مرد کی تخلیق کا مقصد (حصہ دوم)
مرد بحیثیت بیٹا
جہاں اسلام باپ کو یہ کہتا ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دو اور ان کے لیے دعائیں کرو وہاں بچوں کو بھی حکم دیتا ہے کہ تمہارا بھی کچھ فرض ہے۔ جب تم بالغ ہو جاؤ تو ماں باپ کے بھی تم پر کچھ حقوق ہیں۔ ان کو تم نے ادا کرنا ہے۔ یہ رشتوں کے حقوق کی کَڑیاں ہی ہیں جو ایک دوسرے سے جڑنے سے پُرامن معاشرہ پیدا کرتی ہیں۔ ماں باپ کے حق ادا کرنے کی کتنی بڑی ذمہ داری ہے اور اس کی کتنی اہمیت ہے؟ اس بات کا اِدراک ہر مومن کو ہونا چاہیے۔
ایک لڑکا جب بالغ ہوتا ہے تو اس نے کس طرح ماں باپ کا حق ادا کرنا ہے؟ اِس بات کو سمجھنے کے لیے یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں: عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں۔ فرمایا: کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہا ہاں زندہ ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ ان دونوں کی خدمت کرو یہی تمہارا جہاد ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب الجہاد باذن الابوین حدیث۳۰۰۴)
پس والدین کی خدمت کی اہمیت کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے، پھر یہی نہیں بلکہ آپس میں محبت اور پیار کو پھیلانے کے لیے والد کے دوستوں سے بھی حسنِ سلوک کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ چنانچہ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ انسان کی بہترین نیکی یہ ہے کہ اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرے جبکہ اس کا والد فوت ہو چکا ہو۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی برالوالدین حدیث ۵۱۴۳)
اس بات کو مزید کھول کر ایک روایت میں یوں ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابو اسید الساعدیؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرتھے کہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے لیے کر سکوں۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں کیوں نہیں۔ تم ان کے لیے دعائیں کرو۔ ان کے لیے بخشش طلب کرو۔ انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو۔ ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام کے ساتھ پیش آؤ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی بر الوالدین حدیث ۵۱۴۲)
ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اس کا رزق بڑھا دیا جائے تو اس کو چاہیے کہ اپنے والدین سے حسن سلوک کرے اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے۔ (الجامع لشعب الایمان جلد ۱۰ صفحہ ۲۶۴-۲۶۵ باب برالوالدین حدیث ۷۴۷۱ مکتبۃ الرشدناشرون الریاض ۲۰۰۴ء)
مرد گھر کا نگران
اسلامی معاشرے میں مَرد کو گھر کا نگران یعنی خاندان کا سرپرست مقرر کیا گیا ،جسے گھر کے اہم امور میں فیصلوں کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اگرچہ ہمارے مُلک میں کئی اہم اور بڑے عُہدوں پر مَرد ہی فائز ہیں اور ملکی اور بین الاقوامی سیاست میں بھی اُن ہی کی زیادہ تعداد نظر آتی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ گھریلو مسائل کے حل سے سیاست کے محاذ تک ہر میدان میں اُنہیں عورت کی معاونت بھی حاصل ہے۔
مرد معاملہ فہم ہونے کے ساتھ واقعات اور معاملات کا تجزیہ کرکے فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ اچھی عادات کی بدولت خاندان بَھر کے لیے قابلِ تقلید اور خود سے وابستہ تمام افراد سے محبّت کرتا ہو۔ دراصل خاندان کے نگران کو ایک لیڈر کی طرح کام کرنا پڑتا ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قریبی ہر رشتے کو عزّت و تکریم دے اور گھر کے ہر فرد کو بَھرپور زندگی گزارنے کاموقع بھی فراہم کرے۔ اس دُنیا میں ہر فرد رشتوں کی ڈور سے بندھا ہے اور یہ ڈور تب ہی مضبوط و پائیدار ہو سکتی ہے کہ جب سربراہ ہر رشتے کو اہمیت وعزّت دے اور اُس کا خیال بھی رکھے۔ ہر رشتے کا احترام کرنا جانتا ہو۔ ہمارے دین میں خاص طور پر بچّوں، خواتین اور ضعیفوں سے حُسنِ سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔
بحیثیت گھر کے سربراہ کے مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول پر بھی نظر رکھے، اپنی بیوی کے بھی حقوق ادا کرے اور اپنے بچوں کے بھی حقوق ادا کرے، انہیں بھی وقت دے ان کے ساتھ بھی کچھ وقت صرف کرے چاہے ہفتہ کے دو دن ہی ہوں، ویک اینڈ ز پر جو ہوتے ہیں۔
انہیں مسجد سے جوڑے، انہیں جماعتی پروگراموں میں لائے، ان کے ساتھ تفریحی پروگرام بنائے، ان کی دلچسپیوں میں حصہ لے تاکہ وہ اپنے مسائل ایک دوست کی طرح بانٹ سکیں۔ بیوی سے اس کے مسائل اور بچوں کے مسائل کے بارے میں پوچھے ان کو حل کرنے کی کوشش کرے۔
پھر ایک سربراہ کی حیثیت مل سکتی ہے۔ کیونکہ کسی بھی جگہ کے سربراہ کو اگر اپنے دائرہ اختیار میں اپنے رہنے والوں کے مسائل کا علم نہیں تو وہ تو کامیاب سربراہ نہیں کہلا سکتا۔ اس لیے بہترین نگران وہی ہے جو اپنے ماحول کے مسائل کو بھی جانتا ہو۔ یہ قابل فکر بات ہے کہ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے اپنی نگرانی کے دائرے سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں یا آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اپنی دنیا میں مست رہ کر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو مومن کو، ایک احمدی کو ان باتوں سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہیے۔
مومن کے لیے تو یہ حکم ہے کہ دنیا داری کی باتیں تو الگ رہیں، دین کی خاطر بھی اگر تمہاری مصروفیات ایسی ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے تم نے مستقلاً اپنا یہ معمول بنا لیا ہے، یہ روٹین بنا لی ہے کہ اپنے گردو پیش کی خبر ہی نہیں رکھتے، اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، اپنے ملنے والوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، اپنے معاشرے کی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے تو یہ بھی غلط ہے۔ اس طرح تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ معیار حاصل کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرو اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو۔
(باقی آئندہ بدھ کو انشاء اللہ)