خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوہ بنو مصطلق کے حوالے سے واقعہ افک کا تفصیلی بیان نیز بنگلہ دیش اور پاکستان کے احمدیوں اور مسلم امّہ کے لیے دعاؤں کی تحریک: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍ اگست ۲۰۲۴ء

٭… رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم صحابہ کو چاک و چوبنداور تازہ دم رکھنے کا بڑا اہتمام فرمايا کرتے تھے اور وقتاً فوقتاً اُن ميں کھيل کے ايسے مقابلے کرواتے رہتے

٭… ہر کام ميں آپؐ نے ہمارے سامنے اپنا اُسوہ قائم فرمايا ہے۔يہ اُن لوگوں کے ليے بھي اُسوہ ہے جو اپني بيويوں پر بڑي سختياں کرتے ہيں۔آج کل کے لوگوں کے ليے بھي يہ نمونہ ہے۔ عورتوں کے ساتھ يہ حسن سلوک اسلام نے سکھايا جس کا نمونہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نےقائم فرمايا

٭… غزوہ بنو مصطلق سے واپسي پر منافقين کي طرف سے ايک اَور فتنہ کھڑا کيا گيااور وہ اُم المومنين حضرت عائشہؓ پر جھوٹي تہمت کا واقعہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی بریت کے متعلق وحی نازل فرمائی

٭… بنگلہ دیش اور پاکستان کے احمدیوں نیز فلسطین کے مظلوموں اورمسلم امّہکے لیے دعاؤں کی تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۶؍اگست ۲۰۲۴ء بمطابق۱۶؍ظہور ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۶؍اگست۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

گذشتہ کچھ خطبات سے غزوہ بنو مصطلق کا ذکر ہورہا تھا

جس کی مزید تفصیل میں یہ بات بھی لکھی ہے کہ بنو مصطلق سے واپسی پرجب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نقیع مقام سے گزرے تو وہاں بہت کشادگی ،گھاس اور بہت سےتالاب دیکھے۔آپؐ کے دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ گرمیوں میں اس تالاب کا پانی کم ہوجاتا ہے ۔آپؐ نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ  کو کنواں کھودنے اور اس مقام کو چراگاہ بنانے کا حکم دیااور حضرت بلال بن حارث المزنیؓ کو نگران مقرر فرمایا۔آپؐ نے اُنہیں فرمایا کہ طلوع فجر کے وقت ایک پہاڑ پر ایک شخص کو کھڑا کرو اور جہاں تک اُس کی آواز جائے وہاں تک مسلمانوں کے جہاد والے اونٹوں اور گھوڑوں کے لیے چراگاہ بناؤ۔آپؐ نے کمزور مرد و عورت اور غریب لوگوں کو اس چراگاہ میں اپنی بھیڑ بکریاں چرانے کی اجازت بھی دی۔یہ چراگاہ حضرت ابوبکر ؓ، حضرت عمرؓ  اور حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت تک برقرار رہی اور بعد ازاں گھوڑوں اور اونٹوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے جگہ تبدیل ہوگئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو چاک و چوبنداور تازہ دم رکھنے کا بڑا اہتمام فرمایا کرتے تھے اور وقتاً فوقتاً اُن میں کھیل کے ایسے مقابلے کرواتے رہتے جن میں شجاعت ، جوانمردی ، ایمانی اور جہادی تربیت کا پہلو غالب تھا۔

چنانچہ غزوہ بنو مصطلق سےواپسی پر نقیع کے مقام پر آپؐ نے صحابہؓ کے درمیان گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ کا مقابلہ بھی کروایا۔آپؐ کی اونٹنی قصواء سب اونٹوں سے آگے نکل گئی اور آپؐ کا گھوڑا ظرب بھی سب گھوڑوں سے آگے نکل گیا۔اسی جگہ آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے بھی دوڑ کا مقابلہ کیااور اس مقابلے میں آپؐ اُن سے آگے نکل گئے اور فرمایا کہ یہ اُس دفعہ کا بدلہ ہے جب تم مجھ سے آگے نکل گئی تھیں۔اس جملے میں آپؐ نے گذشتہ ایک واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا جب آپؐ حضرت ابوبکرؓ کے مکان پر تشریف لے گئے اور آپؐ نے حضرت عائشہؓ کے ہاتھ میں کوئی چیز دیکھی اور آپؐ کے مانگنے پرانہوں نے انکار کرکے بھاگنا شروع کیا۔ آپؐ بھی اُن کی طرف دوڑےمگر وہ ہاتھ نہ آئیں اور آگے نکل گئیں۔یہ وہ باتیں ہیں جو گھر کو خوشگوار بنانے کے لیے کیا کرتے تھے۔

ہر کام میں آپؐ نے ہمارے سامنے اپنا اُسوہ قائم فرمایا ہے۔یہ اُن لوگوں کے لیے بھی اُسوہ ہے جو اپنی بیویوں پر بڑی سختیاں کرتے ہیں۔آج کل کے لوگوں کے لیے بھی یہ نمونہ ہے۔ عورتوں کے ساتھ یہ حسن سلوک اسلام نے سکھایا جس کا نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےقائم فرمایا۔ اس سفر میں واقعہ افک کا ذکر بھی ملتا ہے۔

اس کی تفصیل یوں ہے کہ غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر منافقین کی طرف سے ایک اَور فتنہ کھڑا کیا گیااور وہ اُم المومنین حضرت عائشہؓ پر جھوٹی تہمت کا واقعہ ہے۔

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ واقعہ افک کی تفصیل

بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے پھر ان میں سے جس کا قرعہ نکلتا تھا اُس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لے جاتے۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ آپؐ نے ایک غزوہ میں جانے کے لیے ہمارے درمیان قرعہ ڈالا اور قرعہ میرے نام نکلا۔پردے کا حکم نازل ہوچکا تھا اور میں آپؐ کے ساتھ گئی۔سفر کے دوران میں ہودج کے اندر بیٹھتی تھی اور لوگ میرے ہودج کو اُٹھا کر اونٹ پر رکھ دیتے تھے اور جہاں قیام ہوتا تو وہاں میرے ہودج کو اُتار کر نیچے رکھ دیتے تھے۔غزوہ سے واپسی پر جب ہم مدینہ کے قریب پہنچے تو ایک رات آپؐ نے کُوچ کا حکم دیا۔میں حوائج ضروریہ کے لیے باہر کی طرف چلی گئی اور جب میں واپس اپنی سواری کی طرف بڑھی تو اپنے سینے کو چھواتو معلوم ہوا کہ میرا ظفار کے نگینوںکا ہار کہیں ٹوٹ کر گِر گیا ہے۔میں اُس کی تلاش میں واپس لوٹی۔وہ لوگ جو میرے ہودج کو اُٹھایا کرتے تھے اُنہوں نے میرے ہودج کو اُٹھا کر اونٹ پر رکھ لیاجبکہ اُنہوں نے سمجھا کہ میں ہودج میں ہوں اور وہ چل دیے۔میں نے اپنے ہار کو پالیااور جب میں پڑاؤ کی طرف واپس آئی تو وہاں کوئی نہ تھاسب جاچکے تھے ۔میں اپنی اُسی جگہ پر چلی گئی جہاں میں بیٹھی تھی اور خیال کیا کہ جب وہ لوگ مجھے گم پائیں گے تو واپس لوٹ آئیں گے۔اس دوران میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔

صفوان بن معطل ؓکی لشکر کے پیچھے گَری پڑی چیزوں کو اکٹھا کرنے کی ڈیوٹی تھی ۔ وہ جب صبح کو میرے ٹھکانے کے قریب پہنچے تو اُنہوں نے مجھے پہچان لیاکیونکہ پردے کے حکم سے پہلے اُنہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔میں اُن کے انا للہ پڑھنے کی وجہ سے بیدار ہوگئی۔میں نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانک لیا اور اللہ کی قسم !ہم نے ایک بات بھی نہ کی۔میں اُن کی اونٹنی پر سوار ہوگئی اور ہم سخت گرمی میں عین دوپہر کے وقت جبکہ لشکر نے پڑاؤ کیا ہوا تھا لشکر کے پاس پہنچ گئے۔حضرت عائشہؓ نے بیان کیا ہلاک ہو گیا جو ہلاک ہو گیا اور وہ جس نے بہتان کا بڑا حصہ لیا۔ وہ عبداللہ بن ابی سلول تھا۔عروہ نے کہا کہ بہتان باندھنے والوں میں سے کسی کا نام نہیں لیا گیا سوائے حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش۔

حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ ہم مدینہ پہنچے تو میں بیمار ہوگئی اور مجھے اس بہتان کا کچھ نہیں پتا تھا۔

بیماری میں مجھےبے چین کرنے والی بات یہ تھی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مہربانی نہیں دیکھ رہی تھی جو میں آپؐ سے دیکھا کرتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آتے اور سلام کرتے ۔پھر فرماتے تمہارا کیا حال ہے؟اور چلے جاتے ۔بس اتنا ہی تھا۔یہ بات مجھے بے چین کرتی تھی۔

میں ایک دن اُمِّ مسطح کے ساتھ باہر گئی تو مجھے بہتان لگانے والوں کا علم ہوا۔ میں اپنے گھر میں واپس آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے۔ میں نے کہاکہ آپؐ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے ماں باپ کے پاس جاؤں۔آپؐ نے اجازت دے دی اور میں اپنے والدین کے گھر چلی گئی۔میں نے اپنی ماں سے کہا کہ لوگ کیا باتیں کررہے ہیں؟ماں نے کہا کہ حوصلہ رکھو۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے میری آواز سُنی تو کہا کہ میری پیاری بیٹی! میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم اپنے گھر لوٹ جاؤتو میں لوٹ گئی۔حضرت عائشہؓ  کہتی ہیں کہ میں ساری رات روتی رہی یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔اُس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالبؓ اور حضرت اُسامہ بن زیدؓ سے مجھ سے قطع تعلق کے لیے مشورہ کیا۔حضرت اُسامہؓ نے عرض کیا کہ وہ آپؐ کی زوجہ مطہرہ ہیں اور ہم بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانتے۔یہ سراسر جھوٹ اور بے بنیاد ہے۔حضرت علیؓ نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ نے آپؐ پر کوئی تنگی نہیں فرمائی اور ان کے سوا عورتیں بہت ہیں۔ آپؐ خادمہ سے پوچھیے وہ سچ کہے گی۔ آپؐ کے دریافت کرنے پر خادمہ نے کہا کہ خدا کی قسم! میں نے اُن کی کبھی کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جس کو میں معیوب سمجھتی ہوں ۔

اُسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہوکر عبداللہ بن ابی سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ

اے مسلمانوکی جماعت! کون مجھے اُس سے بچائے گا جس کی طرف سے مجھے میرے گھر والوں کے بارے میں تکلیف پہنچی؟ اللہ کی قسم! میں اپنے گھر والوں کے بارے میں نہیں جانتا سوائے خیر کے۔

حضرت سعد بن معاذؓ نے کہا میں آپؐ کو بچاؤں گا۔اگر یہ شخص ہمارے قبیلے اوس سے ہوا تو اُس کی گردن اُڑا دوں گااور اگر وہ قبیلہ خزرج سے ہوا تو جس طرح آپؐ حکم فرمائیں ہم کرنے کو تیار ہیں۔قبیلہ خزرج کے رئیس سعد بن عبادہؓ کھڑے ہوئے اورسعد بن معاذؓ  کو کہا کہ تم نے جھوٹ کہا ہے ۔خدا کی قسم! تم ہمارے کسی آدمی کو قتل نہیں کرسکو گے۔ان باتوں سے اوس و خزرج کے بعض لوگوں کو جوش آگیا اور قریب تھا کہ لڑائی ہوجاتی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور خاموشی سے تشریف لے گئے۔

حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ میرے آنسو تھمتے نہیں تھےاور نیند حرام ہوگئی۔اسی حالت میں آپؐ میرے پاس تشریف لائے۔ تشہد پڑھا اور فرمایا کہ اے عائشہؓ! دیکھو تمہارے متعلق مجھے یہ یہ بات پہنچی ہے سو اگر تم بے گناہ ہو تو مجھے امید ہے کہ خدا ضرور تمہاری بریت فرمائے گااور اگر تم سے کوئی لغزش ہوئی ہے تو خدا سے مغفرت مانگو کیونکہ جب بندہ توبہ کرتا ہے تو خدا اُس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اُس پر رحم فرماتا ہے۔

میں نے اپنے والدین سے کہا کہ آپ رسول اللہؐ کو اس بات کا جواب دیں۔ دونوں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کیا جواب دیں۔تب میں نے آپؐ سے کہا کہ

مجھے تو اپنا معاملہ یوسفؑ کے باپ کا سا نظر آتا ہے جس نے کہا تھا کہ فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌؕ وَاللّٰہُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ۔پس صبرجمیل(کے سوا میں کیا کر سکتا ہوں) اور اللہ ہی ہے جس سے اس (بات) پر مدد مانگی جائے جو تم بیان کرتے ہو۔پس میرے لیے بھی صبر ہی بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ ضرور جلد میری بریت فرمائے گا۔

پھر ابھی آپؐ اُٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ آپؐ پر وحی کی حالت نازل ہوگئی اور آپؐ نے اس حالت کے بعد مسکراتے ہوئے فرمایا کہ

عائشہؓ !خدا نے تمہاری بریت ظاہر فرمادی ہے۔

جب میری بریت ظاہر ہوگئی تو حضرت ابوبکر ؓ بوجہ غربت مسطح بن اثاثہ کی مدد کیا کرتے تھے انہوں نے قسم کھائی کہ آئندہ اس کی مدد نہیں کروں گا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ ایسا کرنا بالکل پسندیدہ نہیں ہےجس پر ابوبکرؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ اللہ میرے گناہوں کی پردہ پوشی کرے اور عہد کیا کہ آئندہ کبھی مسطح کا وظیفہ بند نہیں کروں گا۔

حضور انور نے آخر میں

بنگلہ دیش اور پاکستان کے احمدیوں نیز فلسطین کے مظلوموں اور مسلم امّہ کے لیے بھی دعا کی تحریک فرمائی

جس کی تفصیل مندرجہ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button