفیق پا چکےتھے۔
جب مَیں نے حماد سے پوچھا کہ کیا اس کے لیے اپنے بھائیوں کو احمدیت کی جانب مائل کرنا مشکل تھا تو حماد نے کہامَیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مَیں نے اپنے بھائیوں کو اسلام قبول کروایا، بلکہ یہ اسلام احمدیت ہی کی خوبصورتی تھی جس نے ان کے دل مسخر کیے۔ درحقیقت اس نے ہمیں ایک خاندان کے طور پر مزید متحد کر دیا ہے کیونکہ سٹیفان اور مجھ میں بڑا ہونے کے ناطے بہت ہی کم قدریں مشترک تھیں۔ میرے کچھ مخصوص دلچسپی کے میدان تھے اور اس کے اپنے نیز ہمارے درمیان ایک قسم کی رکاوٹ یا تقسیم تھی۔
پھرایسا ہوا کہ سٹیفان کو کچھ مشکل حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑا اَور اس وقت مجھے اسے اسلامی تعلیمات پر مبنی کچھ مشورے دینے کی توفیق ملی۔
مزید برآں سٹیفان کو کھیل کے دوران ایک شدید حادثہ پیش آیا جس میں اس کا کم و بیش نصف چہرہ کچلا گیا تھا۔ مَیں نے حضور انورکو دعا کے لیے خط لکھا،جس کے جواب میں حضور انورنے دعا دی کہ اسےمعجزانہ شفا عطا ہو۔ مَیں نے سٹیفان کو جواب دکھایا اور اس نے مجھے بتایا کہ اس کے ڈاکٹر نے خود اس کی صحت یابی کو بیان کرنے کے لیے لفظ معجزانہ استعمال کیا ہے۔ اس کا سٹیفان پر بڑا گہرا اثر مرتب ہوا۔
ذاتی طور پر جب مَیں ان تینوں بھائیوں کو جرمنی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے لیے اپنی محبت میں ایک ساتھ اکٹھے دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ احمدیت کے مستقبل کی ایک جھلک ہے، جب ان شاء اللہ مغربی لوگ جوق در جوق احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائیں گے۔
حماد نے مجھے بتایا کہ اب وہ امید اور دعا کرتا ہے کہ ایک دن اس کی والدہ بھی احمدیت قبول کر لیں۔ موصوف نے کہا کہ ماضی میں وہ اسلام کو ایک شدت پسند مذہب سمجھتی تھیں لیکن چند روز قبل میونخ میں ان کی حضور انورسے ملاقات ہوئی اور اب اسلام کے بارے میں ان کا نظریہ مکمل طور پرتبدیل ہو چکا ہے۔
میری والدہ نے حضور انورسے دریافت کیا کہ کیا اسلام یہ سکھاتا ہے کہ صرف مسلمان ہی جنت میں جائیں گے؟ تو جواب میں حضور انور نے وضاحت فرمائی کہ ایسے امور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور کہیں بھی اسلام میں یہ نہیں سکھایا گیا کہ صرف مسلمان ہی جنت میں جا سکتے ہیں۔
مَیں نے حماد سے پوچھا کہ کیا قبولِ احمدیت کے زمانہ سے ان کی کوئی مخصوص یاد وابستہ ہے؟ اس کے جواب نے مجھے یاد دلایا کہ خلیفۂ وقت کی جانب سے محض ایک مختصر ترین نظر شفقت بھی ایسا دیر پااثر مرتب کر سکتی ہے جو عمر بھر قائم رہتا ہے۔
حماد نے کہاکچھ برس پہلے تک حضور انورجلسہ سالانہ کے ناظمین کو جلسہ سالانہ کے معائنہ کے دوران شرف مصافحہ بخشتے تھے۔ کئی سال تک یہی معاملہ برابر جاری رہا، لیکن پھر حضور انورنے اسے بند کر دیا اور مجھے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مَیں خوش تھا کہ ایسا ہوا، کیونکہ مجھے کبھی پسند نہیں آتا تھاکہ ناظمین اور کچھ دیگر احمدی کیسے آگے بڑھنے کے لیے ایک دوسرے کو دھکیلتے اور لائن کے سامنے پہنچنے کی کوشش کیا کرتے تھے، مَیں ہمیشہ یہی سوچتا تھا کہ یہ احمدیوں کے لیےمناسب ِ حال رویہ نہیں ہے، بہرحال گذشہ برس جب حضور انور نےناظمین سے ملاقات فرمائی تو مَیں پیچھے ہی رہا کیونکہ مَیں دوسرے لوگوں کو دھکیلنا نہیں چاہتا تھااور اس لیے مجھے مصافحہ کا موقع بھی میسر نہ آیا، تاہم جب حضور انورمیرے پاس سے گزرے تو انہوں نے میری طرف نظرکرم فرماتے ہوئے اظہارِ تبسم فرمایا۔ درحقیقت وہ ایک لمحہ کی نظرشفقت میرے لیے اتنا خوبصورت تحفہ تھی کہ مَیں اسے کبھی بھی فراموش نہیں کر سکوں گا۔
جب ہم نے اپنی گفتگو ختم کی تو مَیں نے حماد سے پوچھا کہ کیا اسے احمدیت قبول کرنے پر کبھی کوئی پچھتاوا یا تردّد محسوس ہوا؟
جواب میں اس نے کہاشاید مجھے صرف یہی ایک پچھتاوا ہے کہ مَیں نے تئیس برس کی عمر میں احمدیت قبول کی اور اس سے پہلے نہیں۔ دوسری طرف شاید مجھے کچھ تلخ تجربات سے گزرنے کی ضرورت بھی تھی تاکہ مَیں حقیقی معنوں میں اس قدرو منزلت اور اعزاز کا ادراک حاصل کر سکوں جو اَب احمدیت نے مجھے عطا کیا ہے۔ مجھے بہت سکون محسوس ہوتا ہے کہ مَیں مغرب کی نام نہاد آزادی سے آزاد ہو گیا ہوں کیونکہ مغربی آزادی انسان کی ادنیٰ ترین خواہشات کی غلامی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ احمدیت سے پہلے مَیں اپنے دوستوں کے ساتھ راتوں کو باہر جایا کرتا تھا اور یہ سب کچھ بہت بےہودہ اور لغوہوتا تھا اور اب اسلام نے مجھے حقیقی آزادی عطا کی ہے اور ان سب رسیوں کو کھول دیا ہےجو اس معاشرہ میں پروان چڑھتے ہوئے میرے گرد بندھی ہوئی تھیں۔
(ترجمہ:قمر احمد ظفر۔انتخاب:مظفرہ ثروت)