حضرت الیاس علیہ السلام
احمد: دادی جان ! آج مسجد میں ایک نبی کا بار بار ذکر ہوا جن کا نام ایلیاہ ہے۔ وہ کون ہیں اور جماعت احمدیہ سے ان کا کیا تعلق بنتا ہے ؟
دادی جان: جی بہتر ! میں آپ کو ان کے بارے میں بتاتی ہوں۔ ایلیاہ بائبل میں حضرت الیاسؑ کا نام ہے۔ حضرت الیاسؑ کا قرآن کریم میں دو جگہ سورہ انعام اور سورہ صافات میں ذکر ملتا ہے۔
گڑیا: الیاس کون تھے ؟
دادی جان: حضرت الیاسؑ اللہ تعالیٰ کے نبی اور حضرت ہارونؑ کی اولاد میں سے تھے۔ آپؑ تقریباً نو سو قبلِ مسیح اُردن کے شہر’’جِلعاد‘‘ میں پیدا ہوئے۔ قرآنِ کریم اور مستند احادیث میں حضرت الیاسؑ کی زندگی کے حالات تفصیل سے مذکور نہیں۔ قرآنِ کریم میں آپؑ کا ذکرِ مبارک دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک سورۂ انعام میں کہ جہاں دیگر انبیاء علیہم السّلام کے ساتھ آپؑ کا اسمِ گرامی بھی مذکور ہے اور دوسرا، سورۂ صافات میں، جہاں نہایت اختصار کے ساتھ آپؑ کی دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا ذکر ہے۔
احمد:حضرت الیاسؑ بھی بنی اسرائیل کے نبی تھے؟
دادی جان: جی بالکل!تاریخی اور اسرائیلی روایات اس بات پر تقریباً متفق ہیں کہ آپؑ ، حضرت حزقیلؑ کے بعد اور حضرت الیسعؑ سے پہلے بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب بنی اسرائیل کی سلطنت دو حصّوں میں بٹ چکی تھی۔
آپ کو دمشق کے شمال مغرب میں واقع شہر بعلبک کی طرف (موجوده تقسیم میں یہ شہر لبنان میں واقع ہے) رسول بنا کر بھیجا گیا تھا تا کہ انہیں بعل نامی بت کی عبادت سے منع کریں تو اس جگہ کے لوگوں نے آپ کو جھٹلایا اور آپ کی مخالفت کی بلکہ آپ کو شہید کرنے کا ارادہ کر لیا حتی کہ آپ ان لوگوں کو چھوڑ کر چلے گئے اور روپوش ہو کر دس سال تک ایک غار میں رہے پھر اللہ تعالیٰ نے اس بادشاہ کو موت دی اور دوسرا شخص بادشاہ بن گیا۔ تب حضرت الیاسؑ نے اس کو دعوت ایمان دی تو اس کے ساتھ بے شمار تعداد میں وہ قوم ایمان لے آئی۔
محمود: بعل، یہ کیا ہے ؟
دادی جان: بعل بُت ایک بڑا دیوتا مانا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بُت سونے کا تھا۔ اس کا قد 20گز تھا، چار منہ تھے اور چار سو افراد اُس کی خدمت پر مامور تھےاور سینکڑوں سالوں سے اس کی پوجا کی جا رہی تھی۔ روایت میں ہے کہ بعل کے پجاری،حضرت یوشع بن نونؑ کے زمانے میں بھی تھے اور آپؑ نے شام کی فتح کے دَوران اُن سے جنگ کی تھی۔ سال کے مخصوص مہینوں میں اُس دیوتا کے گرد میلے لگتے، منّتیں مانی جاتیں، سونے چاندی کے نذرانے چڑھائے جاتے، طرح طرح کی خوشبوؤں کی دھونی دی جاتی۔ اُس کی قربان گاہ میں جانوروں کو قربان کیا جاتا اور خاص خاص مواقع پر انسانوں کی بھی بھینٹ چڑھائی جاتی تھی۔ عبرانی اور سامی زبانوں میں بعل کے معنی آقا، پروردگار، مالک اور سردار کے ہیں۔بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ حجاز کا مشہور بُت، ہبل بھی بعل ہی کی ایک شکل تھا۔
یہ لوگ روحانی طور پر مردہ تھے تو ان میں روحانیت کی روح ڈال کر زندہ کیاگیا۔ حضرت مصلح موعودؑ فرماتے ہیں کہ انبیاء بے شک مردے زندہ کر لیتے تھے۔ جیسا کہ ایلیاہ نبی اور الیسع کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے (روحانی) مردے زندہ کئے۔(نمبر1 سلاطین باب 17 آیت 22 ونمبر2 سلاطین باب 4 آیت 35)(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ62)
گڑیا:سَلٰمٌ عَلٰۤی اِلۡ یَاسِیۡنَ (الصافات:131)یہاں الیاسین کہنے سے کیا مراد ہے ؟
دادی جان: مفسرین کے نزدیک وہاں صرف ایک الیاس مراد ہیں آخر میں یاء اور نون کا اضافہ قافیہ بندی کے لیے کیا گیا ہے۔
دادی جان قرآن کریم کھولتے ہوئے کہتی ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں ’’الیاس‘‘ کی بجائے ’’الیاسین‘‘ فرمایا گیا ہے۔ اس کا مفسرین ایک معنیٰ تو یہ کیا کرتے ہیں کہ تین الیاس تھے کیونکہ تین سے کم کی تعداد پر ’’الیاسین‘‘(جمع) کا صیغہ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن عبرانی طرز کلام میں واحد کے لئے بھی عزت کی وجہ سے جمع کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ ان کی کتب میں آنحضرت ﷺ کا نام محمد نہیں بلکہ’’محمدیم‘‘ لکھا ہوا ہے۔ چونکہ ایلیاء (الیاس) نے بھی غیر معمولی قربانی سر انجام دی تھی اس لئے آپ کا بھی جمع کے صیغہ میں ذکر فرمایا گیا‘‘۔ (ترجمۃ القرآن از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ تحت آیت ھذا )
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کا اعتقاد ہے الیاس کی بجائے الیاسین کا لفظ اللہ تعالیٰ نے اس لیے استعمال کیا ہے کہ یہاں ایک سے زیادہ الیاس مراد ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد9 صفحہ170)
حضرت مصلح موعودؑ کے نزدیک ایک تو حضرت الیاس ہیں۔ دوسرے الیاس یوحنا یعنی حضرت یحیٰؑ ہیں جو حضرت عیسیٰؑ سے معا ًپہلے آئے اور تیسرے الیاس حضرت سید احمد صاحب بریلوی ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ سے پہلے آئے۔
گڑیا: دادی جان میری کلاس میں بتایا گیا تھا کہ حضرت الیاسؑ بھی زندہ آسمان پر چلے گئے تھے۔
دادی جان: یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ اتنی دیر تک کوئی انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ پرانے عہد نامے میں ایلیاہ نبی یعنی حضرت الیاسؑ کے متعلق لکھا ہے ’’اور ایلیاہ بگولے میں آسمان پر چلا گیا‘‘(سلاطین 2 باب 2آیت 11)پھر ذکر ہے کہ ’’دیکھو خدا وند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیاؔہ نبی کو تمہارے پاس بھیجو ں گا اور وہ باپ کا دل بیٹے کی طرف اور بیٹے کا باپ کی طرف مائل کرے گا۔‘‘(ملاکی باب 4آیت 5تا6)
یہود میں اپنی کتاب کی روشنی میں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ ایلیاہ آسمان پر گیا ہے اورمسیح کے آنے سے پہلے اسی نے آسمان سے آنا ہے۔جب یہودی علماء نے حضرت عیسیٰؑ سے ایلیاہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب میں یوحنا بپتسمہ دینے والے کا ذکر کرکے کہا ایلیاہ جو آنے والا تھا یہی ہے۔ (متی باب 11آیت 14)
بیٹا یہی تو وہ بات تھی جس کی وجہ سے یہودیوں نے حضرت مسیحؑ کا انکار کیا تھا کہ کتابوں اور نوشتوں میں لکھا ہے کہ مسیح کی آمد سے پہلے ایلیا نبی یعنی حضرت الیاسؑ آئیں گے۔ اب حضرت الیاسؑ دوبارہ نازل نہیں ہوئے اور یوحنا یعنی حضرت یحیٰؑ آگئے لیکن حضرت یحیٰؑ کا تو ذکر ہی نہیں ملتا۔
اب حضرت عیسیٰؑ کے متعلق بھی یہی غلط عقیدہ رائج ہوگیا ہے کہ وہ زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اور زندہ نازل ہوں گے۔ یہی مثال یہاں بھی صادق آتی ہے کہ اصل میں کوئی آسمان سے نازل نہیں ہوگا۔ بلکہ نئے وجود جو ان جیسے خواص رکھیں گے۔ اللہ ان کو مبعوث فرمائےگا۔
گڑیا:تودادی جان حضرت الیاسؑ فوت ہوگئے تھے۔ ان کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی حضرت یحیٰؑ میں پوری ہوئی۔ اور حضرت عیسیٰؑ کے دوبارہ نازل ہونے کی پیشگوئی حضرت مسیح موعودؑ کے وجود میں پوری ہوئی۔
دادی جان: جی بیٹا یہی خلاصہ ہےان ساری باتوں کا۔
گڑیا: پیشگوئی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سارے لوگوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کا انکار کردیا ہے جیسے یہود نے حضرت عیسیٰؑ کا کیا تھا۔
دادی جان: جی بیٹا بالکل درست ہے کیونکہ علماء نے یہیں غلطی کھائی ہےجس کی وجہ سے عام لوگ بھی گمراہ ہوئے اور انہوں نے آپؑ کا انکار کیا مگر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں احمدی گھرانے میں پیدا کیا اور ہم نے اس زمانہ کے امام کو پہچانا اور ان کی بیعت میں داخل ہیں۔ الحمد للہ۔
الحمد للہ۔سب بچے باجماعت بولے۔
٭… ٭… ٭… ٭… ٭
(درثمین آصف، جرمنی)