مکتوب

مکتوب شمالی امریکہ (جولائی ۲۰۲۴ء) (بر اعظم شمالی امریکہ تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ)

(فرحان حمزہ قریشی)

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ

مورخہ ۱۳؍ جولائی ۲۰۲۴ء کو سابق امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ پرایک انتخابی ریلی کے دوران قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں ان کے دائیں کان کے اوپر والے حصے پر گولی سے زخم لگا۔ انہیں فوری طور پر وہاں سے لے جایا گیا اور مرہم پٹی کی گئی۔ جاتے ہوئے ٹرمپ صاحب نے اپنا ہاتھ بلند کر کے حاضرین کو کہاFight!یعنی لڑو!۔

گولی چلانے والا ایک ۲۰؍ سالہ نوجوان ٹھامس میتھیوکروکس تھا جسے موقع پر ہی مار دیا گیا۔ کروکس کے حملے سے ایک شخص ہلاک ہوا اور دو لوگوں کو شدید زخم پہنچے۔

حملے کے چند دن بعد جب ریپبلکن نیشنل کنونشن منعقد ہوا تو ٹرمپ نے اس موقع پر اپنے خاص معتقدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں خوش قسمت تھا۔ خدا میرے ساتھ تھا۔ پھر کہا کہ ایسا واقعہ انسان کے نظریات کو بدل دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کی پہلے سے بڑھ کر قدر ہوتی ہے۔

اس واقعہ کے متعلق تحقیق جاری ہے اور ابھی تک واضح طور پر اس حملے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔

کینیڈا کے خوبصورت پہاڑی علاقے میں جنگلاتی آگ

جولائی کے اواخر میں کینیڈا کے مغربی صوبہ البرٹا کے خوبصورت ترین پہاڑی علاقہ جیسپر (Jasper) میں جنگلاتی آگ کی وجہ سے سخت تباہی ہوئی۔ جنگلاتی آگ نے جیسپر کے کچھ حصوں کو جھلسا دیا ہے ۔ ان حصوں کی بحالی میں کئی سال بلکہ چند دہائیاں بھی لگ سکتی ہیں۔

جنگلاتی آگ نے ۲۲؍ جولائی ۲۰۲۴ء کو زور پکڑا اور جیسپر کے ہزاروں باشندوں اور سیاحوں کو فوری طور پر علاقے سے نکل جانے کا حکم دیا گیا کیونکہ آگ نے قصبے اور اس کے ارد گرد قومی پارک کو خطرے میں ڈال دیا۔چنانچہ ۴۸؍گھنٹوں کے اندراس قصبے کا قریباً ایک تہائی حصہ راکھ ہو چکا تھا اور دیگر عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔

جنگلاتی آگ لگنے کا سبب یہ بنا کہ جولائی کا مہینہ جیسپر کے علاقے میں خشک اور گرم تھا۔ اور بعض دن درجہ حرارت ۳۰؍ ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہو گیا۔ چنانچہ چھوٹی چھوٹی جنگلاتی آگیں لگتی رہیں اور آگ بجھانے والی ٹیمیں ان کا مقابلہ کرتی رہیں۔ ۱۸؍ جولائی کو بجلی سے بھی جنگلاتی آگ بھڑک اٹھی۔ مگر آہستہ آہستہ آگوں کا یہ سلسلہ بڑھتا گیا حتّٰی کہ ۲۲؍ جولائی کی شام کو جیسپر سے تقریباً نو کلومیٹر شمال میں ایک جنگلاتی آگ بھڑک اٹھی اور قریباً ایک گھنٹے کے اندر دو اَور آگیں جیسپر کے جنوب میں لگ گئیں۔ اغلباً یہ آگیں بھی بجلی کی چمک کی وجہ سے لگی تھیں۔ چند گھنٹوں کے بعد جنگلاتی آگ اس قدر بڑھ گئی کہ انخلا کا حکم جاری کیا گیا۔

۲۵؍ ہزار لوگ جیسپر کے نیشنل پارک سے نکل گئے اور اگلے دن شام پانچ بجے سے پہلے جیسپر کا قصبہ مکمل طور پر خالی کر دیا گیا۔

آگ بجھانے والوں نے انتہائی محنت سے اور اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے آگ بجھانے کی کوششیں کیں اور دن رات اسی کام میں مصروف رہے۔ چند دنوں تک حالات تشویشناک رہے اور کئی گھر اور عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ تاہم جولائی کے آخر تک اس حد تک آگ کو بجھا دیا گیا کہ بعض باشندوں کے واپس آنے کی اجازت ملی اور اسی طرح میڈیا کے نمائندگان اور سیاسی نمائندگان نے بھی وہاں کا دورہ کیا۔

اس جنگلاتی آگ نے ۳۲؍ ہزار ہیکٹرز (۷۹؍ ہزار ایکڑ) کو جھلسا دیا ہے اور پچھلی ایک صدی میں یہ سب سے بڑی جنگلاتی آگ تھی۔

ٹرمپ نے اپنے نائب صدر کا انتخاب کر لیا

۱۵؍ جولائی کو صدر ٹرمپ نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ اوہائیو کے سینیٹر جے ڈی وینس ان کے نائب صدر کے امیدوار ہوں گے۔

جے ڈی وینس (عمر ۴۰ سال) کی پہلی وجہِ شہرت ان کی یادداشتوں پر مبنی کتاب Hillbilly Elegyہے جو ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئی اور نہایت مقبول ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں نے سفید فام محنت کش طبقے کے رکن کے طور پر اپنے تجربات بیان کیے۔یہ کتاب عین اس وقت شائع ہوئی جبکہ امریکہ میں صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت بڑھ رہی تھی اور اس بنا پر ملک شدید تقسیم کا شکار تھا اور تنازعات شروع ہو رہے تھے۔

وینس ایک وکیل ہیں۔ تاہم ہائی سکول کے بعد وہ امریکی فوج میں بھرتی ہوئے جس کے بعد انہیں عراق میں جنگ کے لیے بھجوایا گیا۔ اس عرصے کے متعلق لکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں خوش قسمت تھا کہ میں باقاعدہ لڑائی میں شامل نہ ہوا لیکن اس عرصے نے بہر حال مجھ پر گہرا اثر چھوڑا۔ فوج میں انہوں نے عوامی امور میں کام کیا اور کچھ عرصے کے لیے شمالی کیرولائنا میں ایک بڑے فوجی اڈے، چیری پوائنٹ کے لیے ’’میڈیا ریلیشنز آفیسر‘‘ کے طور پر خدمات انجام دیں۔

وینس صاحب نے اپنی یادداشت کی کامیابی کو سیاسی کیریئر میں تبدیل کیا۔ اور ۲۰۲۲ء میں ریپبلکن کے طور پر امریکی سینیٹ کے لیے منتخب ہوئے، جہاں انہوں نے اوہائیو ریاست کی نمائندگی کی۔

امریکی صدر جو بائیڈن صدارتی انتخابات سے دستبردار ہو گئے

مورخہ ۲۱؍ جولائی کو صدر جو بائیڈن نے اپنی پارٹی اور لوگوں کے شدید دباؤ کے پیشِ نظر امسال ہونے والے صدارتی انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر انہوں نے اپنے بیان میں کہا: میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں نامزدگی قبول نہیں کروں گا اور اپنی تمام تر استعدادیں اپنی صدارت کی باقی ماندہ مدت کی ذمہ داریوں پر صرف کروں گا۔ پھر کہا کہ صدارت کے لیے وہ اپنی نائب صدر کملا ہیرس کی مکمل حمایت اور تائید کرتے ہیں۔ اپنے اس بیان کے آخر پر انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اکٹھے ہوں اور ٹرمپ کو شکست دیں۔ آئیے، ہم یہ کر دکھاتے ہیں۔

چنانچہ اسی روز کملا ہیرس نے اپنی صدارتی مہم کا آغاز کیا اور اگلے روز تک ہیرس نے کافی تعداد میں مندوبین کی حمایت حاصل کر لی اور ممکنہ امیدوار بن گئیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button