ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر۱۷۰)
فرمایا:’’جب تک انسان ادنیٰ حالت میں ہوتاہے اس کے خیالات بھی ادنیٰ ہی ہوتے ہیں اور جس قدر معرفت میں گِرا ہوا ہوتا ہے اسی قدر محبت میں کمی ہوتی ہے۔معرفت سے حُسن ظن پیدا ہوتا ہے۔ہر شخص میں محبت اپنے ظن کی نسبت سے ہوتی ہے۔ انا عند ظن عبدی بی سے یہی تعلیم ملتی ہے۔صادق عاشق جو ہوتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ پر حسن ظن رکھتا ہے کہ وہ اس کو کبھی نہیں چھوڑے گا۔خدا تعالیٰ تو وفاداری کرنا پسند کرتا ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ انسان صدق دکھلاوے اور اس پر ظن نیک رکھے کہ تا وہ بھی وفا دکھلاوے مگر یہ لوگ کب اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔یہ تو اپنی ہوا و ہوس کے بتوں کے آگے جھکتے رہتے ہیں اور ان کی نظر دنیا تک ہی ہوتی ہے۔اﷲ تعالیٰ کو کریم و رحیم نہیں سمجھتے۔اس کے وعدوں پر ذرہ ایمان نہیں رکھتے۔اگر اﷲ تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان رکھتے کہ وہ کریم و رحیم ہے تو وہ بھی اُن پر رحمت اور وفا کے ثبوت نازل کرتا ؎
گر وزیر از خدا بتر سیدے
ہمچناں کز ملک ملک بودے‘‘
(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ ۴۵-۴۶،ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
تفصیل :اس حصہ ملفوظات میں آمدہ فارسی شعر شیخ سعدی کا ہے جوکہ گلستان سعدی کے پہلے باب کی ایک حکایت میں اس طرح آیاہے۔
حکایت مع شعر:ایک وزیر حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ(ایک ولی اللہ کا لقب جو مصرکے رہنے والے تھے اور ثوبان آپ کا نام تھا )کے پاس گیا اور دعا چاہی کہ دن رات بادشاہ کی خدمت میں لگا رہتاہوں اور اس کی خیر کا امیدوار ہوں اور اس کے غصہ سے ڈرتا ہوں۔ حضرت ذوالنون رو پڑے اور فرمایا اگر میں خدائے غالب اور بزرگ سے ایسا ڈرتا جیسا کہ تُو بادشاہ سے ڈرتاہے تو میرا شما ر صدیقوں میں ہوتا۔ قطعہ
گَرْ نَبُوْدِےْ اُمّیدِ رَاحَتْ ورَنْج
پَائے دَرْوِیْش بَرْفَلَکْ بُوْدِےْ
ترجمہ:اگرراحت ورنج کی امید نہ ہوتی توفقیرکا قدم آسمان پرہوتا۔
گَرْ وَزِیْر اَزْ خُدَا بِتَرْ سِیْدِےْ
ہَمْچُنَاں کَزْمَلِکْ مَلَکْ بُوْدِےْ
ترجمہ: اگر وزیر خدا سے اس طرح ڈرتا جیسے بادشاہ سے(ڈرتا ہے)تو فرشتہ ہوتا۔