ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (جلد کے متعلق نمبر ۱۲) (قسط۸۰)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
میلنڈرینم
Malandrinum
میلنڈرینم گھوڑوں کی ایک بیماری Horse Grease کے مادہ سے تیار کی جانے والی دوا ہے۔ حیوانات کی بیماریوں کے ایک ماہر نے یہ معلوم کیا کہ وہ علاقے جہاں گھوڑے اس بیماری میں مبتلا ہوں وہاں اگر گائیں وغیرہ گھاس پر بیٹھیں تو ان میں چیچک کی بیماری پھیلنے لگتی ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہو میو پیتھی طریقہ علاج میں میلنڈ رینم چیچک کے توڑ میں بہت مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ اسے چیچک سے بچاؤ کے لیے بطور Preventive بھی شہرت حاصل ہے۔ نیز چیچک کے ٹیکے کے بداثرات کو زائل کرنے میں بھی یہ مفید ثابت ہوئی ہے۔
بعض ڈاکٹروں نے تجربے کیے۔ چار بچے لیے گئے۔ ان میں سے تین کو میلنڈرینم کی ایک ایک خوراک استعمال کروائی گئی۔ چوتھے بچے کو یہ دوائی نہیں دی گئی پھر ان سب کو چیچک کے حفاظتی ٹیکے لگوائے گئے۔ جس بچے کو یہ دوا نہیں دی گئی اس میں چیچک کے ٹیکہ کا سخت رد عمل ظاہر ہوا جبکہ باقی بچوں کو کچھ نہیں ہوا۔ ایک اور معالج نے یہ تجربہ کیا کہ ایک بچے کو ٹیکہ نہیں لگوایا گیا، صرف میلنڈرینم دی گئی، اسے کچھ نہیں ہوا جبکہ دوسرے بچے کو حفاظتی ٹیکہ لگوانے کے باوجود چیچک ہوگئی۔
ایک اور ڈاکٹر نے لکھا ہے کہ جن دنوں چیچک کی وبا پھیلی ہوئی تھی اس نے میلنڈ رینم 30 طاقت میں بار بار استعمال کی اور ایسے علاقوں میں چیچک کے مریضوں کا علاج کرتا رہا جہاں یہ وبا عام تھی مگر اسے کچھ نہیں ہوا۔ اور جن لوگوں نے یہ دوا استعمال کی وہ بھی اس وبا سے محفوظ رہے۔ اگر میلنڈ رینم کو چیچک کے حملہ کے بعد استعمال کیا جائے تو مریض بہت جلد بغیر کسی گہرے نقصان کے صحت یاب ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر برنٹ (Dr. Burnett) نے مشورہ دیا ہے کہ یہ بہت گہرا اثر کرنے والی دوا ہے اس لیے اسے بلاضرورت بار بار نہیں دہرانا چاہیے۔ حاد یعنی فوری نوعیت کی بیماریوں میں اسے دہرایا جا سکتا ہے لیکن حفاظتی مقاصد کے پیش نظر اسے لمبے وقفہ سے استعمال کرنا چاہیے۔ چیچک کے ٹیکے کے ردعمل کے طور پر جسم پر ایگزیما ظاہر ہو جائے تو اس میں بھی میلنڈ رینم مفید ہے مگر چیچک کے ٹیکے کے بداثرات دور کرنے کے لیے زیادہ مشہور دوا تھوجا ہے۔(صفحہ572،571)
میلنڈ رینم جلدی امراض میں بھی مفید ہے۔ ہر قسم کے ایگزیما، آبلوں اور چھالوں میں اچھا اثر دکھاتی ہے اس کے آبلے اور چھالے آہستہ آہستہ نکلتے ہیں، ایک کے بعد دوسرا اور پھر ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور چھالوں کی فصلیں اگنے لگتی ہیں۔ جانوروں کی بیماریوں میں بھی اس کا استعمال مفید ہے۔ ایک ڈاکٹر نے ایک ایسے کتے کو میلنڈرینم دی جس کی گردن میں خطرناک چھالے نکلے ہوئے تھے وہ فوراً ٹھیک ہو گیا۔(صفحہ572)
ملیریا آفیشی نیلس
Malaria officinalis
جسم میں خون کی کمی واقع ہو۔ سارا نظام صحت جواب دے جائے، جلد اور چہرہ زرد ہو اور مریض بہت کمزوری اور سردی محسوس کرے تو اسے استعمال کرنا چاہیے۔ (صفحہ575)
مینگینم
Manganum aceticum
(Manganese Acetate)
مینگینم میں چکنی اور زرد جلد کے ساتھ بے حد کمزوری پائی جاتی ہے مگر عموماً بیماری کے شروع میں ہی یہ سب علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ جب انتہائی علامات ظاہر ہو جا ئیں تو اس وقت علاج بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ شروع میں ہی کوئی علامت مینگینم کا تقاضا کرے تو ضرور استعمال کروانی چاہیے۔ (صفحہ577)
مینگینم میں جلدی علامتیں بھی ملتی ہیں۔ زخموں اور ناسور کے کنارے موٹے ہو جاتے ہیں۔ اکثر زخم لمبا عرصہ چلتے ہیں اور ٹھیک نہیں ہوتے۔ سورائسس (Psorisis) میں بھی اسے مفید بتایا گیا ہے۔ اگر سورائسس یعنی چنبل دب چکا ہو تو مینگینم سے فائدے کی صورت میں پہلے بہت زور سے جلد پر ابھرے گا اور لمبا عرصہ وقفہ وقفہ سے استعمال کے نتیجہ میں کم ہونا شروع ہو جائے گا۔ لہٰذا مینگینم دینے کے بعد سورائسس یعنی چنبل ظاہر ہوتو گھبرانا نہیں چاہیے۔ ڈاکٹر کینٹ اس بات کے سخت خلاف تھے کہ سورائسس کو دواؤں سے دبا دیا جائے کیونکہ اس کے نتیجہ میں انتڑیوں میں یا کسی اور عضو میں کینسر ہو سکتا ہے۔ ان کے اکثر بیانات درست ہوتے ہیں اس لیے بعید نہیں کہ یہ بھی درست ہو۔ مینگینم میں سورائسس کی علامات فاسفورس اور ڈ لکا مارا سے ملتی ہیں۔ (صفحہ578)
مینگینم کے مریض کے زخم اور ناسور ٹھیک نہیں ہوتے اور مسلسل ہرے رہتے ہیں۔ یہ کیفیت جزوی کینسر کی ہے اگر اسے زبردستی ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ پورے کینسر میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ اس کے مریض کو معمولی سالمس بھی سخت تکلیف دیتا ہے۔ (صفحہ579)
اس میں دردیں سوئی کی چبھن کی طرح ہوتی ہیں جیسے کسی نے ٹانکہ بھر دیا ہو۔ نیز سر کی جلد میں سرخ رنگ کے داغ بن جاتے ہیں اور ان جگہوں میں درد ہوتا ہے۔ (صفحہ580)
چہرہ بالکل پھیکا، بے رونق اور زرد ہو جاتا ہے۔ ایسے چہرہ میں مینگینم بہت نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ بخار کے ساتھ پھوڑے نکلیں تو بھی مینگینم مفید ہے۔ (صفحہ580)
میڈورائینم
Medorrhinum
(The Gonorrhoeal Virus)
دمہ کا بھی میڈورائینم سے بہت تعلق ہے۔ بچوں کا سوکھا پن، دمہ، دائمی نزلہ، داداور خاص قسم کے مسے، وہ عمومی بیماریاں ہیں جو سوزاک کے دب جانے سے جسم میں زہر یلے رجحانات کے طور پر چھپی رہتی ہیں اور حسب حالات کبھی کبھی ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ ہر قسم کے مسے جو تھوجا کے قابو میں نہیں آتے ان میں میڈ ورائینم دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ (صفحہ584)
میڈ ورائینم کی ایک علامت جسم میں سوئیاں چبھنا اور چھپا کی نکلنا ہے جس کا شور سے بھی ایک خاص تعلق ہے۔ اگر شور زیادہ ہو اور اعصاب پر دباؤ ہو تو چھپا کی نکل آتی ہے۔ (صفحہ585)
میڈورائینم میں اندھیرے سے ڈرنے اور گرنے کا خوف نمایاں ہوتا ہے۔سر کی جلد میں تناؤ ہوتا ہے جیسے پٹی بندھی ہوئی ہو۔ میڈورائینم جلدی امراض اور سر میں سخت سکری کی تکلیف میں بھی کامیاب علاج ہے۔ سکری کو انگریزی میں ڈینڈرف (Dandruff) کہتے ہیں۔ میڈورائینم کی بالوں کی علامات نیٹرم میور سے ملتی ہیں اور دونوں کا تعلق سوزاک کی بیماریوں سے ہے۔ نیٹرم میور میں بال خشک اور بھر بھرے سے ہو جاتے ہیں اور بہت شدت سے سکری پائی جاتی ہے۔ بعض اوقات صرف میڈ ورائینم دینے سے ہی ان بیماریوں کا شافی علاج ہو جاتا ہے۔ (صفحہ586)
مرکری کے مرکبات
Mercurius
تمام زہروں میں منفی اثرات کی گہرائی کے لحاظ سے یہ سب سے خطرناک ہے۔ اس کا اثر ہڈیوں اور اعصابی خلیوں پر بھی پڑتا ہے۔ خون، جلد، دل، اندرونی جھلیوں اور اعصابی ریشوں کو متاثر کر کے ہڈیوں میں اتر جاتا ہے اور پھر دماغ پر بھی حملہ کرتا ہے۔ (صفحہ592،591)
اگر مرکری کا صحیح استعمال کیا جائے تو اس کی بیماریاں اندر سے اچھل کر باہر جلد پر نمودار ہو جاتی ہیں۔ بعض اوقات شدید خارش اور رسنے والے زخم اور ناسور پیدا ہو جاتے ہیں جن کی سطح سفیدی مائل ہوتی ہے۔ عموماً جلد پر سفید رنگ کے چٹاخ بن جاتے ہیں۔ ایک دفعہ میرے پاس ایک ایسا مریض آیا جس کی رانوں کے ارد گرد نہایت گہرے اور تکلیف دہ سفید رنگ کے ناسور تھے۔ کسی دوا سے آرام نہ آ رہا تھا۔ میں نے اسے مرکری استعمال کروائی۔ اللہ کے فضل سے ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں بالکل ٹھیک ہو گیا۔ مرکری کی ایک علامت یہ ہے کہ جسم پر سفید رنگ کے چٹاخ پڑ جاتے ہیں جو پھلبہری کی طرح ہوتے ہیں لیکن پھلبہری نہیں ہوتے اور پھلبہری کی طرح بڑھتے اور پھیلتے نہیں ہیں۔ اگر مرکری کی مزاجی علامتیں ملتی ہوں تو بعض دفعہ یہ پھلبہری کی بھی بہت مؤثر دوا ثابت ہوتی ہے۔ ایک مریض کا سارا جسم پھلبہری کے داغوں سے بھر گیا تھا۔ اس میں چونکہ مرکری کی دوسری علامات موجود تھیں میں نے ایک ہزار کی طاقت میں مرکری استعمال کروائی۔ ایک ہفتہ میں اتنا نمایاں فرق پڑا کہ جب وہ مجھے ملنے آیا تو میں اسے پہچان بھی نہ سکا، سب داغ غائب ہو گئے اور دوبارہ کبھی اسے یہ مرض نہیں ہوا۔ جب مرکری جلد پر اثر دکھاتی ہے تو اندرونی طور پر غدودوں پر کوئی بداثر ظاہر نہیں ہوتا لیکن جب غدودوں پر اثر کرتی ہے تو جلد پر ضرور کوئی بیماری ظاہر ہوتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ غدودوں کو ٹھیک کر کے بیماری کو باہر دھکیلا گیا ہے۔ جماعت احمد یہ کے بانی جن کو جماعت احمدیہ تمثیلی طور پر پہلے مسیح کا ثانی یقین کرتی ہے، انہوں نے اپنے وقت میں ایک ایسا اہم انکشاف فرمایا جس سے ہومیو پیتھک طبیبوں کا ہومیو پیتھی پر ایمان بڑھ جانا چاہیے۔ آپؑ نے فرمایا کہ مجھے روحانی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اگر غدودوں کی بیماریوں کو کسی دوا سے جلد کی طرف دھکیل دیا جائے تو غدودوں کو بعض انتہائی خطرناک بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے۔ ان دواؤں کی مثال دیتے ہوئے آپ نے مرکری اور سلفر کا ذکر کیا ہے اور ہومیو پیتھی میں بھی یہی دو دوائیں ہیں جو اس مقصد کے لیے بکثرت استعمال کی جاتی ہیں۔ آپ نے مزید لکھا کہ میرے دل میں بے حد جوش پایا جاتا ہے کہ میں اس راز کو کھول کھول کر سب دنیا کے سامنے بیان کروں کیونکہ اس میں بہت سے شفا کے راز مضمر ہیں۔ (صفحہ593،592)
غدودوں اور ہڈیوں میں اگر نا سور مزمن ہو جائیں تو مرکری کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ مرکری کی خاص علامت یہ ہے کہ جوڑوں میں درد کے ساتھ پیپ بننے کا رجحان بھی ہوتا ہے۔ چونکہ مرکری کے مریض کا مزاج آتشک کے مریض کے مشابہ ہوتا ہے اس لیے ہڈیوں میں ناسور اور سوزش کے علاوہ پیپ بھی بنتی ہے۔ ڈاکٹر عموماً اس پیپ کو پچکاری کے ذریعہ باہر نکالتے ہیں۔ اگر مرکری کو چھوٹی طاقت میں شروع کر کے آہستہ آہستہ طاقت بڑھائی جائے تو بہت مفید نتائج ظاہر ہوں گے۔ ایک دم شروع میں اونچی طاقت میں مرکری دینا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ مزمن بیماریوں میں دوا کی طاقت کو رفتہ رفتہ اونچا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن علاج کا آغاز چھوٹی طاقت سے کرنا چاہیے۔ یہی محفوظ طریق علاج ہے۔ (صفحہ594،593)
اس بخار میں جس کا ایک علاج مرکری بھی ہے بچوں کی آنکھیں ایسی چمکیلی ہو جاتی ہیں جیسے وارنش کر دیا گیا ہو۔ ایسی ہی آنکھیں خسرہ اور کاکڑا لاکڑا وغیرہ میں بھی ملتی ہیں جب تک ان کے دانے یا چھالے کھل کر ابھر نہ آئیں آنکھوں کی یہ چمک باقی رہتی ہے۔ (صفحہ594)
اگر جلد پر زخم بننے لگیں جو نا سور کی شکل اختیار کر لیں اور ان کے کنارے ابھرے ہوئے ہوں اور خدشہ ہو کہ گینگرین نہ ہو جائے تو اس صورت میں مرکسال کی بجائے مرک کار زیادہ بہتر دوا ہے۔ ان دونوں کی علامتوں میں نمایاں فرق یہ ہے کہ مرکسال نسبتاً نرم لیکن مزمن دوا ہے۔ مرک کار کی بیماریوں میں شدت پائی جاتی ہے اور یہ مقابلۃً زیادہ تیزی سے اثر کرتی ہے۔ (صفحہ595،594)
مرکری میں گینگرین کی علامت ہونٹوں، گالوں اور مسوڑھوں پر ظاہر ہوتی ہے۔ جلد سیاہ ہو کر بھیا نک شکل اختیار کر لیتی ہے۔ آتشک میں بھی انہی جگہوں پر بیماری کی علامتیں بھیانک رنگ میں ظاہر ہوتی ہے۔ (صفحہ595)
کھوپڑی میں دباؤ اور گھٹن محسوس ہوتے ہیں۔ جلن اور خارش بھی پائے جاتے ہیں۔ (صفحہ596)
اگر خسرہ وغیرہ کے بعد بچوں میں سر بڑھنے کی علامت نظر آئے تو مرکری اس رجحان کو فوراً ختم کر دیتی ہے۔ مرکری کے مریض کی جلد کا رنگ مٹیالا ہو جاتا ہے۔ خارش اور ایگزیما کے اخراجات میں بو کی علامت نمایاں ہوتی ہے اور خون بہنے لگتا ہے۔ زخموں کے کنارے اٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور ان پر سفید جھلی سی آ جاتی ہے۔ رات کو جلد کی تکلیفیں زیادہ ہو جاتی ہیں۔ بستر کی گرمی بیماریوں کو بڑھا دیتی ہے۔ (صفحہ596)
ڈاکٹر کینٹ نے مرکری کے بارے میں متنبہ کیا ہے کہ اسے جلدی بیماریوں میں بار بار استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر ایسی بیماریوں میں اس کا زیادہ استعمال کیا جائے تو یہ باقی رہ جانے والے بداثرات چھوڑ جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ مرکری کا صرف ان مخصوص جلدی امراض سے تعلق ہو اور مریض کے سارے مزاج سے مطابقت نہ رکھتی ہو اس لیے ملتی جلتی امراض تو ٹھیک ہو جائیں مگر جسم کے باقی عوارض کی علامتیں مبہم ہوجائیں۔ (صفحہ598،597)
بعض ایسی بیماریاں ہیں جن میں فالج کے ساتھ جھٹکے بھی لگتے ہیں اور اعضا مڑ نے لگتے ہیں۔ ان میں بھی مرکسال امکانی دوا ہو سکتی ہے۔ اس کے ایگزیما اور زخموں میں جلن اور چبھن کا احساس نمایاں ہوتا ہے اور ناقابل برداشت بو ہوتی ہے جس سے دل متلاتا ہے۔ یہ علامتیں کسی مریض میں اکٹھی ہو جائیں تو ہر ہو میو پیتھک دوا جس کا جزو اعظم مرکری ہو کار آمد ثابت ہوسکتی ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ (صفحہ600)
(نوٹ ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔)