بچوں کا الفضل

ہمیشہ سچ بولوں گا

علی کے ابا نےاْن دنوں اس کو سختی سے تاکید کی ہوئی تھی کہ وہ بغیر اجازت ان کی سٹڈی میں نہ جائے کیونکہ آج کل وہ اپنے ایک خاص مضمون پر کام کررہے تھے۔ ان کو ڈر تھا کہ علی کی لاپرواہی سے ان کے ضروری کاغذات کو جو ان دنوں سٹڈی میں ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے، کوئی نقصان نہ پہنچے۔ وہ اپنے اس مضمون پر بہت محنت کر رہے تھے کیونکہ گھر میں علی ہی ایک چھوٹی عمر کا بچہ تھا، اس لیے اس کی طرف سے ان کو بہت فکر تھی۔ مگر علی بہت بُھلَکَّڑ تھا اور ہر بات بھول جاتا تھا۔ ایک دن کھیلتا کھیلتا وہ اپنے ابا کی سٹڈی میں پہنچ گیا۔ وہاں جب اس نے دیکھا کہ کاغذات ہی کاغذات پھیلے ہوئے ہیں تو وہ حیران رہ گیا۔ اتنےکاغذات اس طرح پھیلے ہوئے اس نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ وہ ان کو دیکھ کر خوشی سےاتناجوش میں آگیا کہ اپنے ابا کی ہر ہدایت بھول گیا۔ وہ کاغذات کو اچھال اچھال کر اپنے اوپر پھینکنے لگا۔ جب تھوڑی دیربعد اس کھیل سے تھک گیا تو کاغذات سے جہاز بنا بنا کر اڑانے لگا اور پھر جب اس کھیل سے بھی اکتا گیا تو اس نےقینچی پکڑی اور کاغذات کو کاٹ کاٹ کر مختلف قسم کی چیزیں بنانا شروع کردیں۔ کھیل میں گم اچانک اس کو اپنے ابا کی بات یاد آگئی اور اس کا رنگ فق ہو گیا۔ اچانک اس کی خوشی کی حالت خوف میں بدل گئی۔ اس نے اپنے ارد گرد دیکھا تو اس کو احساس ہوا کہ اس نے اپنے ابا کی تمام محنت ضائع کر دی ہے اور کھیل کھیل میں اس نے کتنا نقصان کیا ہے۔ پریشانی کی حالت میں اس کو سمجھ نہ آرہی تھی کہ وہ کیا کرے؟ وہ بھاگتا ہوا ابا کی سٹڈی سے نکلا اور اپنےکمرے میں چلا گیا۔ وہاں سخت پریشان گھنٹوں بیٹھا رہا اور سوچتا رہا کہ آخر کیا کرے؟ کیا ابا کو خود ہی جا کر بتا دے یا خاموش رہے یا کسی اور پر الزام لگا دے؟ اتنے میں اس کو یاد آیا کہ ان دنوں ان کے گھر جو کھانا بنانے والی ماسی آتی تھیں ان کے ساتھ کچھ دنوں سے ایک چھوٹا سا لڑکا بھی آرہا تھا۔ اس نے سوچا چلو میں اس پر الزام لگا دیتا ہوں، سب یقین بھی کر لیں گے اور میں ابا کی ڈانٹ سے بھی بچ جاؤں گا۔

کچھ دیر بعد علی کے کمرےکے دروازے پر دستک ہوئی۔ اس کے اباتھے۔ وہ پوچھنے لگے کہ علی کیا تم میرے کمرے میں گئے تھے؟ اس کے ابا نے یہ بات اس طریق سے کہی کہ اس میں سوال کم اور یقین زیادہ لگ رہا تھا۔ علی مزید ڈر گیا اور فوری بولا کہ نہیں میں تو نہیں گیا تھا لیکن میں نے ماسی کے ساتھ جو لڑکا آتا ہے اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کے ابا کچھ حیران ہوئے پھر انہوں نے دوبارہ پوچھا یعنی تم میرے کمرے میں نہیں گئے؟اس نے کہا نہیں ابا میں تو نہیں گیا۔

اس کے ابا یہ سن کر واپس چلے گئے۔ علی نے سکھ کا سانس لیا اور اپنے آپ سے کہنے لگاکہ شکر ہے میں ابا کی ڈانٹ سے بچ گیا۔ اس کے بعد وہ اپنے کمرے میں ہی کھیلنے لگا۔ شام کو جب دوبارہ باہر گیا تو اس کی امی اور ابا ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے علی سے کچھ بات نہیں کی۔ علی کافی دیر ان کے پاس بیٹھا رہا۔ وہ علی کے سوالات کا چند الفاظ میں جواب تو دے دیتے مگر خود سے کوئی بات نہ کرتے۔ اس کو یہ بات بہت عجیب معلوم ہوئی کیونکہ عام طور پر وہ اس سے بہت سی باتیں کیا کرتے تھے اور ان کو علی کا ان کے ساتھ بیٹھنا بہت پسند تھا۔

اگلے دن جب علی اٹھا تو اس نے دیکھا کہ اس دن کام والی ماسی نہیں آئی، اس نے اپنی امی سے جب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ان کو چند دن کے لیے چھٹی دی ہے اور ساتھ ہی کہنے لگیں کہ شاید اب کسی اور کو ہی رکھ لیں۔ علی یہ سن کر بہت پریشان ہوا کہ شاید اس کے جھوٹ کی وجہ سےکام والی ماسی کو کام سے نکال دیا گیا ہے۔ وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور پورا دن پریشان رہا، روتا بھی رہا مگر اب کیا کر سکتا تھا۔ سچ بتادیتا تو ابا بہت غصہ ہوتے۔ شام کو جب وہ باہر آیا تو پھر سےاس نے اپنے امی ابا کاپچھلے دن والا ہی رویہ دیکھا۔ بلکہ اگلے کئی دن تک اس کے امی ابا اس سے از خود کوئی بات نہ کرتے۔صرف ہلکی آواز میں اس کے سوالوں کا جواب دے دیتے۔ یہ سب اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا اور وہ اندر ہی اندر بہت دکھی تھاکیونکہ اس کو احساس ہو گیا تھا کہ اس کے امی ابا اس سے کسی بات پر ناراض ہیں مگر اس کو معلوم نہیں تھا کہ آخر کیوں؟ وہ اپنے جھوٹ پر بھی بہت شرمندہ تھا مگر کسی کو بتا بھی نہیں سکتا تھا۔

چند دن ایسے ہی گزر گئے۔ اب یہ حالت تھی کہ ہر روز وہ پورا دن اپنے کمرے میں بیٹھ کر رو تا رہتا اور شام جب باہر جاتا تو امی ابا کا وہی رویہ ہوتا۔پھر ایک دن روتے روتے اس کو احساس ہوا کہ یہ سب اس جھوٹ کی وجہ سے ہےجو اس نے اپنےابا سے بولا تھا۔علی سوچنے لگا کہ اب چاہے جو بھی ہو میں جا کر سب سچ بتا دوں گا۔ اس بات کا فیصلہ کرتے ہی اس کا دل ہلکا ہو گیا۔

وہ ہمت کرتا ہوا کمرے سے باہر آیا اور کانپتی ہوئی آواز سے اپنے امی ابا سے کہنے لگا کہ ابا میں نے اس دن آپ سے جھوٹ بولا تھا اور پھر ساتھ ہی پوری بات سچ سچ بتا دی۔ اس کے ابا اس کی بات غور سے سن رہے تھے۔ جب بات مکمل ہو گئی تو علی کو ڈر لگا کہ اب شاید ابا مجھے بہت ڈانٹیں گے مگر علی کے ابا مسکرانے لگے۔ اس کی امی بھی مسکرانے لگیں اور ساتھ ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ علی بہت حیران تھا۔بالآخر اس کے ابا کہنے لگے کہ علی مجھے پہلے سے ہی سچ معلوم تھا اور مجھے یہ بھی پتا ہے کہ تم بھولتے بہت ہو اور یقیناً بھول کر ہی میری سٹڈی میں گئے ہوگے۔ تم نے یقیناً جان بوجھ کر میرے کاغذات کو خراب نہیں کیا۔ میں پریشان ضرور ہوا تھا مگر کبھی نقصان ہو بھی جاتا ہے جو میں برداشت کرنے کے لیے تیار تھا اور ایک مضمون اگر خراب ہوا تو دوسرا بھی لکھا جاسکتا ہے مگر جب اس دن میں نے تم سے پوچھا کہ کیا تم میرے کمرے میں گئے تو تم نے صاف جھوٹ بول دیا اور ماسی کے ساتھ آنے والے لڑکے پر الزام لگا دیا جبکہ وہ اس دن آیا ہی نہیں تھا۔ تمہارا جھوٹ سن کر مجھے اور تمہاری امی کو بہت تکلیف ہوئی اور ہم کئی دنوں سےبہت پریشان تھے کہ آخر تم جو ہمیشہ سچ بولنے والے بچے تھے اس نے جھوٹ کا سہارا کیوں لیا؟اسی پریشانی میں ہم تم سے صحیح طریق پر بات بھی نہ کر پارہے تھے کیونکہ ہمیں تمہارے اس عمل سے بہت دکھ ہوا تھا۔ ہم نے ماسی کو بھی چند دن کے لیے چھٹی دے دی کہ کہیں تم ان پر کوئی اور الزام نہ لگا دو۔ مگر اب ہم بہت خوش ہیں کہ تمہیں احساس ہوا کہ تم نے غلطی کی ہے۔ یہ باتیں سن کر علی اپنے ابا کے سینے سے لگ گیا اور بلک بلک کر رو نے لگا۔ اور کہنے لگا کہ ابا مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ آپ کی ڈانٹ کے ڈر سے میں نے جھوٹ بول دیا۔ اب مجھے احساس ہو گیا ہے کہ جھوٹ کتنی بری چیز ہے۔ میں وعدہ کر تا ہوں کہ آئندہ چاہے جو بھی ہو جائے میں ہمیشہ سچ بولوں گا۔

(م۔ط۔ بشیر)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button