قرآن کریم کو غور اور ٹھہر ٹھہرکر پڑھیں اور تدبّر اور فکر کریں
آنحضرتﷺ نے فرمایاہے قرآن کریم کے کئی بطن ہیں۔ یعنی اس کے الفاظ میں اتنے گہرے حکمت کے موتی ہیں کہ ہر دفعہ جب ایک غور کرنے والا اس کی گہرائی میں جاتا ہے تو نیا حسن اس کی تعلیم میں دیکھتا ہے۔ آنحضرتﷺ سے زیادہ تو کوئی اس گہرائی کا علم نہیں رکھ سکتاجو قرآن کریم کے الفاظ میں ہے۔ پس آپؐ جب ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے تو ان الفاظ کے مطالب، ان کے معانی، ان کی گہرائی کی تہ تک پہنچتے تھے۔ لیکن آپ کا یہ اسوہ ہمیں اس بات پر توجہ دلاتا ہے کہ قرآن کریم کو غور اور ٹھہر ٹھہرکر پڑھیں اور تدبر اور فکر کریں۔ اسی غور و فکر کی طرف توجہ دلانے کے لئے آپؐ نے اپنے ایک صحابیؓ کو یوں تلقین فرمائی تھی۔
روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا: قرآن کریم کی تلاوت ایک ماہ میں مکمل کیا کرو۔ اس پر میں نے عرض کیاکہ میں اس سے جلدی پڑھنے کی قوت پاتا ہوں۔ اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا :پھر ایک ہفتہ میں مکمل کیا کرو اور اس سے پہلے تلاوت قرآن مکمل نہ کرنا۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن باب فی کم یقرء القرآن حدیث نمبر 5054)
پس اگر وقت ہے تو پھر بھی اجازت نہیں کہ ایک ہفتہ سے پہلے قرآن کریم کا دور پورا مکمل کیا جائے کیونکہ فکر اور غور نہیں ہو سکتا۔ جلدی جلدی پڑھنا صرف مقصد نہیں ہے۔ اس بات سے صحابہؓ کے شوق تلاوت کا بھی پتہ لگتا ہے کہ ان کے نزدیک اس کی کتنی اہمیت تھی۔ اور یہ جو ہمارا زمانہ ہے اس زمانہ میں قرآن کریم کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ ترجیحات بدل گئی ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں کہ:میں نے قرآن کے لفظ میں غور کی تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبردست پیشگوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے قابل کتاب ہو گی جب کہ اور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی۔ اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بُطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہو گی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی۔ (الحکم جلد4نمبر37مورخہ17؍اکتوبر1900ء صفحہ5)
پس یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں اس کتاب کو پڑھنے سے مخالفین کے منہ بند کئے جا سکتے ہیں اور یہی اسلام کی عزت بچانا ہے۔ لیکن کیا صرف پڑھنا کافی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ بڑے واضح ہیں کہ ’اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے‘۔ یعنی قرآن کریم میں وہ دلائل ہیں جن سے اسلام کی عزت قائم ہو گی اور اُس جھوٹ کی جو مخالفین اسلام پرافتراء کرتے ہیں، جڑیں اکھیڑی جائیں گی۔ اور یہی اصول ہے جس سے اسلام کی عزت بچائی جائے گی۔ جھوٹ کا خاتمہ اس وقت ہو گا جب ہمارے ہر عمل میں اس تعلیم کی چھاپ نظر آ رہی ہو گی اور یہ چھاپ بھی اس وقت ہو گی جب ہم اس پر غور کرتے ہوئے باقاعدہ تلاوت کرنے والے بنیں گے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍مارچ ۲۰۰۸ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۸؍ مارچ ۲۰۰۸ء)