متفرق مضامین

حضرت رابعہ بصری رحمہا اللہ

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

تاریخ اسلام ایسی بےشمار ہستیوں کے ذکر سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے اپنے زہدوتقویٰ، پاکیزگی وپرہیزگاری، عبادت و ریاضت اور مخلوقِ خدا کی خدمت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور بلند مقام حاصل کیا۔ سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود تاریخ ایسی ہستیوں پر نازاںہے اور اُن کی سیرت انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ مردوں کے علاوہ تاریخ اسلام میں ایسی خواتین کی بھی کمی نہیں جنہوں نے علم ومعرفت اور زہدوتقویٰ کے ذریعہ ایسے سنگِ میل طے کیے جو اپنی مثال آپ ہیں۔ رشدوہدایت کے راستوں پر چلانے والی ایک ہی ذات ہے۔جو انسان صبروتحمل اور تسلیم ورضا کا دامن تھام کر رضائے الٰہی کو اپنا مطمح نظر بنالے، کامیابی بالآخر اُسی کا مقدر بنتی ہے اور وہ بارگاہِ الٰہی میں سرخرو ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگیاں قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کی متابعت اور اس کی ترویج و اشاعت میں گزاریں انہیں اولیاءاللہ کہا جاتا ہے۔

حضرت رابعہ بصریؒ کا مبارک وجودراہِ سلوک کے مسافروں کے لیے ایک روشن ستارے کی مانند ہے جسے دیکھ کر راہ حق کے مسافر اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں۔ آپؒ کا شمار قرون اولیٰ کی اُن شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کاہر پل اور ہر لمحہ اطاعت وبندگی کی نذر کرکے اپنے قلب و ذہن کو ربّ العالمین کے دربار میں سرگوشی ومناجات کے لیے وقف کردیا تھا۔ رابعہ بصریؒ کو جو بلند پایہ مقام اور اعلیٰ مرتبہ حاصل ہوا اُس کے پیچھے اسلامی تعلیم کی وہ برکتیں کارفرماہیں جن سے فیض پاکر رابعہ عدویہ نامی ایک عام خاتون حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا جیسے بلند مقام پر فائز ہوگئیں۔

رابعہ بصریؒ کی زندگی کے حالات وواقعات کا اکثر حصہ پردۂ اخفا میں ہے۔ قدیم تذکرہ نگاروں نے اس بارے میں بہت ہی کم لکھا ہے۔ آپ کی پیدائش کے بارے میں کسی نے کچھ نہیں لکھا۔ البتہ جدید دَور کے تذکرہ نگاروں نے تحقیق کے بعد آپ کی پیدائش کا سنہ ۹۷؍ہجری بیان کیا ہے۔ مشہور فرانسیسی مستشرق میسنیون (Massignon)نے ۹۵؍ہجری یا ۹۹؍ ہجری پر زور دیا ہے اسی طرح ڈاکٹر مارگریٹ سمتھ نے بھی اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ (Rabia The Mystic) میں(جو کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکا ہے ) ۹۵؍ یا ۹۹؍ ہجری کا ذکر کیا ہے۔ حضرت رابعہ بصریؒ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والدین کے ہاں تین بیٹیوں کی پیدائش ہوچکی تھی۔ اسی مناسبت سے آپ کا نام رابعہ یعنی چوتھی رکھا گیا۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں لکھا ہے کہ بصرے کی ایک مشہور عارفہ، جن کا شمار اولیاء میں ہوتا ہے، قبیلہ قیس بن عدی کی ایک شاخ العتیق کی آزادشدہ کنیز، جو القیسیہ بھی کہلاتی تھیں۔ وہ ۹۵ھ۷۱۳-۷۱۴ء یا ۹۹ھ ۷۱۷-۷۱۸ء میں پیدا ہوئی تھیں اور انہوں نے ۱۸۵ھ۸۰۱ء میں بمقام بصرہ وفات پائی اور وہیں دفن ہوئیں۔ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۱۰صفحہ ۹۲)

حضرت خواجہ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ آپؒ کی پیدائش ایک غریب ترین گھرانے میں ہوئی۔آپ کے والد شیخ اسماعیلؒ دنیاوی مال ودولت سے محروم ہونے کے باوجود ایک متقی اور پرہیز گار انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں قناعت کی دولت سے مالامال کیا تھا اس لیے انہیں دنیاوی مال و دولت سے محرومی پر کوئی شکوہ اور شکایت نہ تھی۔ رابعہ بصریؒ کا بچپن عام بچوں سے قدرے مختلف تھا جو اسرارومعرفت کے متعدد واقعات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ آپؒ بیان کرتے ہیں کہ جس رات آپ کی پیدائش ہوئی،اس روز شیخ اسماعیل کے ہاں کوئی فالتو کپڑا تک نہ تھا جو نومولودہ کو اوڑھایا جاسکتا، نہ ہی رات کے وقت چراغ جلانے کے لیے گھر میں تیل تھا اور نہ ہی نومولود کی ناف میں لگانے کے لیے تیل کی ایک بوند موجودتھی۔ اس حالت زار میںننھی رابعہ کی والدہ نے آپ کے والد سے کہا کہ ہمسائے کے گھر جاکر تھوڑا سا تیل مانگ لائیں تاکہ گھر میں روشنی کا کچھ بندوبست کیا جاسکے اور ننھی بچی کی ناف پر تیل لگایا جاسکے۔ شیخ اسماعیل نے اس بات کا عہد کر رکھا تھا کہ سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا۔ مگر بیوی کے اصرار پر مجبوراً ہمسائے کے گھر گئے اور خالی ہاتھ لوٹ آئے۔

خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت وبشارت

اسی پریشانی میںاُنہیں نیند آ گئی تو خواب میں رسول کریم ﷺ کی زیارت ہوئی۔ جس میں آپؐ نے تسلی وتشفی دیتے ہوئے فرمایاکہ تیری یہ بچی بہت ہی مقبولیت حاصل کرے گی اور اس کی شفاعت سے میری امت کے ایک ہزار افراد بخش دیے جائیں گے۔ اس کے بعد حضورؐ نے فرمایا کہ والیٔ بصرہ کے پاس ایک کاغذ پر تحریر کرکے لے جاؤکہ تم ہر روز مجھ پر ایک سو مرتبہ درود بھیجتے ہو اور جمعہ کی شب چار سو مرتبہ لیکن آج جمعہ کی جو رات گذری ہے اس میں تم درود بھیجنا بھول گئے ہو۔لہٰذا بطور کفارہ حامل ہذا کو چار سو دینا ردے دو۔ صبح بیدار ہوکر آپ بہت روئے اور خط تحریر کرکے دربان کے ذریعہ والیٔ بصرہ کے پاس بھیج دیا۔ اس نے مکتوب پڑھتے ہی حکم دیا کہ حضوراکرم ﷺکی یاد آوری کے شکرانے کے طور پر دس ہزار درہم تو فقراء میں تقسیم کردو اور چار سو دینار اس شخص کو دے دو۔ اس کے بعد والیٔ بصرہ تعظیماً خود آپ سے ملاقات کرنے پہنچا اور عرض کیا کہ جب بھی آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہوا کرے مجھے مطلع فرمادیا کریں۔ چنانچہ انہوں نے چار سودینار لے کر ضرورت کا تمام سامان خرید لیا۔ (ملخص از تذکرۃ الاولیاء (مترجم)ناشر : الفاروق بک فاؤنڈیشن لاہور، سنہ اشاعت مئی ۱۹۹۷ء صفحہ ۴۲) اس کشف سے جہاں رابعہ بصری کے والد کی بزرگی و شرف کا علم ہوتاہے وہیں درود شریف کے فیوض و برکات کا پتا چلتا ہے۔

ابتدائی زندگی

رابعہ بصری نے جب ہوش سنبھالا تو والد کا سہارا سر سے اُٹھ گیا اورقحط سالی کی وجہ سے آپ کی تینوں بہنیں بھی آپ سے جدا ہوکر نہ جانے کہاں مقیم ہوگئیں، آپ بھی ایک طرف کو چل دیں اور ایک ظالم نے پکڑ کر زبردستی آپ کو اپنی کنیز بنالیا اور کچھ دنوں کے بعد بہت ہی قلیل رقم میں فروخت کردیا۔ اُس شخص نے اپنے گھر لاکر بے حد مشقت آمیز کام آپ سے لینے شروع کردیے۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ دن میں روزے رکھتیں اور رات بھر عبادت میں صَرف کردیتیں۔ ایک شب جب آپ کے مالک کی آنکھ کھلی تو اس نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا اور اس وقت ایک گوشہ میں آپ کو سربسجود پایا اور معلّق نور آپ کے سر پر فروزاں دیکھا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کر رہی تھیں کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو ہمہ وقت تیری عبادت میں گزار دیتی لیکن چونکہ تو نے مجھے غیر کا محکوم بنا دیا ہے اس لیے میں تیری بارگاہ میں دیر سے حاضر ہوتی ہوں، یہ سن کر آپ کا آقا بہت پریشان ہوگیا اور یہ عہد کرلیا کہ مجھے تو اپنی خدمت لینے کی بجائے ان کی خدمت کرنی چاہیے۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی اُس نے آپ کو آزاد کردیا اور یہ استدعا کی کہ اگر آپ یہیں قیام فرمائیں تو میرے لیے باعث سعادت ہے۔ اور اگر آپ کہیں جانا چاہیں تو آپ کو اختیار ہے۔ یہ سن کر آپ حجرے سے باہر نکل آئیں اور ذکرو شکر میں مشغول ہوگئیں۔ (ملخص از تذکرۃ الاولیاء (مترجم)ناشر : الفاروق بک فاؤنڈیشن لاہور، سنہ اشاعت مئی ۱۹۹۷ء صفحہ ۴۲-۴۳)

حصول تعلیم

ایک روایت میں ہے کہ جب تاجر عتیق نے حضرت رابعہ بصریؒ کو آزاد کردیا تو آپ ظاہری تعلیم کے حصول کے لیے بصرہ سے کوفہ آگئیں جو اس وقت بہت بڑا علمی مرکز تھا اور جہاں بڑے بڑے نادرِ روزگار علماء وحکماء ہروقت موجود رہتے تھے،اور جو اپنی علمی مجالس سے طالبانِ حق کی علمی تشنگی کو سیراب کرنے کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ آپ اکثر ان علمی مجالس میں شریک ہوکر اپنی علمی پیاس بجھایا کرتی تھیں۔

آپ فطری طور پر بہت ذہین تھیں لہٰذا آپ نے نہایت ہی کم مدت میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ آپ نے فقہ اور حدیث کی تعلیم بھی حاصل کی اور امورِ دینیہ کے سیکھنے میں مردوں سے فوقیت لے گئیں۔ یہاں تک کہ اسرارِ فقہ وحدیث اور تفسیر کے رُموز خوب سمجھنے لگیں۔ آپؒ نے ان علوم میں اس قدر مہارت حاصل کرلی کہ جب آپؒ وعظ فرماتیں تو بڑے بڑے محدث اور فقیہہ حیران رہ جاتے۔ آپ کی بارگاہ میں بڑے بڑے علماء نیاز مندی کے ساتھ حاضر ہوا کرتے۔ان کی باوقار علمی مجالس میں حضرت سفیان ثوریؒ جو امیرالمومنین فی الحدیث کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں حاضر ہوتے تھے، مشہور بزرگ حضرت مالک بن دینارؒ اور جناب شیخ عبدالواحدؒ جیسے اصحاب بھی آپ کے پاس حاضر ہوتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے۔ (حضرت رابعہ بصری،مصنف حافظ ناصر محمود۔ناشر بک کارنر شو روم جہلم صفحہ ۹۳۔اپریل ۲۰۱۱ء)

عبادت و ریاضت

ڈاکٹر مارگریٹ سمتھ اپنی کتاب ’’رابعہ دِی مسٹک‘‘ (Rabia The Mystic)میں شیخ فریدالدین عطار کے حوالہ سے لکھتی ہیں کہ آزادی حاصل ہونے کے بعد حضرت رابعہ بصریؒ صحرا کی طرف نکل گئیں اور وہاں آبادی سے الگ یکسُو ہوکر عبادتِ الٰہی میں مصروف ہوگئیں۔ پھر صحرا سے جی اُٹھ گیا اور ایک بستی کی ایک کوٹھڑی میں گوشہ نشین ہوکر ذکر وفکر کرنے لگیں۔ (حضرت رابعہ بصری،مصنف حافظ ناصر محمود۔ناشر بک کارنر شو روم جہلم صفحہ ۹۱۔اپریل ۲۰۱۱ء)

آپ اس ذوق وشوق سے عبادت کرتیں کہ آپ کے نزدیک دن رات اور موسموں کا امتیاز ختم ہوگیا۔ یہیں سے آپؒ کے جذب وسلوک کا سفر شروع ہوا۔ لوگوں نے جب دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکی شب وروز اللہ کی عبادت میں مشغول ہے تو ان میں آپؒ کے لیے عقیدت واحترام کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں آپؒ کے زُہدوتقویٰ کا چرچا دُور دُور تک پھیل گیا اور لوگ پندونصیحت حاصل کرنے کے لیے آپؒ کے پاس آنے لگے۔ آپ کا قلب خدائی تجلّیوں کا آئینہ بن چکا تھا۔ آپؒ کو کثرتِ رنج والم نے دنیا اور اُس کی دلفریبیوں سے بیگانہ کردیا تھا پھر اس جذب وبے خودی کی کیفیت نے بے نیازی کی شکل اختیار کرلی اور آپؒ نے دنیا و اہلِ دنیا کی نفی کرکے خالقِ کائنات سے اپنا رشتہ جوڑ لیا۔حضرت رابعہ بصریؒ کے بارے میں ایک مصری عالم اور محقق عبدالرزاق پاشا نے یوں لکھا ہے کہ ’’تصوّف اسلامی کے ہیکل میں جس ہستی نے سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے حُبِّ الٰہی کو ایک مستقل ومحکم مسلک کی صورت میں پیش کیا وہ صرف حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا کی ذات تھی۔ ‘‘

اب آپؒ دنیا اور دنیاوی معاملات سے کوئی سروکار نہ رکھتی تھیں۔ دن بھر روزہ رکھتیں، رات کو جاگ کر عبادت کرتی رہتیں، قرآن کریم کی تلاوت روز کا معمول تھا۔ کئی کئی دن گزر جاتے اور گھر میں کچھ نہ ہوتا کہ جس سے روزہ افطار کرلیں۔اکثر پانی کے ایک گھونٹ سے روزہ افطار کرلیتی تھیں اور اس پر بھی ہر وقت خدا کا شکر ادا کرتی رہتی تھیں۔ آپ کے جوش اور ذوقِ عبادت کو دیکھ کر ایک شخص نے آپؒ سے پوچھا کہ آپ جس کی عبادت کرتی ہیں اسے دیکھتی بھی ہیں یا نہیں ؟ آپؒ نے جواب دیا کہ اگر اُسے نہ دیکھتی تو عبادت ہرگز نہ کرتی۔ (ملخص از حضرت رابعہ بصری،مصنف حافظ ناصر محمود۔ناشر بک کارنر شو روم جہلم صفحہ ۹۱-۹۲۔اپریل ۲۰۱۱ء)

بصرہ کے ایک شخص نے آپؒ سے شادی کی درخواست کی اور یہ پیغام بھجوایا کہ وہ آپ کو ایک لاکھ دینار بطور مہر ادا کرے گا اورماہانہ دس ہزار دینار آپ کی نذر کر دیا کروں گا۔ اس پر آپؒ نے جواب دیا کہ اس بات سے مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی کہ تم میرے دست بستہ غلام بن جاؤ گے یا تمہاری آمدنی میری ملکیت ہوجائے گی۔ آپ نے اُسے لکھا کہ ’’ زُہد و تقویٰ دنیا میں باعثِ راحت جبکہ خواہشات حزن وملال پیداکرتی ہیں، اپنی خواہشات کو محدود کرو اور خود پر کنٹرول کرو، دوسروں کو خود پر حاوی نہ ہونے دو۔ تم خود اپنے والی وارث بنو، دوسروں کو نہ بناؤ مبادا وہ تمہارا ترکہ تقسیم کرلیں گے۔ اپنے دل میں ہمیشہ موت کا خیال رکھو۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو خدا مجھے اس سے دو گنادے سکتا ہے جتنے کی تم نے پیش کش کی ہے لیکن اس سے مجھے کوئی خوشی نہیں ہوگی کیونکہ میں اپنے اللہ سے ایک گھڑی یا ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہیں ہونا چاہتی۔ لہٰذا اللہ حافظ۔‘‘(الکواکب الدریہ از منادی بحوالہ حضرت رابعہ بصری،ناشر بک کارنر شو روم جہلم صفحہ ۹۵-۹۶۔اپریل ۲۰۱۱ء)

جناب عبدالرزاق پاشا نے لکھا ہے کہ ’’ حضرت رابعہؒ میں حزن والم کے جو گہرے نقوش پائے جاتے ہیں اگر عمیق نگاہی سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بھی تمام تر حُبّ کا نتیجہ ہیں۔ جو حضرت رابعہؒ کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے۔ تصوف اسلامی میں جس ہستی نے سب سے پہلے حب الٰہی کو مستقل اور محکم مسلک کی صورت میں پیش کیا وہ حضرت رابعہ عدویہ بصریہ ہیں۔ (حضرت رابعہ بصریؒ،مصنف سید ارتضیٰ علی کرمانی، صفحہ۴۷، عظیم اینڈ سنز پبلشرزاردو بازار لاہور۔جولائی ۲۰۰۱ء)

توکّل علی اللہ

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے آپ کے توکل علی اللہ کا ایک نہایت ایمان افروز واقعہ بیان فرمایا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں : ’’رابعہ کا ایک قصہ لکھا ہے کہ ان کے گھر میں بیس آدمی مہمان آگئے گھر میں صرف دو روٹیاں تھیں آپ نے اپنی جاریہ سے کہا :جاؤ کہ یہ فقیر کو دے دو۔ اُس نے دل میں کہا کہ زاہد عابد بیوقوف بھی پَرلے درجے کے ہوتے ہیں دیکھو گھر میں بیس مہمان ہیں اگر انہیں ایک ایک ٹکڑہ دے تو بھی بھوکے رہنے سے بہتر ہے اور ان مہمانوں کو یہ بات بُری معلوم ہوئی لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ رابعہ کا کیا مطلب ہے۔ تھوڑی دیر ہوئی تو ایک ملازمہ کسی امیر عورت کی ۱۸؍روٹیاں لائی۔ رابعہ نے انہیں واپس دے کر فرمایا کہ یہ ہمارا حصہ ہرگز نہیں۔ واپس لے جاؤ۔ اُس نے کہا نہیں، مَیں بھولی نہیں۔ مگر رابعہ نے یہ اصرار کیا کہ نہیں یہ ہمارا حصہ نہیں۔ ناچار وہ واپس ہوئی۔ ابھی دہلیز میں قدم رکھا ہی تھا کہ مالکہ نے چلاّ کر کہا کہ تُو اِتنی دیر کہاں رہی۔ یہ تو دو قدم پر اُس کا گھر ہے۔ ابھی تو رابعہ بصری کا حصہ پڑا ہے چنانچہ پھر اُسے بیس روٹیاں دیں جو وہ لائی تو آپ نے بڑی خوشی سے لے لیں کہ واقعی ہمارا حصہ ہے۔ اس وقت جاریہ اور مہمانوں نے عرض کیا کہ ہم اس نکتہ کو سمجھے نہیں۔ فرمایا: جس وقت تم آئے تو میرے پاس دو روٹیاں تھیں۔میرے دل میں آیا کہ آؤ پھر مَولیٰ کریم سے سَودا کرلیں اس وقت میرے مطالعہ میں یہ آیت تھی مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشۡرُ اَمۡثَالِھَااِ س لحاظ سے دو کی بجائے بیس آنی چاہئے تھیں۔ یہ اٹھارہ لائی تو مَیں سمجھی کہ مَیں نے تو اپنے مَولیٰ سے سَودا کیا ہے وہ تو بھولنے والانہیں۔ بس یہی بھولی ہے۔ آخر یہ خیال سچ نکلا۔

یہ بات واقعی ہے، کہانی قصہ نہیں۔ مَیں نے خود بارہا آزمایا ہے۔ مگر خدا کا امتحان مت کرو۔ اُس کو تمہارے امتحانوں کی کیا پرواہ ہے۔ خدا کے قول کا علم عام کھیتی باڑی سے ہوسکتا ہے۔ بیج ڈالا جاتا ہے تو اس کے ساتھ کیڑے کھانے کو موجود۔ پھر جانور موجود۔ پھر ہزاروں بلائیں ہیں۔ ان سے بچ کر آخر اس دانے کے سینکڑوں دانے بنتے ہیں۔ اِسی طرح جو خدا کی راہ میں بیج ڈالا جاوے وہ ضائع نہیں جاتا۔ ‘‘ (حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ ۴۲۰-۴۲۱)

ایک نہایت عمدہ خواب

حضرت ابو طالب مکی محمد بن علی بن عطاء الحارثی متوفی ۳۸۶؍ہجری نے اپنی تصنیف ’’قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب‘‘ میں حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا کی زبانی اُن کا ایک نہایت عمدہ خواب لکھا ہے۔ آپؒ بیان کرتی ہیں کہ ’’ایک رات سحری کے وقت میں نے کچھ تسبیحات پڑھیں اور پھر سوگئی تو میں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک سرسبزوشاداب درخت ہے جس کی خوبصورتی، حسن اور عظمت کو لفظوںمیں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اس درخت پر تین طرح کے پھل لگے ہوئے ہیں ایسے پھل جو کبھی دنیامیں نہیں دیکھے گئے۔ ان میں سے کچھ پھل سفید، کچھ سرخ اور کچھ زرد ہیں، وہ پھل مجھے بہت اچھے لگے، میں نے پوچھا کہ یہ پھل کس کے ہیں تو کسی کہنے والے نے جواب دیا کہ یہ تمہارے ہیں جو تمہاری تسبیحات کے بدلے میں تمہیں عنایت کئے گئے ہیں۔ یہ سن کر میں درخت کے گرد گھومنے لگی، میں نے دیکھا کہ ایک پھل جو سنہری رنگ کا ہے وہ زمین پر بکھرا پڑا ہے میں نے کہا اگر یہ پھل بھی ان پھلوں کے ساتھ درخت پر لگا ہوتا تو کتنا اچھا تھا؟ ابھی میں نے یہ بات کی ہی تھی کہ وہاں موجود شخصیت نے کہا کہ یہ پھل وہیں لگا ہوا تھا مگر جب تم تسبیح کر رہی تھیں تو اس دوران تمہیں ایک دنیاوی خیال آگیا تھا اور تم اس وقت یہ سوچنے لگی تھیں کہ کہیں گندھے ہوئے آٹے میں خمیر تو پیدا نہیں ہوگیا جونہی تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہوا۔ اسی وقت یہ پھل گرگیا۔ ‘‘ (حضرت رابعہ بصریؒ،مصنف: حافظ ناصر محمود،ناشر بک کارنر شو رُوم، بک سڑیٹ جہلم،سنہ اشاعت اپریل ۲۰۱۱ء)

اس خواب سے واضح ہے کہ کس طریق پر عرش معلی پر انسان کے افعال واعمال کو پھل لگتے ہیں۔ یعنی انسان اپنے اعمال کی ادائیگی میں جس قدر انہماک، توجہ الی اللہ اور حضورِ قلب سے کام لے گا، اُن اعمال کا پھل اُسی قدر عمدہ،خوش نما، فرحت بخش،پائیدار اور شیریں ہوگا۔پس یہ ہر انسان پر منحصر ہے کہ وہ عبادات اور ذکر ودعا کے وقت اپنے قلب و ذہن کواللہ تعالیٰ کی طرف لگائے رکھے اوراُسے اِدھر اُدھر منتشر ہونے سے بچائے رکھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے کہ :فَاعۡبُدِاللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ(الزّمر:۳)پس اللہ کی عبادت کر اُسی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے۔اس ضمن میںرسول کریمﷺ کی درج ذیل دعا بہت ہی توجہ کے لائق اور بار بار پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اللّٰھُمَّ أَعِنِّی عَلَی ذِکۡرِکَ وَشُکۡرِکَ وَحُسۡنِ عِبَادَتِک(سُنن أَبُو داوٗد کِتَابُ الۡوِتۡر بَابٌ فِی الۡاِسۡتِغۡفَارِ) اے اللہ ! مجھے اپنے ذکر، اپنے شکر اور بہترین عبادت کی توفیق عطا فرما۔

دعا اور ذکر واذکار کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درج ذیل ارشادات اور مجرب دعائیں یاد رکھنے کے لائق ہیں۔ آپؑ نے حضرت نواب محمد علی خان رضی اللہ عنہ کے نام ایک مکتوب میں دعا کی تلقین کرتے ہوئے تحریر فرمایا:

’’ دعا بہت کرتے رہو اور عاجزی کو اپنی خصلت بناؤ۔ جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زبان سے دعا کی جاتی ہے یہ کچھ بھی چیز نہیں۔اس میں ہرگز زندگی کی روح نہیں جب دعا کرو تو بجز صلوٰۃ فریضہ کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جاؤ اور اپنی ہی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بندہ ہوتا ہے،خدائے تعالیٰ کے حضور میں دعا کرو۔

کہ اے ربّ العالمین !تیرے احسان کا میں شکر نہیں کرسکتا۔

تُو نہایت رحیم وکریم ہے اور تیرے بےنہایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہوجاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا،جن سے تُو راضی ہوجاوے۔ میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتاہوں کہ تیرا غضب مجھ پر واردہو۔ رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین ثم آمین۔ ‘‘(مکتوبات احمد جلد دوم مکتوب نمبر۳ ملفوف صفحہ ۱۵۸-۱۵۹)

پس عبادات، دعا اور ذکرالٰہی کے وقت اپنے نفس کو دنیا کی ملونی سے پاک کرنا اور خدائے تعالیٰ کے حضور فروتنی اور عاجزی اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔جب اس طرح کی عبادت اور دعائیں کرنے کی توفیق ملے گی تو اُن کے بہترین نتائج اور عمدہ پھل عطا ہوں گے۔ ایک مرتبہ حضور علیہ السلام نے حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کے نام ایک مکتوب میںدعا کا طریق بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا: ’’ رات کے آخری پہر میں اُٹھو اور وضو کرو اور چند دوگانہ اخلاص سے بجالائو اور درد مندی اور عاجزی سے یہ دعا کرو۔

اے میرے محسن اور میرے خدا !میں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُر معصیت اور پُر غفلت ہوں۔ تو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا۔ تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اَب بھی مجھ نالائق اور پُرگناہ پر رحم کر اور میری بیباکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجزتیرے اورکوئی چارہ گر نہیں۔ آمین ثم آمین۔ ‘‘ (مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۱۰)

اسی خط کے آخر پر آپؑ نے تحریر فرمایا کہ ’’مناسب ہے کہ بروقت اس دعا کے فی الحقیقت دل کامل جوش سے اپنے گناہ کا اقرار اور اپنے مولیٰ کے انعام اکرام کا اعتراف کرے کیونکہ صرف زبان سے پڑھنا کچھ چیز نہیں جوش دلی چاہئے اور رقت اور گریہ بھی۔ یہ دعا معمولات اس عاجز سے ہے اور درحقیقت اسی عاجز کے مطابق حال ہے۔ ‘‘(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۱۱)

خلاصہ کلام یہ کہ جو لوگ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا کرلیتے ہیںدراصل وہی جیتے ہیںکیونکہ وہ ابدی زندگی میں مقام قرب حاصل کرکے ہمیشہ ہمیش کے لیے اَمر ہوجاتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ بزرگان امت نے اپنے حسن خلق، پاک طینت،عجزوانکساراور تعلق باللہ کے جو نقوش چھوڑے ہیں ہم اُ نہیں مشعل راہ بنا کر اپنے عملی نمونے سے ہدایت کی مشعلیں روشن رکھیں تاکہ تاریکی کے سائے دُور ہوں اور نیکی اور تقویٰ کا یہ سفر ہمیشہ جاری وساری رہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button