پردہ (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۳۰؍جنوری۲۰۰۴ء)
چہرہ کا پردہ کیوں ضروری ہے اس بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے احادیث سے یہ دلیل دی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے ایک صحابیہؓ کو کسی لڑکی کا رشتہ آیا تھا، اس کی شکل دیکھنے کے لئے بھیجا تاکہ دیکھ کر آئیں۔ اگر چہرہ کا پردہ نہ ہوتا تو ظاہر ہے کہ پھر تو ہر ایک نے شکل دیکھی ہوتی۔
پھر دوسری مرتبہ یہ واقعہ حدیث میں بیان ہوتاہے کہ جب ایک لڑکے کو آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ تم فلاں لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو۔ تم نے اس کو دیکھا ہے ؟ اگر نہیں دیکھا تو جا کر دیکھ آؤ۔ کیونکہ پردے کا حکم تھا بہرحال دیکھا نہیں ہوگا۔ تو جب وہ اس کے گھرگیا اور لڑکی کو دیکھنے کی خواہش کی تو اس کے باپ نے کہا کہ نہیں اسلام میں پردے کا حکم ہے اور مَیں تمہیں لڑکی نہیں دکھا سکتا۔ پھر اس نے آنحضرتﷺ کا حوالہ دیا تب بھی وہ نہ مانا۔ بہرحال ہر ایک کی اپنی ایمان کی حالت ہوتی ہے۔ اسلام کے اس حکم پر اس کی زیادہ سختی تھی بجائے اس کے کہ آنحضرتﷺ کے حکم کو موقعہ محل کے مطابق تسلیم کرتا اور مانتا۔ تو لڑکی جواندر بیٹھے یہ باتیں سن رہی تھی وہ باہر نکل آئی کہ اگر آنحضرتﷺ کا حکم ہے تو پھر ٹھیک ہے میرا چہرہ دیکھ لو۔ تو اگر چہرہ کے پردہ کا حکم نہیں تھاتو حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ پھرآنحضرتﷺ نے یہ کیوں فرمایا۔ ہر ایک کو پتہ ہوتاکہ فلاں لڑکی کی یہ شکل ہے اور فلاں کی فلاں شکل۔
اسی طرح ایک موقع پر آنحضرتﷺ اعتکاف میں تھے۔ رات کو حضرت صفیہ ؓکو چھوڑنے جا رہے تھے تو سامنے سے دو آدمی آرہے تھے ان کو دیکھ کر آنحضر تﷺ نے فرمایا گھونگھٹ اٹھا ؤ اور فرمایا دیکھ لو یہ میری بیوی صفیہ ہی ہے۔ کوئی شیطان تم پرحملہ نہ کرے اور غلط الزام لگانا نہ شروع کردو۔ تو چہرے کا پردہ بہرحال ہے۔
پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :۔وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپانے کا حکم نہیں ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم توکہتا ہے کہ زینت چھپاؤ اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے جس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بے شک ہم اس حد تک قائل ہیں کہ چہر ے کو اس طرح چھپایا جائے کہ اس کاصحت پر کوئی برا اثر نہ پڑے مثلاً باریک کپڑا ڈال لیا جائے یا عرب عورتوں کی طرز کا نقاب بنا لیا جائے جس میں آنکھیں اور ناک کا نتھنا آزاد رہتا ہے۔ مگر چہرے کو پردے سے باہر نہیں رکھا جاسکتا۔ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ۱۰۳)
پھر فرمایا کہ جو جو عورتیں بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہوجائیں اور نکاح کے قابل نہ رہیں وہ اگر معروف پردہ چھوڑ دیں تو جائز ہے ہاں خواہ مخواہ زیور پہن کر اور بناؤ سنگار کرکے باہر نہ نکلیں یعنی پردہ ایک عمر تک ہے اس کے بعد پردہ کے احکام ساقط ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک نے پردہ کے احکام کو ایسی بری طرح استعمال کیا ہے کہ جوان عورتیں پردہ چھوڑ رہی ہیں۔ اور بوڑھی عورتوں کوجبراً گھروں میں بٹھایا جارہا ہے۔ …عورت کا چہرہ پردہ میں شامل ہے ورنہ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ کے یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ مونہہ اور ہاتھ تو پہلے ہی ننگے تھے اب سینہ اور بازو بھی بلکہ سارا بدن بھی ننگا کرنا جائز ہوگیا حالانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ (تفسیر کبیر جلدششم صفحہ۳۹۶، ۳۹۷)
ہوتا یہی ہے کہ اگر پردہ کی خود تشریح کرنی شروع کردیں اور ہر کوئی پردے کی اپنی پسند کی تشریح کرنی شروع کردے تو پردے کا تقدس کبھی قائم نہیں رہ سکتا۔ اس لئے ماں باپ دونوں کو اپنی اولاد کے پردے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اور یہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔
اب کسی نے لکھاکہ مغربی ملک میں ملازمت کے سلسلہ میں ایک یونیفارم ہے جس میں جینز اور بلاؤز یاسکرٹ استعمال ہوتاہے تو کیا مَیں یہ پہن کر کام کرسکتی ہوں۔ اس کو مَیں نے جواب دیا کہ اگر لمبا کوٹ پہن کر اور سکارف سر پر رکھ کر کام کرنے کی اجازت ہے تو ٹھیک ہے ورنہ کوئی اجازت نہیں۔ اب اس میں جن عزیزوں یا رشتوں کا ذکر ہے کہ ان سے پردہ کی چھوٹ ہے ان میں وہ سب لوگ ہیں جو انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں۔ یعنی خاوند ہے، باپ ہے یا سسرہے، بھائی ہے یا بھتیجے، بھانجے وغیرہ۔ ان کے علاوہ باقی جن سے رشتہ داری قریبی نہیں ان سب سے پردہ ہے۔
پھر فرمایاکہ اپنی عورتوں کے سامنے تم زینت ظاہر کر سکتی ہو۔ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ عورتوں کے سامنے زینت ظاہر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عورتیں جو ہیں جن سے بے تکلفانہ یا بے حجابانہ تمہیں سامنے نہیں آنا چاہئے۔ اب بازاری عورتیں ہیں ان سے بچنے کی توہر شریف عورت کوشش کرتی ہے۔ ان کی حرکات، ان کا کردار ظاہر وباہر ہوتاہے، سامنے ہوتاہے لیکن بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جو غلط قسم کے لوگوں کے لئے کام کررہی ہوتی ہیں۔ اور گھروں میں جا کر پہلے بڑوں سے دوستی کرتی ہیں۔ جب ماں سے اچھی طرح دوستی ہو جائے تو پھربچیوں سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ بعض دفعہ برائیوں کی طرف ان کو لے جاتی ہیں۔ تو ایسی عورتوں کے بارہ میں بھی یہ حکم ہے کہ ہر ایرے غیرے کو، ہر عورت کو اپنے گھر وں میں نہ گھسنے دو۔ ان کے بارہ میں تحقیق کرلیاکرو، اس کے بعد قدم آگے بڑھاؤ۔
حضرت مصلح موعود ؓ نے لکھاہے کہ پہلے یہ طریق ہواکرتا تھا لیکن اب کم ہے۔ (کسی زمانے میں کم تھا لیکن آج کل پھر بعض جگہوں سے ایسی اطلاعیں آتی ہیں کہ پھر بعض جگہوں پر ایسے گروہ بن رہے ہیں )۔ جو اس قسم کی حرکات کرتے ہیں۔ خاص طورپراحمدی بچوں کو پاکستان میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے۔ بلکہ ماں باپ کو بھی احتیاط کرنی چاہئے کہ بعض دفعہ گھریلوکام کے لئے ایک عورت گھرمیں داخل ہوتی ہے اور اصل میں وہ ایجنٹ ہوتی ہے کسی کی اور اس طرح پھر آہستہ آہستہ ورغلاکر پہلے دوستی کے ذریعہ اور پھر دوسرے ذریعوں سے غلط قسم کی عادتیں ڈال دیتی ہیں بچیوں کو۔ تو ایسے ملازمین یا ملازمائیں جو رکھی جاتی ہیں، ان سے احتیاط کرنی چاہئے اور بغیر تحقیق کے نہیں رکھنی چاہئے۔ اسی طرح اب اس طرح کاکام، بری عورتوں والا، انٹرنیٹ نے بھی شروع کردیاہے۔ جرمنی وغیرہ میں اور بعض دیگرممالک میں ایسی شکایات پیداہوئی ہیں کہ بعض لوگوں کے گروہ بنے ہوئے ہیں جو آہستہ آہستہ پہلے علمی باتیں کر کے یا دوسری باتیں کرکے چارہ ڈالتے ہیں اور پھر دوستیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھرغلط راستوں پرڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مَیں متعدد بار انٹرنیٹ کے رابطوں کے بارہ میں احتیاط کا کہہ چکاہوں۔ بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ باپوں کی بھی ذمہ داری ہے، یہ ماؤں کی بھی ذمہ دار ی ہے کہ انٹرنیٹ کے رابطوں کے بار ہ میں بچوں کو ہوشیار کریں۔ خاص طورپر بچیوں کو۔ اللہ تعالیٰ ہماری بچیوں کو محفوظ رکھے۔ تو ملازم رکھنے ہوں یا دوستیاں کرنی ہوں جس کو آپ اپنے گھر میں لے کر آرہے ہیں اس کے بارہ میں بہت چھان بین کر لیا کریں۔ آج کل کا معاشرہ ایسانہیں کہ ہرایک کو بلا سوچے سمجھے اپنے گھر میں لے آئیں۔ یہ قرآن کا حکم ہے اور اس پرعمل کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔