مہمان نوازی (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۷؍ جولائی ۲۰۰۹ء)
مہمان نوازی بھی ایک اعلیٰ خلق ہے جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی دیتا ہے ویسے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی جو تم کرتے ہو اس کا اجر پاؤ گے۔ لیکن یہ نیکی ایسی ہے کہ جب خوش دلی سے کی جائے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کی جائے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کو کھینچنے والی بنتی ہے اور ایمان میں مضبوطی کا باعث بنتی ہے۔ آنحضرتﷺ کی مہمان نوازی ایک تو مہمان نوازی کے جذبہ سے ہوتی تھی لیکن ایک یہ بھی مقصد ہوتا تھا کہ اگر کوئی کافر مہمان یا دوسرے کسی مذہب کا مہمان ہے تو وہ آپؐ کے اعلیٰ اخلاق اور مہمان نوازی دیکھ کر یہ سوچے کہ جس تعلیم کے یہ علمبردار ہیں، جس تعلیم کے یہ پھیلانے والے ہیں یہ اسی تعلیم کا اثر ہو گا کہ اتنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ اور یوں اس مہمان کو اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اور آپؐ یہ مہمان نوازی کرتے بھی اس لئے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف توجہ پیدا ہو، تاکہ اس کی دنیا کے ساتھ ساتھ عاقبت سنور جائے۔ پس آپؐ کی مہمان نوازی صرف ظاہری خوراک کے لئے نہیں ہوتی تھی جس سے مہمان کی ظاہری بھوک مٹے بلکہ روحانی خوراک مہیا کرنے کے لئے بھی ہوتی تھی، تاکہ اس کی آخرت کی زندگی کے بھی سامان ہوں اور یہی تعلیم آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو دی کہ تمہارے ہر کام کے پیچھے خدا تعالیٰ کی رضا ہونی چاہئے۔ ایک روایت میں آتا ہے، جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص جو کافر تھا حضرت رسول کریمﷺ کے ہاں مہمان بنا۔ آنحضرتﷺ نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہ کر لانے کے لئے فرمایا جسے وہ کافر پی گیا۔ پھر دوسری اور تیسری یہاں تک کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔ (اور آپؐ کے اس اسوہ کو دیکھ کر، اس حسن سلوک کو دیکھ کر کہ بغیر کسی چوں چراں کے، بغیر کسی احسان جتانے کے، بغیر کسی قسم کے اشارہ کے آپؐ نے جتنی مجھے بھوک تھی، جتنا مَیں پینا چاہتا تھا یا آزمانا چاہتا تھا بہرحال مجھے اتنا دودھ اور خوراک مہیا کی۔ اس کو دیکھ کر) اگلی صبح اس نے اسلام قبول کر لیا۔ تو آنحضرتﷺ نے اگلے دن پھر اس کے لئے بکری کے دودھ کا انتظام کیا تو ایک بکری کا دودھ وہ پی گیا اور دوسری بکری کا دودھ لانے کے لئے فرمایا تو پورا ختم نہیں کر سکا۔ اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مومن ایک آنت میں کھانا کھاتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں میں بھرتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل مسند ابی ہریرہؓ جلد 3 صفحہ 385 حدیث 8866 عالم الکتب بیروت 1998ء)
اور اسلام قبول کرنے سے پہلے اسے آپؐ نے کچھ نہیں کہا اور اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اسے یہ نہیں کہا کہ یہی حکم ہے کہ تم بھوک چھوڑ کر کھاؤ۔ جہاں تک مہمان ہونے کے ناطے اس کاحق تھا اسے پوری خوراک جو گزشتہ رات دیکھ کر دی تھی اس کا انتظام کیا، اسے پیش کی لیکن اس نے خود ہی انکار کر دیا۔ تب آپؐ نے یہ بات فرمائی کہ مومن ایک آنت سے پیتا ہے اور کافر سات آنتوں سے۔ اس کے اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے مقام کا احساس بھی اسے دلادیا کہ انسان کی زندگی کا مقصد صرف کھانا پینا ہی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔
جب حبشہ کے مہاجرین واپس آئے تو ان کے ساتھ نجاشی شاہ حبشہ کا بھیجا ہوا ایک وفد بھی تھا تو آنحضرتﷺ خود ان کی مہمان نوازی فرماتے رہے۔ جب صحابہؓ نے عرض کی کہ حضورؐ! جب ہم خدمت کرنے کے لئے موجود ہیں تو(آپؐ کیوں تکلیف فرماتے ہیں۔ تو ہمارے آقاﷺ نے کیا خوبصورت جواب دیا جو علاوہ مہمان نوازی کے اعلیٰ اصول کے اپنے مظلوم صحابہؓ کی عزت افزائی کا اظہار بھی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم احسان کا بدلہ احسان ہی ہے، اس پر عمل کی بھی ایک شاندار مثال ہے اور شکر گزاری کے جذبے کا بھی ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ ) آپؐ نے فرمایا: ان لوگوں نے ہمارے صحابہ کو عزت دی تھی اس لئے مَیں پسند کرتا ہوں کہ ان کی مہمان نوازی اور خدمت مَیں خود اپنے ہاتھوں سے کروں تاکہ ان کے احسانوں کا کچھ بدلہ ہو۔ حبشہ کے قافلہ کے لوگ بھی آپؐ کے اس طرح مستعدی سے مہمان نوازی کرنے کو دیکھ کر حیران ہوتے ہوں گے کہ یہ کیسا بادشاہ ہے جو اپنے ہاتھ سے ایک عام آدمی کی مہمان نوازی کر رہا ہے اور یہ مہمان نوازی کرکے انسانی شرف کے بھی عجیب و غریب معیار قائم کر رہا ہے جو نہ پہلے کبھی دیکھنے کو ملے نہ سننے کو۔ (سیرت الحلبیہ جلد 3صفحہ 72 غزوۃ خیبر۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت طبع اول 2002ء)
پھر ایک یہودی جب رات اپنے پیٹ کی خرابی کی وجہ سے بستر گندا کرکے صبح صبح شرم کے مارے اٹھ کر چلا گیا تو آنحضرتﷺ نے بغیر کسی کو مدد کے لئے بلانے کے خود ہی اس کا بستر دھونا شروع کردیا اور جب کسی وجہ سے راستے میں اس کو یاد آیا کہ مَیں اپنی فلاں چیز بھول آیا ہوں وہ واپس آیا تو آپؐ کو بستر دھوتے دیکھ کر بڑا شرمسار ہوا۔ (مثنوی مولانا رومی مترجم دفتر 5 صفحہ 23تا 25 ترجمہ قاضی سجاد حسین۔ الفیصل ناشران 2006ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عیسائی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے یا یہ وہی واقعہ ہے یا دوسرا کوئی واقعہ ہے لیکن بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ آپؐ کے اس عمل کو دیکھ کر وہ مسلمان ہو گیا۔ تو یہ بے نفسی کی انتہا ہے۔