تقریر جلسہ سالانہ

تقریر برموقع جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۲۴ء: رسول اللہﷺ- صفاتِ الٰہیہ کے بہترین مظہر

(عبدالسمیع خان)

20؍رمضان المبارک 8ھ۔وہ تاریخی دن تھا جب ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قدوسیوں کےجلو میں فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ آپؐ خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کو گراتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھ رہے تھے۔ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا۔(بنی اسرائیل:82)حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔ یقیناً باطل بھاگ جانے والا ہی ہے۔(تفسیر طبری )حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ یہاں حق سے مراد اللہ بھی ہے اور رسول کریمؐ بھی اور قرآن بھی اوردیکھو کہ خدا نے اپنے نام میں محمد رسول اللہ ﷺ کو شامل کر لیا کیونکہ آپؐ اللہ تعالیٰ کی صفات کے کامل مظہر تھے۔ (سرمہ چشم آریہ۔روحانی خزائن جلد 2 صفحہ278)

اللہ تعالیٰ کامل سچائی ہے تو رسول اللہ ﷺ اس کے کامل نمونہ ہیں۔ ساری قوم متفقہ طور پر محمد رسول اللہ ﷺ کو دعویٰ سے پہلے بھی اوردعویٰ کے بعد بھی صادق اور امین قرار دیتی تھی۔ (سیرت ابن ہشام جلد اول صفحہ214)یہ اعزاز اتنی شان کے ساتھ کسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک مخفی خزانہ تھا اس نے چاہا کہ وہ پہچانا جائے سو اس نے انسان کو اپنی صورت پر اس لیے پیدا کیا کہ وہ اس کی صفات کا مظہر بنے۔(کشف الخفاء ومزیل الا لباس اسماعیل بن محمد العجلونی متوفی 1162ھ جلد2 صفحہ132 حدیث نمبر 2016 مکتبہ القدسی قاہرہ۔ صحیح بخاری کتاب الاستذان باب بدء السلام حدیث نمبر 6227)

ایک روایت کے مطابق دس لاکھ انبیاء آئے جنہوں نے خدا کی صفات کے جلوے دکھائے۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 4 صفحہ 397)مگر محدود استعدادوں کے ساتھ۔ محدود زمانے کے لیے اور محدود قوموں کےلیے۔ جب انسانی شعور اپنے کمال کو پہنچا تو خدا نے کامل انسان اور کامل نبی کو بھیجا جو صفات الٰہیہ کا مظہر اتم تھا اس نے بتایا کہ خدا کی صفات غیر محدود اور لامتناہی ہیں ۔مگر انسان خدا کی جتنی صفات کا مظہر بن سکتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب ظاہر فرمائیں۔ وہی تھا جو صفات الہٰیہ کا مظہر اتم تھا وہ سب نبیوں کی شانیں اور برکتیں ہزاروں گنا بڑھا کر لایا۔ جس کی خبر حضرت موسیٰ نے یہ کہہ کر دی تھی ’’خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا۔ فاران کے پہاڑسے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا او ر اُس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت اُن کے لیے تھی۔‘‘(استثناء باب 33 آیت 20)یعنی خدا کے جلوے موسیٰ،عیسیٰ سے ہوتے ہوئے فارا ن کے پہاڑ یعنی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کے وجود میں کمال کو پہنچیں گے۔(سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد۲صفحہ 280) جس کی خبرحضرت مسیح نے یہ کہہ کر دی تھی کہ میری اور بہت سی باتیں ہیں مگر ابھی تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتاوے گی۔ (یوحنا باب16 آیت 7 تا 14)

آ ئیےان کے کچھ نظارے دیکھیں۔بات اللہ تعالیٰ کی چار بنیادی صفات سے شروع کرتے ہیں جو سورۃ فاتحہ میں درج ہیں۔

پہلی صفت رب العالمین ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ ترقی دے کر کمال تک پہنچاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں انسانیت اور خاص طور عرب روحانیت اور اخلاق سے بالکل بے بہرہ تھے رسول کریمؐ نے انہیں ماں کی طرح روحانیت کا دودھ پلایا وحشیوں کو انسان بنایا انسانوں کو با اخلاق اور پھر انہیں خدا نما بنا دیا۔اسی لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی (جامع ترمذی کتاب المناقب۔ باب فی من سب اصحاب النبی ﷺ حدیث نمبر 3862)تمہیں میرے صحابہ میں خدا ہی خدا نظر آئے گا۔اسی لیے رب العالمین خدا نے آپؐ کو رحمۃ للعالمین کے ابدی لقب سے نوازا۔

ایک مستشرق مسٹر گارس لکھتا ہے:عرب بت پرست تھے۔ محمدؐ نے ان کو خدا پرست بنا دیا۔ وہ لڑتےجھگڑتے اور جنگ و جدال کیا کرتے تھے۔ آپؐ نے ان کو ایک اعلیٰ سیاسی نظام کے تحت متحد کر دیا۔ ان کی وحشت و بربریت کا یہ عالم تھا کہ انسانیت شرماتی تھی مگر آپؐ نے ان کو اخلاق فاضلہ اور بہترین تہذیب و تمدن کے وہ درس دیے جن سے نہ صرف ان کو بلکہ تمام عالم کو انسان بنا دیا۔ (انصار اللہ جولائی 1991ء )

رحمان کے معنی ہیں بن مانگے دینے والا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو بغیر مانگے قرآن جیسی شریعت اور سنت جیسی نعمت عطا کی۔فرمایا: الرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ (وہ رحمان خدا ہے جس نے محمد رسول اللہ کے ذریعہ دنیا کو قرآن سکھایا ہے ) اخلاق عالیہ سکھائے اور ان کو کمال تک پہنچا دیا اور خدا نے گواہی دی کہ تو خُلقِ عظیم پر فائز ہے۔ (القلم: 5)

رحیم کا مطلب ہے محنت کا اجر دینے والا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کی چھوٹی چھوٹی خدمات کا لاثانی اجر دیا۔ عرب کے غیر معروف لوگوں کو آسمان کے ستارے بنادیا اور سینکڑوں صحابہ ؓکو جنت کی بشارتیں دیں۔ حضرت ابوبکرؓ خلیفہ بنے تو ان کے والد یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ عرب کے سب قبائل نے انہیں اپنا سربراہ تسلیم کر لیا ہے ۔(تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ 145 زیر آیت نمل 65 )۔حضرت عمرؓ ایک دفعہ حج سےواپسی پر ایک ویران علاقہ میں رک گئے اور پتھر پر بیٹھ کر آنسو بہانے لگے پھر فرمایا کہ میں اپنے باپ کے اونٹ یہیں چرایا کرتا تھا۔ ایک بار رات کو دیر ہو گئی تو باپ نے سزا دی۔ آج محمدؐ رسول اللہ کے طفیل میرے پسینے کی جگہ ہزاروں لوگ خون بہانے کے لیے تیار ہیں۔ (استیعاب جلد 3 حالات عمرؓ )

اس رافع اور رفیع الدرجات کے مظہر نےعثمانؓ کو ذوالنورین اور علیؓ کو خاتم الاولیاء بنا دیا۔ایک غریب صحابی زاہر بن حرامؓ گاؤں سے سبزی لا کر مدینہ میں بیچتا تھا مگر بدصورت ہونے کی وجہ سے لوگ کم ہی اس کے پاس آتے تھے۔ ایک دن دوپہر کو وہ پسینے سے شرابور بازار میں موجود تھا کہ رسول کریمﷺ اس طرف سے گزرے اور پیچھے سے آکر بڑے پیار سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے اور پوچھا کہ بتلاؤ میں کون ہوں؟ … زاہر نے دل کی آنکھوں سے دیکھا کہ یہ وجود سوائے محمد مصطفیٰ ﷺ کے اور کوئی نہیں ہوسکتا اور اس نے جوش محبت میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ اپنا جسم ملنا شروع کر دیا۔ رسول اللہ ﷺکے جذبۂ شفقت نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور فرمایا میرا ایک غلام ہے اسے کون خریدتا ہے؟ اس نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے کون خریدے گا؟فرمایا:ایسا مت کہو! عرش کا خدا تمہارا خریدار ہے۔ (شمائل الترمذی باب فی صفة مزاح رسول اللہ)

کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا

کس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کر دیا

کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا درّ یتیم

اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کر دیا

آپؐ کے ذریعہ خدا کی صفت مالک یوم الدین اور مالک الملک بھی ظاہر ہوئی۔ آپؐ دین کے بادشاہ بھی بنے اور دنیا کے بھی۔ جس مکہ سے آپؐ رات کو چھپ کر نکلے تھے دن کی روشنی میں مالک بن کر آئے اور بادشاہوں کی طرح پوچھا بتاؤ تم سے کیا سلوک کیا جائے۔اسی لیے حضرت یسعیا ہ نے آپؐ کا نام خدائے قادر اور ابدیت کا باپ رکھا۔ (یسعیاہ باب 9 آیت 6۔7)

آپؐ نے خدا کی صفات عفو اور غفور کے ایسے نظارے دکھائے جن کی تاریخ انبیاء اور تاریخ انسانیت میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔

حضرت یوسفؑ نے لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ کہہ کر اپنے سگے بھائیوں کو معاف کیا تھا (یوسف:93)مگر رسول اللہؐ نے مکہ کے جانی دشمنوں کو معاف کر دیا اپنی بیٹی زینب اور اپنے چچا حمزہ کے قاتلوں کو معاف کر دیا۔( السیرة الحلبیہ جلد3 صفحہ97) ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کو معاف کر کے مکہ میں اپنے مذہب پر رہنے کی اجازت دی تو اس نے اسلام قبول کر لیا اور کہا یا رسول اللہؐ! میں نے آج تک آپؐ کی مخالفت میں اپنا جتنا مال اور وقت خرچ کیا ہے اب میں اللہ کی راہ میں بھی اس سے دوگنا خرچ کروں گا۔

اس نے شکایت کی کہ مسلمان مجھے دشمن اسلام کا بیٹا کہتے ہیں تو رسول اللہؐ نے اس سے بھی منع فرما دیا۔ (مستدرک حاکم کتاب مناقب الصحابہ مناقب عکرمہ)زہر دینے والی یہودیہ کو معاف کیا۔ وہ جس نے تنہائی میں آپؐ کی تلوار اٹھاکر کہا تھا تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ اس کو معاف کر دیا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ پر الزام لگانے والے رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے کو باپ کے قتل کی اجازت نہیں دی اور صحابہؓ کے روکنے کے باوجود اس کا جنازہ پڑھایا ایسے عفو کی نبیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

صفت سلام کے تحت آپؐ نے دنیا کو اسلام جیسا مذہب دیا اورفرمایا ہر شخص کو سلامتی پہنچاؤ خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہیں جانتے۔جنگ حنین کے سفر میں ایک شخص نے نہایت سخت جوتا پہنا ہوا تھا۔ اس کا پاؤں رسول اللہ ﷺ کے پاؤں پر آگیا جس سے آپؐ کو سخت تکلیف ہوئی اور آپؐ نے چھڑی کے ذریعہ اسے ہٹایا۔ رسول اللہؐ کو تکلیف پہنچانے کے خیال سے وہ صحابی نادم تھا مگر اگلے دن صبح اسے رسول اللہ ﷺ نے بلایا اوراسے 80بکریاں دیتے ہوئے فرمایا: یہ اس تکلیف کا بدلہ ہے جو میں نے تمہیں پہنچائی تھی۔ (سنن الدارمی۔المقدمہ۔باب فی سخاء النبیؐ حدیث نمبر73)

صفت مومن کے معنی ہیں امن دینے والا۔ اس کے مطابق آپؐ نے مکہ اور مدینہ کو امن کے شہر قرار دیا۔ فرمایا جو دشمن خانہ کعبہ میں آجائے وہ بھی امن میں ہے۔ جو بلال کے جھنڈے تلے آ جائے وہ بھی امن میں ہے۔ جو اپنے گھر میں بیٹھ جائے وہ بھی امن میں ہے۔سراقہ جو گرفتار کرنے آیا تھا اس کو بھی امان دی۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: خدا کی قسم! وہ مومن نہیں جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہیں۔

آپؐ ہی کی تجلی سے قادیان دارالامان کہلایا اور جماعت احمدیہ ساری دنیا میں امن کے قیام کے لیے سرگرم عمل ہے۔اور اس کا سربراہ امن کا سفیر کہلاتا ہے۔

ہمارا اللہ تما م صفات حسنہ سے متصف اور تمام رذائل سے منزہ ہے۔ انسانوں میں یہی مقام ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ؐکا ہے۔حدیبیہ کے موقع پر مکہ والوں نے آپؐ کو عمرہ نہیں کرنے دیا۔رسول کریمؐ نے حدیبیہ کے مقام پر قربانیاں کرنے کا حکم دیا اور ان کا گوشت تحفہ کے طور پر مکہ والوں کو بھی بھجوایا۔

آپؐ کیسے رؤوف ورحیم تھے۔ کچھ چادریں آئیں تو آپؐ نے صحابہؓ میں تقسیم کر دیں۔ ایک نابینا صحابی کو دیر سے معلوم ہوا تو وہ ناراضگی کے عالم میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے ایک چادر لے کر باہر آئے اور فرمایا: میں نے تمہارے لیے یہ چادر چھپا کر رکھ لی تھی۔ایک بار بکری ذبح کروائی ا ور اس کی کلیجی بھوننے کا حکم دیا جب تیار ہو گئی تو خود سب میں تقسیم کی اور جو صحابہؓ حاضر نہ تھے ان کا حصہ الگ محفوظ کر لیا۔ (مسلم )

آپؐ کیسے شاکر اور شکورتھےکہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت خدیجہ ؓکی خدمات اور قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھتے تھے۔طائف کے واقعہ کے بعد مطعم بن عدی نے آپؐ کو مکہ میں پناہ دی تھی مگر کفر کی حالت میں فوت ہو گیا۔ بدر کی فتح کے وقت بھی وہ آپؐ کو یاد تھا فرمایا: اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان ۷۰ قیدیوں کی رہائی کی سفارش کرتا تو میں ان سب کو رہا کر دیتا۔(صحیح البخاری کتاب المغازی۔غزوہ بدر حدیث نمبر 4024)

انسانوں کے شکر کو بھی انتہا تک پہنچادیا اور اللہ کے شکر کو بھی۔ساری ساری رات تہجد کی نماز میں کھڑے رہتےیہاں تک کہ پاؤں سوج جاتے۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ اللہ نے آپؐ کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے ہیں پھر آپؐ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا: کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (صحیح البخاری کتاب التہجد باب قیام النبی۔ حدیث نمبر 1130)

آپؐ اول بھی تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز سے پہلے میرا نور پیدا کیا اول ما خلق اللّٰہ نوری۔اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جو چیز پیدا کی وہ میرا نور تھا۔(شرح المواھب اللدنیہ زرقانی جلد1 صفحہ27 دارالمعرفہ بیروت۔1993ء) فرمایا: میں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جب آدم ابھی تخلیق کے مراحل طے کر رہا تھا۔(ترمذی کتاب المناقب باب فی فضل النبی )

آپؐ آخر بھی تھے کیونکہ آپؐ وہ آخری شریعت لائے جس کے بعد کوئی شریعت اور کوئی قانون نہیں۔آپؐ نے خاتم النبیین کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: انی آخر الانبیاء و مسجدی آخرالمساجد۔میں نبیوں میں سے سب سے آخری ہوںاور میری مسجد تمام مساجد میں سے آ خری مسجد ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوٰة بمسجدی حدیث نمبر2471)

ختم شد بر نفس پاکش ہر کمال

لاجرم شد ختم ہر پیغمبرے

اس کے پاک وجود پر ہر کمال اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور آپؐ نے ہر دوسرے پیغمبر کا فیض ختم کر دیا۔

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور اللہ نے اپنے نور کی مثال رسول اللہﷺ کے پاک سینے اور مطہر دل سے دی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَأَنْزَلْنَآ إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِيْنًا (النساء:175) ہم نے تمہاری طرف نور مبین نازل کیا ہے۔ اور پھر آپؐ کے فرائض بتاتے ہوئے فرمایا: كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّوْرِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلٰى صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ۔(ابراہیم :2) یہ کتاب ہم نے تیری طرف اتاری ہے تا کہ تو لوگوں کو ان کے ربّ کے حکم سے اندھیروں سے نور کی طرف نکالتے ہوئے اس راستہ پر ڈال دے جو عزیز اور حمید خدا کا راستہ ہے۔آپؐ نے اپنے نور سے عربوں کو کیسے بدلا وہ جو پانچ وقت شراب کے اندھیروں میں بھٹکتے تھے وہ پانچ وقت خدا ئے واحد کی عبادت سے منور ہونے لگے۔وہ جو ناچ گانے کے رسیا تھے وہ قرآن کی تلاوت سے لذت اٹھانے لگے۔ ایک مشہور شاعر لبید ؓکو حضرت عمرؓ نے لکھا کہ اپنے کچھ تازہ اشعار بھیجو تو انہوں نے سورۃ بقرہ کی چند آیات لکھ بھیجیں اور کہا: جب سے قرآن سنا ہے شاعری چھوڑ دی ہے۔ (اسد الغابہ ) وحشی جس نے حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا اس کے ضمیر نے تب چین لیا جب اس نے اسلام کے اس وقت کے سب سے بڑے دشمن مسیلمہ کذاب کو قتل کیا۔(بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزہ حدیث نمبر3764) آپؐ یہ دعا کرتے تھے: اللّٰهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِيْنِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَاجْعَلْ لِي نُورًا (بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذاانتبہ باللیل حدیث نمبر 6316)اے اللہ! میرے دل میں نور رکھ دے اور میری آنکھوں میں اور میرے کانوں میں نور بسیرا کرے میرے دائیں بھی نور ہو اور میرے بائیں بھی اور میرے اوپر بھی اورمیرے نیچے بھی نور کے ڈیرے ہوںاور میرے آگے بھی نور چلے اور میرے پیچھے بھی اور اے اللہ تُو مجھے سراپا نور بنا دے۔خدا نے آپؐ کی سن لی اور نورٌ علیٰ نور بنا دیا۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

دنیا کا حقیقی نور وہی تھا جس نے دنیا کو تاریکی میں پا کر فی الواقع وہ روشنی عطا کی کہ اندھیری رات کو دن بنا دیا۔ (غلام احمد قادیانی جلد 1 صفحہ 407 )

نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے

قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار

پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اک معجزہ

معنیٔ راز نبوت ہے اسی سے آشکار

آپؐ اللہ کی صفت حمید اور مجید کے بھی مظہر کامل تھے۔ اللہ نے عرش سے آپؐ کی حمد کی اور آپؐ محمد ؐکہلائے۔ فرشتے بھی آپؐ کے لیے دعائیں کرتے ہیں اور کروڑوں اہل ایمان آپؐ پر جانیں فدا کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ اس زمین پر 24 گھنٹوں میں کوئی ایسا لمحہ نہیں آتا جب رسول اللہ ﷺ پر درود نہ پڑھا جا تا ہو۔اللّٰھم صل علی محمد وعلیٰ آل محمد۔یہ وہ مقام محمود ہے جو صرف اور صرف آپؐ کو عطا کیا گیا ہے۔

ایک سکھ شاعر کہتا ہے:

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں

صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں

آپؐ اللہ تعالیٰ کی صفت احد کے بھی مظہر تھے۔ اپنے منصب اور مقام کے لحاظ سے یکتا تھے۔ آپؐ جیسا نہ کوئی پہلے تھا نہ کوئی بعد میں ہو گا۔ آپؐ خدا کے اس قدر قریب ہوئے کہ معراج کے روحانی سفر میں سارے نبی اور فرشتے نچلے آسمانوں پر رہ گئے۔ اور محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے جہاں مخلوق کا خاتمہ تھا اور الوہیت کی حد شروع ہوتی تھی۔ اسی لیے مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔

شان احمد را کہ داند جز خداوند کریم

آنچناں از خود جدا شد کز میاں افتاد میم

احمد کی شان کو خدا کےسوا اور کون جان سکتا ہے وہ اپنی خودی سے اس طرح الگ ہو گیا کہ میم درمیان سے گر گیا اور احمد کی بجائے احد رہ گیا۔(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ 62)

حبقوق نبی نے مسیح سے 626؍برس پہلے خبر دی وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا۔ اُس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اُس کی حمد سے معمور ہوئی اور اُس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی۔(حبقوق باب3 آیت 3تا7)

آپؐ غنی بھی تھے۔ خدا نے آپؐ کو غربت کے دور سے بھی گزارا مگر آپؐ نے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا۔آپؐ کو خدا نے بے پناہ دولت بھی دی مگر آپؐ نے سب راہ خدا میں لٹا دی۔ (براہین احمدیہ۔روحانی خزائن جلد1 صفحہ 108) یہ غنا اس وقت بھی ظاہر ہوئی جب آپؐ جنگ حنین میں اکیلے تن تنہا آگے بڑھ رہے تھے اور نیزوں اور تیروں کی بارش میں ہر خوف سے بےنیاز ہوکر اعلان کر رہے تھے۔

انا النبی لا کذب

انا ابن عبد المطلب

میں خدا کا سچا نبی ہوں مجھے راہ حق میں کسی کی پرواہ نہیں مگر میں خدا نہیں انسان ہوں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔یہ غنا اس وقت بھی ظاہر ہوئی جب حدیبیہ کے موقع پر ایک ایسے معاہدہ پر دستخط ہوئے جو بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھا اور بہت سے صحابہؓ کو ابتلا بھی آیا۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ یارسول اللہؐ !آپؐ ایسی ذلیل شرائط کیوں قبول کر رہے ہیں؟ فرمایا: اے عمر! میں خدا کا پیغمبر اور اسی کا نمائندہ ہوں اور وہی کروں گا جو خدا چاہے گا۔ اور اسی رات خدا نے سورۃ فتح نازل کر کے آپؐ کو فتح عظیم کی خوش خبری دی: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ( الفتح:2)

آپؐ اللہ کی صفت عزیز اور غالب کے بھی مظہر تھے۔ شدید کمزوری اور بے کسی کے عالم میں اللہ نے آپؐ سے فتوحات کے وعدے فرمائے اور بڑی شان سے ان کو پورا کیا۔ اور مدینہ کی ریاست جو چند مربع میل پر مشتمل تھی رسول اللہﷺ کی زندگی میں دس لاکھ مربع میل پر پھیل گئی۔اور خلافت راشدہ میں تین بر اعظموں پر محیط ہو گئی۔

آپؐ اللہ کی صفت وہاب اور معطی اور جواد کے بھی مظہر تھے۔ خدا کی راہ میں اتنا لٹایا کہ لوگ سیر ہو گئے ایک شخص کے مانگنے پر دو پہاڑوں کے درمیان ساری بکریاں عطا کر دیں اس نے اپنےقبیلہ میں جا کر کہا رسو ل اللہ اتنے فیاض ہیں کہ مفلسی کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ (بخاری کتاب الادب باب حسن الخلق) ایک بار نماز کی اقامت ہو چکی تھی کہ ایک بدو آیا اور کہا میری فلاں ضرورت پوری کر دیجیے آپؐ اس کے ساتھ تشریف لے گئے اس کی حاجت پوری کی اور پھر نماز پڑھائی۔(ادب المفرد )

آپؐ اللہ کی صفت خالق اور باری اور فاطر اور مصور کے بھی مظہر تھے۔ آپؐ نے نئے بے مثال روحانی ارض و سماتخلیق کیے جس کے آپؐ خود سورج ہیں اور ہزاروں صحابہ،خلفائے راشدین، 13 صدیوں کے سینکڑوں مفسرین،محدثین فقہاء، مجددین، اور اولیاء آپؐ کے چاند ستارے ہیں جو قیامت تک دنیا کو روشن کرتے رہیں گے۔ ان میں وہ چودھویں کا چاند مسیح موعود بھی ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کے سارے انوار کو منعکس کیا اور بتا دیا کہ اگر چاند ایسا ہے تو سورج کیسا ہو گا۔

آپؐ حی و قیوم خدا کے بھی مظہر تھے۔ یعنی زندہ رہنے والا اور زندگیاں قائم رکھنے والا۔ حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کی وفات پر کہا تھا آپؐ کے جسم پر موت آگئی ہے مگر آپؐ کی روحانی زندگی پر کبھی موت نہیں آئے گی۔آج بھی ہر برکت کا منبع محمد ﷺ کی ذات ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کا الہام ہے: کل برکۃ من محمد ﷺ فتبارک من علم وتعلم۔(الہام مارچ 1882ءتذکرہ صفحہ 39)۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:دنیا میں صرف دو زندگیاں قابلِ تعریف ہیں۔ (۱) ایک وہ زندگی جو خود خدائے حیّ وقیوم مبدء فیض کی زندگی ہے۔ (۲) دوسری وہ زندگی جو فیض بخش اور خدا نما ہو۔ سو آؤ ہم دکھاتے ہیں کہ وہ زندگی صرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے۔خدا نے مجھے میرے بزرگ واجب الاطاعت سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی دائمی زندگی اور پورے جلال اور کمال کا یہ ثبوت دیا ہے کہ میں نے اُس کی پیروی سے اور اس کی محبت سے آسمانی نشانوں کو اپنے اوپر اُترتے ہوئے اور دل کو یقین کے نور سے پُر ہوتے ہوئے پایا اور اس قدر نشان غیبی دیکھے۔کہ اُن کھلے کھلے نوروں کے ذریعہ سے میں نے اپنے خدا کو دیکھ لیا ہے۔ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 140)

اللہ تعالیٰ کی ایک صفت غیور بھی ہے۔جس طرح خدا اپنے پیاروں کے لیے غیرت رکھتا ہے اسی طرح رسول کریمؐ اپنے خدا اور اس کی توحید کی غیرت رکھتے تھے۔ جنگ احد کے سخت مشکل حالات میں جب دشمن نعرے لگا رہا تھا کہ ہم نے محمدؐ اور ابوبکرؓ اور عمر ؓکو قتل کر دیا ہے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمت عملی کے تحت فرمایا: خاموش رہو، مگر جب ابوسفیان نے توحید پر حملہ کیا اور کہا اعل ھبل۔ھبل بت زندہ باد تو رسول کریمؐ تڑپ اٹھے اور فرمایا: جواب کیوں نہیں دیتے کہو اللّٰہ اعلیٰ و اجل اللہ ہی سب سے بالا و برتر ہے۔(بخاری کتاب المغازی۔غزوہ احد حدیث نمبر 4043)

آپؐ اللہ تعالیٰ کی صفت قدوس اور نظیف کے بھی مظہر تھے۔ روحانی تقدس اور عظمت کے ساتھ ساتھ آپؐ نے جسمانی اور مادی صفائی کی جس قدر تعلیم دی اور اس پر عمل کر کے دکھایا اس کی انبیاء کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی آپؐ نے صفائی کو ایمان کی بنیاد قرار دیا۔ (الشفا جلد اول صفحہ39) فرمایا کہ اگر یہ امر میری امت کے لیے گراں نہ ہوتا تو میں ہر نماز سے پہلے مسواک کا حکم دیتا۔ (بخاری کتاب الجمعة باب السواک یوم الجمعة حدیث نمبر 838) فرمایا: جس منہ سے قرآن پڑھتے ہو اور ذکر الٰہی کرتے ہو اس سے گالیاں کیسے دے سکتے ہو؟ خوشبو بہت پسند تھی اور ہمیشہ آپؐ کے زیر استعمال رہتی۔آپؐ نے حکم دیا کہ مسجدوں اور اجتماعات میں کوئی بدبودار چیز کھا کر نہ آؤ بلکہ خوشبو لگا کر آؤ۔

اسلامی نظام طہارت اتنا عمدہ اور جامع ہے کہ غیر بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک جرمن جوائکم بولف لکھتا ہے:’’قرآن مجید احکام حفظ صحت کے لحاظ سے بھی تمام کتب سماوی میں ممتاز ہے۔ قرآن نے ظاہری صفائی طہارت او رپاکیزگی کی وہ تعلیم دی ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو سب کے سب امراض کے جراثیم ختم ہو جائیں‘‘۔ (سیارہ ڈائجسٹ قرآن نمبر جلد 3صفحہ ۳۶۹)

آپؐ اللہ تعالیٰ کے نام طاہر اور طیّب کا بھی کامل نمونہ تھے۔طبیعت نہایت پاکیزہ اور نفیس تھی۔صرف طیب غذا استعمال کرتےاور طیب کلام فرماتے۔صحابہؓ سے ہنسی مذاق بھی کرتے مگر اس میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہ ہوتا جو کسی کی دل آزاری کا موجب ہوتا۔

اللہ کی ایک صفت حیی بھی ہے یعنی بہت حیا کرنے والا۔إِنَّ اللَّهَ رَحِيْمٌ حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِیْ مِنْ عَبْدِهِ أَنْ يَرْفَعَ إِلَيْهِ يَدَيْهِ، ثُمَّ لَا يَضَعُ فِيْهِمَا خَيْرًا(مستدرک حاکم کتاب الدعاءباب اللہ رحیم حدیث نمبر 1832 )

صحابہ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ کنواری لڑکیوں سے بھی بڑھ کر حیادارتھے۔ جب آپؐ کسی چیز کو ناپسند کرتے تو صحابہؓ صرف آپؐ کے چہرے سے محسوس کر لیتے۔(بخاری کتاب الادب باب من لم یواجہ الناس بالعتاب حدیث نمبر 6102)حضرت زینبؓ سے شادی کے وقت آپؐ نے کچھ صحابہ کو گھر میں کھانے کی دعوت دی۔کھانے کے بعد بعض صحابہ باتوں میں لگے رہے رسول اللہﷺ کو دیگر مصروفیات کی وجہ سے تکلیف ہو رہی تھی مگر آپؐ حیا کی وجہ سے جانے کے لیے نہیں کہ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ احزاب میں اس واقعہ کا ذکر کر کے مسلمانوں کو آداب سکھائے۔ (احزاب:54)

آپؐ طبعاً کوئی فحش کلمہ زبان سے نکالتے نہ بناوٹ کے ساتھ مجلس میں رنگ بھرنے کے لیےکوئی نامناسب بات کہتے۔آپؐ نے فرمایا: اللہ اس بات سے حیا کرتا ہے کہ کوئی بندہ اس سے کچھ مانگے اور اللہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دےرسول اللہﷺ کا بھی یہی طریق تھا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے رسول اللہﷺ سے مانگا ہو اور آپؐ نے جواب میں لا کہا ہو یعنی منفی میں جواب دیا ہو۔(بخاری کتاب الادب باب حسن الخلق حدیث نمبر 6034)

اللہ کی ایک صفت ستیر اور ستار بھی ہے یعنی پردہ پوشی کرنے والا۔ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا: إنَّ اللّٰه عزَّ وجلَّ حَييٌّ سِتِّيْرٌ يُحِبُّ الْحَيَاءَ والسَّتْر ( سنن ابی داؤد کتاب الحمام باب النھی عن التعری حدیث نمبر 4012 ) رسول کریم ﷺ مسلمانوں کو اپنی ستاری کی تعلیم دیتے تھے اور دوسروں کی غلطیوں کی بھی حتی الامکان ستاری کرتے تھے حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک اونٹنی گم ہو گئی۔ ایک اعرابی کو ملی تو اس نے رسول ا للہ ﷺ کو تحفہ کے طور پر دی۔ لیکن رسول اللہﷺ نے اسے یہ بتائے بغیر کہ یہ میری ہی اونٹنی ہے اس کو سات اونٹنیاں بدلہ کے طور پر دیں۔ ( مسند احمد جلد2 صفحہ292 حدیث: 7905)

آپؐ اللہ کی صفت قادر اور قدیر اور مقتدر کے بھی مظہر تھے۔ آپؐ کے ہاتھ پر اللہ نے محیر العقول معجزے دکھائے۔ بدر کے میدان میں ایک ریت کی مٹھی تیز آندھی میں تبدیل ہوگئی۔ (الانفال: 18)جنگ خندق کےدوران چند آدمیوں کا کھانا ایک ہزار افراد نے سیر ہو کر کھایا۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق حدیث نمبر 4102)ایک پیالے میں چند گھونٹ پانی تھا اس میں ہاتھ رکھا تو انگلیوں سے چشمہ بہ پڑا۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیہ حدیث نمبر 4152)

حضرت علیؓ کی بیمار آنکھ پر ہاتھ پھیرا تو شفا پا گئی ۔(بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبرحدیث نمبر 4210)ایک صحابی کی ٹانگ فریکچر ہوگئی اس کو مس کیا تو ٹھیک ہو گئی۔(بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی رافع۔ نمبر 4039)۔ان معجزات کو سمجھنے سے سائنس آج بھی قاصر ہے مگر اہل اللہ آج بھی رسول اللہ ؐکی برکت سے یہ نظارے دکھاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: دُنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گذرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کانام ہے محمّد صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم…ہم خدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لیے تو ان تمام گذشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا… یہ سب کچھ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا۔ پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے ؎

محمدؐ عربی بادشاہ ہر دو سرا

کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی

اُسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں

کہ اُس کی مرتبہ دانی میں ہے خدادانی

ہم کس زبان سے خدا کا شکرکریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لیے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لیے سورج۔ وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دُنیا کو اپنی روشنی سے روشن کردیا وہ نہ تھکانہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کردیا۔ وہ اپنی سچائی کی آپؐ دلیل ہے کیونکہ اُس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو۔ کون صدقِ دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اُس نور کا مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹا یا جو اُس کے لیے کھولا نہ گیا۔(چشمہ معرفت۔روحانی خزائن جلد23 صفحہ 306تا 308 )

سابقہ انبیاء کو مذہبی اصطلاح میں استعارۃً خدا کا خادم اور بیٹا کہا گیا ہے مگر رسول اللہ کی آمد کو خدا کا آنا قرار دیا گیا ہے۔ اسی لیے حضرت داؤد نے شان محمدیؐ کے متعلق فرمایا: اے خدا تیرا تخت ابد الآباد ہے اور تیری سلطنت کا عصا راستی کا عصا ہے۔( زبور باب45 آیت6۔سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد۲صفحہ282)

اللہ کا ایک نام رفیق بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے بھی خوب اپنایا۔ ایک یہودی نےآپؐ کو بظاہر سلام کہتے ہوئے السام علیکم کہہ دیا یعنی آپؐ پر ہلاکت ہو حضرت عائشہؓ  بھی سن رہی تھیں انہوں نے کہا وعلیکم السام۔تم پر بھی ہلاکت ہو۔مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا: میں نے تو صرف وعلیکمکہا تھا تم بھی رفق یعنی نرمی اختیار کرو۔آ پ ایک یہودی کا جنازہ دیکھ کر احتراماً کھڑے ہو گئے اور فرمایا: یہ بھی انسان تھا۔(بخاری کتاب الجنائز باب من قام لجنازة یہودی) ایک اعرابی نے مسجد نبوی کو گندا کر دیا۔ صحابہؓ اس کو مارنے کے لیے دوڑے تو فرمایا: اسے کچھ نہ کہو اور مسجد کو صاف کردو۔ (ترمذی ابواب الصلوٰة باب فی البول یصیب الارض)

آپؐ خبیر اور بصیر بھی تھے۔ اپنے ہزاروں صحابہؓ کے تفصیلی حالات سے واقف تھے ان کی مالی، اخلاقی اور روحانی کیفیات پر نظر رکھتے تھے اور اس کے مطابق نصائح کرتے تھے۔ کسی کو خدمت والدین کی نصیحت کی۔ کسی کو نماز کی۔ کسی کو جہاد بالسیف کی۔ کسی کو ہمسائے سے حسن سلوک کی۔

آپؐ اللہ کی صفت الجامع کے بھی مظہر تھے۔ آپؐ نے پہلی دفعہ عالمی رسول ہونے کا اعلان کیا اور آپؐ کے ذریعہ دنیا کی ساری قومیں اکٹھی ہو گئیں اور کالے اور گورے اور عرب و عجم کا امتیاز مٹ گیا۔ اس صفت کے ظہور کا دوسرا دور یہ ہے جب آج 21۴؍ملکوں اور بیسیوں قوموں کے لوگ آپؐ کو قبول کر کے مسیح موعود کے خلیفہ کے ہاتھ پر اکٹھے ہو کر توحید کا اعلان کرتے ہیں۔ہر سال لاکھوں لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہو کر آپؐ کی صفت جامع کی گواہی دیتے ہیں۔

آپؐ اللہ تعالیٰ کی صفت علیم اور علام الغیوب کے بھی مظہر اتم تھے۔ آپؐ پر نازل ہونے والا کلام قرآن علم غیب کا سمندر ہے اس کے علاوہ بھی وحی خفی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینکڑوں پیشگوئیاں بیان کی ہیں جو آج تک پوری ہوتی چلی آ رہی ہیں۔

آپؐ کی ہجرت اور جنگوں اور فتوحات کی بیسیوں پیشگوئیاں آپؐ کی زندگی میں پوری ہوئیں۔ ایک ان پڑھ قوم کے امّی نبی پر قرآن نازل ہوا۔ اللہ نے خبر دی کہ یہ قرآن کتاب بنے گا اور دنیا میں سب سے زیادہ لکھی اور پڑھی جانے والی کتاب یہی کتاب ہو گی۔ (ملفوظات جلداول صفحہ386)۔ روم، ایران اور مصر کی فتوحات کی پیشگوئیاں خلافت راشدہ میں پوری ہوئیں۔ آپؐ نے اسلام کے عروج کے بعد اس کے تنزل کی خبر دی آپؐ نے دجال یاجوج ماجوج یعنی مغربی اقوام کے مذہبی اور سیاسی فتنوں اور سائنسی ترقیات کی خبر دی

آج کے دور کی تمام سہولتوں، تمام ایجادات اور گلوبل ولیج پر محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کی صفت علیم کا سایہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ آخری زمانہ میں خدا مسیح موعود کے ذریعہ خلافت علی منہاج نبوت دوبارہ قائم کرے گا۔قرآن میں اشارے تھے اور رسول کریم ﷺ نے بتایا کہ امام مہدی کے زمانہ میں ایک منادی آسمان سے ندا کرے گا اور امام مہدی کے ظہور کی خبر دے گا ۔(بحار الانوار- جلد 52 صفحہ 304ء -از شیخ محمدباقر مجلسی داراحیاء التراث العربی : بیروت) اور پھر آپؐ کے فیض سے تربیت یافتہ لوگوں نے خدا سے خبر پا کر بتایا کہ امام مہدی کے خلیفہ کو تمام دنیا دیکھے گی اور سنے گی اور تمام قومیں اپنی اپنی زبان میں اس کا کلام سنیں گی اور مشرق و مغرب میں رہنے والے مومن ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے بزرگوں کے کلام میں سوشل میڈیا کے متعلق بھی پیشگوئیاں موجود ہیں۔ (بحار الانوار جلد 12 صفحہ 405 )

آج ہم وہ خوش نصیب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفت علیم اور علام الغیوب کے مظہر اتم کی ان ساری پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ اس مضمون پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:اللہ تعالیٰ اپنی ہستی کو اپنی صفات سے ہم پر ظاہر فرماتا ہے اور مومن بندوں کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا رنگ پکڑو، میرے رنگ میں رنگین ہو۔ میری صفات اختیار کرو، تبھی تم میرے حقیقی بندے کہلا سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی اعلیٰ ترین مثال کوئی شک نہیں کہ آنحضرتؐ کے علاوہ کسی اور فرد میں نہیں پائی جاسکتی۔ کیونکہ آپؐ ہی اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے ہیں جس کے نور سے ایک دنیا نے فیض پایا، فیض پا رہی ہے اور انشاء اللہ فیض پاتی چلی جائے گی تاکہ اپنے پیدا کرنے والے کی پہچان کر سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرتؐ کی ذات بابرکات کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے۔آپؑ فرماتے ہیں :’’وہ انسان جوسب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا‘‘وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخرالنبیین جناب محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے توُ نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ … اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ ‘‘۔ (اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد 8صفحہ308خطبہ23؍فروری 2007ء )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button