تقویٰ اور تعلق باللہ (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۳؍اپریل۲۰۱۸ء)
اس زمانے میں دنیا میں ہر طرف فتنہ و فساد برپا ہے۔ کہیں دین کے نام پر فساد برپا ہے تو کہیں دنیاوی طاقت اور برتری ثابت کرنے کے لئے فساد برپا ہے۔ کہیں غربت اور امارت کے مقابلے کی وجہ سے فساد ہو رہا ہے تو کہیں سیاسی جماعتوں کے حکومتی اختیارات سنبھالنے کے لئے فساد پیدا ہوا ہوا ہے۔ کہیں گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے اور فساد ہیں تو کہیں ایک دوسرے کے حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد برپا ہو رہا ہے۔ کہیں نسلی برتری ثابت کرنے کے لئے فساد کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو کہیں اپنا حق لینے کے لئے غلط طریق اختیار کر کے فتنہ و فساد کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غرض کہ جس پہلو سے بھی دیکھیں دنیا فتنہ و فساد میں گھری ہوئی ہے۔ نہ غریب اس سے محفوظ ہے، نہ امیر اس سے محفوظ ہے۔ نہ ترقی یافتہ ممالک اس سے محفوظ ہیں، نہ کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک اس سے محفوظ ہیں۔ گویا کہ انسان جو اپنے آپ کو اس زمانے میں بڑا ترقی یافتہ سمجھ رہا ہے، یہ سمجھتا ہے کہ یہ علم اور عقل اور روشنی کا زمانہ ہے، حقیقت میں اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھول کر دنیا کی تلاش اور اسے ہی اپنا معبود سمجھ کر، اسے ہی اپنا رب سمجھ کر تباہی کے گڑھے کی طرف بڑھ رہا ہے بلکہ اس کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ایسے حالات میں غیر مسلم دنیا کا دنیا کی چکا چوند میں ڈوبنا تو کچھ حد تک انسان سمجھ سکتا ہے کیونکہ ان کے دین میں تو بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرنے کے لئے ان کا دین جامع اور مکمل حل پیش نہیں کرتا۔ لیکن مسلمانوں پر حیرت ہے جن کے پاس ایک جامع اور مکمل کتاب اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق اس زمانے کے امام کو بھیجا ہے جس نے علماء کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے قرآن کریم کی تفسیروں میں یا دین میں جو اختلافات اور غلط رنگ پیدا کر دیا تھا اس کی اصلاح کرنی تھی۔ لیکن بجائے اس کے کہ مسلمان خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس فرستادے کی بات سنیں اور اس بات کی طرف آئیں جو اختلافات اور فسادات کو ختم کرنے والی بات ہے، مسلمانوں کی اکثریت دین کے نام پر فساد پیدا کرنے والے علماء کے پیچھے چل پڑی ہے اور ان کے پیچھے چل کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کی بات سننے کے لئے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو دنیا کے فساد کو ختم کرنے کے لئے اور آپس میں محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کے پہچاننے کے لئے ایک انتظام کیا تھا۔ لیکن مسلمان اس طرف توجہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان دنیا اس وقت سب سے زیادہ فسادوں کی نذر ہو رہی ہے۔ ان کے دینی اور دنیاوی رہنما انہیں اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں اور آپس میں ایک ہی ملک کے رہنے والے شہری ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ ا ور اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیرونی دنیا خاص طور پر غیر مسلم طاقتیں مسلمانوں کے گروہوں کو لڑانے اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے جنگی سازو سامان بھی دے رہی ہیں اور فوجی مدد بھی دے رہی ہیں۔ پس یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اور یہ حالت جہاں ہمیں اپنے لئے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے، عامّۃ المسلمینکے لئے جنہوں نے نہیں مانا، ان کے لئے دعاؤں کی طرف متوجہ کرنے والی ہونی چاہئے وہاں ہمیں اس بات کی بھی ضرورت ہے، اس طرف توجہ کی بھی ضرورت ہے کہ اپنی عملی حالتوں کو ویسا بنائیں، اپنی روحانی حالتوں کو ویسا بنائیں جیسا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہماری عملی حالتیں ایسی نہیں ہیں جیسا آپؑ ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ ہم بھی اس گروہ میں شامل ہو جائیں جو فتنہ و فساد میں مبتلا ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مسلسل اور بار بار اپنی جماعت کے افراد کو نصیحت فرمائی ہے کہ تمہاری حالتیں بیعت کے بعد کیسی ہونی چاہئیں؟ اس کے لئے تم نے کیا طریق اختیار کرنے ہیں یا کرنے چاہئیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اقتباسات اس وقت مَیں پیش کروں گا جو ان باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں اس لئے ہمیں ان کو غور سے سننا چاہئے۔ یہ نہ سمجھیں کہ پہلے بھی کئی مرتبہ سن چکے ہیں یا پڑھ چکے ہیں۔ پڑھ کے اور سن کے بھی بھول جاتے ہیں۔ جس تواتر سے اور جس طرح مختلف پیرائے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ باتیں بیان کی ہیں اور سالوں میں پھیلی ہوئی مجالس میں بار بار جماعت کو اپنی حالتوں کے بہتر کرنے کی تلقین کی ہے یہ اس بات کا اظہار ہے کہ آپؑ کو اپنی جماعت کی کس قدر فکر تھی کہ کہیں وہ اپنے مقصد کو بھول نہ جائیں۔ کہیں بیعت کے بعد پھر ان میں بگاڑ نہ پیدا ہو جائے۔ پھر وہ اندھیرے کی طرف نہ بڑھنے شروع ہو جائیں۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ :’’ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اس پُرآشوب زمانے میں جب کہ ہر طرف ضلالت، غفلت اور گمراہی کی ہوا چل رہی ہے تقویٰ اختیار کریں۔ دنیا کا یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی عظمت نہیں ہے۔ حقوق اور وصایا کی پرواہ نہیں ہے‘‘۔ نہ یہ پتہ ہے کہ ہمارے کیا حق ہیں اور کس طرح ہم نے ادا کرنے ہیں نہ ان باتوں کی پرواہ ہے جس کی ان کو تلقین کی گئی تھی یا جس کی خود وہ وصیت کرتے ہیں یا ان کو وصیت کی گئی۔ ’’دنیا اور اس کے کاموں میں حد سے زیادہ انہماک ہے۔ ذرا سا نقصان دنیا کا ہوتا دیکھ کر دین کے حصے کو ترک کر دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ضائع کر دیتے ہیں جیسے کہ یہ سب باتیں مقدمہ بازیوں اور شرکاء کے ساتھ تقسیم حصہ میں دیکھی جاتی ہیں۔ لالچ کی نیت سے ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں۔ نفسانی جذبات کے مقابلہ میں بہت کمزور واقع ہوئے ہیں‘‘۔ ذرا سی بات ہوئی تو نفسانی جذبات غالب آ گئے۔ ’’اس وقت تک کہ خدا نے ان کو کمزور کر رکھا ہے گناہ کی جرأت نہیں کرتے‘‘۔ اگر گناہ نہیں کر رہے تو اس لئے کہ کمزور ہیں۔ ڈرتے ہیں کہیں پکڑے نہ جائیں اور سزا نہ ملے۔ ’’مگر جب ذرا کمزوری رفع ہوئی اور گناہ کا موقع ملا تو جھٹ اس کے مرتکب ہوتے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ’’آج اس زمانے میں ہر ایک جگہ تلاش کر لو تو یہی پتہ ملے گا کہ گویا سچا تقویٰ اٹھ گیا ہوا ہے اور سچا ایمان بالکل نہیں ہے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور ہے کہ ان کے سچے تقویٰ اور ایمان کا تخم ہرگز ضائع نہ کرے جب دیکھتا ہے کہ اب فصل بالکل تباہ ہونے پر آتی ہے تو اَور فصل پیدا کردیتا ہے‘‘۔ ایک نسل خراب ہو رہی ہے، ایک فصل خراب ہو رہی ہے تو اَور فصل پیدا کر دیتا ہے۔ یہاں مراد یہ ہے کہ اگر ایک نسل تباہ ہو گی یا کچھ لوگ تباہ ہوں گے یا ایک قوم تباہ ہو گی تو اور قومیں پیدا کر دے گا اور پیدا کر دیتا ہے۔ فرمایا کہ ’’وہی تازہ بتازہ قرآن موجود ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کہا تھااِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ (الحجر:10) ‘‘کہ ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے، اس قرآن کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ فرمایا کہ ’’بہت سا حصہ احادیث کا بھی موجود ہے۔ اور برکات بھی ہیں مگر دلوں میں ایمان اور عملی حالت بالکل نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے اسی لئے مبعوث کیا ہے کہ یہ باتیں پھر پیدا ہوں۔ خدا نے جب دیکھا کہ میدان خالی ہے تو اس کی الوہیت کے تقاضا نے ہرگز پسندنہ کیا کہ یہ میدان خالی رہے۔‘‘ اگر برائیاں پھیل رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی غیرت کا تقاضا تھا، اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا تقاضا تھا کہ اس میدان کو دوبارہ ایسے لوگوں سے بھرے یا ایسے لوگ پیدا کرے جو پھر دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ دین کا اجرا کرنے والے ہوں۔ دین کو پھیلانے والے ہوں۔ دین پر عمل کرنے والے ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’ہرگز پسندنہ کیا کہ یہ میدان خالی رہے اور لوگ ایسے ہی دُور رہیں۔ اس لئے اب ان کے مقابلے میں خدا تعالیٰ ایک نئی قوم زندوں کی پیدا کرنا چاہتا ہے اور اسی لئے ہماری تبلیغ ہے کہ تقویٰ کی زندگی حاصل ہو جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 395-396۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)