حضرت مصلح موعودؓ کے احسانات طبقۂ نسواں پر از حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ
حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں تحریر کرتی ہیں: آنحضرت ﷺ کے اس فرمان کے مطابق کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیےعلم حاصل کرنا فرض ہے۔حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت احمدیہ کی خواتین کی تعلیم کے لیےاز حد کوشش کی۔جب اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو قادیان میں بچیوں کے لیےصرف ایک پرائمری سکول جاری تھا۔جس میں تیس چالیس تک طالبات کی تعداد تھی۔آپؓ نے خلیفہ ہوتےہی عورتوں کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ فرمائی۔پرائمری سکول سے مڈل سکول ہوا۔مڈل سکول سے ہائی سکول بنا۔ہجرت کے وقت قادیان میں دو زنانہ سکول تھے۔ایک ہائی اور ایک مڈل۔ہائی سکول کے ساتھ بچیوں کی اعلیٰ دینی تعلیم کے لیےبھی ایک دینیات کالج جاری فرمایا اور عورتوں کی تعلیم کے لیے17 مارچ 1925ء کو آپ نے ایک مدرسۃالخواتین جاری فرمایا جس میں آپ خود بھی پڑھایا کرتے تھے۔یہ مدرسہ اس غرض سے جاری کیا گیا تھا تا جماعت کی مستورات دینی و دنیوی علوم کےزیور سے آراستہ ہوکر جماعت کی بچیوں کی تعلیم و تربیت میں حصہ لے سکیں۔چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں:’’عورتوں کی تعلیم سےمجھےاللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی خاص دلچسپی ہے۔میں نے محض اس کی وجہ سے لوگوں کےاعتراضات بھی سنے ہیں اور اختلافی آراء بھی سنی ہیں لیکن پھر بھی مَیں پورے یقین کےساتھ اس رائے پر قائم ہوں کہ عورتوں کی تعلیم کےبغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔جب جماعت احمدیہ کا انتظام میرے ہاتھ میں آیا اس وقت قادیان میں عورتوں کاصرف پرائمری سکول تھا لیکن مَیں نےاپنی بیویوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم اور عربی کی تعلیم دی اور انہیں تحریک کی کہ مقامی عورتوں کو قرآن کریم کا ترجمہ اورحدیث وغیرہ پڑھائیں۔ مَیں نےاپنی ایک بیوی کو خصوصیت کے ساتھ اس کے لیے تیار کیا اور میرا خیال تھا کہ وہ اپنی تعلیمی ترقی کے ساتھ دوسری عورتوں کو فائدہ پہنچائیں گی لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت تھی کہ میرےسفر ولایت سے واپسی پر وہ فوت ہوگئیں۔‘‘(الفضل قادیان جلد 19 مورخہ 19 ستمبر 1931ء صفحہ 5)
اس ا قتباس سے ظاہر ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کے نزدیک عورتوں کاتعلیم حاصل کرنا قومی ترقی کے لیےبہت ہی ضروری تھا۔آپ کی ذاتی دلچسپی کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ہجرت کے بعد بھی جبکہ سارا ملک ایک بحران میں سے گزررہا تھا،جماعت پر بھی بہت بڑا مالی بوجھ تھا،لیکن ربوہ کے آباد ہوتےہی یہاں لڑکیوں کا سکول جاری کردیا گیا۔اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد 1951ء میں لڑکیوں کا کالج بھی جاری کردیا گیا جو آج خداتعالیٰ کے فضل سے پاکستان کے تمام زنانہ کالجوں کے مقابلہ میں ایک منفرد حیثیت رکھتاہے۔جہاں حضرت مصلح موعودؓ نے عورتوں کے لیےسکول اور کالج جاری فرمائے تا ان کی ذہنی نشوونما ہو،اُن کی صلاحیتیں اُجاگر ہوں،وہ قومی نظام کا ایک کارآمد پُرزہ بن سکیں،اردو لکھنا پڑھنا اس لیے سیکھیں تا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرسکیں،وہ انگریزی بولنا اور پڑھنا اس لیے سیکھیں تا اسلام کو ان خواتین کےسامنے پیش کرسکیں جو انگریزی بولتی اور سمجھتی ہیں۔وہاں کبھی بھی آپ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم محض ڈگریاں لینے کے لیےہو یا نوکریاں کرنے کے لیےبلکہ بار بار آپ نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس کو واضح فرمایا ہے کہ علم سے مراد دینی علم ہے۔قرآن مجید کا علم ہے۔آپ فرماتے ہیں:’’اس کے بعد مَیں تمہیں توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے ضروری تعلیم دینی تعلیم ہے کس طرح سمجھاؤں کہ تمہیں اس طرف توجہ پیدا ہو۔اس زمانے میں خداتعالیٰ کامامور آیا اور اس نےچالیس سال تک متواتر خدا کی باتیں سنا کر ایسی خشیت الٰہی پیدا کی کہ مَردوں میں سےکئی نےغوث،قطب،ولی،صدیق اور صلحاء کا درجہ حاصل کیا۔ان میں سے کئی ہیں جو اپنےرتبہ کے لحاظ سے کوئی تو ابوبکرؓ اور کوئی عثمانؓ،کوئی علیؓ کوئی زبیرؓ،کوئی طلحہؓ ہے،تم میں سے بھی اکثر کو اس نےمخاطب کیا اور انہیں خدا کی باتیں سنائیں اور ان کی بھی اسی طرح تربیت کی مگر تب بھی وہ اس رتبہ کو حاصل نہ کرسکیں۔اس کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نےتم میں ایک صدیقی وجود کو کھڑا کیا مگر اس سے بھی وہ رنگ پیدا نہ ہوا۔پھر خدانے مجھ کواس مقام پر کھڑا کیا اور پندرہ سال سے متواتر درس اور اکثر وعظ ونصائح اور لیکچر میں دین کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں اور ہمیشہ یہی میری کوشش رہی ہے کہ عورتیں ترقی پائیں مگر پھر بھی اُن میں وہ روح پیدا نہ ہوسکی جس کی مجھےخواہش تھی۔…پچھلےدنوں مَیں نےیہاں کی عورتوں سے ایک سوال کیا تھا کہ تم کسی ایک عورت کا بھی نام بتاؤ جس نےقرآن کریم پر غور کر کے اس کےکسی نکتہ کو معلوم کیا ہواس کی صرف یہ وجہ ہے کہ تم قرآن کو قرآن کر کےنہیں پڑھتیں اور نہیں خیال کرتیں کہ اس کے اندر علم ہے،فوائد ہیں،حکمت ہے بلکہ صرف خدائی کتاب سمجھ کر پڑھتی ہو کہ اس کا پڑھنا فرض ہے۔اسی لیے اس کی معرفت کا دروازہ تم پر بند ہے۔دیکھو قرآن خدا کی کتاب ہے اور اپنے اندر علوم رکھتا ہے۔
قرآن اس لیے نہیں کہ پڑھنے سے جنت ملے گی اور نہ پڑھنے سے دوزخ بلکہ فرمایا کہ فِیْہِ ذِکْرُکُمْ اس میں تمہاری روحانی ترقی اور علوم کے سامان ہیں۔قرآن ٹونہ نہیں۔یہ اپنےاندر حکمت اور علوم رکھتا ہے۔جب تک اس کی معرفت حاصل نہ کروگی قرآن کریم تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔تم میں سے سینکڑوں ہوں گی جنہوں نےکسی نہ کسی سچائی کا اظہار کیا ہوگا۔لیکن اگر پوچھا جائےکہ تمہارےاس علم کا ماخذ کیا ہے تو وہ ہرگز ہرگز قرآن کو پیش نہ کریں گےبلکہ ان کی معلومات کا ذریعہ کتابیں،رسائل،ناول یا کسی مصنف کی تصنیف ہوں گی اور غالباً ہماری جماعت کی عورتوں میں حضرت مسیح موعود ؑکی کوئی کتاب ہوگی۔تم میں سے کوئی ایک بھی یہ نہ کہے گی کہ میں نےفلاں بات قرآن پرغور کرنے کے نتیجہ میں معلوم کی ہے۔کتنا بڑا اندھیرہے کہ قرآن جو دنیا میں اپنے اندر خزانے رکھتا ہے اور سب بنی نوع انسان کے لیےیکساں ہے اس سے تم اس قدر لاعلم ہو۔اگر قرآن کا دروازہ تم پر بند ہے تو تم سے کس بات کی توقع ہوسکتی ہے؟‘‘(مستورات سے خطاب ۲۸؍دسمبر ۱۹۲۹ء انوار العلوم جلد ۱۱صفحہ ۵۸۔ماخوذ ازگل ہائے محبت صفحہ۴۰-۴۲)