مکرم ابو احمد صاحب آف بنگلہ دیش
خاکسار کے والد صاحب، جناب ابو احمد احمد نگر پنچگڑ، جماعت کے کلینک میں بطور لیب ٹیکنیشن خدمت کی توفیق پارہے تھے۔آخری ایام میں خرابیٔ صحت کے باعث رخصت پر تھے۔ والد مرحوم کئی امراض سے دوچار تھے۔ شوگر میں مبتلا ہونے کے باعث دونوں گردےخراب ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر نے dialysis تجویز کیاہوا تھا۔ ابتدائی تین ماہ اچھے گزرے لیکن اکتوبر ۲۰۲۳ءسے آپ کی بیماری کی شدت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔بالآخرخاکسار کے والد صاحب ۳؍نومبر ۲۰۲۳ء کی رات بارہ بجےحرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے بقضا ئے الٰہی بعمر ۵۷؍ سال اپنے مولا سے جا ملے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سےموصی تھے۔ آپ کو نائب قائدمجلس خدام الاحمدیہ،زعیم اعلیٰ مجلس انصار اللہ، سیکرٹری وصایا سندربن جماعت اور نائب امیر سندربن جماعت کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ ان بیماری کے ایام میں بار بار جماعت کے فرائض کو یاد کیا کرتے تھے اور ہمیں بھی یاددہانی کرواتے کہ کب جانا ہے کس طرح چلنا ہے ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ کہاں dialysisکروانا ہے وغیرہ۔ کبھی ہمت نہ ہاری،صحت دن بدن بگڑتی جارہی تھی لیکن پھر بھی چہرہ سے کبھی اس کا تاثر نہیں دیا۔وفات سے ایک دن پہلے بھی آپ کو فکر دامن گیر تھی کہ کب جا کر جماعت کی خدمت میں جاؤں گا؟ روبصحت ہوکر خدمت میں دوبارہ لگ جانے کے لیے بڑے پُرامید تھے۔والدصاحب مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ، دو بیٹے، ایک بیٹی،ایک نواسہ، ایک پوتا اور دو پوتیاں چھوڑ ی ہیں۔
خاکسار کو زندگی وقف کرکے بطور ڈاکٹر لائبیریا میں خدمت کی سعادت مل رہی ہے۔ خاکسار کے چھوٹے بھائی مسعود احمد صاحب بطور مربی سلسلہ بنگلہ دیش جماعت میں خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ خاکسار کی بہن بھی وقف نوکی بابرکت تحریک میں شامل ہے اور لجنہ اماء اللہ ڈھاکہ میں خدمت کرنے کی توفیق پا رہی ہیں۔ والدہ ماجدہ کو لجنہ اماءاللہKhulna ڈویژن میں ضلع صدر کے طور پر خدمات سر انجام دینے کی سعادت حاصل ہے۔ الحمدللہ
ہمارے والد صاحب نے ہم تینوں بہن بھائی کو بچپن سے ہی جماعت کی خدمت میں لگا دیا تھا اور ہمیشہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ میرے بچے آخری سانس تک جماعت کی خدمت کرتے رہیں اور خلافت کے ساتھ گہرا تعلق جوڑے رہیں۔ سب سے پہلے جماعت کے کاموں میں لبیک کہنا سکھایا۔ اس بارے میں نہ صرف نصیحت کرتے بلکہ اپنے عملی نمونہ سے ہمیں خدمت کرنا سکھایا۔ خاکسار نے جب پڑھائی مکمل کرکے اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کیا توحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےازراہ شفقت لائبیریامیں تقرری فرمائی۔اس وقت میرے والد صاحب مرحوم شدید بیمار تھے۔سیکرٹری صاحب مجلس نصرت جہاں کی طرف سے خط موصول ہوا اور میدان عمل میں جانے کو کہا گیا۔ یہ خبر جب والد صاحب کو سنائی تو انہوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا، تم میری فکر مت کرو اور جلدی تیار ہو جاؤآج تمہارے وقف کو سرانجام دینے کا وقت آگیا ہے اور خلیفۂ وقت نے تمہیں بلایا ہے۔اس لیےمیری فکر چھوڑو اورسیکرٹری صاحب مجلس نصرت جہاں سے کہہ دو کہ میں تیار ہوں۔ ایک بیمار باپ کو اس وقت ایک ڈاکٹر بیٹے کی شدید ضرورت ہوا کرتی ہے، لیکن آپ نے کبھی یہ نہ کہا کہ بیٹا کچھ دن رک جاؤ، میں ذراتندرست ہو جاؤں پھر چلے جانا۔اس دن ان کے چہرے پہ خوشی اور بشاشت تھی اور ایک لمحہ کے لیے بھی پریشان نہ ہوئے۔
خاکسار کے چھوٹے بھائی جب جامعہ میں تھے تو اُسے ہمیشہ حوصلہ دیتے تھے، اس کی ہر جائز ضرورت پوری کرتے۔میری والدہ ماجدہ کو جماعت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے مختلف جماعتوں کا دورہ کرنا پڑتا تھا، ابا نے ہمیشہ اہلیہ کا ساتھ دیا اور ان کے ساتھ سفر کیا۔ بہت دفعہ ایسا ہوا کہ اپنی بیماری کی تکلیف کو چھپا کر اہلیہ کے ساتھ جماعتی سفر میں گئے۔ آپ میں قوت برداشت بہت زیادہ تھی۔ جماعت کے کاموں میں کبھی کوئی اعتراض اور بہانہ نہیں کیا۔ جماعت کی ضرورت کو ہمیشہ ترجیح دیتے تھے۔
بنی نوع انسان کے لیے بہت ہمدردی رکھتے تھے۔ ہسپتال اور کلینک کے ساتھ لگاؤ کی وجہ سے جان پہچان تھی اس لیے رشتہ دار، غیر رشتہ دار، ہمسائے، گاؤں والے جب بیمار ہوتے تو آپ کے پاس آتے، آپ ان کو ہسپتال لے جانے سے لے کر سارے انتظام خود کرتے، جب بھی اور جس حالت میں بھی آئے اپنی صحت کی پروا کیے بغیر ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ آخری ایام میں خود اچھی طرح چل نہیں سکتے تھے پھر بھی بذریعہ فون رابطہ کروا دیتےتھے۔
مہمان نوازی کا الگ شوق تھا۔خاص طور پر جماعت کے مہمان یا نمائندہ جب آتے، آپ بےچین ہوجاتے کہ کس طرح مہمان نوازی کی جائے؟اپنی استطاعت کے مطابق اعلیٰ ترین انتظام کیا کرتے تھے۔ ۲۰۱۷ء میں جب مولانا عطا ءالمجیب راشد صاحب پیارے حضور کے نمائندے کے طور پر بنگلہ دیش آئے، تب سندربن سفر کے دوران ہمارے گھر قیام پذیر ہوئے۔ ابا نے سارے ممکنہ انتظامات کیے اور ساری رات جاگتے رہے کہ کوئی ضرورت ہو تو ہمیں پتا لگے اور کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
ابا اپنی پہلے کی زندگی میں پوری طرح نماز کے پابند نہیں تھے، ایک دفعہ تجارت میں نقصان ہونے پر رزق کی تلاش میں سعودی عرب گئے تھے، وہاں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد واپس تشریف لائے۔اپنے اندر بڑی تبدیلی پیدا کی اور نماز روزہ اور خدمت جماعت کے عاشق بن گئے۔
اپنی بیٹی سے بہت محبت تھی۔ واقفۂ نو ہونے کی وجہ سے جماعت کی امانت کے طور پر پرورش کی۔ جب میری بہن کی شادی ہوئی تو رخصتانہ پر اپنے داماد کو یہ نصیحت کی کہ یہ میرے جگر کا گوشہ ہے اور جماعت کی امانت ہے اسے سنبھال کر رکھنا۔ رشتے داروں سے ہمیشہ اچھا سلوک کرتے تھے، اپنے بہن بھائیوں میں بڑے تھے اور سب کے چہیتے بھی۔
شوگر، ہائی بلڈ پریشر،اوپن ہارٹ سرجری،گردوں کی خرابی جیسے امراض لاحق تھے لیکن کبھی ہمت نہ ہاری اور اپنی زندگی پہ کبھی افسوس نہیں کیا۔ چلتے پھرتے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔
احباب جماعت سے خاص طور پر دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ان کاحساب آسان کردے اور اپنے پیاروں میں شامل کرلے۔ نیز ہمارے لیے بھی دعا کی درخواست ہے کہ ہم اپنے والد صاحب کی خوبیوں کو آگے چلاتے جائیں اور ان کے صدقہ جاریہ کو برقرار رکھ سکیں۔آمین